صفحات

جمعرات، 14 مئی، 2020

بابو گوپی ناتھ (منٹو)

بابوگوپی ناتھ سے میری ملاقات سنہ چالیس میں ہوئی۔ اُن دنوں میں بمبئی کا ایک ہفتہ وار پرچہ ایڈِٹ کیا کرتا تھا۔ دفتر میں عبدالرّحیم سینڈو، ایک ناٹے قد کے آدمی کے ساتھ داخل ہوا، میں اُس وقت لیڈر لکھ رہا تھا، سینڈو نے اپنے مخصوص انداز میں بآوازِ بلند مجھے آداب کیا اور اپنے ساتھی سے متعارف کرایا: ’’منٹو صاحب! بابوگوپی ناتھ سے ملیے۔‘‘
میں نے اٹھ کر اُس سے ہاتھ ملایا۔ سینڈو نے حسبِ عادت میری تعریفوں کے  ُپل باندھنے شروع کر دیے: ’’بابوگوپی ناتھ! تم ہندوستان کے نمبر وَن رائٹر سے ہاتھ ملا رہے ہو۔ لکھتا ہے تو دھڑن تختہ ہو جاتا ہے، لوگوں کا۔ ایسی ایسی کنٹی نیوٹلی ملاتا ہے کہ طبیعت صاف ہو جاتی ہے۔ پچھلے دنوں وہ کیا  ُچٹکلا لکھا تھا آپ نے منٹو صاحب: مس خورشید نے کار خریدی، اﷲ بڑا کارساز ہے۔ کیوں بابو گوپی ناتھ، ہے نا اینٹی کی پینٹی پو؟‘‘
عبدالرحیم سینڈو کے باتیں کرنے کا اندازہ بالکل نرالا تھا۔ کنٹی نیوٹلی، دھڑن تختہ اور اینٹی کی پینٹی پو ایسے الفاظ، اُس کی اپنی اختراع تھے جن کو وہ گفتگو میں بے تکلّف استعمال کرتا تھا۔ میرا تعارف کرانے کے بعد وہ بابوگوپی ناتھ کی طرف متوجہ ہوا جو بہت مرعوب نظر آتا تھا۔ ’’آپ ہیں بابو گوپی ناتھ۔ بڑے خانہ خراب۔ لاہور سے جھک مارتے مارتے بمبے تشریف لائے ہیں۔ ساتھ کشمیر کی ایک کبوتری ہے۔‘‘
بابوگوپی ناتھ مسکرایا۔
عبدالرّحیم سینڈو نے تعارف کو ناکافی سمجھ کر کہا: ’’نمبر وَن بیوقوف [کوئی؟] ہو سکتا ہے تو وہ آپ ہیں۔ لوگ اِن کو مسکا لگا کر روپیہ بٹورتے ہیں، میں صرف باتیں کر کے اِن سے ہر روز پولسن بٹر کے دو پیکٹ وصول کرتا ہوں۔ بس منٹو صاحب، یہ سمجھ لیجیے کہ بڑے انٹی فلو جسٹین قسم کے آدمی ہیں۔ آپ آج شام کو اِن کے فلیٹ پر ضرور تشریف لائیے۔‘‘
بابوگوپی ناتھ نے جو خدا معلوم کیا سوچ رہا تھا، چونک کر کہا: ’’ہاں ہاں ضرور تشریف لایئے منٹو صاحب۔‘‘ پھر سینڈو سے پوچھا: ’’کیوں سینڈو، کیا آپ کچھ اُس کا، شغل کرتے ہیں؟‘‘
عبدالرحیم سینڈو نے زور سے قہقہہ لگایا۔ ’’اجی ہر قسم کا شغل کرتے ہیں۔ تو منٹو صاحب! آج شام کو ضرور آئیے گا۔ میں نے بھی پینی شروع کر دی ہے اس لیے کہ مفت ملتی ہے۔‘‘
سینڈو نے مجھے فلیٹ کا پتہ لکھا دیا۔ جہاں میں حسبِ وعدہ شام کو چھ بجے کے قریب پہنچ گیا۔ تین کمرے کا صاف ستھرا فلیٹ تھا جس میں بالکل نیا فرنیچر سجا ہوا تھا۔ سینڈو اور بابو گوپی ناتھ کے علاوہ، بیٹھنے والے کمرے میں دو مرد اور دو عورتیں موجود تھیں جن سے سینڈو نے مجھے متعارف کرایا۔
ایک تھا غفَار سائیں: تہمد پوش، پنجاب کا ٹھیٹ سائیں، گلے میں موٹے موٹے دانوں کی مالا۔ سینڈو نے اُس کے بارے میں کہا: ’’آپ بابوگوپی ناتھ کے لیگل ایڈوائزر ہیں، میرا مطلب سمجھ جائیے آپ۔ ہر آدمی جس کی ناک بہتی ہو، یا جس کے منہ سے لعاب نکلتا ہو، پنجاب میں خدا کو پہنچا ہوا درویش بن جاتا ہے۔ یہ بھی بس پہنچے ہوئے ہیں یا پہنچنے والے ہیں۔ لاہور سے بابوگوپی ناتھ کے ساتھ آئے ہیں کیونکہ اِنہیں وہاں کوئی اور بیوقوف ملنے کی امید نہیں تھی۔ یہاں آپ بابوصاحب سے کریون اے کے سگریٹ اور اِسکاچ وِسکی کے پیگ پی کر، دعا کرتے رہتے ہیں کہ انجام نیک ہو...‘‘
غفار سائیں یہ سن کر مسکراتا رہا۔
دوسرے مرد کا نام تھا غلام علی: لمبا تڑنگا جوان، کسرتی بدن۔ منہ پر چیچک کے داغ؛ اُس کے متعلق سینڈو نے کہا: ’’یہ میرا شاگرد ہے، اپنے استاد کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے، لاہور کی ایک نامی طوائف کی کنواری لڑکی اِس پر عاشق ہو گئی، بڑی بڑی کنٹی نیوٹیاں ملائی گئیں، اِس کو پھانسنے کے لیے مگر اِس نے کہا: ڈو اور ڈائی، میں لنگوٹ کا پکا رہوں گا۔ ایک تکیے میں بات چیت پیتے ہوئے بابوگوپی ناتھ سے ملاقات ہو گئی۔ بس اُس دن سے اِن کے ساتھ چمٹا ہوا ہے، ہر روز کریون اے کا ڈبّا اور کھانا پینا مقرّر ہے۔‘‘
یہ سن کر غلام علی بھی مسکراتا رہا۔
گول چہرے والی ایک سرخ و سفید عورت تھی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں سمجھ گیا تھا کہ یہ وہی کشمیر کی کبوتری ہے جس کے متعلق سینڈو نے دفتر میں ذکر کیا تھا۔ بہت صاف ستھری عورت تھی۔ بال چھوٹے تھے، ایسا لگتا تھا، کٹے ہوئے ہیں مگر درحقیقت ایسا نہیں تھا۔ آنکھیں شفّاف اور چمکیلی تھیں، چہرے کے خطوط سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ بے حد الھڑ اور ناتجربے کار ہے۔ سینڈو نے اُس سے تعارف کراتے ہوئے کہا: ’’زینت بیگم، بابو صاحب پیار سے زینو کہتے ہیں، ایک بڑی خرّانٹ نائکہ کشمیر سے یہ سیب توڑ کر لاہور لے آئی۔ بابوگوپی ناتھ کو اپنی سی آئی ڈی سے پتہ چلا اور ایک رات لے اُڑے۔ مقدمے بازی ہوئی، تقریباً دو مہینے تک پولیس عیش کرتی رہی آخر بابو صاحب نے مقدمہ جیت لیا اور اِسے یہاں لے آئے ...... دھڑن تختہ!‘‘
اب گہرے سانولے رنگ کی عورت باقی رہ گئی تھی جو خاموش بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی، آنکھیں سرخ تھیں جن سے کافی بے حیائی مترشح تھی۔ بابوگوپی ناتھ نے اُس کی طرف اشارہ کیا اور سینڈو سے کہا: ’’اِس کے متعلق بھی کچھ ہو جائے۔‘‘
سینڈو نے اُس عورت کی ران پر ہاتھ مارا اور کہا: ’’جناب یہ ہے، ٹین پٹوٹی،  ِفل  ِفل فوٹی، مسز عبدالرّحیم سینڈو عرف سردار بیگم ...... آپ بھی لاہور کی پیداوار ہیں۔ سن چھتیس میں مجھ سے عشق ہوا، دو برسوں ہی میں میرا دھڑن تختہ کر کے رکھ دیا۔ میں لاہور چھوڑ کر بھاگا۔ بابوگوپی ناتھ نے اِسے یہاں بلوا لیا ہے تاکہ میرا دل لگا رہے۔ اِس کو بھی ایک ڈبّا کریون اے کا راشن میں ملتا ہے۔ ہر روز شام کو ڈھائی روپے کا مورفیا کا انجکشن لیتی ہے، رنگ کالا ہے مگر ویسے بڑی  ِٹٹ فورٹیٹ قسم کی عورت ہے۔‘‘
سردار نے ایک ادا سے صرف اتنا کہا: ’’بکواس نہ کر۔‘‘ اس ادا میں پیشہ ور عورت کی بناوٹ تھی۔
سب سے متعارف کرانے کے بعد سینڈو نے حسبِ عادت میری تعریفوں کے  ُپل باندھنے شروع کر دیے۔ میں نے کہا: ’’چھوڑو یار، آئو کچھ باتیں کریں۔‘‘
سینڈو چلّایا: ’’بوائے! وسکی اینڈ سوڈا ...... بابو گوپی ناتھ! لگائو ہوا، ایک سبزے کو۔‘‘
بابو گوپی ناتھ نے جیب میں ہاتھ ڈال کر سو سو کے نوٹوں کا ایک  ُپلندا نکالا اور ایک نوٹ سینڈو کے حوالے کر دیا۔ سینڈو نے نوٹ لے کر اُس کی طرف غور سے دیکھا اور کھڑکھڑا کر کہا: ’’اوگوڈ ...... او میرے ربّ العالمین ...... وہ دن کب آئے گا جب میں بھی لب لگا کر یوں نوٹ نکالا کروں گا ...... جائو بھئی غلام علی، دو بوتلیں جانی واکر سٹل گوئنگ سٹرانگ [اِسٹِل گوئنگ اِسٹرانگ] کی لے آئو۔‘‘
بوتلیں آئیں تو سب نے پینا شروع کی۔ یہ شغل دو تین گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران میں سب سے زیادہ باتیں حسبِ معمول عبدالرّحیم نے کیں۔ پہلا گلاس ایک ہی سانس میں ختم کر کے وہ چِلّایا: ’’دھڑن تختہ منٹو صاحب، وسکی ہو تو ایسی، حلق سے اتر کر پیٹ میں انقلاب زندہ باد لکھتی چلی گئی ہے ...... جیو، بابوگوپی ناتھ جیو۔‘‘
بابوگوپی ناتھ بے چارہ خاموش رہا۔ کبھی کبھی البتہ وہ سینڈو کی ہاں میں ہاں ملا دیتا تھا۔ میں نے سوچا: اِس شخص کی اپنی رائے کوئی نہیں ہے۔ دوسرا جو بھی کہے مان لیتا ہے۔ ضعیف الاعتقادی کا ثبوت غفار سائیں موجود تھا جسے وہ بقول سینڈو، اپنا لیگل ایڈوائزر بنا کر لایا تھا۔ سینڈو کا اِس سے دراصل یہ مطلب تھا کہ بابوگوپی ناتھ کو اس سے عقیدت تھی۔ یوں بھی مجھے دورانِ گفتگو میں معلوم ہوا کہ لاہور میں اُس کا اکثر وقت فقیروں اور درویشوں کی صحبت میں کٹتا تھا۔ یہ چیز میں نے خاص طور پر نوٹ کی کہ وہ کھویا کھویا سا تھا، جیسے کچھ سوچ رہا تھا۔ میں نے چنانچہ اُس سے ایک بار کہا: ’’بابو گوپی ناتھ! کیا سوچ رہے ہیں آپ؟‘‘
وہ چونک پڑا۔ ’’جی میں ... میں ... کچھ نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور زینت کی طرف ایک عاشقانہ نگاہ ڈالی۔ ’’اِن حسینوں کے متعلق سوچ رہا ہوں ...... اور ہمیں کیا سوچ ہو گی۔‘‘
سینڈو نے کہا: ’’بڑے خانہ خراب ہیں یہ، منٹو صاحب! بڑے خانہ خراب ہیں! ...... لاہور کی کوئی ایسی طوائف نہیں جس کے ساتھ بابو صاحب کی کنٹی نیوٹلی نہ رہ چکی ہو۔‘‘
بابوگوپی ناتھ نے یہ سن کر، بڑے بھونڈے انکسار کے ساتھ کہا: ’’اب کمر میں وہ دم نہیں منٹو صاحب۔‘‘
اس کے بعد واہیات گفتگو شروع ہو گئی: لاہور کی طوائفوں کے سب گھرانے گنے گئے، کون ڈیرے دار تھی؟ کون نٹنی تھی؟ کون کس کی نوچی تھی؟ نتھنی اتارنے کا بابو گوپی ناتھ نے کیا دیا تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ گفتگو سردار، سینڈو، غفّار سائیں اور غلام علی کے درمیان ہوتی رہی، ٹھیٹ لاہور کے کوٹھوں کی زبان میں۔ مطلب تو میں سمجھتا رہا مگر بعض اصطلاحیں سمجھ میں نہ آئیں۔
زینت بالکل خاموش بیٹھی رہی۔ کبھی کبھی کسی بات پر مسکرا دیتی۔ مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اُسے اِس گفتگو سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہلکی وسکی کا ایک گلاس بھی پیا، بغیر کسی دلچسپی کے۔ سگریٹ بھی پیتی تھی تو معلوم ہوتا تھا اُسے تمباکو اور اُس کے دھوئیں سے کوئی رغبت نہیں لیکن لطف یہ ہے کہ سب سے زیادہ سگریٹ اُسی نے پیے۔ بابو گوپی ناتھ سے اُسے محبت تھی؟ اِس کا پتہ مجھے کسی بات سے نہ ملا۔ اِتنا البتہ ظاہر تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اُس کا کافی خیال تھا کیونکہ زینت کی آسائش کے لیے ہر سامان مہیا تھا۔ لیکن ایک بات مجھے محسوس ہوئی کہ ان دونوں میں کچھ عجیب سا کھنچائو تھا۔ میرا مطلب ہے وہ دونوں، ایک دوسرے کے قریب ہونے کے بجائے کچھ ہٹے ہوئے سے معلوم ہوتے تھے۔ 
آٹھ بجے کے قریب سردار، ڈاکٹر مجید کے ہاں چلی گئی کیونکہ اُسے مورفیا کا انجکشن لینا تھا۔ غفّار سائیں تین پیگ پینے کے بعد اپنی تسبیح اٹھا کر قالین پر سو گیا۔ غلام علی کو ہوٹل سے کھانا لینے کے لیے بھیج دیا گیا۔ سینڈو نے اپنی دلچسپ بکواس جب کچھ عرصے کے لیے بند کی تو بابوگوپی ناتھ نے، جو اَب نشے میں تھا، زینت کی طرف وہی عاشقانہ نگاہ ڈال کر کہا: ’’منٹو صاحب! میری زینت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
میں نے سوچا: کیا کہوں؟ زینت کی طرف دیکھا تو وہ جھینپ گئی۔ میں نے ایسے ہی کہہ دیا: ’’بڑا نیک خیال ہے۔‘‘
بابوگوپی ناتھ خوش ہو گیا۔ ’’منٹو صاحب! ہے بھی بڑی نیک لوگ۔ خدا کی قسم، نہ زیور کا شوق ہے نہ کسی اور چیز کا۔ میں نے کئی بار کہا: جانِ من مکان بنوا دوں؟ جواب کیا دیا، معلوم ہے آپ کو؟......کیا کروں گی مکان لے کر، میرا کون ہے ...... منٹو صاحب! موٹر کتنے میں آجائے گی؟‘‘
میں نے کہا: ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘
بابوگوپی ناتھ نے تعجب سے کہا: ’’کیا بات کرتے ہیں آپ منٹو صاحب ...... آپ کو اور کاروں کی قیمت معلوم نہ ہو! کل چلیے میرے ساتھ، زینو کے لیے ایک موٹر لیں گے۔ میں نے اب دیکھا ہے کہ بمبے میں موٹر ہونی ہی چاہیے۔‘‘ زینت کا چہرہ ردِعمل سے خالی رہا۔
بابوگوپی ناتھ کا نشہ تھوڑی دیر کے بعد بہت تیز ہو گیا۔ ہمہ تن جذبات ہو کر اُس نے مجھ سے کہا: ’’منٹوصاحب آپ بڑے لائق آدمی ہیں، میں تو بالکل گدھا ہوں ...... لیکن آپ مجھے بتائیے، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ کل باتوں باتوں میں سینڈو نے آپ کا ذکر کیا۔ میں نے اُسی وقت ٹیکسی منگوائی اور اِس سے کہا: مجھے لے چلو منٹو صاحب کے پاس۔ مجھ سے کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو معاف کر دیجیے گا ...... بہت گنہگار آدمی ہوں ...... وِسکی منگائوں آپ کے لیے اور؟‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں نہیں ...... بہت پی چکے ہیں۔‘‘
وہ اور زیادہ جذباتی ہو گیا۔ ’’اور پیجیے منٹو صاحب۔‘‘ یہ کہہ کر جیب سے سو سو کے نوٹوں کا پُلندا نکالا اور ایک نوٹ  ُجدا کرنے لگا۔ لیکن میں نے سب نوٹ اُس کے ہاتھ سے لیے اور واپس اس کی جیب میں ٹھونس دیے۔ [میں نے اُس سے پوچھا:] ’’سو روپے کا ایک نوٹ آپ نے غلام علی کو دیا تھا، اُس کا کیا ہوا؟‘‘
مجھے دراصل کچھ ہمدردی سی ہو گئی تھی بابوگوپی ناتھ سے۔ کتنے آدمی اس غریب کے ساتھ جونک کی طرح چمٹے ہوئے تھے۔ میرا خیال تھا: بابوگوپی ناتھ بالکل گدھا ہے۔ لیکن وہ میرا اشارہ سمجھ گیا اور مسکرا کر کہنے لگا: ’’منٹو صاحب! اُس نوٹ میں سے جو کچھ باقی بچا [بچا ہو گا؟] وہ یا تو غلام علی کی جیب سے گر پڑے گا، یا۔۔۔۔‘‘
بابو گوپی ناتھ نے پورا جملہ بھی ادا نہیں [ادا بھی نہیں؟] کیا تھا کہ غلام علی نے کمرے میں داخل ہو کر بڑے دُکھ کے ساتھ یہ اطلاع دی کہ ہوٹل میں کسی حرام زادے نے اُس کی جیب سے سارے روپے نکال لیے۔ بابو گوپی ناتھ میری طرف دیکھ کر مسکرایا۔ پھر سو روپے کا ایک نوٹ جیب سے نکالا اور غلام علی کو دے کر کہا: ’’جلدی کھانا لے آئو۔‘‘
پانچ چھ ملاقاتوں کے بعد مجھے بابوگوپی ناتھ کی صحیح شخصیت کا علم ہوا۔ پوری طرح تو خیر انسان کسی کو بھی نہیں جان سکتا لیکن مجھے اُس کے بہت سے حالات معلوم ہوئے جو بے حد دلچسپ تھے۔
پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ خیال کہ وہ پرلے درجے کا چغد ہے، غلط ثابت ہوا۔ اُس کا اس امر کا پورا احساس تھا کہ سینڈو، غلام علی اور سردار وغیرہ جو اس کے مصاحب بنے ہوئے تھے، مطلبی انسان ہیں۔ وہ ان سے جھڑکیاں، گالیاں سب سنتا تھا لیکن غصے کا اظہار نہیں کرتا تھا۔ اُس نے مجھ سے کہا: ’’منٹو صاحب! میں نے آج تک کسی کا مشورہ رد نہیں کیا۔ جب بھی کوئی مجھے رائے دیتا ہے، میں کہتا ہوں: سبحان اﷲ۔ وہ مجھے بیوقوف سمجھتے ہیں لیکن میں اُنہیں عقل مند سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ اُن میں کم از کم اتنی عقل تو تھی جو مجھ میں ایسی بیوقوفی کو شناخت کر لیا جن سے [جس سے؟] ان کا اُلّو سیدھا ہو سکتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں شروع سے فقیروں اور کنجروں کی صحبت میں رہا ہوں، مجھے اُن سے کچھ محبت سی ہو گئی ہے، میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں نے سوچ رکھا ہے جب میری دولت بالکل ختم ہو جائے گی تو کسی تکیے میں جا بیٹھوں گا۔ رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار، بس یہ دو جگہیں ہیں جہاں میرے دل کو سکون ملتا ہے۔ رنڈی کا کوٹھا تو چھوٹ جائے گا، اس لیے کہ جیب خالی ہونے والی ہے لیکن ہندوستان میں ہزاروں پیر ہیں، کسی ایک کے مزار پر چلا جائوں گا۔‘‘
میں نے اُس سے پوچھا: ’’رنڈی کے کوٹھے اور تکیے آپ کو کیوں پسند ہیں؟‘‘
کچھ دیر سوچ کر اُس نے جواب دیا: ’’اس لیے کہ اِن دونوں جگہوں پر فرش سے لے کر چھت تک دھوکا ہی دھوکا ہوتا ہے۔ جو آدمی خود کو دھوکا دینا چاہے اُس کے لیے اِن سے اچھّا مقام اور کیا ہوسکتا ہے۔‘‘
میں نے ایک اور سوال کیا: ’’آپ کو طوائفوں کا گانا سننے کا شوق ہے، کیا آپ موسیقی کی سمجھ رکھتے ہیں؟‘‘
اُس نے جواب دیا: ’’بالکل نہیں، اور یہ اچھّا ہے کیونکہ میں کن سُری سے کن سُری طوائف کے ہاں جا کر بھی اپنا سر ہلا سکتا ہوں ...... منٹو صاحب، مجھے گانے سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن جیب میں سے دس یا سو روپے کا نوٹ نکال کر گانے والی کو دکھانے میں بہت مزا آتا ہے۔ نوٹ نکالا اور اُس کو دکھایا، وہ اُسے لینے کے لیے ایک ادا سے اُٹھی، پاس آئی تو نوٹ  ُجراب میں اُڑس لیا؛ اُس نے جھک کر اُسے باہر نکالا تو ہم خوش ہو گئے۔ ایسی بہت فضول فضول سی باتیں ہیں جو ہم ایسے تماش بینوں کو پسند ہیں۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ رنڈی کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کراتے ہیں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپنے خدا سے۔‘‘
بابوگوپی ناتھ کا شجرئہ نسب تو میں نہیں جانتا لیکن اتنا معلوم ہوا کہ وہ ایک بہت بڑے کنجوس بنیے کا بیٹا ہے۔ باپ کے مرنے پر اُسے دس لاکھ روپے کی جائیداد ملی جو اُس نے اپنی خواہش کے مطابق اڑانا شروع کر دی۔ بمبئی آتے وقت وہ اپنے ساتھ پچاس ہزار روپے لایا تھا۔ اُس زمانے میں سب چیزیں سستی تھیں لیکن پھر بھی ہر روز تقریباً سو سوا روپے خرچ ہو جاتے تھے۔ 
زینو کے لیے اُس نے فِیئٹ موٹر خریدی۔ یاد نہیں رہا لیکن شاید تین ہزار روپے میں آئی تھی۔ ایک ڈرائیور رکھا لیکن وہ بھی لفنگے ٹائپ کا، بابوگوپی ناتھ کو کچھ ایسے ہی آدمی پسند تھے۔ 
ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ گیا۔ بابوگوپی ناتھ سے، مجھے تو صرف دلچسپی تھی لیکن اُسے مجھ سے کچھ عقیدت ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی بہ نسبت میرا بہت زیادہ احترام کرتا تھا۔ 
ایک روز شام کے قریب جب میں فلیٹ پر گیا تو مجھے وہاں شفیق کو دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی۔ محمد شفیق طوسی کہوں تو شاید آپ سمجھ لیں کہ میری مراد کس آدمی [شخص؟] سے ہے۔ یوں تو شفیق کافی مشہور آدمی ہے، کچھ اپنی جدّت طراز گائکی کے باعث اور کچھ اپنی بذلہ سنج طبیعت کی بدولت، لیکن اُس کی زندگی کا ایک حصہ اکثریت سے پوشیدہ ہے۔ بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ تین سگی بہنوں کو یکے بعد دیگرے، تین تین چار چار سال کے وقفے کے بعد داشتہ بنانے سے پہلے، اُس کا تعلق اُن کی ماں سے بھی تھا۔ یہ بہت کم مشہور ہے کہ اُس کو اپنی پہلی بیوی جو تھوڑے ہی عرصے میں مر گئی تھی، اس لیے پسند نہیں تھی کہ اُس میں طوائفوں کے غمزے اور عشوے نہیں تھے لیکن یہ تو خیر ہر آدمی جو شفیق طوسی سے تھوڑی بہت واقفیت بھی رکھتا ہے، جانتا ہے کہ چالیس برس (یہ اُس زمانے کی عمر ہے) کی عمر میں سیکڑوں طوائفوں نے اُسے رکھا، اچھّے سے اچھّا کپڑا پہنا، عمدہ سے عمدہ کھانا کھایا، نفیس سے نفیس موٹر رکھی، مگر اُس نے اپنی گرہ سے کسی طوائف پر ایک دمڑی بھی خرچ نہ کی۔
عورتوں کے لیے، خاص طور پر جو کہ پیشہ ور ہوں، اُس کی بذلہ سنج طبیعت جس میں میراثیوں کے مزاح کی جھلک تھی، بہت ہی جاذبِ نظر تھی۔ وہ کوشش کے بغیر اُن کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔
میں نے جب اُسے زینت سے ہنس ہنس کر باتیں کرتے دیکھا تو مجھے اِس لیے حیرت نہ ہوئی کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ میں نے صرف یہ سوچا کہ وہ دفعتاً یہاں پہنچا کیسے۔ ایک سینڈو اُسے جانتا تھا، مگر اُن کی بول چال تو ایک عرصے سے بند تھی لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ سینڈو ہی اُسے لایا تھا۔ اُن دونوں میں صلح صفائی ہو گئی تھی۔
بابو گوپی ناتھ ایک طرف بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ میں نے شاید اِس سے پہلے ذکر نہیں کیا، وہ سگریٹ بالکل نہیں پیتا تھا۔ محمد شفیق طوسی میراثیوں کے لطیفے سنا رہا تھا جس میں زینت کسی قدر کم اور سردار بہت زیادہ دلچسپی لے رہی تھی۔ شفیق نے مجھے دیکھا اور کہا: ’’او بسم اﷲ، بسم اﷲ۔ کیا آپ کا گزر بھی اِس وادی میں ہوتا ہے؟‘‘
سینڈو نے کہا: ’’تشریف لے آئیے عزرائیل صاحب یہاں دھڑن تختہ۔‘‘ میں اُس کا مطلب سمجھ گیا۔
تھوڑی دیر گپ بازی ہوتی رہی۔ میں نے نوٹ کیا کہ زینت اور محمد شفیق طوسی کی نگاہیں آپس میں ٹکرا کر کچھ اور بھی کہہ رہی ہیں۔ زینت اِس فن میں بالکل کوری تھی لیکن شفیق کی مہارت، زینت کی خامیوں کو چھپاتی رہی۔ سردار دونوں کی نگاہ بازی کو کچھ اُس انداز سے دیکھ رہی تھی جیسے خلیفے، اکھاڑے کے باہر بیٹھ کر، اپنے پٹھوئوں [؟ پٹھوں] کے دائوپیچ کو دیکھتے ہیں۔
اس دوران میں  َمیں بھی زینت سے کافی بے تکلّف ہو گیا تھا۔ وہ مجھے بھائی کہتی تھی جس پر مجھے اعتراض نہیں تھا۔ اچھّی ملنسار طبیعت کی عورت تھی۔ کم گو، سادہ لوح، صاف ستھری۔
شفیق سے مجھے اُس کی نگاہ بازی پسند نہیں آئی تھی۔ اوّل تو اُس میں بھونڈاپن تھا، اس کے علاوہ ...... کچھ یوں کہیے کہ اِس بات کا بھی اُس میں دخل تھا کہ وہ مجھے بھائی کہتی تھی۔ شفیق اور سینڈو اٹھ کر باہر گئے تو میں نے، شاید بڑی رحمی کے ساتھ، اُس سے نگاہ بازی کے متعلق استفسار کیا کیونکہ فوراً اُس کی آنکھوں میں یہ موٹے موٹے آنسو آ گئے اور روتی روتی وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ بابو گوپی ناتھ جو ایک کونے میں بیٹھا حقّہ پی رہا تھا، اُٹھ کر تیزی سے اُس کے پیچھے چلا گیا۔ سردار نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اُس سے کچھ کہا۔ لیکن میں مطلب نہ سمجھا۔ تھوڑی دیر کے بعد بابوگوپی ناتھ کمرے سے باہر نکلا اور ’’آئیے منٹو صاحب‘‘ کہہ کر مجھے اپنے ساتھ اندر لے گیا۔
زینت پلنگ پر بیٹھی تھی۔ میں اندر داخل ہوا تو وہ دونوں ہاتھوں سے منہ ڈھانپ کر لیٹ گئی۔ میں اور بابو گوپی ناتھ دونوں پلنگ کے پاس کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ بابو گوپی ناتھ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہنا شروع کیا: ’’منٹو صاحب! مجھے اس عورت سے بہت محبت ہے۔ دو برس سے یہ میرے پاس ہے۔ میں حضرت غوثِ اعظم جیلانی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس نے مجھے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ اس کی دوسری بہنیں، میرا مطلب ہے اِس پیشے کی دوسری عورتیں، دونوں ہاتھوں سے مجھے لُوٹ کر کھاتی رہیں مگر اس نے کبھی ایک زائد پیسہ مجھ سے نہیں لیا۔ میں اگر کسی دوسری عورت کے ہاں ہفتوں پڑا رہا تو اس غریب نے اپنا کوئی زیور گروی رکھ کر گزارا کیا۔ میں جیسا کہ آپ سے ایک دفعہ کہہ چکا ہوں، بہت جلد اِس دنیا سے کنارہ کش ہونے والا ہوں۔ میری دولت اب کچھ دن کی مہمان ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ اِس کی زندگی خراب ہو۔ میں نے لاہور میں اِس کو بہت سمجھایا کہ تم دوسری طوائفوں کی طرف دیکھو، جو کچھ وہ کرتی ہیں، سیکھو۔ میں آج دولت مند ہوں، کل مجھے بھکاری ہونا ہی ہے۔ تم لوگوں کی زندگی میں صرف ایک دولت مند کافی نہیں۔ میرے بعد تم کسی اور کو نہیں پھانسو گی تو کام نہیں چلے گا۔ لیکن منٹو صاحب، اِس نے میری ایک نہ سنی، سارا دن شریف زادیوں کی طرح گھر میں بیٹھی رہتی۔ میں نے غفّار سائیں سے مشورہ کیا۔ اُس نے کہا: بمبئی لے جائو اِسے۔ مجھے معلوم تھا کہ اُس نے ایسا کیوں کہا، بمبئی میں اس کی دو جاننے والی طوائفیں ایکٹرسیں بنی ہوئی ہیں۔ لیکن میں نے سوچا [؟ میں نے سوچا]: بمبئی ٹھیک ہے۔ دو مہینے ہو گئے ہیں اِسے یہاں لائے ہوئے، سردار کو لاہور سے  ُبلایا ہے کہ اس کو سب گُر سکھائے، غفّار سائیں سے بھی یہ بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ یہاں مجھے کوئی نہیں جانتا، اِس کو یہ خیال تھا کہ بابو تمہاری بے عزّتی ہو گی۔ میں نے کہا: تم چھوڑو اِس کو۔ بمبئی بہت بڑا شہر ہے، لاکھوں رئیس ہیں، میں نے تمہیں موٹر لے دی ہے، کوئی اچھا آدمی تلاش کر لو ...... منٹو صاحب، میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، میری دلی خواہش ہے کہ یہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے، اچھّی طرح ہوشیار ہو جائے۔ میں اِس کے نام آج ہی بینک میں دس ہزار روپیہ جمع کرانے کو تیار ہوں۔ مگر مجھے معلوم ہے: دس دن کے اندر اندر یہ باہر بیٹھی ہوئی سردار، اُس کی ایک ایک پائی اپنی جیب میں ڈال لے گی ...... آپ بھی اِسے سمجھایے کہ چالاک بننے کی کوشش کرے۔ جب سے موٹر خریدی ہے، سردار اِسے ہر روز شام کو اپولو بندر لے جاتی ہے لیکن ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی۔ سینڈو آج بڑی مشکلوں سے محمد شفیق کو یہاں لایا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے، اُس کے متعلق؟‘‘
میں نے اپنا خیال ظاہر کرنا مناسب خیال نہ کیا لیکن بابوگوپی ناتھ نے خود ہی کہا: ’’اچھا کھاتا پیتا آدمی معلوم ہوتا ہے اور خوبصورت بھی ہے ...... کیوں زینو جانی ...... پسند ہے تمہیں؟‘‘
زینو خاموش رہی۔
بابوگوپی ناتھ سے جب مجھے زینت کو بمبئی لانے کی غرض و غایت معلوم ہوئی تو میرا دماغ چکرا گیا۔ مجھے یقین نہ آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے لیکن بعد میں مشاہدے نے میری حیرت دور کر دی۔ بابو گوپی ناتھ کی دلی آرزو تھی کہ زینت بمبئی میں کسی اچھّے مالدار آدمی کی داشتہ بن جائے یا ایسے طریقے سیکھ جائے جس سے [؟جن سے] وہ مختلف آدمیوں سے روپیہ وصول کرتے رہنے میں کامیاب ہو سکے۔
زینت سے اگر صرف چھٹکارا ہی حاصل کرنا ہوتا تو یہ کوئی اتنی مشکل چیز نہیں تھی۔ بابوگوپی ناتھ ایک ہی دن میں یہ کام کر سکتا تھا۔ چونکہ اُس کی نیت نیک تھی اس لیے اُس نے زینت کے مستقبل کے لیے ہر ممکن کوشش کی: اُس کو ایکٹریس بنانے کے لیے اُس نے کئی جعلی ڈائریکٹروں کی دعوتیں کیں، گھر میں ٹیلیفون لگوا دیا لیکن اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھا۔
محمد شفیق طوسی تقریباً ڈیڑھ مہینہ آتا رہا۔ کئی راتیں بھی اُس نے زینت کے ساتھ بسر کیں لیکن وہ ایسا آدمی نہیں تھا جو کسی عورت کا سہارا بن سکے۔ بابوگوپی ناتھ نے ایک روز افسوس اور رنج کے ساتھ کہا: ’’شفیق صاحب تو خالی خولی جنٹلمین ہی نکلے، ٹھسا دیکھیے لیکن بے چاری زینت سے چار چادریں، چھ تکیے کے غلاف اور دو سو روپے نقد ہتھیا کر لے گئے۔ سنا ہے آج کل ایک لڑکی الماس سے عشق لڑا رہے ہیں۔‘‘
یہ درست تھا۔ الماس، نذیر جان پٹیالے والی کی سب سے چھوٹی اور آخری لڑکی تھی۔ اُس سے پہلے تین بہنیں شفیق کی داشتہ رہ چکی تھیں۔ دو سو روپے جو اُس نے زینت سے لیے تھے، مجھے معلوم ہے الماس پر خرچ ہوئے تھے۔ بہنوں کے ساتھ لڑجھگڑ کر الماس نے زہر کھا لیا تھا۔
محمد شفیق طوسی نے جب آناجانا بند کر دیا تو زینت نے کئی بار مجھے ٹیلیفون کیا اور کہا: ’’اُسے ڈھونڈ کر میرے پاس لائیے۔‘‘ میں نے اُسے تلاش کیا لیکن کسی کو اس کا پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے۔ ایک روز اتفاقیہ، ریڈیو اسٹیشن پر ملاقات ہوئی، سخت پریشانی کے عالم میں تھا، جب میں نے اُس سے کہا کہ تمہیں زینت بلاتی ہے تو اس نے جواب دیا: ’’مجھے یہ پیغام اور ذریعوں سے بھی مل چکا ہے۔ افسوس ہے آج کل مجھے بالکل فرصت نہیں۔ زینت بہت اچھی عورت ہے لیکن افسوس ہے کہ بے حد شریف ہے ...... ایسی عورتوں سے جو بیویوں جیسی لگیں، مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘
شفیق سے جب مایوسی ہوئی تو زینت نے سردار کے ساتھ پھر اپولوبندر جانا شروع کیا۔ پندرہ دنوں میں، بڑی مشکلوں سے، کئی گیلن پیٹرول پھونکنے کے بعد، سردار نے دو آدمی پھانسے۔ اُن سے زینت کو چار سو روپے ملے۔ بابوگوپی ناتھ نے سمجھا کہ حالات امید افزا ہیں کیونکہ ان میں سے ایک نے جو ریشمی کپڑوں کی مل کا مالک تھا، زینت سے کہا تھا کہ میں تم سے شادی کروں گا۔ ایک مہینہ گزر گیا لیکن یہ آدمی پھر زینت کے پاس نہ آیا۔
ایک روز میں، جانے کس کام سے، ہارنبی روڈ پر جا رہا تھا کہ مجھے فٹ پاتھ کے پاس زینت کی موٹر کھڑی نظر آئی۔ پچھلی نشست پر محمد یاسین بیٹھا تھا، نگینہ ہوٹل کا مالک۔ میں نے اُس سے پوچھا: ’’یہ موٹر تم نے کہاں سے لی؟‘‘
یاسین مسکرایا: ’’تم جانتے ہو موٹر والی کو؟‘‘
میں نے کہا: ’’جانتا ہوں۔‘‘
’’تو بس سمجھ لو میرے پاس کیسے آئی ...... اچھی لڑکی ہے یار۔‘‘ یاسین نے مجھے آنکھ ماری۔ میں مسکرا دیا۔
اس کے چوتھے روز بابو گوپی ناتھ ٹیکسی پر میرے دفتر میں آیا۔ اُس سے مجھے معلوم ہوا کہ زینت سے یاسین کی ملاقات کیسے ہوئی: ایک شام اپولوبندر سے ایک آدمی لے کر، سردار اور زینت نگینہ ہوٹل گئیں، وہ آدمی تو کسی بات پر جھگڑ کر چلا گیا لیکن ہوٹل کے مالک سے زینت کی دوستی ہو گئی۔
بابوگوپی ناتھ مطمئن تھا کیونکہ دس پندرہ روز کی دوستی کے دوران میں، یاسین نے زینت کو چھ بہت ہی عمدہ اور قیمتی ساڑیاں لے دی تھیں۔ بابوگوپی ناتھ اب یہ سوچ رہا تھا کچھ دن اور گزر جائیں، زینت اور یاسین کی دوستی اور مضبوط ہو جائے تو لاہور واپس چلا جائے ...... مگر ایسا نہ ہوا۔
نگینہ ہوٹل میں ایک کرسچین عورت نے کمرہ کرائے پر لیا۔ اُس کی جوان لڑکی میوریل سے یاسین کی آنکھ لڑ گئی چنانچہ زینت بے چاری ہوٹل میں بیٹھی رہتی اور یاسین اُس کی موٹر میں صبح شام اُس لڑکی کو گھماتا رہتا۔ بابوگوپی ناتھ کو اس کا علم ہونے پر دُکھ ہوا۔ اُس نے مجھ سے کہا: ’’منٹو صاحب! یہ کیسے لوگ ہیں؛ بھئی دل اُچاٹ ہو گیا ہے تو صاف کہہ دو۔ لیکن زینت بھی عجیب ہے۔ اچھی طرح معلوم ہے کیا ہو رہا ہے مگر منہ سے اتنا بھی نہیں کہتی: میاں اگر تم نے اس کرسٹان چھوکری سے عشق لڑانا ہے تو اپنی موٹر کا بندوبست کرو، میری موٹر کیوں استعمال کرتے ہو ...... میں کیا کروں منٹو صاحب؟ بڑی شریف اور نیک بخت عورت ہے ...... کچھ سمجھ میں نہیں آتا ...... تھوڑی سی چالاک تو بننا چاہیے!‘‘
یاسین سے تعلّق قطع ہونے پر زینت نے کوئی صدمہ محسوس نہ کیا۔
بہت دنوں تک کوئی نئی بات وقوع پذیر نہ ہوئی۔ ایک دن ٹیلیفون کیا تو معلوم ہوا: بابوگوپی ناتھ: غلام علی اور غفّار سائیں کے ساتھ لاہور چلا گیا ہے، روپے کا بندوبست کرنے، کیونکہ پچاس ہزار ختم ہو چکے تھے۔ جاتے وقت وہ زینت سے کہہ گیا تھا کہ اُسے لاہور میں زیادہ دن لگیں گے کیونکہ اسے چند مکان فروخت کرنے پڑیں گے۔
سردار کو مورفیا کے ٹیکوں کی ضرورت تھی، سینڈو کو پولسن مکھن کی۔ چنانچہ دونوں نے متحّد کوشش کی اور ہر روز دو تین آدمی پھانس کر لے آتے۔ زینت سے کہا گیا کہ بابوگوپی ناتھ واپس نہیں آئے گا اس لیے اُسے اپنی فکر کرنی چاہیے۔ سو سوا روپے روز کے ہو جاتے جن میں سے آدھے زینت کو ملتے، باقی سینڈو اور سردار دبا لیتے۔
میں نے ایک دن زینت سے کہا: ’’یہ تم کیا کر رہی ہو؟‘‘
اُس نے بڑے الھڑپن سے کہا: ’’مجھے کچھ معلوم نہیں ہے بھائی جان، یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں، مان لیتی ہوں۔‘‘
جی چاہا تھا کہ بہت دیر پاس بیٹھ کر سمجھائوں کہ جو کچھ تم کر رہی ہو ٹھیک نہیں۔ سینڈو اور سردار اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لیے تمہیں بیچ بھی ڈالیں گے، مگر میں نے کچھ نہ کہا۔ زینت اُکتا دینے والی حد تک بے سمجھ، بے امنگ اور بے جان عورت تھی۔ اُس کم بخت کو اپنی زندگی کی قدروقیمت ہی معلوم نہیں تھی۔ جسم بیچتی، مگر اُس میں بیچنے والوں کا [بیچنے والیوں کا؟] کوئی انداز تو ہوتا۔ واﷲ، مجھے بہت کوفت ہوتی تھی اُسے دیکھ کر۔ سگریٹ سے، شراب سے، کھانے سے، گھر سے، ٹیلیفون سے حتیٰ کہ اُس صوفے سے بھی، جس پر وہ اکثر لیٹی رہتی تھی، اُسے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ 
بابوگوپی ناتھ پورے ایک مہینے کے بعد لوٹا۔ ماہم گیا تو وہاں فلیٹ میں کوئی اور ہی تھا۔ سینڈو اور سردار کے مشورے سے، زینت نے باندرہ میں ایک بنگلے کا بالائی حصہ کرائے پر لے لیا تھا۔ بابوگوپی ناتھ میرے پاس آیا تو میں نے اُسے پورا پتہ بتا دیا۔ اس نے مجھ سے زینت کے متعلق پوچھا، جو کچھ مجھے معلوم تھا میں نے کہہ دیا لیکن یہ نہ کہا کہ سینڈو اور سردار اُس سے پیشہ کرا رہے ہیں۔
بابو گوپی ناتھ اب کی دس ہزار روپیہ اپنے ساتھ لایا تھا جو اس نے بڑی مشکلوں سے حاصل کیا تھا۔ غلام علی اور غفّار سائیں کو وہ لاہور ہی چھوڑ آیا تھا۔ ٹیکسی نیچے کھڑی تھی۔ بابوگوپی ناتھ نے اصرار کیا کہ میں ابھی اس کے ساتھ چلوں۔
قریباً ایک گھنٹے میں ہم باندرہ پہنچ گئے۔ پالی ہل پر ٹیکسی چڑھ رہی تھی کہ سامنے تنگ سڑک پر سینڈو دکھائی دیا۔ بابوگوپی ناتھ نے زور سے پکارا: ’’سینڈو!‘‘
سینڈو نے جب بابوگوپی ناتھ کو دیکھا تو اُس کے منہ سے صرف اتنا نکلا: ’’دھڑن تختہ!‘‘
بابو گوپی ناتھ نے اُس سے کہا: ’’آئو ٹیکسی میں بیٹھ جائو اور ساتھ چلو۔‘‘ لیکن سینڈو نے کہا: ’’ٹیکسی ایک طرف کھڑی کیجیے، مجھے آپ سے کچھ پرائیویٹ باتیں کرنی ہیں۔‘‘
ٹیکسی ایک طرف کھڑی کی گئی۔ بابو گوپی ناتھ باہر نکلا تو سینڈو اُسے کچھ دور لے گیا۔ دیر تک اُن میں باتیں ہوتی رہیں۔ جب ختم ہوئیں تو بابوگوپی ناتھ اکیلا ٹیکسی کی طرف آیا۔ ڈرائیور سے اس نے کہا: ’’واپس لے چلو۔‘‘
بابو گوپی ناتھ خوش تھا۔ ہم دادر کے پاس پہنچے تو اس نے کہا: ’’منٹو صاحب، زینو کی شادی ہونے والی ہے۔‘‘
میں نے حیرت سے کہا ’’کس سے؟‘‘
بابوگوپی ناتھ نے جواب دیا: ’’حیدرآباد سندھ کا ایک دولت مند زمیندار ہے، خدا کرے وہ خوش رہیں۔ یہ بھی اچھّا  ُہوا جو میں عین وقت پر آن پہنچا جو روپے میرے پاس ہیں اُن سے زینو کا جہیز بن جائے گا ...... کیوں کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘
میرے دماغ میں اُس وقت کوئی خیال نہ تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ حیدرآباد سندھ کا دولتمند زمیندار کون ہے؟ سینڈو اور سردار کی کوئی جعل سازی تو نہیں؟ لیکن بعد میں اس کی تصدیق ہو گئی کہ وہ حقیقتاً حیدرآباد کا متموّل زمیندار ہے جو حیدرآباد سندھ ہی کے ایک میوزک ٹیچر کی معرفت زینت سے متعارف ہوا۔ یہ میوزک ٹیچر، زینت کو گانا سکھانے کی بے سود کوشش کیا کرتا تھا۔ ایک روز وہ اپنے مُربّی غلام حسین (یہ اُس حیدرآباد سندھ کے رئیس کا نام تھا) کو ساتھ لے کر آیا۔ زینت نے خوب خاطر مدارات کی۔ غلام حسین کی پُرزور فرمائش پر اس نے غالبؔ کی غزل: نکتہ چیں ہے غم دل اُس کو سنائے نہ بنے ...... گا کر سنائی۔ غلام حسین سو جان سے اُس پر فریفتہ ہو گیا۔ اس کا ذکر میوزک ٹیچر نے زینت سے کیا۔ سردار اور سینڈو نے مل کر معاملہ پکّا کر دیا اور شادی طے ہو گئی۔
بابو گوپی ناتھ خوش تھا۔ ایک دفعہ سینڈو کے دوست کی حیثیت سے وہ زینت کے ہاں گیا۔ غلام حسین سے اُس کی ملاقات ہوئی۔ اُس سے مل کر بابوگوپی ناتھ کی خوشی دوگنی ہو گئی۔ مجھ سے اُس نے کہا: ’’منٹو صاحب! خوبصورت، نوجوان اور بڑا لائق آدمی ہے۔ میں نے یہاں آتے ہوئے، داتا گنج بخش کے حضور جا کر، دعا مانگی تھی جو قبول ہوئی۔ بھگوان کرے دونوں خوش رہیں۔‘‘
بابوگوپی ناتھ نے بڑے خلوص اور بڑی توجہ سے زینت کی شادی کا انتظام کیا۔ دو ہزار کے زیور اور دو ہزار کے کپڑے بنوا دیے اور پانچ ہزار نقد دیے۔ محمد شفیق طوسی، محمد یاسین پروپرائٹر نگینہ ہوٹل، سینڈو، میوزک ٹیچر، میں اور گوپی ناتھ شامل میں تھے۔ دُلہن کی طرف سے سینڈو وکیل تھے۔
ایجاب و قبول ہوا تو سینڈو نے آہستہ سے کہا: ’’دھڑن تختہ!‘‘
غلام حسین سرج کا نیلا سوٹ پہنے تھا۔ سب نے اُس کو مبارک باد دی جو اُس نے خندہ پیشانی سے قبول کی۔ کافی وجیہ آدمی تھا، بابوگوپی ناتھ اُس کے مقابلے میں چھوٹی سی بٹیر معلوم ہوتا تھا۔
شادی کی دعوتوں پر خوردونوش کا جو سامان بھی ہوتا ہے، بابوگوپی ناتھ نے مہیا کیا تھا۔ دعوت سے جب لوگ فارغ ہوئے تو بابوگوپی ناتھ نے سب کے ہاتھ دھلوائے۔ میں جب ہاتھ دھونے کے لیے آیا [ہاتھ دھونے پہنچا؟] تو اُس نے مجھ سے بچوں کے انداز سے کہا: ’’منٹو صاحب! ذرا اندر جائیے اور دیکھیے، زینو دلہن کے لباس میں کیسی لگتی ہے۔‘‘
میں پردہ ہٹا کر اندر داخل ہوا۔ زینت سُرخ زربفت کا شلوار  ُکرتا پہنے تھی ...... دوپٹّا بھی اُسی رنگ کا تھا جس پر گوٹ لگی تھی۔ چہرے پر ہلکا ہلکا میک اپ تھا۔ حالانکہ مجھے ہونٹوں پر لپ اِسٹک کی سرخی بہت بُری معلوم ہوتی ہے مگر زینت کے ہونٹ سجے ہوئے تھے۔ اُس نے شرما کر مجھے آداب کیا تو بہت پیاری لگی۔ لیکن جب میں نے دوسرے کونے میں ایک مسہری دیکھی، جس پر پھول ہی پھول تھے، تو مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ میں نے زینت سے کہا: ’’یہ کیا مسخرہ پن ہے؟‘‘
زینت نے میری طرف بالکل معصوم کبوتری کی طرح دیکھا۔ ’’آپ مذاق کرتے ہیں بھائی جان۔‘‘ اُس نے یہ کہا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ 
مجھے ابھی غلطی کا احساس بھی نہ ہوا تھا کہ بابوگوپی ناتھ اندر داخل ہوا۔ بڑے پیار کے ساتھ اُس نے اپنے رومال سے زینت کے آنسو پونچھے اور بڑے دکھ کے ساتھ مجھ سے کہا: ’’منٹو صاحب! میں سمجھا تھا کہ آپ بڑے سمجھ دار اور لائق آدمی ہیں ...... زینو کا مذاق اُڑانے سے پہلے آپ نے کچھ تو سوچ لیا ہوتا۔‘‘
بابوگوپی ناتھ کے لہجے میں وہ عقیدت جو اُسے مجھ سے تھی، زخمی نظر آئی لیکن پیشتر اِس کے کہ میں اُس سے معافی مانگوں، اُس نے زینت کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے خلوص کے ساتھ کہا: ’’خدا تمہیں خوش رکھے۔‘‘
یہ کہہ کر بابوگوپی ناتھ نے، بھیگی ہوئی آنکھوں سے، میری طرف دیکھا، اُن میں ملامت تھی ...... بہت ہی دُکھ بھری ملامت ...... اور چلا گیا۔

پڑھیے کلمہ (منٹو)

لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ ...... آپ مسلمان ہیں یقین کریں، میں جو کچھ کہوں گا، سچ کہوں گا۔ پاکستان کا اِس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ قائدِاعظم جناح کے لیے میں جان دینے کے لیے تیّار ہوں لیکن میں سچ کہتا ہوں اس معاملے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں، آپ اتنی جلدی نہ کیجیے ...... مانتا ہوں، اِن دنوں  ّہلڑ کے زمانے میں آپ کو فرصت نہیں لیکن آپ خدا کے لیے میری پوری بات تو سن لیجیے ...... میں نے  ُتکارام کو ضرور مارا ہے اور جیسا کہ آپ کہتے ہیں، تیز چھری سے اُس کا پیٹ چاک کیا ہے مگر اِس لیے نہیں کہ وہ ہندو تھا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ تم نے اِس لیے نہیں مارا تو پھر کس لیے مارا ...... لیجیے میں ساری داستان ہی آپ کو سنا دیتا ہوں:
پڑھیے کلمہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ ...... کس کافر کو معلوم تھا کہ میں اِس لفڑے میں پھنس جائوں گا۔ پچھلے ہندو مسلم فساد میں  َمیں نے تین ہندو مارے تھے لیکن آپ یقین مانیے وہ مارنا کچھ اور ہے یہ مارنا بالکل کچھ اور ہے۔ خیر، آپ سنیے کہ  ُہوا کیا۔ میں نے اِس  ُتکارام کو کیوں مارا۔
کیوں صاحب، عورت ذات کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ...... میں تو سمجھتا ہوں بزرگوں نے ٹھیک کہا ہے ...... اس کے چلتروں سے خدا ہی بچائے ...... پھانسی سے بچ گیا تو دیکھیے کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوں، پھر کبھی کسی عورت کے نزدیک نہیں جائوں گا ...... لیکن صاحب، عورت بھی اکیلی سزاوار نہیں۔ مرد سالے بھی کم نہیں ہوئے، بس کسی عورت کو دیکھا اور ریشہ خطمی ہو گئے۔ خدا کو جان دینی ہے انسپکٹر صاحب، رُکما کو دیکھ کر میرا بھی یہی حال ہوا تھا۔
اب کوئی مجھ سے پوچھے: بندئہ خدا تو ایک پینتیس روپے کا ملازم، تجھے بھلا عشق سے کیا کام۔ کرایہ وصول کر اور چلتا بن۔ لیکن آفت یہ ہوئی صاحب کہ ایک دن، جب میں سولہ نمبر کی کھولی کا کرایہ وصول کرنے گیا اور دروازہ  ُٹھوکا تو اندر سے رُکمابائی نکلی۔ یوں میں رُکمابائی کو کئی دفعہ دیکھ چکا تھا لیکن اُس دن کم بخت نے بدن پر تیل ملا ہوا تھا اور ایک پتلی دھوتی لپیٹ رکھی تھی۔ جانے کیا ہوا مجھے، جی چاہا اُس کی دھوتی اتار کر زور زور سے مالش شروع کر دوں۔ بس صاحب، اُسی روز سے اس بندئہ نابکار نے اپنا دل، دماغ سب کچھ اُس کے حوالے کر دیا۔
کیا عورت تھی! ...... بدن تھا پتھر کی طرح سخت، مالش کرتے کرتے ہانپنے لگ گیا تھا مگر وہ اپنے باپ کی بیٹی یہی کہتی رہی: ’’تھوڑی دیر اور ...‘‘
شادی شدہ؟ ...... جی ہاں، شادی شدہ تھی اور خان چوکیدار نے کہا تھا کہ اُس کا ایک یار بھی ہے۔ لیکن آپ سارا قصہ ہی سن لیجیے ...... یاروار سب ہی اُس میں آجائیں گے۔
جی ہاں، بس اُس روز سے عشق کا بھوت میرے سر پر سوار ہو گیا۔ وہ بھی کچھ کچھ سمجھ گئی تھی کیونکہ کبھی کبھی کن اَنکھیوں سے میری طرف دیکھ کر مسکرا دیتی تھی ...... لیکن خداگواہ ہے، جب بھی وہ مسکرائی، میرے بدن میں خوف کی ایک تھرتھری سے دوڑ گئی۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ یہ معشوق کو پاس دیکھنے کا ’’وہ‘‘ ہے ...... لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا ...... لیکن آپ شروع ہی سے سنیے:
وہ تو میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ رکمابائی سے میری آنکھ لڑ گئی تھی۔ اب دن رات میں سوچتا تھا کہ اُسے پٹایا کیسے جائے۔ کمبخت اُس کا خاوند، ہر وقت کھولی میں بیٹھا لکڑی کے کھلونے بناتا رہتا تھا۔ کوئی چانس ملتا ہی نہیں تھا۔
ایک دن بازار میں  َمیں نے اُس کے خاوند کو، جس کا نام ...... خدا آپ کا بھلا کرے کیا تھا؟ جی ہاں ...... گردھاری ...... لکڑی کے کھلونے چادر میں باندھے لے جاتے دیکھا تو میں نے جھٹ سے سولہ نمبر کی کھولی کا رُخ کیا۔ دھڑکتے ہوئے دل سے میں نے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھلا۔ رکمابائی نے میری طرف گھور کے دیکھا۔ خدا کی قسم میری روح لرز گئی۔ بھاگ گیا ہوتا وہاں سے، لیکن اُس نے مسکراتے ہوئے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔
جب اندر گیا تو اس نے کھولی کا دروازہ بند کر کے مجھ سے کہا: ’’بیٹھ جائو۔‘‘ میں بیٹھ گیا تو اس نے میرے پاس آ کر کہا: ’’دیکھو میں جانتی ہوں تم کیا چاہتے ہو۔ لیکن جب تک گردھاری زندہ ہے تمہاری مراد پوری نہیں ہو سکتی۔‘‘
میں اٹھ کھڑا  ُہوا ...... اسے بالکل پاس دیکھ کر میرا خون گرم ہو گیا تھا۔ کنپٹیاں ٹھک ٹھک کر رہی تھیں۔ کم بخت نے آج بھی بدن پر تیل ملا ہوا تھا اور وہی پتلی دھوتی لپیٹی ہوئی تھی۔ میں نے اُسے بازوئوں سے پکڑ لیا اور دبا کر کہا: ’’مجھے کچھ معلوم نہیں، تم کیا کہہ رہی ہو۔‘‘ اُف! اُس کے بازوئوں کے پٹھے کس قدر سخت تھے ...... سچ عرض کرتا ہوں، میں بیان نہیں کر سکتا کہ وہ کس قسم کی عورت تھی۔ 
خیر آپ داستان سنیے:
میں اور زیادہ گرم ہو گیا اور اُسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ ’’گردھاری جائے جہنم میں ...... تمہیں میری بننا ہو گا۔‘‘
رُکما نے مجھے اپنے جسم سے الگ کیا اور کہا: ’’دیکھو تیل لگ جائے گا۔‘‘ میں نے کہا: ’’لگنے دو۔‘‘ اور پھر اُسے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا ...... یقین مانیے، اگر اُس وقت آپ مارے کوڑوں کے میری پیٹھ کی چمڑی ادھیڑ دیتے تب بھی میں اسے علاحدہ نہ کرتا۔ لیکن کم بخت نے ایسا  ُپچکارا کہ جہاں اُس نے مجھے پہلے بٹھایا تھا، خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔ مجھے معلوم نہیں تھا وہ سوچ کیا رہی ہے۔ گردھاری سالا باہر ہے، ڈر کس بات کا ہے ...... تھوڑی دیر کے بعد جب مجھ سے رہا نہ گیا تھا تو میں نے اس سے کہا: ’’رکما، ایسا اچھا موقع پھر کبھی نہیں ملے گا۔‘‘ اس نے بڑے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرا کر کہا: ’’اِس سے بھی اچھا موقع ملے گا ...... لیکن تم یہ بتائو جو کچھ میں کہوں گی کرو گے؟‘‘ ...... صاحب، میرے سر پر تو بھوت سوار تھا، میں نے جوش میں آ کر کہا: ’’تمہارے لیے میں پندرہ آدمی قتل کرنے کو تیّار ہوں۔‘‘ یہ سن کر وہ مسکرائی۔ ’’مجھے وشواس ہے۔‘‘ خدا کی قسم، ایک بار پھر میری روح لرز گئی لیکن میں نے سوچا شاید زیادہ جوش آنے پر ایسا ہوا ہے۔
بس وہاں میں تھوڑی دیر اور بیٹھا۔ پیار اور محبت کی باتیں کیں، اس کے ہاتھ کے بنے ہوئے بھجیے کھائے اور چپکے سے باہر نکل آیا۔ گو وہ سلسلہ نہ ہوا، لیکن صاحب، ایسے سلسلے پہلے ہی دن تھوڑے ہوتے ہیں، میں نے سوچا: پھر سہی۔
دس دن گزر گئے۔ ٹھیک گیارہویں دن، رات کے دو بجے، جی ہاں دو ہی کا عمل تھا ...... کسی نے مجھے آہستہ سے جگایا۔ میں، نیچے سیڑھیوں کے پاس جو جگہ ہے نا، وہاں سوتا ہوں۔ آنکھیں کھول کر میں نے دیکھا: ارے رکما بائی! میرا دل دھڑکنے لگا۔ میں آہستہ سے پوچھا: ’’کیا ہے؟‘‘ اس نے ہولے سے کہا: ’’آئو میرے ساتھ‘‘ ...... میں ننگے پائوں اُس کے ساتھ ہو لیا۔ اس نے کھولی کا دروازہ کھولا، ہم دونوں اندر داخل ہوئے، بالکل اندھیرا تھا، میں نے اور کچھ نہ سوچا اور وہیں کھڑے کھڑے اس کو سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ اس نے میرے کان میں کہا: ’’ابھی ٹھہرو۔‘‘ پھر بتی روشن کی، میری آنکھیں چندھیا سی گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ سامنے چٹائی پر کوئی سو رہا ہے۔ منہ پر کپڑا ہے۔ میں نے اشارے سے پوچھا: ’’یہ کیا؟‘‘ رکما نے کہا: ’’بیٹھ جائو۔‘‘ میں اُلّو کی طرح بیٹھ گیا۔ وہ میرے پاس آئی اور بڑے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیر کر اس نے ایسی بات کہی جس کو سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے ...... بالکل برف ہو گیا صاحب ...... کاٹو تو لہو نہیں بدن میں ...... جانتے ہیں رکما نے مجھ سے کیا کہا؟۔۔۔۔
پڑھیے کلمہ لاالہ الااﷲ محمدرسول اﷲ ...... میں نے اپنی زندگی میں ایسی عورت نہیں دیکھی ...... کمبخت نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا ...... ’’میں نے گردھاری کو مار ڈالا ہے‘‘ ...... آپ یقین کیجیے اُس نے اپنے ہاتھوں سے ایک ہٹّے کٹّے آدمی کو قتل کیا تھا ...... کیا عورت تھی صاحب ...... مجھے جب بھی وہ رات یاد آتی ہے، قسم خداوند پاک کی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ...... اس نے مجھے وہ چیز دکھائی جس سے اس ظالم نے گردھاری کا گلا گھونٹا تھا۔ بجلی کے تاروں کی  ُگندھی ہوئی ایک مضبوط رسّی سی تھی، لکڑی پھنسا کر اس نے زور سے کچھ ایسے پیچ دیے تھے کہ بے چارے کی زبان اور آنکھیں باہر نکل آئی تھیں ...... کہتی تھی: بس یوں  ُچٹکیوں میں کام تمام ہو گیا تھا۔
کپڑا اٹھا کر جب اس نے گردھاری کی شکل دکھائی تو میری ہڈّیاں تک برف ہو گئیں لیکن وہ عورت جانے کیا تھی، وہیں لاش کے سامنے اس نے مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ قرآن کی قسم میرا خیال تھا کہ ساری عمر کے لیے نامرد ہو گیا ہوں۔ مگر صاحب، جب اس کا گرم گرم پنڈا میرے بدن کے ساتھ لگا اور اس نے ایک عجیب و غریب قسم کا پیار کیا، تو اﷲ جانتا ہے، چودہ طبق روشن ہو گئے۔ زندگی بھر وہ رات مجھے یاد رہے گی ...... سامنے لاش پڑی تھی لیکن رکما اور میں، دونوں اُس سے غافل، ایک دوسرے کے اندر دھنسے ہوئے تھے۔
صبح ہوئی تو ہم دونوں نے مل کر گردھاری کی لاش کے تین ٹکڑے کیے، اوزار اُس کے موجود تھے اس لیے زیادہ تکلیف نہ ہوئی۔ ٹھک ٹھک کافی ہوئی تھی پر لوگوں نے سمجھا ہو گا: گردھاری کھلونے بنا رہا ہے ...... آپ پوچھیں گے: بندئہ خدا تم نے ایسے گھنائونے کام میں کیوں حصہ لیا، پولیس میں رپٹ کیوں نہ لکھوائی ...... صاحب، عرض یہ ہے کہ اُس کمبخت نے مجھے ایک ہی رات میں اپنا غلام بنا لیا تھا۔ اگر وہ مجھ سے کہتی تو شاید میں نے پندرہ آدمیوں کا خون بھی کر ہی دیا ہوتا۔ یاد ہے نا، میں نے ایک دفعہ، اُس سے جوش میں آ کر کیا کہا تھا ...... ؟
اب مصیبت یہ تھی کہ لاش کو ٹھکانے کیسے لگایا جائے۔ رکما کچھ بھی ہو، آخر عورت ذات تھی۔ میں نے اس سے کہا: ’’جانِ من تم کچھ فکر نہ کرو۔ فی الحال ان ٹکڑوں کو ٹرنک میں بند کر دیتے ہیں۔ جب رات آئے گی تو میں اُٹھا کر لے جائوں گا۔‘‘ اب خدا کا کرنا ایسا ہوا صاحب کہ اُس روز  ُہلڑ ہوا، پانچ چھ علاقوں میں خوب مارا ماری ہوئی، گورنمنٹ نے چھتیس گھنٹے کا کرفیو لگا دیا۔ میں نے کہا: عبدالکریم کچھ بھی ہو، لاش آج ہی ٹھکانے لگا دو ...... چنانچہ دو بجے اُٹھا ...... اوپر سے ٹرنک لیا۔ خدا کی پناہ، کتنا وزن تھا۔ مجھے ڈر تھا، رستے میں کوئی پیلی پگڑی والا ضرور ملے گا اور کرفیو آرڈر کی خلاف ورزی میں دھر لے گا۔ مگر صاحب، جسے اﷲ رکھے اُسے کون چکھے۔ جس بازار سے گزرا، اُس میں سنّاٹا تھا۔ ایک جگہ ...... بازار کے پاس، مجھے ایک چھوٹی سی مسجد نظر آئی۔ میں ٹرنک کھولا اور لاش کے ٹکڑے نکال کر اندر ڈیوڑھی میں ڈال دیے اور واپس چلا آیا۔
قربان اُس کی قدرت کے، صبح پتہ چلا کہ ہندوئوں نے اُس مسجد کو آگ لگا دی۔ میرا خیال ہے گردھاری اُس کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہو گیا ہو گا کیونکہ اخباروں میں کسی لاش کا ذکر نہیں تھا۔ اب صاحب، بقول شخصے، میدان خالی تھا۔ میں نے رکما سے کہا: چالی میں مشہور کر دو کہ گردھاری باہر کام سے گیا ہے، میں رات کو دو ڈھائی بجے آجایا کروں گا اور عیش کیا کریں گے ...... مگر اُس نے کہا: ’’نہیں عبدل، اتنی جلدی نہیں۔ ابھی ہم کو کم از کم پندرہ بیس روز تک نہیں ملنا چاہیے۔‘‘ بات معقول تھی اس لیے میں خاموش رہا۔
سترہ روز گزر گئے ...... کئی بار ڈرائونے خوابوں میں گردھاری آیا لیکن میں نے کہا: سالے، مرکھپ چکا ہے، اب میرا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ اٹھارہویں روز صاحب، میں اُسی طرح سیڑھیوں کے پاس چارپائی پر سو رہا تھا کہ رکما رات کے بارہ ... بارہ نہیں تو ایک ہو گا، آئی اور مجھے اوپر لے گئی۔ 
چٹائی پر ننگی لیٹ کر اس نے مجھ سے کہا: ’’عبدل میرا بدن دُکھ رہا ہے، ذرا چمپی کر دو۔‘‘ میں نے فوراً تیل لیا اور مالش کرنے لگا لیکن آدھے گھنٹے میں ہی کانپنے لگا۔ میرے پسینے کی کئی بوندیں اُس کے چکنے بدن پر گریں۔ لیکن اس نے یہ نہ کہا: بس کرو عبدل، تم تھک گئے ہو۔ آخر مجھے ہی کہنا پڑا: ’’رکما بھئی اب خلاص۔۔۔۔‘‘ وہ مسکرائی ...... میرے خدا، کیا مسکراہٹ تھی! تھوڑی دیر دم لینے کے بعد میں چٹائی پر بیٹھ گیا [لیٹ گیا؟] اس نے اٹھ کر بتی بجھائی اور میرے ساتھ لیٹ گئی۔ چمپی کر کر کے میں اس قدر تھک گیا تھا کہ کسی چیز کا ہوش نہ رہا۔ رکما کے سینے پر ہاتھ رکھا اور سو گیا۔
جانے کیا بجا تھا۔ میں ایک دم ہڑبڑا کے اٹھا۔ گردن میں کوئی سخت سخت سی چیز دھنس رہی تھی۔ فوراً مجھے اُس تار والی رسّی کا خیال آیا لیکن اس سے پہلے کہ میں اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کر سکوں، رکما میری چھاتی پر چڑھ بیٹھی۔ ایک دو ایسے مروڑے دیے کہ میری گردن کڑ کڑ بول اٹھی۔ میں نے شور مچانا چاہا لیکن آواز میرے پیٹ میں ہی رہی۔ اس کے بعد میں بیہوش ہو گیا۔
میرا خیال ہے، چار بجے ہوں گے، آہستہ آہستہ مجھے ہوش آنا شروع ہوا۔ گردن میں بہت زور کا درد تھا۔ میں ویسے ہی دم سادھے پڑا رہا اور ہولے ہولے ہاتھ سے رسّی کے مروڑے کھولنے شروع کیے ...... ایک دم آوازیں آنے لگیں، میں نے سانس روک لیا۔ کمرے میں  ُگھپ اندھیرا تھا۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی، پر کچھ نظر نہ آیا۔ جو آوازیں آ رہی تھیں اُن سے معلوم ہوتا تھا دو آدمی کشتی لڑ رہے ہیں۔ رُکما ہانپ رہی تھی ...... ہانپتے ہانپتے اس نے کہا: ’’  ُتکارام، بتّی جلا دو۔‘‘  ُتکارام نے ڈرتے ہوئے [ڈرے ہوئے؟] لہجے میں کہا: ’’نہیں نہیں رُکما نہیں ...‘‘ رکما بولی: ’’بڑے ڈرپوک ہو ...... صبح اِس کے تین ٹکڑے کر کے لے جائو گے کیسے؟......‘‘ میرا بدن بالکل ٹھنڈا ہو گیا۔  ُتکارام نے کیا جواب دیا، رکما نے پھر کیا کہا، اس کا مجھے کچھ ہوش نہیں۔ پتہ نہیں کب، ایک دم روشنی ہوئی اور میں آنکھیں جھپکتا اُٹھ بیٹھا۔  ُتکارام کے منہ سے زور کی چیخ نکلی اور وہ دروازہ کھول کر بھاگ گیا۔ رکما نے جلدی سے کواڑ بند کیے اور کنڈی چڑھا دی ...... صاحب، میں آپ سے کیا بیان کروں، میری حالت کیا تھی، آنکھیں کھلی تھیں، دیکھ رہا تھا،  ُسن رہا تھا لیکن ہلنے جلنے کی بالکل سکت نہیں تھی۔
یہ  ُتکارام میرے لیے کوئی نیا آدمی نہیں تھا۔ ہماری چالی میں اکثر آم بیچنے آیا کرتا تھا۔ رکما نے اُس کو کیسے پھنسایا، اس کا مجھے علم نہیں۔ 
رُکما میری طرف گھور گھور کے دیکھ رہی تھی، جیسے اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں۔ وہ مجھے مار چکی تھی لیکن میں اس کے سامنے زندہ بیٹھا تھا۔ وہ مجھ پر جھپٹنے کو تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی اور بہت سے آدمیوں کی آوازیں آئیں۔ رکما نے جھٹ میرا بازو پکڑا اور گھسیٹ کر مجھے غسل خانے کے اندر ڈال دیا۔ اس کے بعد اس نے دروازہ کھولا۔ پڑوس کے آدمی تھے، انہوں نے رکما سے پوچھا: ’’خیریت ہے، ابھی ابھی ہم نے چیخ کی آواز سنی تھی۔‘‘ رُکما نے جواب دیا: ’’میری تھی۔ مجھے سوتے میں چلنے کی عادت ہے۔ دروازہ کھول کر باہر نکلی تو دیوار کے ساتھ ٹکرا گئی اور ڈر کر منہ سے چیخ نکل گئی۔‘‘ پڑوس کے آدمی یہ سن کر چلے گئے۔ رکما نے کواڑ بند کیے اور کنڈی چڑھا دی ...... اب مجھے اپنی جان کی فکر ہوئی۔ آپ یقین مانیے، یہ سوچ کر کہ وہ ظالم مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی، ایک دم میرے اندر مقابلے کی بے پناہ طاقت آ گئی۔ بلکہ میں نے ارادہ کر لیا کہ رکما کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔ غسل خانے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ وہ بڑی کھڑکی کے پٹ کھولے، باہر جھانک رہی ہے۔ میں ایک دم لپکا۔ چوتڑوں پر سے اوپر اُٹھایا اور باہر دھکیل دیا۔ یہ سب، یوں چٹکیوں میں ہوا۔ دھپ سی آواز آئی اور میں دروازہ کھول کر نیچے اتر گیا۔ ساری رات میں چارپائی پر لیٹا، اپنی گردن پر جو بُری طرح زخمی ہو رہی تھی ...... آپ نشان دیکھ سکتے ہیں ...... تیل مل مل کر سوچتا رہا کہ کسی کو پتہ نہیں چلے گا ...... اُس نے پڑوسیوں سے کہا تھا کہ اُسے سوتے میں چلنے کی عادت ہے۔ مکان کے اُس طرف جہاں میں نے اُسے گرایا تھا، جب اس کی لاش دیکھی جائے گی تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ سوتے میں چلی ہے اور کھڑکی سے باہر گر پڑی ہے ...... خدا خدا کر کے صبح ہوئی۔ گردن پر میں نے رومال باندھ لیا تھا تاکہ زخم دکھائی نہ دیں۔ نو بج گئے، بارہ ہو گئے مگر رکما کی لاش کی کوئی بات ہی نہ ہوئی۔ جدھر میں نے اس کو گرایا تھا ایک تنگ گلی ہے، دو بلڈنگوں کے درمیان۔ دونوں طرف دروازے ہیں تاکہ لوگ اندر داخل ہو کر پیشاب پاخانہ نہ کریں۔ پھر بھی دونوں بلڈنگوں کی کھڑکیوں میں سے پھینکا ہوا کچرا کافی جمع ہو جاتا ہے جو ہر روز صبح سویرے بھنگن اٹھا کر لے جاتی ہے۔ میں نے سوچا شاید بھنگن نہیں آئی، آئی ہوتی تو اُس نے دروازہ کھولتے ہی رکما کی لاش دیکھی ہوتی اور شور برپا کر دیا ہوتا۔ قصہ کیا تھا؟ میں چاہتا تھا کہ لوگوں کو جلدی اس بات کا پتہ چل جائے۔ دو بج گئے تو میں نے جی کڑا کر کے خود ہی دروازہ کھولا۔ لاش تھی نہ کچرا۔ یا مظہرالعجائب! رکما گئی کہاں؟ ...... قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہوں، مجھے اُس پھانسی کے پھندے سے بچ نکلنے کا اتنا تعجب نہیں ہو گا جتنا کہ رکما کے غائب ہونے کا ہے۔ تیسری منزل سے میں نے اُسے نیچے گرایا تھا۔ پتھروں کے فرش پر۔ بچی کیسے ہو گی ...... لیکن پھر سوال ہے کہ اس کی لاش کون اٹھا کر لے گیا۔ عقل نہیں مانتی۔ لیکن صاحب، کچھ پتہ نہیں وہ ڈائن زندہ ہی ہو ...... چالی میں تو یہی مشہور ہے کہ یا تو کسی مسلمان نے گھر ڈال لیا ہے یا مار ڈالا ہے ...... واﷲاعلم بالصواب ...... مار ڈالا ہے تو اچھا کیا ...... گھر ڈال لیا ہے تو جو حشر اُس غریب کا ہو گا، آپ جانتے ہی ہیں ...... خدا بچائے صاحب۔
اب  ُتکارام کی بات  ُسنیے: اِس واقعے کے ٹھیک بیس روز بعد وہ مجھ سے ملا اور پوچھنے لگا: ’’بتائو رکما کہاں ہے؟‘‘ ...... میں نے کہا: ’’مجھے کچھ علم نہیں۔‘‘ کہنے لگا: ’’نہیں، تم جانتے ہو‘‘ ...... میں نے جواب دیا: ’’بھائی قرآن مجید کی قسم، مجھے کچھ معلوم نہیں‘‘ ...... بولا: ’’نہیں، تم جھوٹ بولتے ہو۔ تم نے اسے مار ڈالا ہے۔ میں پولیس میں رپٹ لکھوانے والا ہوں کہ پہلے تم نے گردھاری کو مارا، پھر رکما کو‘‘ ...... یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا، لیکن صاحب، میرے پسینے چھوٹ گئے۔ بہت دیر تک کچھ سمجھ میں نہ آیا، کیا کروں۔ ایک ہی بات سوجھی کہ اُس کو ٹھکانے لگا دوں ...... آپ ہی سوچیے، اِس کے علاوہ اور علاج بھی کیا تھا ...... چنانچہ صاحب، اُسی وقت چھپ کر چھری تیز کی اور  ُتکارام کو ڈھونڈنے نکل پڑا ...... اتفاق کی بات ہے، شام کو چھ بجے وہ مجھے، اسٹریٹ کے ناکے پر موتری کے پاس مل گیا۔ موسمبیوں کی خالی ٹوکری باہر رکھ کر وہ پیشاب کرنے کے لیے اندر گیا۔ میں بھی لپک کر اُس کے پیچھے۔ دھوتی کھول ہی رہا تھا کہ میں نے زور سے پکارا: ’’  ُتکارام!‘‘ ...... پلٹ کر اُس نے میری طرف دیکھا۔ چھری میرے ہاتھ ہی میں تھی۔ ایک دم اس کے پیٹ میں  ُبھونک دی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنی باہر نکلتی ہوئی انتڑیاں تھامیں، اور دوہرا ہو کر گر پڑا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ باہر نکل کر نو دو گیارہ ہو جاتا مگر میری بیوقوفی دیکھیے، بیٹھ کر اس کی نبض دیکھنے لگا کہ آیا مرا ہے یا نہیں۔ میں نے اتنا سنا تھا کہ نبض ہوتی ہے، انگوٹھے کی طرف، یا دوسری طرف، یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ چنانچہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے دیر لگ گئی، اتنے میں کانسٹیبل، پتلون کے بٹن کھولتے کھولتے اندر آیا اور میں دھر لیا گیا۔ بس صاحب یہ ہے پوری داستان ...... پڑھیے کلمہ لاالہ الااﷲ محمدرسول اﷲ، جو میں نے رتّی بھر بھی جھوٹ بولا ہو۔

سجدہ (منٹو)

گلاس پر بوتل جُھکی تو ایک دم حمید کی طبیعت پر بوجھ سا پڑ گیا۔ ملِک جو اُس کے سامنے تیسرا پیگ پی رہا تھا، فوراً تاڑ گیا کہ حمید کے اندر روحانی کشمکش پیدا ہو گئی ہے۔ وہ حمید کو سات برس سے جانتا تھا اور اِن سات برسوں میں کئی بار حمید پر ایسے دورے پڑ چکے تھے جن کا مطلب اُس کی سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہا تھا لیکن وہ اتنا ضرور سمجھتا تھا کہ اس کے لاغر دوست کے سینے پر کوئی بوجھ ہے، ایسا بوجھ جس کا احساس شراب پینے کے دوران میں کبھی کبھی حمید کے اندر یوں پیدا ہوتا ہے جیسے بے دھیان بیٹھے ہوئے آدمی کی پسلیوں میں کوئی زور سے ٹہوکا دے دے۔
حمید بڑا خوش باش انسان تھا، ہنسی مذاق کا عادی، حاضر جواب، بذلہ سنج۔ اُس میں بہت سی خوبیاں تھیں جو زیادہ نزدیک آ کر اُس کے دوست ملک نے معلوم کی تھیں۔ مثال کے طور پر سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بے حد مخلص تھا، اِس قدر مخلص کہ بعض اوقات اُس کا اخلاص ملِک کے لیے عہدِ عتیق کا رومانی افسانہ بن جاتا تھا۔
حمید کے کردار میں ایک عجیب و غریب بات جو ملک نے نوٹ کی، یہ تھی کہ اُس کی آنکھیں آنسوئوں سے ناآشنا تھیں۔ یوں تو ملک بھی رونے کے معاملے میں بڑا بخیل تھا مگر وہ جانتا تھا کہ جب کبھی رونے کا موقع آئے گا، وہ ضرور رو دے گا۔ اس پر غم افزا باتیں اثر ضرور کرتی تھیں مگر وہ اس اثر کو اِتنی دیر اپنے دماغ پر بیٹھنے کی اجازت دیتا تھا جتنی دیر گھوڑا اپنے تنے ہوئے جسم پر مکھی کو۔
غموں سے دور رہنے والے اور ہر وقت ہنسی مذاق کے عادی، حمید کی زندگی میں نہ جانے ایسا کون سا واقعہ اُلجھا ہوا تھا کہ وہ کبھی کبھی قبرستان کی طرح خاموش ہو جاتا تھا۔ ایسے لمحات جب اُس پر طاری ہوتے تو اس کا چہرہ ایسی رنگت اختیار کر لیتا تھا جو تین دن کی باسی شراب میں بے جان سوڈا گھولنے سے پیدا ہوتی ہے۔
سات برس کے دوران میں، کئی بار حمید پر ایسے دورے پڑ چکے تھے مگر ملک نے آج تک اُس سے اُن کی وجہ دریافت نہ کی تھی۔ اس لیے نہیں کہ اُن کی وجہ دریافت کرنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا نہیں ہوتی تھی۔ دراصل بات یہ ہے کہ ملِک پرلے درجے کا سُست اور کاہل واقع ہوا تھا۔ اِس خیال سے بھی وہ حمید کے ساتھ اِس معاملے پر بات چیت نہیں کرتا تھا کہ ایک طول طویل کہانی اسے سننا پڑے گی اور اس کے چوتھے پیگ کا سارا سرور غارت ہو جائے گا۔ شراب پی کر لمبی چوڑی آپ بیتیاں سننا یا سنانا اس کے نزدیک بہت بڑی بدذوقی تھی۔ اِس کے علاوہ وہ کہانیاں سننے کے معاملے میں بہت ہی خام تھا۔ اِسی خیال کی وجہ سے کہ وہ اطمینان سے حمید کی داستان نہیں سن سکے گا اس نے آج تک اس سے ان دوروں کی بابت دریافت نہیں کیا تھا۔ 
کرپارام نے حمید کے گلاس میں تیسرا پیگ ڈال کر، بوتل میز پر رکھ دی اور ملک سے مخاطب ہوا، ’’ملک! اسے کیا ہو گیا ہے؟‘‘
ملک خاموش رہا لیکن حمید مضطرب ہو گیا۔ اُس کے تنے ہوئے اعصاب زور سے کانپ اٹھے۔ کرپارام کی طرف دیکھ کر اُس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ اِس میں جب ناکامی ہوئی تو اُس کا اضطراب اور بھی زیادہ ہو گیا۔ 
حمید کی یہ بہت بڑی کمزوری تھی کہ وہ کسی بات کو چُھپا نہیں سکتا تھا اور اگر چھپانے کی کوشش کرتا تو اُس کی وہی حالت ہوتی جو آندھی میں صرف ایک کپڑے میں لپٹی ہوئی عورت کی ہوتی ہے۔ 
ملک نے اپنا تیسرا پیگ ختم کیا اور اُس فضا کو جو کچھ عرصہ پہلے، طرب افزا باتوں سے گونج رہی تھی، اپنی بے محل ہنسی سے خوش گوار بنانے کے لیے اُس نے کرپارام سے مخاطب ہو کر کہا، ’’کرپا ...... تم مان لو، اِسے اشوک کمار کا فلمی عشق ہو گیا ہے ...... بھئی یہ اشوک کمار بھی عجیب چیز ہے، پردے پر عشق کرتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کاسٹر آئل پی رہا ہے!‘‘
کرپارام، اشوک کمار کو اُتنا ہی جانتا تھا جتنا کہ مہاراجا اشوک اور اُس کی مشہور آہنی لاٹھ کو۔ فلم اور تاریخ سے اُسے کوئی دلچسپی نہیں تھی، البتہ وہ اِن کے فوائد سے ضرور آگاہ تھا کیونکہ وہ عام طور پر کہا کرتا تھا، ’’مجھے اگر کبھی بے خوابی کا عارضہ لاحق ہو جائے تو میں یا تو فلم دیکھنا شروع کر دوں گا یا چکرورتی کی لکھی ہوئی تاریخ پڑھنا شروع کر دوں گا۔‘‘
وہ ہمیشہ، حساب داں چکرورتی کو مورّخ بنا کر اپنی مسرّت کے لیے ایک بات پیدا کر لیا کرتا تھا۔ 
کرپارام چار پیگ پی چکا تھا۔ چار پٹیالا پیگ، نشہ اُس کے دماغ کی آخری منزل تک پہنچ چکا تھا۔ آنکھیں سکیڑ کر اُس نے حمید کی طرف اِس انداز سے دیکھا جیسے وہ کیمرے کا فوکس کر رہا ہے، ’’تمہارا گلاس ابھی تک ویسے کا ویسا پڑا ہے۔‘‘
حمید نے درد سر کے مریض کی سی شکل بنا کر کہا، ’’بس ...... اب مجھ سے زیادہ نہیں پی جائے گی۔‘‘ 
’’تم چغد ہو ...... نہیں چغد نہیں کچھ اور ہو ...... تمہیں پینا ہو گی ...... سمجھے، یہ گلاس اور اِس بوتل میں جتنی پڑی ہے سب کی سب تمہیں پینا ہو گی۔ شراب سے جو انکار کرے وہ انسان نہیں حیوان ہے ...... حیوان بھی نہیں، اس لیے کہ حیوانوں کو اگر انسان بنا دیا جائے تو وہ بھی اس خوب صورت شے کو کبھی نہ چھوڑیں ...... تم سن رہے ہو ملک ...... میں نے اگر یہ ساری شراب اِس کے حلق میں نہ انڈیل دی تو میرا نام کرپارام نہیں، گھسیٹا رام آرٹسٹ ہے۔‘‘
گھسیٹا رام آرٹسٹ سے کرپا رام کو سخت نفرت تھی، صرف اس لیے کہ آرٹسٹ ہو کر [ہو کر بھی؟] اُس کا نام گھسیٹا رام تھا۔ 
ملک کا منہ سوڈا ملی وسکی سے بھرا ہوا تھا۔ کرپارام کی بات سن کر وہ بے اختیار ہنس پڑا جس کے باعث اُس کے منہ سے ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا، ’’کرپارام خدا کے لیے تم گھسیٹارام آرٹسٹ کا نام نہ لیا کرو۔ میری انتڑیوں میں ایک طوفان سا مچ جاتا ہے ...... لاحول ولا ...... میری پتلون کا ستیاناس ہو گیا ہے ...... لو بھئی، حمید، اب تو تمہیں پینا ہی پڑے گی۔ کرپارام، گھسیٹارام بنے یا نہ بنے لیکن میں ضرور کرپارام بن جائوں گا اگر تم نے یہ گلاس خالی نہ کیا ...... لو پیو ...... پی جائو ...... ارے، میرا منہ کیا دیکھتے ہو ...... یہ تمہارے چہرے پر قیامت کیسی برس رہی ہے ...... کرپارام اٹھو! ...... لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے۔ زبردستی کرنا ہی پڑے گی......‘‘
کرپارام اور ملک دونوں اٹھے اور حمید کو زبردستی پلانے کی کوشش کرنے لگے۔ حمید کو روحانی کوفت تو ویسے ہی محسوس ہو رہی تھی، جب کرپارام اور ملک نے اُس کو جھنجھوڑنا شروع کیا تو اُس کو جسمانی اذّیت بھی پہنچی جس کے باعث وہ بے حد پریشان ہو گیا۔
اُس کی پریشانی سے کرپارام اور ملک بہت محظوظ ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے ایک کھیل سمجھ کر حمید کو اور زیادہ تنگ کرنا شروع کیا۔ کرپارام نے گلاس پکڑ کر اُس کے سر میں تھوڑی سی شراب ڈال دی اور نائیوں کے انداز میں جب اُس نے حمید کا سر سہلایا تو وہ اِس قدر پریشان ہوا کہ اُس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آ گئے، اُس کی آواز بھرّا گئی، اس کے سارے جسم میں تشنج سا پیدا ہوا اور ایک دم کاندھے ڈھیلے کر کے اس نے رونی اور مردہ آواز میں کہا، ’’میں بیمار ہوں ...... خدا کے لیے مجھے تنگ نہ کرو۔‘‘
کرپارام اِسے بہانہ سمجھ کر حمید کو اور زیادہ تنگ کرنے کے لیے کوئی نیا طریقہ سوچنے ہی والا تھا کہ ملک نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے پرے ہٹا دیا، ’’کرپا، اِس کی طبیعت واقعی خراب ہے ...... دیکھو تو رو رہا ہے۔‘‘
کرپارام نے اپنی موٹی کمر جھکا کر غور سے دیکھا، ’’ارے ...... تم تو سچ مچ رو رہے ہو!‘‘
حمید کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے جس پر سوالوں کی بوچھار شروع ہو گئی:
’’کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ ...... خیر تو ہے؟‘‘
’’یہ تم رو کیوں رہے ہو؟‘‘
’’بھئی حد ہو گئی ...... ہم تو صرف مذاق کر رہے تھے۔‘‘
’’کچھ سمجھ میں بھی تو آئے ...... کیا تکلیف ہے تمہیں؟‘‘
ملک اُس کے پاس بیٹھ گیا: ’’بھئی مجھے معاف کر دو اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو۔‘‘
حمید نے جیب سے رومال نکال کر اپنے آنسو پونچھے اور کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔ جذبات کی شدّت کے باعث اُس کی قوت گویائی جواب دے گئی۔ 
تیسرے پیگ سے پہلے اُس کے چہرے پر رونق تھی، اس کی باتیں سوڈے کے بلبلوں کی طرح تروتازہ اور شگفتہ تھیں مگر اب وہ باسی شراب کی طرح بے رونق تھا، وہ سکڑ سا گیا تھا، اس کی حالت ویسی ہی تھی جیسی بھیگی ہوئی پتلون کی ہوتی ہے۔ 
کرسی پر وہ اِس انداز سے بیٹھا تھا گویا وہ اپنے آپ سے شرمندہ ہے۔ اپنے آپ کو چُھپانے کی بھونڈی کوشش میں وہ ایک ایسا بے جان لطیفہ بن کے رہ گیا تھا جو بڑے ہی خام انداز میں سنایا گیا ہو۔ 
ملک کو اُس کی حالت پر بہت ترس آیا: ’’حمید، لو اب خدا کے لیے چپ ہو جائو ...... واﷲ تمہارے آنسوئوں سے مجھے روحانی تکلیف ہو رہی ہے۔ مزا تو سب کرکرا ہو ہی گیا تھا مگر یوں تمہارے ایکاایکی آنسو بہانے سے میں بہت مغموم ہو گیا ہوں ...... خدا جانے تمہیں کیا تکلیف ہے......؟‘‘
’’کچھ نہیں، میں بہت جلد ٹھیک ہو جائوں گا۔ کبھی کبھی مجھے ایسی تکلیف ہو جایا کرتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا: ’’اب میں اجازت چاہتا ہوں۔‘‘
کرپارام بوتل میں بچی ہوئی شراب کو دیکھتا رہا اور ملک یہ ارادہ کرتا رہا کہ حمید سے آج پوچھ ہی لے کہ وقتاً فوقتاً اُسے یہ دورے کیوں پڑتے ہیں مگر وہ جا چکا تھا۔ 
حمید گھر پہنچا تو اُس کی حالت پہلے سے زیادہ خراب تھی۔ کمرے میں چونکہ اُس کے سوا اور کوئی نہیں تھا اِس لیے وہ رو بھی نہ سکتا تھا۔ اُس کی آنسوئوں سے لبالب بھری ہوئی آنکھوں کو کرسیاں اور میزیں نہیں چھلکا سکتی تھیں۔
اُس کی خواہش تھی کہ اس کے پاس کوئی آدمی موجود ہو جس کے چھیڑنے سے وہ جی بھر کے رو سکے مگر ساتھ ہی اس کی یہ بھی خواہش تھی کہ وہ بالکل اکیلا ہو ...... ایک عجیب کشمکش اس کے اندر پیدا ہو گئی تھی۔ 
وہ کرسی پر اِس انداز سے اکیلا بیٹھا تھا جیسے شطرنج کا پِٹا ہوا مُہرہ بساط سے بہت دور پڑا ہے۔ سامنے میز پر اس کی ایک پرانی تصویر چمک دار فریم میں جڑی رکھی تھی۔ حمید نے اداس نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھا تو سات برس، اُس تصویر اور اُس کے درمیان، تھان کی طرح کُھلتے چلے گئے: 
ٹھیک سات برس پہلے، برسات کے اِن ہی دنوں میں، رات کو وہ ریلوے ریسٹوران میں ملک عبدالرحمان کے ساتھ بیٹھا تھا ...... اُس وقت کے حمید اور اِس وقت کے حمید میں کتنا فرق تھا ...... کتنا فرق تھا۔ [کذا] حمید نے یہ فرق اِس شدّت سے محسوس کیا کہ اُسے اپنی تصویر میں ایک ایسا آدمی نظر آیا جس سے ملے اُس کو زمانہ گزر گیا ہے۔
اُس نے تصویر کو غور سے دیکھا تو اُس کے دل میں یہ تلخ احساس پیدا ہوا کہ انسانیت کے لحاظ سے وہ اِس کے مقابلے میں بہت پست ہے۔ تصویر میں جو حمید ہے اِس حمید کے مقابلے میں بدرجہا افضل و برتر ہے جو کرسی پر سر نیوڑھائے بیٹھا ہے۔ چنانچہ اِس احساس نے اُس کے دل میں حسد بھی پیدا کر دیا۔ 
ایک سجدے ...... صرف ایک سجدے نے اُس کا ستیاناس کر دیا تھا......
آج سے ٹھیک سات برس پہلے کا ذکر ہے۔ برسات کے یہی دن تھے۔ رات کو وہ ریلوے ریسٹوران میں اپنے دوست ملک عبدالرحمان کے ساتھ بیٹھا تھا۔ حمید کو یہ شرارت سوجھی تھی کہ بغیر بو کی شراب، جِن، کا ایک پورا پیگ لیمونیڈ میں ملا کر اُس کو پلا دے اور جب وہ پی جائے تو آہستہ سے اُس کے کان میں کہے، ’’مولانا! ایک پورا پیگ آپ کے ثوابوں بھرے پیٹ میں داخل ہو چکا ہے۔‘‘
بیرے سے مل ملا کر اُس نے اِس بات کا انتظام کر دیا تھا کہ آرڈر دینے پر لیمونیڈ کی بوتل میں جِن کا ایک پیگ ڈال کر ملک کو دے دیا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، حمید نے وسکی پی اور ملک بظاہر بے خبری کی حالت میں جِن کا پورا پیگ چڑھا گیا۔
حمید چونکہ تین پیگ پینے کا ارادہ رکھتا تھا اِس لیے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد اُس نے پوچھا، ’’ملک صاحب، آپ یوں بیکار نہ بیٹھیے، میں تیسرا پیگ بڑی عیّاشی سے پیا کرتا ہوں، آپ ایک اور لیمونیڈ منگوا لیجیے۔‘‘
ملک رضامند ہو گیا، چنانچہ ایک اور لیمونیڈ آ گیا۔ اُس میں بیرے نے اپنی طرف سے جِن کا ایک پیگ ملا دیا تھا۔
ملک سے حمید کی نئی نئی دوستی ہوئی تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حمید اِس شرارت سے باز رہتا مگر اُن دنوں وہ اِس قدر زندہ دل اور شرارت پسند تھا کہ جب بیرا ملک کے لیے لیمونیڈ کا دوسرا گلاس لایا اور اُس کی طرف دیکھ کر مسکرایا تو وہ اِس خیال سے بہت خوش ہوا کہ ایک کے بجائے دو پیگ ملک کے پیٹ کے اندر چلے جائیں گے۔
ملک آہستہ آہستہ لیمونیڈ ملی جن پیتا رہا اور حمید دل ہی دل میں اُس کبوتر کی طرح گٹگٹاتا رہا جس کے پاس ایک کبوتری آ بیٹھی ہو۔
اُس نے جلدی جلدی اپنا تیسرا پیگ ختم کیا اور ملک سے پوچھا: ’’اور پئیں گے آپ؟‘‘
ملک نے غیرمعمولی سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا: ’’نہیں۔‘‘ پھر اُس نے بڑے روکھے انداز میں کہا، ’’اگر تمہیں اور پینا ہے تو پیو، میں جائوں گا۔ مجھے ایک ضروری کام ہے۔‘‘
اِس مختصر گفتگو کے بعد دونوں اٹھے۔ حمید نے دوسرے کمرے میں جا کر بل ادا کیا۔ جب وہ ریسٹوران سے باہر نکلے تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ حمید کے دل میں یہ خواہش چٹکیاں لینے لگی کہ وہ ملک پر اپنی شرارت واضح کر دے مگر اچّھے موقع کی تلاش میں کافی وقت گزر گیا۔ ملک بالکل خاموش تھا اور حمید کے اندر پھلجھڑی سی چھوٹ رہی تھی۔ بے شمار ننھی ننھی خوب صورت اور شوخ و شنگ باتیں اُس کے دل و دماغ میں پیدا ہو ہو کر بجھ رہی تھیں۔ وہ ملک کی خاموشی سے پریشان ہو رہا تھا اور جب اس نے اپنی پریشانی کا اظہار نہ کیا تو آہستہ آہستہ اس کی طبیعت پر ایک افسردگی سی طاری ہو گئی۔ وہ محسوس کرنے لگا کہ اُس کی شرارت اب دم کٹی گلہری بن کر رہ گئی ہے۔ 
دیر تک دونوں بالکل خاموش چلتے رہے۔ جب کمپنی باغ آیا تو ملک ایک بینچ پر مفکّرانہ انداز میں بیٹھ گیا۔ چند لمحات ایسی خاموشی میں گزرے کہ حمید کے دل میں وہاں سے اٹھ بھاگنے کی خواہش پیدا ہوئی مگر اُس وقت زیادہ دیر تک دبے رہنے کے باعث اُس کی تمام تیزی اور طرّاری ماند پڑ چکی تھی۔ 
ملک بینچ پر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’حمید، تم نے آج مجھے روحانی تکلیف پہنچائی ہے ...... تمہیں یہ شرارت نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘‘ اُس کی آواز میں اور درد پیدا ہو گیا، ’’تم نہیں جانتے کہ تمہاری اِس شرارت سے مجھے کس قدر روحانی تکلیف پہنچی ہے۔ اﷲ تمہیں معاف کرے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور حمید اپنے آپ کو بڑی شدّت سے گناہ گار محسوس کرنے لگا۔ معافی مانگنے کا خیال اُس کو آیا تھا مگر ملک باغ سے نکل کر باہر سڑک پر پہنچ چکا تھا۔
ملک کے چلے جانے کے بعد حمید گناہ اور ثواب کے چکّر میں پھنس گیا۔ شراب کے حرام ہونے کے متعلق اُس نے جتنی باتیں لوگوں سے سنی تھیں، سب کی سب اُس کے کانوں میں بھنبھنانے لگیں:
’’شراب اخلاق بگاڑ دیتی ہے ...... شراب، خانہ خراب ہے۔ شراب پی کر آدمی بے ادب اور بے حیا ہو جاتا ہے، شراب اِسی لیے حرام ہے۔ شراب صحت کا ستیاناس کر دیتی ہے، اِس کے پینے سے پھیپھڑے چھلنی ہو جاتے ہیں ...... شراب......‘‘
شراب، شراب، کی ایک لامتناہی گردان حمید کے دماغ میں شروع ہو گئی اور اس کی تمام برائیاں ایک ایک کر کے اُس کے سامنے آ گئیں۔ 
’’سب سے بڑی برائی تو یہ ہے‘‘ حمید نے محسوس کیا کہ ’’میں نے بے ضرر شرارت سمجھ کر ایک شریف آدمی کو دھوکے سے شراب پلا دی ہے۔ ممکن ہے وہ پکّا نمازی اور پرہیزگار ہو۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ غلطی میری ہے اور سارا گناہ میرے ہی سر ہو گا مگر اُسے جو روحانی تکلیف پہنچی ہے اُس کا کیا ہو گا؟ واﷲباﷲ میرا یہ مقصد نہیں تھا کہ اُسے تکلیف پہنچے ...... میں اُس سے معافی مانگ لوں گا اور ...... لیکن اس سے معافی مانگ کر بھی تو میرا گناہ ہلکا نہیں ہو گا۔ ایک میں نے شراب پی اوپر سے اُس کو دھوکا دے کر پلائی۔‘‘
وسکی کا نشہ اُس کے دماغ میں جماہیاں لینے لگا جس سے اس کا احساسِ گناہ گھنائونی شکل اختیار کر گیا، ’’مجھے معافی مانگنی چاہیے، مجھے شراب چھوڑ دینی چاہیے ...... مجھے گناہوں سے پاک زندگی بسر کرنی چاہیے۔‘‘
اُس کو شراب شروع کیے صرف دو برس ہوئے تھے۔ ابھی تک وہ اِس کا عادی نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ اس نے گھر لوٹتے ہوئے راستے میں دوسری باتوں کے ساتھ اِس پر بھی غور کیا، ’’میں شراب کو ہاتھ تک نہیں لگائوں گا۔ یہ کوئی ضروری چیز نہیں۔ میں اس کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہوں ...... دنیا کہتی ہے ...... دنیا کہتی ہے تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ منہ سے لگی ہوئی یہ چُھٹ ہی نہیں سکتی۔ میں اِسے بالکل چھوڑ دوں گا ...... میں اِس خیال کو غلط ثابت کر دوں گا۔‘‘
یہ سوچتے ہوئے حمید نے خود کو ایک ہیرو محسوس کیا۔ پھر ایک دم اس کے دماغ میں خدا کا خیال آیا جس نے اسے تباہی سے بچا لیا تھا، ’’مجھے شکر بجا لانا چاہیے کہ میرے سینے میں نور پیدا ہو گیا ہے۔ میں نہ جانے کتنی دیر تک اِس کھائی میں پڑا رہتا۔‘‘
وہ اپنی گلی میں پہنچ چکا تھا۔ اوپر آسمان پر گدلے بادلوں میں چاند، صابن کے جھاگ لگے گالوں کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ ہوا خنک تھی۔ فضا بالکل خاموش تھی ...... حمید پر خدا کے رعب اور شراب نوشی سے بچ جانے کے احساس نے رِقّت طاری کر دی۔ اُس نے شکرانے کا سجدہ کرنا چاہا۔ وہیں پتھریلی زمین پر اس نے گھٹنے ٹیک کر اپنا ماتھا رگڑنا چاہا۔ اِس خیال سے کہ اسے کوئی دیکھ لے گا وہ کچھ دیر کے لیے ٹھٹک گیا مگر فوراً ہی یہ سوچ کر کہ یوں خدا کی نگاہوں میں اُس کی وقعت بڑھ جائے گی، وہ ڈُبکی لگانے کے انداز میں جھکا اور اپنی پیشانی گلی کے ٹھنڈے ٹھنڈے پتھریلے فرش کے ساتھ جوڑ دی۔ 
جب وہ اٹھا تو اُس نے اپنے آپ کو ایک بہت بڑا آدمی محسوس کیا۔ اس نے جب آس پاس کی اونچی دیواروں کو دیکھا تو وہ اُسے اپنے قد کے مقابلے میں بہت پست معلوم ہوئیں۔
اِس واقعے کے ڈیڑھ مہینے بعد، اِسی کمرے میں جہاں اب حمید بیٹھا اپنی سات برس کی پرانی تصویر پر رشک کھا رہا تھا، اُس کا دوست ملک آیا۔ اندر آتے ہی اُس نے اپنی جیب سے بلیک اینڈ وہائٹ کا ادھا نکالا اور زور سے میز پر رکھ کر کہا، ’’حمید آئو ...... آج پِییں اور خوب پِییں ...... یہ ختم ہو جائے گی تو اور لائیں گے۔‘‘
حمید اِس قدر متحیر ہوا کہ وہ اُس سے کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ ملک نے دوسری جیب سے سوڈے کی بوتل نکالی، تپائی پر سے گلاس اٹھا کر اُس میں شراب انڈیلی، سوڈے کی بوتل انگوٹھے سے کھولی اور حمید کی متحیر آنکھوں کے سامنے وہ دو پیگ غٹاغٹ پی گیا۔ 
حمید نے تتلاتے [؟ ہکلاتے] ہوئے کہا، ’’لیکن ... لیکن ... اُس روز تم نے مجھے اِتنا بُرا بھلا کہا تھا......‘‘
ملک نے ایک قہقہہ بلند کیا، ’’تم نے مجھ سے شرارت کی، میں نے بھی اُس کے جواب میں تم سے شرارتاً کچھ کہہ دیا ...... مگر بھئی، ایمان کی بات ہے جو مزہ اُس روز جِن کے دو پیگ پینے میں آیا ہے، زندگی بھر کبھی نہیں آئے گا ...... لو اب چھوڑو اُس قصّے کو ...... وِسکی پیو۔ جِن وِن بکواس ہے۔ شراب پینی ہو تو وِسکی پینی چاہیے۔‘‘
یہ سن کر حمید کو ایسا محسوس ہوا تھا کہ جو سجدہ اُس نے گلی میں کیا تھا، ٹھنڈے فرش سے نکل کر اُس کی پیشانی پر چپک گیا ہے۔
یہ سجدہ بھوت کی طرح حمید کی زندگی سے چمٹ گیا تھا۔ اُس نے اِس سے نجات حاصل کرنے کے لیے پھر پینا شروع کی مگر اس سے بھی کچھ فائدہ نہ ہوا۔
اُن سات برسوں میں جو اُس کی پرانی تصویر اور اُس کے درمیان کُھلے ہوئے تھے، یہ ایک سجدہ بے شمار مرتبہ حمید کو اُس کی اپنی نگاہوں میں ذلیل و رسوا کر چکا تھا۔ اُس کی خودی، اس کی تخلیقی قوت، اُس کی زندگی کی وہ حرارت جس سے حمید اپنے ماحول کو گرما کے رکھنا چاہتا تھا، اِس سجدے نے قریب قریب سرد کر دی تھی۔ یہ سجدہ اُس کی زندگی میں ایک ایسی خراب بریک بن گئی تھی [؟ بن گیا تھا] جو کبھی کبھی اپنے آپ، اُس کے چلتے ہوئے پہیوں کو ایک دھچکے کے ساتھ ٹھہرا دیتی تھی [؟ دیتا تھا]۔ 
سات برس کی پرانی تصویر اُس کے سامنے میز پر پڑی تھی۔ جب سارا واقعہ اُس کے دماغ میں پوری تفصیل کے ساتھ دُہرایا جا چکا تو اُس کے اندر ایک ناقابلِ بیان اضطراب پیدا ہو گیا، وہ ایسا محسوس کرنے لگا جیسے اُس کو قے ہونے والی ہے۔
وہ گھبرا کر اٹھا اور سامنے کی دیوار کے ساتھ اُس نے اپنا ماتھا رگڑنا شروع کر دیا جیسے وہ اُس سجدے کا نشان مٹانا چاہتا ہے۔ اِس عمل سے اسے جب جسمانی تکلیف پہنچی تو وہ پھر کرسی پر بیٹھ گیا ...... سر جھکا کر اور کاندھے ڈھیلے کر کے اُس نے تھکی ہوئی آواز میں کہا، ’’اے خدا! میرا سجدہ مجھے واپس دے دے......!‘‘

کالی شلوار (منٹو)


دہلی آنے سے پہلے وہ انبالہ چھائونی میں تھی جہاں کئی گورے اُس کے گاہک تھے۔ اُن گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی، اُن کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی لیکن جب وہ دہلی میں آئی اور اُس کا کاروبار نہ چلا تو ایک دن اُس نے اپنی پڑوسن، طمنچہ جان سے کہا: ’’دس لیف ...... ویری بیڈ‘‘ یعنی یہ زندگی بہت بُری ہے جبکہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔ 
انبالہ چھائونی میں اُس کا دھندا بہت اچھی طرح چلتا تھا۔ چھائونی کے گورے شراب پی کر اُس کے پاس آجاتے تھے اور وہ تین چار گھنٹوں ہی میں آٹھ دس گوروں کو نمٹا کر بیس تیس روپے پیدا کر لیا کرتی تھی۔ یہ گورے اُس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں بہت اچھے تھے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر اُن کی زبان سے یہ لاعلمی اُس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ، اُس سے کچھ رعایت چاہتے تو وہ سر ہلا کر کہہ دیا کرتی تھی: ’’صاحب، ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں آتا۔‘‘ اور اگر وہ، اُس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑچھاڑ کرتے تو وہ، اُن کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کر دیتی تھی۔ وہ حیرت میں اُس کے منہ کی طرف دیکھتے تو وہ، اُن سے کہتی: ’’صاحب، تم ایک دم اُلو کا پٹھا ہے۔ حرام زادہ ہے ...... سمجھا!‘‘ یہ کہتے وقت وہ اپنے لہجے میں سختی پیدا نہ کرتی بلکہ بڑے پیار کے ساتھ اُن سے باتیں کرتی ...... گورے ہنس دیتے اور ہنستے وقت وہ سلطانہ کو بالکل اُلو کے پٹھے دکھائی دیتے۔ 
مگر یہاں دہلی میں، وہ جب سے آئی تھی، ایک گورا بھی اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین مہینے اُس کو ہندوستان کے اِس شہر میں رہتے ہو گئے تھے جہاں، اُس نے سنا تھا کہ بڑے لاٹ صاحب رہتے ہیں جو گرمیوں میں شملے چلے جاتے ہیں، صرف چھ آدمی اُس کے پاس آئے تھے۔ صرف چھ، یعنی مہینے میں دو، اور اُن چھ گاہکوں سے اُس نے، خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیے تھے۔ تین روپے سے زیادہ پر کوئی مانتا ہی نہیں تھا۔ سلطانہ نے اُن میں سے پانچ آدمیوں کو اپنا ریٹ دس روپے بتایا تھا، مگر تعجب کی بات ہے کہ اُن میں سے ہر ایک نے یہی کہا: ’’بھئی ہم تین روپے سے زیادہ ایک کوڑی نہیں دیں گے، جانے کیا بات تھی کہ اُن میں سے ہر ایک نے اُسے صرف تین روپے کے قابل سمجھا۔ چنانچہ جب چھٹا آیا تو اُس نے خود اُس سے کہا: ’’دیکھو، میں تین روپے ایک ٹیم کے لوں گی۔ اِس سے ایک ادھیلا، تم کم کہو تو نہ ہو گا اب تمہاری مرضی ہو تو رہو، ورنہ جائو۔‘‘ چھٹے آدمی نے یہ بات سن کر تکرار نہ کی اور اُس کے ہاں ٹھہر گیا۔ جب دوسرے کمرے میں، دروازے وروازے بند کر کے، وہ اپنا کوٹ اتارنے لگا تو سلطانہ نے کہا: ’’لائیے ایک روپیہ دودھ کا۔‘‘ اُس نے ایک روپیہ تو نہ دیا لیکن نئے بادشاہ کی چمکتی ہوئی اٹھنی، جیب میں سے نکال کر اُس کو دے دی اور سلطانہ نے بھی چپکے سے لے لی کہ چلو جو آیا ہے غنیمت ہے۔ 
ساڑھے اٹھارہ روپے، تین مہینوں میں ...... بیس روپے ماہ وار  تو اُس کوٹھے کا کرایہ تھا جس کو مالک مکان انگریزی زبان میں فلیٹ کہتا تھا۔ اِس فلیٹ میں ایسا پاخانہ تھا جس میں زنجیر کھینچنے سے ساری گندگی، پانی کے زور سے ایک دم نیچے نل میں غائب ہو جاتی تھی اور بڑا شور ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اِس شور نے اُسے بہت ڈرایا تھا۔ پہلے دن جب وہ رفع حاجت کے لیے اس پاخانے میں گئی تو اُس کی کمر میں شدت کا درد ہو رہا تھا۔ فارغ ہو کر جب اٹھنے لگی تو اُس نے لٹکی ہوئی زنجیر کا سہارا لے لیا۔ اس زنجیر کو دیکھ کر اس نے خیال کیا چونکہ یہ مکان خاص ہم لوگوں کی رہائش کے لیے تیار کیے گئے ہیں، یہ زنجیر اسی لیے لگائی گئی ہے کہ اُٹھتے وقت تکلیف نہ ہو اور سہارا مل جایا کرے مگر جوں ہی اُس نے زنجیر کو پکڑ کر اٹھنا چاہا، اوپر کھٹ کھٹ سی ہوئی اور پھر ایک دم پانی اِس زور کے ساتھ باہر نکلا کہ ڈر کے مارے اُس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ 
خدا بخش دوسرے کمرے میں اپنا فوٹوگرافی کا سامان درست کر رہا تھا اور ایک صاف بوتل میں ہائی ڈرو کونین ڈال رہا تھا کہ اُس نے سلطانہ کی چیخ سنی، دوڑ کر وہ باہر نکلا اور سلطانہ سے پوچھا: ’’کیا ہوا؟ ...... یہ چیخ تمہاری تھی؟‘‘
سلطانہ کا دل دھڑک رہا تھا۔ اُس نے کہا: ’’یہ موا پے خانہ ہے یا کیا ہے ...... بیچ میں یہ ریل گاڑیوں کی طرح زنجیر کیا لٹکا رکھی ہے؟ میری کمر میں درد تھا، میں نے کہا چلو اِس کا سہارا لے لوں گی، پر اِس موئی زنجیر کو چھیڑنا تھا کہ وہ دھماکا ہوا کہ میں تم سے کیا کہوں!‘‘
اِس پر خدابخش بہت ہنسا تھا اور اُس نے سلطانہ کو اِس پے خانے  کی بابت سب کچھ بتا دیا تھا کہ یہ نئے فیشن کا ہے جس میں زنجیر ہلانے سے سب گندگی زمین میں دھنس جاتی ہے۔ 
خدا بخش اور سلطانہ کا آپس میں کیسے سمبندھ ہوا، یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ خدا بخش راولپنڈی کا تھا۔ انٹرینس پاس کرنے کے بعد اُس نے لاری چلانا سیکھی چنانچہ چار برس تک وہ راولپنڈی اور کشمیر کے درمیان لاری چلانے کا کام کرتا رہا۔ اِس کے بعد کشمیر میں اُس کی دوستی ایک عورت سے ہو گئی، اُس کو بھگا کر وہ ساتھ لے آیا۔ لاہور میں چونکہ اُس کو کوئی کام نہ ملا اِس لیے اُس نے عورت کو پیشے بٹھا دیا۔ دو تین برس تک یہ سلسلہ جاری رہا اور وہ عورت کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی۔ خدا بخش کو معلوم ہوا کہ وہ انبالے میں ہے۔ وہ اُس کی تلاش میں آیا جہاں اُس کو سلطانہ مل گئی۔ سلطانہ نے اُس کو پسند کیا۔ چنانچہ دونوں کا سمبندھ ہو گیا۔ 
خدا بخش کے آنے سے ایک دم سلطانہ کا کاروبار چمک اٹھا۔ عورت چونکہ ضعیف الاعتقاد تھی اِس لیے اُس نے سمجھا کہ خدابخش بڑا بھاگوان ہے جس کے آنے سے اتنی ترقی ہو گئی ہے۔ چنانچہ اِس خوش اعتقادی نے خدا بخش کی وقعت اُس کی نظروں میں اور بھی بڑھا دی۔ 
خدا بخش آدمی محنتی تھا۔ سارا دن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ اُس نے ایک فوٹوگرافر سے دوستی پیدا کی جو ریلوے اسٹیشن کے باہر منٹ کیمرے سے فوٹو کھینچا کرتا تھا۔ اُس سے اِس نے فوٹو کھینچنا سیکھا پھر سلطانہ سے ساٹھ روپے لے کر کیمرا بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ ایک پردہ بنوایا، دو کرسیاں خریدیں اور فوٹو دھونے کا سب سامان لے کر اُس نے علاحدہ اپنا کام شروع کر دیا۔ 
کام چل نکلا، چنانچہ اُس نے تھوڑی ہی دیر کے بعد اپنا اڈّا، انبالہ چھائونی میں قائم کر دیا۔ یہاں وہ گوروں کے فوٹو کھینچتا۔ ایک مہینے کے اندر اندر اُس کی چھائونی کے متعدّد گوروں سے واقفیت ہو گئی، چنانچہ وہ سلطانہ کو وہیں لے گیا۔ یہاں چھائونی میں خدا بخش کے ذریعے سے کئی گورے، سلطانہ کے مستقل گاہک بن گئے۔
سلطانہ نے کانوں کے لیے بندے خریدے، ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں بھی بنوائیں، دس پندرہ اچھی اچھی ساڑیاں بھی جمع کر لیں، گھر میں فرنیچر وغیرہ بھی آ گیا۔ قصہ مختصر یہ کہ انبالہ چھائونی میں وہ بڑی خوش حال تھی مگر ایکاایکی، جانے خدابخش کے دل میں کیا سمائی کہ اُس نے دہلی جانے کی ٹھان لی۔ سلطانہ انکار کیسے کرتی جبکہ خدابخش کو اپنے لیے بہت مبارک خیال کرتی تھی۔ اُس نے خوشی خوشی دہلی جانا قبول کر لیا۔ بلکہ اُس نے یہ بھی سوچا کہ اِتنے بڑے شہر میں جہاں لاٹ صاحب رہتے ہیں، اُس کا دھندا اور بھی اچھا چلے گا۔ اپنی سہیلیوں سے وہ دہلی کی تعریف سن چکی تھی۔ پھر وہاں حضرت نظام الدین اولیا کی خانقاہ تھی جس سے اُسے بے حد عقیدت تھی، چنانچہ جلدی جلدی گھر کا بھاری سامان بیچ باچ کر، وہ خدابخش کے ساتھ دہلی آ گئی۔ یہاں پہنچ کر خدابخش نے بیس روپے ماہ وار پر یہ فلیٹ لے لیا جس میں دونوں رہنے لگے۔ 
ایک ہی قسم کے، نئے مکانوں کی لمبی سی قطار، سڑک کے ساتھ ساتھ چلی گئی ہے۔ میونسپل کمیٹی نے شہر کا یہ حصہ خاص کسبیوں کے لیے مقرر کر دیا تھا تاکہ وہ شہر میں جگہ جگہ اپنے اڈّے نہ بنائیں۔ نیچے دُکانیں تھیں اور اوپر دو منزلہ رہائشی فلیٹ۔ چونکہ سب عمارتیں ایک ہی ڈیزائن کی ہیں اِس لیے شروع شروع میں سلطانہ کو اپنا فلیٹ تلاش کرنے میں بہت دقت محسوس ہوئی تھی۔ پر جب نیچے [نیچے کے؟] لانڈری والے نے اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگا دیا تو اُس کو ایک پکی نشانی مل گئی۔ ’’یہاں میلے کپڑوں کی دُھلائی کی جاتی ہے۔‘‘ یہ بورڈ پڑھتے ہی وہ اپنا فلیٹ تلاش کر لیا کرتی تھی۔ اِسی طرح اُس نے، اور بہت سی نشانیاں قائم کر لی تھیں۔ مثلاً بڑے بڑے حروف میں جہاں ’’کوئلوں کی دُکان‘‘ لکھا تھا، وہاں اُس کی سہیلی ہیرابائی رہتی تھی جو کبھی کبھی ریڈیو گھر میں گانے جایا کرتی تھی۔ جہاں ’’شرفا کے لیے کھانے کا اعلیٰ انتظام ہے‘‘ لکھا تھا، وہاں اُس کی دوسری سہیلی مختار رہتی تھی۔ نواڑ کے کارخانے کے اوپر انوری رہتی تھی جو اُسی کارخانے کے سیٹھ کے پاس ملازم تھی۔ چونکہ سیٹھ صاحب کو رات کے وقت اپنے کارخانے کی دیکھ بھال کرنا ہوتی تھی اِس لیے وہ انوری کے پاس ہی رہتے تھے۔ 
دُکان کھولتے ہی گاہک تھوڑے ہی آتے ہیں۔ چنانچہ جب ایک مہینے تک سلطانہ بیکار رہی تو اُس نے یہی سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی، پر جب دو مہینے گزر گئے اور کوئی آدمی اس کے کوٹھے پر نہ آیا تو اسے بہت تشویش ہوئی۔ اس نے خدا بخش سے کہا: ’’کیا بات ہے خدابخش، پورے دو مہینے ہوگئے ہیں، ہمیں یہاں آئے ہوئے، کسی نے اِدھر کا رخ بھی نہیں کیا ...... مانتی ہوں، آج کل بازار بہت مندا ہے، پر اتنا مندا بھی تو نہیں، کہ مہینے بھر میں کوئی شکل دیکھنے ہی میں نہ آئے!‘‘ خدابخش کو بھی یہ بات بہت عرصے سے کھٹک رہی تھی مگر وہ خاموش تھا، پر جب سلطانہ نے خود بات چھیڑی تو اُس نے کہا: ’’میں کئی دنوں سے اِس کی بابت سوچ رہا ہوں۔ ایک بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ کہ جنگ کی وجہ سے لوگ باگ دوسرے دھندوں میں پڑ کر اِدھر کا رَستہ بھول گئے ہیں ...... یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ ...‘‘ وہ اِس کے آگے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز آئی۔ خدابخش اور سلطانہ دونوں اُس آواز کی طرف متوجہ ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دستک ہوئی، خدابخش نے لپک کر دروازہ کھولا، ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ یہ پہلا گاہک تھا جس سے تین روپے میں سودا طے ہوا۔ اس کے بعد پانچ اور آئے یعنی تین مہینے میں چھ، جن سے سلطانہ نے صرف ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیے۔ 
بیس روپے ماہ وار تو فلیٹ کے کرائے میں چلے جاتے تھے، پانی کا ٹیکس اور بجلی کا بل جدا۔ اِس کے علاوہ گھر کے دوسرے خرچ: کھانا پینا، کپڑے لتے، دوادارو، اور آمدن کچھ بھی نہیں تھی۔ ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینے میں آئے تو اِسے آمدن تو نہیں کہہ سکتے، سلطانہ پریشان ہو گئی۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں جو اُس نے انبالے میں بنوائی تھیں، آہستہ آہستہ بک گئیں۔ آخری کنگنی کی جب باری آئی تو اُس نے خدابخش سے کہا: ’’تم میری سنو اور چلو واپس انبالے ...... یہاں کیا دھرا ہے؟ ...... بھئی ہو گا، پر ہمیں تو یہ شہر راس نہیں آیا۔ تمہارا کام بھی وہاں خوب چلتا تھا، چلو، وہیں چلتے ہیں۔ جو نقصان ہوا ہے اُس کو، اپنا سر صدقہ سمجھو۔ اِس کنگنی کو بیچ کر آئو، میں اسباب وغیرہ باندھ کر تیار رکھتی ہوں۔ آج رات کی گاڑی سے یہاں سے چل دیں گے۔‘‘
خدابخش نے کنگنی سلطانہ کے ہاتھ سے لے لی اور کہا: ’’نہیں جان من، انبالے نہیں جائیں گے، یہیں دہلی میں رہ کر کمائیں گے، یہ تمہاری چوڑیاں سب کی سب یہیں واپس آئیں گی۔ اﷲ پر بھروسا رکھو، وہ بڑا کارساز ہے۔ یہاں بھی وہ کوئی نہ کوئی اسباب بنا ہی دے گا۔‘‘
سلطانہ چُپ ہو رہی، چنانچہ آخری کنگنی بھی ہاتھ سے اُتر گئی۔ بُچے ہاتھ دیکھ کر اُس کو بہت دکھ ہوتا تھا، پر کیا کرتی، پیٹ بھی تو آخر کسی حیلے سے بھرنا تھا۔ 
جب پانچ مہینے گزر گئے اور آمدن خرچ کے مقابلے میں چوتھائی سے بھی کچھ کم رہی تو سلطانہ کی پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ خدابخش بھی سارا دن اب گھر سے غائب رہنے لگا تھا۔ سلطانہ کو اِس کا بھی دکھ تھا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوس میں اُس کی دو تین ملنے والیاں موجود تھیں جن کے ساتھ وہ اپنا وقت کاٹ سکتی تھی۔ پر ہر روز اُن کے یہاں جانا اور گھنٹوں بیٹھے رہنا اُس کو بہت برا لگتا تھا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ اُس نے ان سہیلیوں سے ملنا جلنا بالکل ترک کر دیا۔ سارا دن وہ اپنے سنسان مکان میں بیٹھی رہتی، کبھی چھالیہ کاٹتی رہتی، کبھی اپنے پرانے اور پھٹے ہوئے کپڑوں کو سیتی رہتی اور کبھی باہر بالکنی میں آ کر جنگلے کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو جاتی، اور سامنے ریلوے شیڈ میں ساکت اور متحرک اِنجنوں کی طرف گھنٹوں بے مطلب دیکھتی رہتی۔ 
سڑک کی دوسری طرف مال گودام تھا جو اِس کونے سے اُس کونے تک پھیلا ہوا تھا۔ داہنے ہاتھ کو لوہے کی چھت کے نیچے بڑی بڑی گانٹھیں پڑی رہتی تھیں اور ہر قسم کے مال و اسباب کے ڈھیر سے لگے رہتے تھے۔ بائیں ہاتھ کو کھلا میدان تھا جس میں بے شمار ریل کی پٹڑیاں بچھی ہوئی تھیں۔ دھوپ میں لوہے کی یہ پٹڑیاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل اُن پٹڑیوں کی طرح ابھری رہتی تھیں۔ اُس لمبے اور کھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیاں چلتی رہتی تھیں، کبھی اِدھر کبھی اُدھر۔ اُن انجنوں اور گاڑیوں کی چھک چھک پھک پھک سدا گونجتی رہتی تھی۔ صبح سویرے جب وہ اٹھ کر بالکنی میں آتی تو ایک عجیب سماں نظر آتا: دھندلکے میں انجنوں کے منہ سے گاڑھا گاڑھا دھواں نکلتا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اُٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بڑے بادل بھی ایک شور کے ساتھ پٹڑیوں سے اُٹھتے اور آنکھ جھپکنے کی دیر میں ہوا کے اندر گھل مل جاتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہو [چھوڑ دیا ہوتا؟]، اکیلے پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی تو اُسے اپنا خیال آتا۔ وہ سوچتی کہ اُسے بھی کسی نے زندگی کی پٹڑی پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور وہ خودبخود جا رہی ہے۔ دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جا رہی ہے ...... نہ جانے کہاں؟ پھر ایک روز ایسا آئے گا جب اُس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہوگا، اور وہ کہیں رک جائے گی، کسی ایسے مقام پر جو اُس کا دیکھابھالا نہ ہو گا۔ 
یوں تو وہ، بے مطلب، گھنٹوں ریل کی اِن ٹیڑھی بانکی پٹڑیوں اور ٹھہرے اور چلتے ہوئے اِنجنوں کی طرف دیکھتی رہتی، پر طرح طرح کے خیال اُس کے دماغ میں آتے رہتے تھے۔ انبالہ چھائونی میں جب وہ رہتی تھی تو اسٹیشن کے پاس ہی اُس کا مکان تھا مگر وہاں اُس نے کبھی اِن چیزوں کو ایسی نظروں سے نہیں دیکھا تھا۔ اب تو کبھی کبھی اُس کے دماغ میں یہ بھی خیال آتا کہ یہ جو سامنے ریل کی پٹڑیوں کا جال سا بچھا ہے اور جگہ جگہ سے بھاپ اور دھواں اٹھ رہا ہے، ایک بہت بڑا چکلا ہے۔ بہت سی گاڑیاں ہیں جن کو چند موٹے موٹے انجن اِدھر اُدھر دھکیلتے رہتے ہیں۔ سلطانہ کو تو بعض اوقات یہ [بعض اوقات تو یہ؟] انجن، سیٹھ معلوم ہوتے جو کبھی کبھی انبالہ میں اُس کے ہاں آیا کرتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ کسی انجن کو آہستہ آہستہ گاڑیوں کی قطار کے پاس سے گزرتا دیکھتی تو اُسے ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی آدمی، چکلے کے کسی بازار میں سے اوپر کوٹھوں کی طرف دیکھتا جا رہا ہے۔ 
سلطانہ سمجھتی تھی کہ ایسی باتیں سوچنا دماغ کی خرابی کا باعث ہے، چنانچہ جب اِس قسم کے خیال اُس کو آنے لگے تو اُس نے بالکنی میں جانا چھوڑ دیا۔ خدا بخش سے اُس نے بارہا کہا: ’’دیکھو، میرے حال پر رحم کرو۔ یہاں گھر میں رہا کرو۔ میں سارا دن یہاں بیماروں کی طرح پڑی رہتی ہوں۔‘‘ مگر اُس نے ہر بار سلطانہ سے یہ کہہ کر اُس کی تشفی کر دی: ’’جانِ من! میں باہر کچھ کمانے کی فکر کر رہا ہوں۔ اﷲ نے چاہا تو چند دنوں میں ہی بیڑا پار ہو جائے گا۔‘‘
پورے پانچ مہینے ہو گئے تھے مگر ابھی تک سلطانہ کا بیڑاپار ہوا تھا نہ خدا بخش کا۔ 
محرم کا مہینہ سر پر آ رہا تھا مگر سلطانہ کے پاس کالے کپڑے بنوانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ مختار نے لیڈی ہیملٹن کی ایک نئی وضع کی قمیص بنوائی تھی جس کی آستینیں کالی جارجٹ کی تھیں۔ اِس کے ساتھ میچ کرنے کے لیے اُس کے پاس کالی ساٹن کی شلوار تھی جو کاجل کی طرح چمکتی تھی۔ انوری نے ریشمی جارجٹ کی ایک بڑی نفیس ساڑی خریدی تھی۔ اُس نے سلطانہ سے کہا تھا کہ وہ اِس ساڑی کے نیچے سفید بوسکی کا پیٹی کوٹ پہنے گی کیونکہ یہ نیا فیشن ہے۔ اس ساڑی کے ساتھ پہننے کو انوری، کالی مخمل کا ایک جوتا لائی تھی جو بڑا نازک تھا۔ سلطانہ نے جب یہ تمام چیزیں دیکھیں تو اُس کو اِس احساس نے بہت دکھ دیا کہ وہ محرم منانے کے لیے ایسا لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ 
انوری اور مختار کے پاس یہ لباس دیکھ کر جب وہ گھر آئی تو اُس کا دل بہت مغموم تھا۔ اُسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک پھوڑا سا اُس کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ گھر بالکل خالی تھا۔ خدابخش حسبِ معمول باہر تھا۔ دیر تک وہ دری پر گائو تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹی رہی۔ پر جب اُس کی گردن اونچائی کے باعث اکڑ سی گئی تو باہر بالکنی میں چلی گئی تاکہ غم افزا خیالات کو اپنے دماغ میں سے نکال دے۔ 
سامنے پٹڑیوں پر گاڑیوں کے ڈبے کھڑے تھے پر انجن کوئی بھی نہ تھا۔ شام کا وقت تھا ...... چھڑکائو ہو چکا تھا اس لیے گرد و غبار دب گیا تھا۔ بازار میں ایسے آدمی چلنے شروع ہو گئے تھے جو تاک جھانک کرنے کے بعد چپ چاپ گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی نے، گردن اونچی کر کے سلطانہ کی طرف دیکھا، سلطانہ مسکرا دی اور اُس کو بھول گئی کیونکہ اب سامنے پٹڑیوں پر ایک انجن نمودار ہو گیا تھا۔ سلطانہ نے غور سے اُس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال اُس کے دماغ میں آیا کہ انجن نے بھی کالا لباس پہن رکھا ہے۔ یہ عجیب و غریب خیال دماغ میں سے نکالنے کی خاطر جب اس نے سڑک کی جانب دیکھا تو اُسے وہی آدمی بیل گاڑی کے پاس کھڑا نظر آیا جس نے اُس کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا تھا۔ سلطانہ نے ہاتھ سے اُسے اشارہ کیا۔ اُس آدمی نے اِدھر اُدھر دیکھ کر ایک لطیف اشارے سے پوچھا: کدھر سے آئوں؟ سلطانہ نے اُسے راستہ بتا دیا۔ وہ آدمی تھوڑی دیر کھڑا رہا مگر پھر بڑی پھرتی سے اوپر چلا آیا۔ 
سلطانہ نے اُسے دری پر بٹھایا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو اُس نے سلسلۂ گفتگو شروع کرنے کے لیے کہا: ’’آپ اوپر آتے ڈر کیوں رہے تھے؟‘‘ وہ آدمی یہ سن کر مسکرایا: ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا ...... ڈرنے کی بات ہی کیا تھی؟‘‘ اِس پر سلطانہ نے کہا: ’’یہ میں نے اِس لیے کہا کہ آپ دیر تک وہیں کھڑے رہے اور پھر کچھ سوچ کر اِدھر آئے۔‘‘ وہ یہ سن کر پھر مسکرایا: ’’تمہیں غلط فہمی ہوئی۔ میں تمہارے اوپر والے فلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں کوئی عورت کھڑی ایک مرد کو ٹھینگا دکھا رہی تھی۔ مجھے یہ منظر پسند آیا۔ پھر بالکنی میں سبز بلب روشن ہوا تو میں کچھ دیر کے لیے ٹھہر گیا۔ سبز روشنی مجھے پسند ہے۔ آنکھوں کو بہت اچھی لگتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ پھر وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ سلطانہ نے پوچھا: ’’آپ جا رہے ہیں؟‘‘ اُس آدمی نے جواب دیا: ’’نہیں، میں تمہارے اِس مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں ...... چلو مجھے تمام کمرے دکھائو۔‘‘
سلطانہ نے اُس کو تینوں کمرے ایک ایک کر کے دکھا دیے۔ اُس آدمی نے بالکل خاموشی سے ان کمروں کا معائنہ کیا۔ جب وہ دونوں پھر اُسی کمرے میں آ گئے جہاں پہلے بیٹھے تھے تو اُس آدمی نے کہا: ’’میرا نام شنکر ہے۔‘‘ 
سلطانہ نے پہلی بار غور سے شنکر کی طرف دیکھا: وہ متوسط قد کا، معمولی شکل و صورت کا آدمی تھا مگر اُس کی آنکھیں غیرمعمولی طور پر صاف اور شفاف تھیں۔ کبھی کبھی اُن میں ایک عجیب قسم کی چمک پیدا ہوتی تھی۔ گٹھیلا اور کسرتی بدن تھا۔ کنپٹیوں پر اُس کے بال سفید ہو رہے تھے۔ خاکستری رنگ کی گرم پتلون پہنے تھا۔ سفید قمیص تھی جس کا کالر گردن پر سے اُوپر کو اُٹھا ہوا تھا۔ 
شنکر کچھ اِس طرح دری پر بیٹھا تھا کہ معلوم ہوتا تھا شنکر کے بجائے سلطانہ گاہک ہے۔ اِس احساس نے سلطانہ کو قدرے پریشان کر دیا۔ چنانچہ اُس نے شنکر سے کہا: ’’فرمائیے......‘‘
شنکر بیٹھا تھا، یہ سن کر لیٹ گیا۔ ’’میں کیا فرمائوں، کچھ تم ہی فرمائو۔ بلایا تمہی نے ہے مجھے۔‘‘ جب سلطانہ کچھ نہ بولی تو وہ اٹھ بیٹھا۔ ’’میں سمجھا، لو اب مجھ سے سنو، جو کچھ تم نے سمجھا، غلط ہے، میں اُن لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کچھ دے کر جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی طرح میری بھی فیس ہے۔ مجھے جب بلایا جائے تو فیس دینا ہی پڑتی ہے۔‘‘
سلطانہ یہ سن کر چکرا گئی مگر اِس کے باوجود اُسے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ ’’آپ کام کیا کرتے ہیں؟‘‘
شنکر نے جواب دیا: ’’یہی جو تم لوگ کرتے ہو۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’تم کیا کرتی ہو؟‘‘
’’میں ... میں ... میں کچھ بھی نہیں کرتی۔‘‘ 
’’میں بھی کچھ نہیں کرتا۔‘‘
’’سلطانہ نے بھنا کر کہا: ’’یہ تو کوئی بات نہ ہوئی ...... آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہوں گے۔‘‘
شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا: ’’تم بھی کچھ نہ کچھ ضرور کرتی ہوگی۔‘‘
’’جھک مارتی ہوں۔‘‘
’’میں بھی جھک مارتا ہوں۔‘‘
’’تو آئو دونوں جھک ماریں۔‘‘
’’حاضر ہوں، مگر جھک مارنے کے دام میں کبھی نہیں دیا کرتا۔‘‘
’’ہوش کی دوا کرو! ...... یہ لنگرخانہ نہیں۔‘‘
’’اور میں بھی والنٹیئر نہیں ہوں۔‘‘
سلطانہ یہاں رک گئی۔ اُس نے پوچھا: ’’یہ والنٹیئر کون ہوتے ہیں؟‘‘
شنکر نے جواب دیا: ’’اُلو کے پٹھے۔‘‘ 
’’میں اُلو کی پٹھی نہیں۔‘‘
’’مگر وہ آدمی خدابخش جو تمہارے ساتھ رہتا ہے، ضرور اُلو کا پٹھا ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اِس لیے کہ وہ کئی دنوں سے، ایک ایسے خدارسیدہ فقیر کے پاس، اپنی قسمت کھلوانے کی خاطر جا رہا ہے جس کی اپنی قسمت، زنگ لگے تالے کی طرح بند ہے۔‘‘ یہ کہہ کر شنکر ہنسا۔ 
اِس پر سلطانہ نے کہا: ’’تم ہندو ہو، اِسی لیے ہمارے اِن بزرگوں کا مذاق اڑاتے ہو۔‘‘
شنکر مسکرایا: ’’ایسی جگہوں پر ہندو مسلم سوال پیدا نہیں ہوا کرتے۔ بڑے بڑے پنڈت اور مولوی بھی یہاں آئیں تو شریف آدمی بن جائیں‘‘۔
’’جانے کیا اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہو ...... بولو، رہو گے؟‘‘
’’اُسی شرط پر جو پہلے بتا چکا ہوں۔‘‘
سلطانہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’تو جائو رستہ پکڑو!‘‘
شنکر آرام سے اٹھا۔ پتلون کی جیبوں میں اپنے دونوں ہاتھ ٹھونسے اور جاتے ہوئے کہا: ’’میں کبھی کبھی اس بازار سے گزرا کرتا ہوں۔ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو، بلا لینا ...... بہت کام کا آدمی ہوں۔‘‘
شنکر چلا گیا اور سلطانہ، کالے لباس کو بھول کر، دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ اس آدمی کی باتوں نے اُس کے دکھ کو بہت ہلکا کر دیا تھا۔ اگر وہ انبالے میں آیا ہوتا جہاں کہ وہ خوش حال تھی تو اُس نے کسی اور ہی رنگ میں اِس آدمی کو دیکھا ہوتا، اور بہت ممکن ہے کہ اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا ہوتا، مگر یہاں چونکہ وہ بہت اداس رہتی تھی اِس لیے شنکر کی باتیں اُسے پسند آئیں۔ 
شام کو جب خدابخش آیا تو سلطانہ نے اُس سے پوچھا: ’’تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟‘‘
خدابخش تھک کر چورچور ہو رہا تھا، کہنے لگا: ’’پرانے قلعے کے پاس سے آ رہا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ، کچھ دنوں سے ٹھہرے ہوئے ہیں، اُنہی کے پاس ہر روز جاتا ہوں کہ ہمارے دن پھر جائیں ......‘‘
’’کچھ اُنہوں نے تم سے کہا؟‘‘
’’نہیں، ابھی وہ مہربان نہیں ہوئے ...... پر سلطانہ، میں جو اُن کی خدمت کر رہا ہوں، وہ اکارت کبھی نہیں جائے گی۔ اﷲ کا فضل شاملِ حال رہا، تو ضرور وارے نیارے ہو جائیں گے۔‘‘
سلطانہ کے دماغ میں محرم منانے کا خیال سمایا ہوا تھا، خدابخش سے رونی آواز میں کہنے لگی: ’’سارا سارا دن باہر غائب رہتے ہو ...... میں یہاں پنجرے میں قید رہتی ہوں، کہیں جا سکتی ہوں نہ آسکتی ہوں۔ محرم سر پر آ گیا ہے، کچھ تم نے اِس کی بھی فکر کی کہ مجھے کالے کپڑے چاہییں۔ گھر میں پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ کنگنیاں تھیں سو وہ ایک ایک کر کے بک گئیں۔ اب تم ہی بتائو، کیا ہوگا؟ ...... یوں فقیروں کے پیچھے کب تک مارے مارے پھرا کرو گے؟ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں دہلی میں، خدا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔ میری سنو تو اپنا کام شروع کر دو۔ کچھ تو سہارا ہو ہی جائے گا۔‘‘
خدابخش دری پر لیٹ گیا اور کہنے لگا: ’’پر یہ کام شروع کرنے کے لیے بھی تو تھوڑا بہت سرمایہ چاہیے ...... خدا کے لیے اب ایسی دکھ بھری باتیں نہ کرو۔ مجھ سے اب برداشت نہیں ہو سکتیں۔ میں نے سچ مچ، انبالہ چھوڑنے میں سخت غلطی کی۔ پر جو کرتا ہے، اﷲ ہی کرتا ہے اور ہماری بہتری ہی کے لیے کرتا ہے۔ کیا پتہ ہے، کچھ دیر اور تکلیفیں برداشت کرنے کے بعد ہم...‘‘
سلطانہ نے بات کاٹ کر کہا: ’’تم خدا کے لیے کچھ کرو۔ چوری کرو یا ڈاکا ڈالو، پر مجھے ایک شلوار کا کپڑا ضرور لا دو۔ میرے پاس سفید بوسکی کی قمیص پڑی ہے، اُس کو میں رنگوا لوں گی۔ سفید نینون کا ایک نیا دوپٹا بھی میرے پاس موجود ہے، وہی جو تم نے مجھے دیوالی پر لا کر دیا تھا، یہ بھی قمیص کے ساتھ ہی رنگوا لیا جائے گا۔ ایک صرف شلوار کی کسر ہے، سو وہ تم کسی نہ کسی طرح پیدا کر دو ...... دیکھو تمہیں میری جان کی قسم، کسی نہ کسی طرح ضرور لا دو ...... میری بھتّی کھائو، اگر نہ لائو۔‘‘
خدابخش اٹھ بیٹھا: ’’اب تم خواہ مخواہ زور دیے چلی جا رہی ہو ...... میں کہاں سے لائوں گا ...... افیم کھانے کے لیے تو میرے پاس ایک پیسہ نہیں۔‘‘
’’کچھ بھی کرو، مگر مجھے ساڑھے چار گز کالی ساٹن لا دو۔‘‘
’’دعا کرو کہ آج رات ہی اﷲ دو تین آدمی بھیج دے۔‘‘
’’لیکن تم کچھ نہیں کرو گے؟ ...... تم اگر چاہو تو ضرور اتنے پیسے پیدا کر سکتے ہو۔ جنگ سے پہلے یہ ساٹن بارہ چودہ آنے گز مل جاتی تھی، اب سوا روپے گز کے حساب سے ملتی ہے۔ ساڑھے چار گزوں پر کتنے روپے خرچ ہو جائیں گے؟‘‘
’’اب تم کہتی ہو تو میں کوئی حیلہ کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر خدابخش اٹھا: ’’لواب اِن باتوں کو بھول جائو، میں ہوٹل سے کھانا لے آئوں۔‘‘
ہوٹل سے کھانا آیا۔ دونوں نے مل کر زہر مار کیا اور سو گئے۔ صبح ہوئی۔ خدابخش پرانے قلعے والے فقیر کے پاس چلا گیا اور سلطانہ اکیلی رہ گئی۔ کچھ دیر لیٹی رہی، کچھ دیر سوئی رہی۔ اِدھر اُدھر کمروں میں ٹہلتی رہی۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اُس نے اپنا سفید نینون کا دوپٹا اور سفید بوسکی کی قمیص نکالی اور نیچے لانڈری والے کو رنگنے کے لیے دے آئی۔ کپڑے دھونے کے علاوہ وہاں رنگنے کا کام بھی ہوتا تھا۔ یہ کام کرنے کے بعد اُس نے واپس آ کر فلموں کی کتابیں پڑھیں جن میں اس کے دیکھے ہوئے فلموں کی کہانی [کہانیاں؟] اور گیت چھپے ہوئے تھے۔ یہ کتابیں پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی۔ جب اُٹھی تو چار بج چکے تھے کیونکہ دھوپ آنگن میں سے موری کے پاس پہنچ چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ ہوئی تو گرم چادر اوڑھ کر بالکنی میں آ کھڑی ہوئی۔ قریباً ایک گھنٹہ، سلطانہ بالکنی میں کھڑی رہی۔ اب شام ہو گئی تھی۔ بتیاں روشن ہو رہی تھیں۔ نیچے سڑک میں رونق کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ سردی میں تھوڑی سی شدت ہو گئی ...... مگر سلطانہ کو یہ ناگوار معلوم نہ ہوئی۔ وہ سڑک پر آتے جاتے تانگوں اور موٹروں کی طرف ایک عرصے سے دیکھ رہی تھی۔ دفعتاً اُسے شنکر نظر آیا۔ مکان کے نیچے پہنچ کر اُس نے گردن اونچی کی اور سلطانہ کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔ سلطانہ نے غیرارادی طور پر ہاتھ کا اشارہ کیا اور اُسے اوپر بلا لیا۔ 
جب شنکر اوپر آ گیا تو سلطانہ بہت پریشان ہوئی کہ اِس سے کیا کہے؟ دراصل اُس نے ایسے ہی بلاسوچے سمجھے اِسے اشارہ کر دیا تھا۔ شنکر بے حد مطمئن تھا جیسے اس کا اپنا گھر ہے۔ چنانچہ بڑی بے تکلفی سے، پہلے روز کی طرح، وہ گائو تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔ جب سلطانہ نے دیر تک اس سے کوئی بات نہ کی تو اس نے کہا: ’’تم مجھے سو دفعہ بلا سکتی اور سو دفعہ ہی کہہ سکتی ہو کہ چلے جائو ...... میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض نہیں ہوا کرتا۔‘‘
سلطانہ شش و پنج میں گرفتار ہو گئی، کہنے لگی: ’’نہیں بیٹھو، تمہیں جانے کو کون کہتا ہے۔‘‘
شنکر اِس پر مسکرا دیا۔ ’’تو میری شرطیں تمہیں منظور ہیں؟‘‘
’’کیسی شرطیں؟‘‘ سلطانہ نے ہنس کر کہا: ’’کیا نکاح کر رہے ہو مجھ سے؟‘‘
’’نکاح اور شادی کیسی؟ ...... نہ تم عمر بھر کسی سے نکاح کرو گی نہ میں۔ یہ رسمیں ہم لوگوں کے لیے نہیں ...... چھوڑو اِن فضولیات کو، کوئی کام کی بات کرو!‘‘
’’بولو کیا بات کروں؟‘‘
’’تم عورت ہو ...... کوئی ایسی بات شروع کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے۔ اِس دنیا میں صرف دُکانداری ہی دُکانداری نہیں، کچھ اور بھی ہے۔‘‘
سلطانہ، ذہنی طور پر، اب شنکر کو قبول کر چکی تھی۔ کہنے لگی: ’’صاف صاف کہو، تم مجھ سے کیا چاہتے ہو۔‘‘
’’جو دوسرے چاہتے ہیں۔‘‘ شنکر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہی کیا رہا؟‘‘
’’تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ اُن میں اور مجھ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو پوچھنا نہیں چاہییں، خود سمجھنا چاہییں۔‘‘
سلطانہ نے تھوڑی دیر تک، شنکر کی اِس بات کو سمجھنے کی کوشش کی پھر کہا: ’’میں سمجھ گئی‘‘۔
’’تو کہو، کیا ارادہ ہے؟‘‘
’’تم جیتے، میں ہاری۔ پر میں کہتی ہوں، آج تک کسی نے ایسی بات قبول نہ کی ہو گی۔‘‘
’’تم غلط کہتی ہو ...... اِسی محلے میں تمہیں ایسی سادہ لوح عورتیں بھی مل جائیں گی جو کبھی یقین نہیں کریں گی کہ عورت ایسی ذلت قبول کر سکتی ہے جو تم بغیر کسی احساس کے قبول کرتی رہی ہو۔ لیکن اُن کے نہ یقین کرنے کے باوجود، تم ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو ...... تمہارا نام سلطانہ ہے نا؟‘‘
’’سلطانہ ہی ہے۔‘‘
شنکر اُٹھ کھڑا ہوا اور ہنسنے لگا: ’’میرا نام شنکر ہے ...... یہ نام بھی عجب اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں، چلو آئو اندر چلیں۔‘‘

شنکر اور سلطانہ دری والے کمرے میں واپس آئے تو دونوں ہنس رہے تھے، نہ جانے کس بات پر۔ جب شنکر جانے لگا تو سلطانہ نے کہا: ’’شنکر میری ایک بات مانو گے؟‘‘
شنکر نے جواباً کہا: ’’پہلے بات بتائو۔‘‘
سلطانہ کچھ جھینپ سی گئی۔ ’’تم کہو گے کہ میں دام وصول کرنا چاہتی ہوں مگر ...‘‘
’’کہو کہو ...... رک کیوں گئی ہو۔‘‘
سلطانہ نے جرأت سے کام لے کر کہا: ’’بات یہ ہے کہ محرم آ رہا ہے اور میرے پاس اِتنے پیسے نہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں ...... یہاں کے سارے دُکھڑے تو تم مجھ سے سن ہی چکے ہو۔ قمیص اور دوپٹا میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کے لیے دے دیا ہے۔‘‘
شنکر نے یہ سن کر کہا: ’’تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں کچھ روپے دے دوں جو تم یہ کالی شلوار بنواسکو!‘‘
سلطانہ نے فوراً ہی کہا: ’’نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو تم مجھے ایک کالی شلوار لادو‘‘۔
شنکر مسکرایا۔ ’’میری جیب میں تو اتفاق ہی سے کبھی کچھ ہوتا ہے۔ بہرحال میں کوشش کروں گا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو تمہیں یہ شلوار مل جائے گی۔ لے بس اب خوش ہو گئیں؟‘‘ سلطانہ کے بُندوں کی طرف دیکھ کر، پھر اس نے پوچھا: ’’کیا یہ بُندے تم مجھے دے سکتی ہو؟‘‘
سلطانہ نے ہنس کر کہا: ’’تم انہیں کیا کرو گے؟ چاندی کے معمولی بُندے ہیں، زیادہ سے زیادہ پانچ روپے کے ہوں گے۔‘‘
اس پر شنکر نے کہا: ’’میں نے تم سے بُندے مانگے ہیں، ان کی قیمت نہیں پوچھی۔ بولو، دیتی ہو؟‘‘
’’لے لو۔‘‘ یہ کہہ کر سلطانہ نے بندے اتار کر شنکر کو دے دیے۔ اِس کے بعد اُسے افسوس ہوا مگر شنکر جا چکا تھا۔ 

سلطانہ کو قطعاً یقین نہیں تھا کہ شنکر اپنا وعدہ پورا کرے گا مگر آٹھ روز کے بعد، محرم کی پہلی تاریخ کو، صبح نو بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو شنکر کھڑا تھا۔ اخبار میں لپٹی ہوئی چیز اُس نے سلطانہ کو دی اور کہا: ’’ساٹن کی کالی شلوار ہے ...... دیکھ لینا شاید لمبی ہو ...... اب میں چلتا ہوں۔‘‘
شنکر شلوار دے کر چلا گیا اور کوئی بات اُس نے سلطانہ سے نہ کی۔ اُس کی پتلون میں شکنیں پڑی ہوئی تھیں۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے اور سیدھا اِدھر ہی چلا آیا ہے۔
سلطانہ نے کاغذ کھولا۔ ساٹن کی کالی شلوار تھی، ایسی ہی جیسی کہ وہ مختار کے پاس دیکھ کر آئی تھی۔ سلطانہ بہت خوش ہوئی۔ بُندوں اور اُس سودے کا جو افسوس، اُسے ہوا تھا، اِس شلوار نے اور شنکر کی وعدہ ایفائی نے دور کر دیا۔ 
دوپہر کو وہ نیچے لانڈری والے سے اپنی رنگی ہوئی قمیص اور دوپٹا لے آئی۔ تینوں کالے کپڑے اُس نے جب پہن لیے تو دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو مختار اندر داخل ہوئی۔ اُس نے سلطانہ کے تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا: ’’قمیص اور دوپٹا تو رنگا ہوا معلوم ہوتا ہے، پر یہ شلوار نئی ہے ...... کب بنوائی؟‘‘
سلطانہ نے جواب دیا: ’’آج ہی درزی لایا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اُس کی نظریں مختار کے کانوں پر پڑیں۔ ’’یہ بُندے تم نے کہاں سے لیے؟‘‘
مختار نے جواب دیا: ’’آج ہی منگوائے ہیں۔‘‘
اِس کے بعد دونوں کو تھوڑی دیر خاموش رہنا پڑا۔ 

دُھواں (منٹو)

وہ جب اسکول روانہ ہوا تو اُس نے راستے میں ایک قصائی دیکھا، جس کے سر پر ایک بہت بڑا ٹوکرا تھا اُس میں دو تازہ ذبح کیے ہوئے بکرے تھے۔ کھالیں اتری ہوئی تھیں اور ان کے ننگے گوشت میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ جگہ جگہ پر یہ گوشت جس کو دیکھ کر مسعود کے ٹھنڈے گالوں پر گرمی کی لہریں سی دوڑ جاتی تھیں، پھڑک رہا تھا جیسے کبھی کبھی اُس کی آنکھ پھڑکا کرتی تھی۔
سوا نو بجے ہوں گے مگر جھکے ہوئے خاکستری بادلوں کے باعث ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بہت سویرا ہے۔ سردی میں شدت نہیں تھی لیکن راہ چلتے آدمیوں کے منہ سے گرم گرم سماوار کی ٹونٹیوں کی طرح گاڑھا سفید دھواں نکل رہا تھا۔ ہر شے بوجھل دکھائی دیتی تھی جیسے بادلوں کے وزن کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ موسم کچھ ویسی ہی کیفیت کا حامل تھا جو ربڑ کے جوتے پہن کر چلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے باوجود کہ بازار میں لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی اور دکانوں میں زندگی کے آثار پیدا ہو چکے تھے؛ آوازیں مدھم تھیں، جیسے سرگوشیاں ہو رہی ہیں، چپکے چپکے، دھیرے دھیرے باتیں ہو رہی ہیں، ہولے ہولے لوگ قدم اٹھا رہے ہیں کہ زیادہ اونچی آواز پیدا نہ ہو۔ 
مسعود بغل میں بستہ دبائے اسکول جا رہا تھا۔ آج اس کی چال بھی سست تھی۔ جب اس نے بے کھال کے تازہ ذبح کیے ہوئے بکروں کے گوشت سے سفید سفید دھواں اٹھتا دیکھا تو اسے راحت محسوس ہوئی۔ اُس دھوئیں نے اس کے ٹھنڈے گالوں پر گرم گرم لکیروں کا ایک جال سا بُن دیا۔ اس گرمی نے اسے راحت پہنچائی اور وہ سوچنے لگا کہ سردیوں میں ٹھنڈے یخ ہاتھوں پر بید کھانے کے بعد اگر یہ دھواں مل جایا کرے تو کتنا اچھا ہو۔ 
فضا میں اجلاپن نہیں تھا۔ روشنی تھی مگر دھندلی۔ کہر کی ایک پتلی سی تہہ ہر شے پر چڑھی ہوئی تھی جس سے فضا میں گدلاپن پیدا ہو گیا تھا۔ یہ گدلاپن آنکھوں کو اچھا معلوم ہوتا تھا۔ اس لیے کہ نظر آنے والی چیزوں کی نوک پلک کچھ مدھم پڑ گئی تھی۔
مسعود جب اسکول پہنچا تو اسے اپنے ساتھیوں سے یہ معلوم کر کے قطعی طور پر خوشی نہ ہوئی کہ اسکول، سکتر صاحب کی موت کے باعث بند کر دیا گیا ہے۔ سب لڑکے خوش تھے جس کا ثبوت یہ تھا کہ وہ اپنے بستے ایک جگہ پر رکھ کر اسکول کے صحن میں اوٹ پٹانگ کھیلوں میں مشغول تھے، کچھ چھٹی کا پتہ معلوم [کذا] کرتے ہی گھر چلے گئے، کچھ آ رہے تھے اور کچھ نوٹس بورڈ کے پاس جمع تھے اور بار بار ایک ہی عبارت پڑھ رہے تھے۔ 
مسعود نے جب سنا کہ سکتر صاحب مر گئے ہیں تو اُسے بالکل افسوس نہ ہوا۔ اس کا دل جذبات سے بالکل خالی تھا۔ البتہ اس نے یہ ضرور سوچا کہ پچھلے برس جب اس کے دادا جان کا انتقال ان ہی دنوں میں ہوا تھا تو ان کا جنازہ لے جانے میں بڑی دقّت ہوئی تھی۔ اس لیے کہ بارش شروع ہو گئی تھی۔ وہ بھی جنازے کے ساتھ گیا تھا اور قبرستان میں چکنی کیچڑ کے باعث ایسا پھسلا تھا کہ کُھدی ہوئی قبر میں گرتے گرتے بچا تھا۔ یہ سب باتیں اس کو اچھی طرح یاد تھیں۔ سردی کی شدت، اس کے کیچڑ سے لت پت کپڑے، سرخی مائل نیلے ہاتھ جن کو دبانے سے سفید سفید دھبّے پڑ جاتے تھے، ناک جو کہ برف کی ڈلی معلوم ہوتی تھی اور پھر [گھر؟] آ کر ہاتھ پائوں دھونے اور کپڑے بدلنے کا مرحلہ ...... یہ سب کچھ اُس کو اچھی طرح یاد تھا۔ چنانچہ جب اس نے سکتر صاحب کی موت کی خبر سنی تو اسے یہ سب بیتی ہوئی باتیں یاد آگئیں اور اس نے سوچا: جب سکتر صاحب کا جنازہ اٹھے گا تو بارش شروع ہو جائے گی اور قبرستان میں اتنی کیچڑ ہو جائے گی کہ کئی لوگ پھسلیں گے اور ان کو ایسی چوٹیں آئیں گی کہ بلبلا اٹھیں گے۔
مسعود نے یہ خبر سن کر سیدھا اپنی کلاس کا رخ کیا۔ کمرے میں پہنچ کر اُس نے اپنے ڈیسک کا تالا کھولا۔ دو تین کتابیں جو کہ اسے دوسرے روز پھر لانا تھیں، اس میں رکھیں اور باقی بستہ اٹھا کر گھر کی جانب چل پڑا۔
راستے میں اس نے پھر وہی دو تازہ ذبح کیے ہوئے بکرے دیکھے۔ ان میں سے ایک کو اب قصائی نے لٹکا دیا تھا۔ دوسرا تختے پر پڑا تھا۔ جب مسعود دُکان پر سے گزرا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ گوشت کو جس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا، چھو کر دیکھے۔ چنانچہ اس نے آگے بڑھ کر انگلی سے بکرے کے اُس حصّے کو چھو کر دیکھا جو ابھی تک پھڑک رہا تھا۔ گوشت گرم تھا۔ مسعود کی ٹھنڈی انگلی کو یہ حرارت بہت بھلی معلوم ہوئی۔ قصائی دکان کے اندر چھریاں تیز کرنے میں مصروف تھا۔ چنانچہ مسعود نے ایک بار پھر گوشت کو چھو کر دیکھا اور وہاں سے چل پڑا۔
گھر پہنچ کر اس نے جب اپنی ماں کو سکتر صاحب کی موت کی خبر سنائی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے ابّاجی اُن ہی کے جنازے کے ساتھ گئے ہیں۔ اب گھر میں صرف دو آدمی تھے: ماں اور بڑی بہن۔ ماں باورچی خانے میں بیٹھی سالن پکا رہی تھی اور بڑی بہن کلثوم، پاس ہی ایک کانگڑی لیے درباری کی سرگم یاد کر رہی تھی۔ 
چونکہ گلی کے دوسرے لڑکے گورنمنٹ اسکول میں پڑھتے تھے جس پر اسلامیہ اسکول کے سکتر کی موت کا کچھ اثر نہیں ہوا تھا، اس لیے مسعود نے خود کو بالکل بیکار محسوس کیا۔ اسکول کا کوئی کام بھی نہیں تھا۔ چھٹی جماعت میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ گھر میں اپنے ابّاجی سے پڑھ چکا تھا۔ کھیلنے کے لیے بھی اُس کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔ ایک میلا کچیلا تاش، طاق میں پڑا تھا مگر اُس سے مسعود کو کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لوڈو اور اسی قسم کے دوسرے کھیل جو اُس کی بڑی بہن اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہر روز کھیلتی تھی، اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ سمجھ سے بالاتر یوں تھے کہ مسعود نے کبھی اُن کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ اس کو فطرتاً ایسے کھیلوں سے کوئی لگائو نہیں تھا۔
بستہ اپنی جگہ پر رکھنے اور کوٹ اتارنے کے بعد وہ باورچی خانے میں اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا اور درباری کی سرگم سنتا رہا جس میں کئی دفعہ سارے گاما آتا تھا۔ اُس کی ماں پالک کاٹ رہی تھی۔ پالک کاٹنے کے بعد اُس نے سبز سبز پتّوں کا گیلا گیلا ڈھیر اٹھا کر ہنڈیا میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب پالک کو آنچ لگی تو اُس میں سے سفید سفید دھواں اٹھنے لگا۔ اُس دھوئیں کو دیکھ کر مسعود کو بکرے کا گوشت یاد آگیا۔ چنانچہ اس نے اپنی ماں سے کہا: ’’امی جان! آج میں نے قصائی کی دُکان پر دو بکرے دیکھے، کھال اتری ہوئی تھی اور ان میں سے دھواں نکل رہا تھا، بالکل ایسے ہی جیسا کہ صبح سویرے میرے منہ سے نکلا کرتاہے۔‘‘
’’اچھا......!‘‘ یہ کہہ کر اس کی ماں چولھے میں لکڑیوں کے کوئلے جھاڑنے لگی۔ 
’’ہاں! اور میں نے گوشت کو اپنی انگلی سے چھو کر دیکھا تو وہ گرم تھا۔۔۔۔‘‘
’’اچھا......!‘‘ یہ کہہ کر اس کی ماں نے وہ برتن اٹھایا جس میں اس نے پالک کا ساگ دھویا تھا اور باورچی خانے سے باہر چلی گئی۔
’’اور یہ گوشت کئی جگہ پر پھڑکتا بھی تھا۔‘‘
’’اچھا......‘‘ مسعود کی بڑی بہن نے درباری کی سرگم یاد کرنا چھوڑ دی اور اُس کی طرف متوجہ ہوئی: ’’کیسے پھڑکتا تھا؟‘‘
’’یوں...... یوں۔‘‘ مسعود نے انگلیوں سے پھڑکن پیدا کر کے اپنی بہن کو دکھائی۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ 
یہ سوال کلثوم نے اپنے سرگم بھرے دماغ سے کچھ اس طور پر نکالا کہ مسعود ایک لحظے کے لیے بالکل خالی الذّہن ہو گیا: ’’پھر کیا ہونا تھا، میں نے ایسے ہی آپ سے بات کی تھی کہ قصائی کی دکان پر گوشت پھڑک رہا تھا۔ میں نے انگلی سے چھو کر بھی دیکھا تھا، گرم تھا۔‘‘
’’گرم تھا ...... اچھا مسعود یہ بتائو تم میرا ایک کام کرو گے؟‘‘
’’بتائیے۔‘‘
’’آئو، میرے ساتھ آئو۔‘‘
’’نہیں آپ پہلے بتائیے۔ کام کیا ہے؟‘‘
’’تم آئو تو سہی میرے ساتھ۔‘‘
’’جی نہیں ...... آپ پہلے کام بتائیے۔‘‘
’’دیکھو میری کمر میں بڑا درد ہو رہا ہے ...... میں پلنگ پر لیٹتی ہوں، تم ذرا پائوں سے دبا دینا ...... اچھے بھائی جو ہوئے۔ اﷲ کی قسم بڑا درد ہو رہا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر مسعود کی بہن نے اپنی کمر پر مکیاں مارنا شروع کر دیں۔
’’یہ آپ کی کمر کو کیا ہو جاتا ہے؟ جب دیکھو درد ہو رہا ہے اور پھر آپ دبواتی بھی مجھی سے ہیں، کیوں نہیں اپنی سہیلیوں سے کہتیں۔‘‘ مسعود اٹھ کھڑا ہوا اور راضی ہو گیا۔
’’چلیے، لیکن آپ سے یہ کہے دیتا ہوں کہ دس منٹ سے زیادہ میں بالکل نہیں دبائوں گا۔‘‘
’’شاباش، شاباش۔‘‘ اُس کی بہن اٹھ کھڑی ہوئی اور سرگموں کی کاپی سامنے طاق میں رکھ کر اُس کمرے کی طرف روانہ ہوئی جہاں وہ اور مسعود دونوں سوتے تھے۔
صحن میں پہنچ کر اس نے اپنی دکھتی ہوئی کمر سیدھی کی اور اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ مٹیالے بادل جھکے ہوئے تھے۔ ’’مسعود! آج ضرور بارش ہو گی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے مسعود کی طرف دیکھا مگر وہ اندر اپنی چارپائی پر لیٹا تھا۔ 
جب کلثوم اپنے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹ گئی تو مسعود نے اٹھ کر گھڑی میں وقت دیکھا۔ ’’دیکھیے باجی! گیارہ بجنے میں دس منٹ باقی ہیں۔ میں پورے گیارہ بجے آپ کی کمر دابنا چھوڑ دوں گا۔‘‘
’’بہت اچھا، لیکن تم اب خدا کے لیے زیادہ نخرے نہ بگھارو۔ ادھر میرے پلنگ پر آ کر جلدی کمر دبائو ورنہ یاد رکھو، بڑے زور سے کان امیٹھوں گی۔‘‘ کلثوم نے مسعود کو ڈانٹ پلائی۔ مسعود نے اپنی بڑی بہن کے حکم کی تعمیل کی اور دیوار کا سہارا لے کر پائوں سے اس کی کمر دبانا شروع کر دی۔ مسعود کے وزن کے نیچے کلثوم کی چوڑی چکلی کمر میں خفیف سا جھکائو پیدا ہو گیا۔ جب اس نے پیروں سے دبانا شروع کیا، ٹھیک اسی طرح جس طرح مزدور مٹی گوندھتے ہیں تو کلثوم نے مزا لینے کی خاطر ہولے ہولے ہائے ہائے کرنا شروع کیا۔ 
کلثوم کے کولھوں پر گوشت زیادہ تھا، جب مسعود کا پائوں اُس حصّے پر پڑا تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ اُس بکرے کے گوشت کو دبا رہا ہے جو اس نے قصائی کی دکان میں اپنی انگلی سے چھو کر دیکھا تھا۔ اس احساس نے چند لمحات کے لیے اس کے دل و دماغ میں ایسے خیالات پیدا کیے جن کا کوئی سر تھا نہ پیر، وہ اُن کا مطلب نہ سمجھ سکا اور سمجھتا بھی کیسے جبکہ کوئی خیال مکمل ہی [نہ؟] تھا۔
ایک دو بار مسعود نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس کے پیروں کے نیچے گوشت کے لوتھڑوں میں حرکت پیدا ہوئی ہے، اُسی قسم کی حرکت جو اس نے بکرے کے گرم گرم گوشت میں دیکھی تھی۔ اس نے بڑی بددلی سے کمر دبانا شروع کی تھی مگر اب اسے اس کام میں لذّت محسوس ہونے لگی۔ اس کے وزن کے نیچے کلثوم ہولے ہولے کراہ رہی تھی۔ یہ بھینچی بھینچی آواز جو کہ مسعود کے پیروں کی حرکت کا ساتھ دے رہی تھی اُس گمنام سی لذّت میں اضافہ کر رہی تھی۔
ٹائم پیس میں گیارہ بج گئے مگر مسعود اپنی بہن کلثوم کی کمر دباتا رہا۔ جب کمر اچھی طرح دبائی جا چکی تو کلثوم سیدھی لیٹ گئی اور کہنے لگی: ’’شاباش مسعود، شاباش! لو اب لگے ہاتھوں ٹانگیں بھی دبا دو، بالکل اسی طرح ...... شاباش میرے بھائی۔‘‘
مسعود نے دیوار کا سہارا لے کر کلثوم کی رانوں پر جب اپنا پورا وزن ڈالا تو اس کے پائوں کے نیچے مچھلیاں سی تڑپ گئیں۔ بے اختیار وہ ہنس پڑی اور دوہری ہو گئی۔ مسعود گرتے گرتے بچا، لیکن اس کے تلووں میں مچھلیوں کی وہ تڑپ منجمد سی ہو گئی۔ اس کے دل میں زبردست خواہش پیدا ہوئی کہ وہ پھر اسی طرح دیوار کا سہارا لے کر اپنی بہن کی رانیں دبائے۔ چنانچہ اس نے کہا: ’’یہ آپ نے ہنسنا کیوں شروع کر دیا۔ سیدھی لیٹ جایے، میں آپ کی ٹانگیں دبا دوں۔‘‘
کلثوم سیدھی لیٹ گئی۔ رانوں کی مچھلیاں اِدھر اُدھر ہونے کے باعث جو گدگدی پیدا ہوئی تھی اس کا اثر ابھی تک اس کے جسم میں باقی تھا۔ ’’نابھائی، میرے گدگدی ہوتی ہے۔ تم وحشیوں کی طرح دباتے ہو۔‘‘ 
مسعود نے خیال کیا کہ شاید اس نے غلط طریقہ استعمال کیا ہے۔ ’’نہیں، اب کی دفعہ میں پورا بوجھ آپ پر نہیں ڈالوں گا ...... آپ اطمینان رکھیے۔ اب ایسی اچھی طرح دبائوں گا کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔‘‘
دیوار کا سہارا لے کر مسعود نے اپنے جسم کو تولا اور اس انداز سے آہستہ آہستہ کلثوم کی رانوں پر اپنے پیر جمائے کہ اس کا آدھا بوجھ کہیں غائب ہو گیا۔ ہولے ہولے بڑی ہوشیاری سے اس نے پیر چلانے شروع کیے۔ کلثوم کی رانوں میں اکڑی ہوئی مچھلیاں، اس کے پیروں کے نیچے دب دب کر اِدھر اُدھر پھسلنے لگیں۔ مسعود نے ایک بار اسکول میں، تنے ہوئے رسّے پر ایک بازی گر کو چلتے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ بازی گر کے پیروں کے نیچے تنا ہوا رسّا اسی طرح پھسلتا ہو گا۔
اس سے پہلے کئی بار اس نے اپنی بہن کلثوم کی ٹانگیں دبائی تھیں مگر وہ لذت جو کہ اسے اب محسوس ہو رہی تھی، پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ بکرے کے گرم گرم گوشت کا اسے بار بار خیال آتا تھا۔ ایک دو مرتبہ اس نے سوچا: کلثوم کو اگر ذبح کیا جائے تو کھال اتر جانے پر کیا اِس کے گوشت میں سے بھی دھواں نکلے گا؟ لیکن ایسی بیہودہ باتیں سوچنے پر اس نے اپنے آپ کو مجرم محسوس کیا اور دماغ کو اس طرح صاف کر دیا جیسے وہ سلیٹ کو اسفنج سے صاف کیا کرتا تھا۔ 
’’بس، بس۔‘‘ کلثوم تھک گئی۔ ’’بس، بس۔‘‘
مسعود کو ایک دم شرارت سوجھی۔ وہ پلنگ پر سے نیچے اترنے لگا تو اس نے کلثوم کی دونوں بغلوں میں گدگدی شروع کر دی۔ ہنسی کے مارے وہ لوٹ پوٹ ہو گئی۔ اُس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مسعود کے ہاتھوں کو پرے جھٹک دے لیکن جب اس نے ارادہ کر کے اس کے لات جمانی چاہی تو مسعود اچھل کر زد سے باہر ہو گیا اور سلیپر پہن کر کمرے سے نکل گیا۔
جب وہ صحن میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ہلکی ہلکی بونداباندی ہو رہی ہے، بادل اور بھی جھک آئے تھے، پانی کے ننھے ننھے قطرے آواز پیدا کیے بغیر صحن کی اینٹوں میں آہستہ آہستہ جذب ہو رہے تھے۔ مسعود کا جسم ایک دل نواز حرارت محسوس کر رہا تھا۔ جب ہوا کا ٹھنڈا ٹھنڈا جھونکا اُس کے گالوں کے ساتھ مس ہوا اور دو تین ننھی ننھی بوندیں اس کی ناک پر پڑیں تو ایک جھرجھری سی اس کے بدن میں لہرا اُٹھی۔ سامنے کوٹھے کی دیوار پر ایک کبوتر اور ایک کبوتری پاس پاس پر پُھلائے بیٹھے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دونوں دم پخت کی ہوئی ہنڈیا کی طرح گرم ہیں۔ گل دائودی اور نازبو کے ہرے ہرے پتّے، اوپر لال لال گملوں میں نہا رہے تھے۔ فضا میں نیندیں گھلی ہوئی تھیں، ایسی نیندیں جن میں بیداری زیادہ ہوتی ہے اور انسان کے اردگرد نرم نرم خواب یوں لپٹ جاتے ہیں جیسے اونی کپڑے۔
مسعود ایسی باتیں سوچنے لگا جن کا مطلب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہ اُن باتوں کو چُھو کر دیکھ سکتا تھا مگر اُن کا مطلب اس کی گرفت سے باہر تھا، پھر بھی ایک گمنام سا مزا، اِس سوچ بچار میں اُسے آ رہا تھا۔
بارش میں کچھ دیر کھڑے رہنے کے باعث جب مسعود کے ہاتھ بالکل یخ ہو گئے اور دبانے سے ان پر سفید دھبّے پڑنے لگے تو اُس نے مٹھیاں کس لیں اور اُن کو منہ کی بھاپ سے گرم کرنا شروع کیا۔ ہاتھوں کو اِس عمل سے کچھ گرمی تو پہنچی مگر وہ نم آلود ہو گئے۔ چنانچہ آگ تاپنے کے لیے وہ باورچی خانے میں چلا گیا۔ کھانا تیار تھا، ابھی اس نے پہلا لُقمہ ہی [پہلا ہی لُقمہ؟] اٹھایا تھا کہ اس کا باپ قبرستان سے واپس آ گیا۔ باپ بیٹے میں کوئی بات نہ ہوئی۔ مسعود کی ماں اٹھ کر فوراً دوسرے کمرے میں چلی گئی اور وہاں دیر تک اپنے خاوند کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔
کھانے سے فارغ ہو کر مسعود بیٹھک میں چلا گیا اور کھڑکی کھول کر فرش پر لیٹ گیا۔ بارش کی وجہ سے سردی کی شدّت بڑھ گئی تھی کیونکہ اب ہوا بھی چل رہی تھی مگر یہ سردی ناخوشگوار معلوم نہیں ہوتی تھی، تالاب کے پانی کی طرح یہ اوپر ٹھنڈی اور اندر گرم تھی۔ مسعود جب فرش پر لیٹا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اِس سردی کے اندر دھنس جائے جہاں اس کے جسم کو راحت انگیز گرمی پہنچے۔ دیر تک وہ ایسی شیر گرم باتوں کے متعلق سوچتا رہا جس کے باعث اس کے پٹّھوں میں ہلکی ہلکی دُکھن پیدا ہو گئی۔ ایک دو بار اس نے انگڑائی لی تو اسے مزا آیا۔ اس کے جسم کے کسی حصے میں، یہ اس کو معلوم نہیں تھا کہ کہاں، کوئی چیز اٹک سی گئی تھی، یہ چیز کیا تھی، اس کے متعلق بھی مسعود کو علم نہیں تھا، البتہ اُس اٹکائو نے اس کے سارے جسم میں اضطراب، ایک دبے ہوئے اضطراب، کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ اس کا سارا جسم کھنچ کر لمبا ہو جانے کا ارادہ بن گیا تھا۔
دیر تک گدگدے قالین پر کروٹیں بدلنے کے بعد وہ اٹھا اور باورچی خانے سے ہوتا ہوا صحن میں آ نکلا۔ کوئی باورچی خانے میں تھا، نہ صحن میں۔ اِدھر اُدھر جتنے کمرے تھے سب کے سب بند تھے۔ بارش اب رک گئی تھی۔ مسعود نے ہاکی اور گیند نکالی اور صحن میں کھیلنا شروع کر دیا۔ ایک بار جب اس نے زور سے ہٹ لگائی تو گیند صحن کے دائیں ہاتھ والے کمرے کے دروازے پر لگی۔ اندر سے مسعود کے باپ کی آواز آئی: ’’کون؟‘‘
’’جی میں ہوں مسعود!‘‘
اندر سے آواز آئی: ’’کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’جی کھیل رہا ہوں۔‘‘
’’کھیلو......‘‘ پھر تھوڑے سے توقّف کے بعد، اُس کے باپ نے کہا: ’’تمہاری ماں میرا سر دبا رہی ہے ...... زیادہ شور نہ مچانا!‘‘
یہ سن کر مسعود نے گیند وہیں پڑی رہنے دی اور ہاکی ہاتھ میں لیے سامنے والے کمرے کا رخ کیا۔ اُس کا ایک دروازہ بند تھا اور دوسرا نیم باز ...... مسعود کو ایک شرارت سوجھی۔ دبے پائوں وہ نیم باز دروازے کی طرف بڑھا اور دھماکے کے ساتھ دونوں پٹ کھول دیے۔ دو چیخیں بلند ہوئیں اور کلثوم اور اس کی سہیلی بملا نے جو کہ پاس پاس لیٹی تھیں، خوفزدہ ہو کر جھٹ سے لحاف اوڑھ لیا۔
بملا کے بلائوز کے بٹن کھلے ہوئے تھے اور کلثوم اُس کے عریاں سینے کو گھور رہی تھی۔ 
مسعود کچھ سمجھ نہ سکا، اس کے دماغ پر دھواں سا چھا گیا۔ وہاں سے اُلٹے قدم لوٹ کر وہ جب بیٹھک کی طرف روانہ ہوا تو اسے معاً اپنے اندر ایک اتھاہ طاقت کا احساس ہوا جس نے کچھ دیر کے لیے اس کی سوچنے سمجھنے کی قوّت بالکل کمزور کر دی۔
بیٹھک میں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر جب مسعود نے ہاکی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر گھٹنے پر رکھا تو یہ سوچا کہ ہلکا سا دبائو ڈالنے پر بھی ہاکی میں خم پیدا ہو جائے گا اور زیادہ زور لگانے پر تو ہینڈل چٹاخ سے ٹوٹ جائے گا۔ اس نے گھٹنے پر ہاکی کے ہینڈل میں خم تو پیدا کر لیا مگر زیادہ سے زیادہ زور لگانے پر بھی، وہ ٹوٹ نہ سکا۔ دیر تک وہ ہاکی کے ساتھ کشتی لڑتا رہا۔ جب تھک کر ہار گیا تو جھنجھلا کر اُس نے ہاکی پرے پھینک دی۔