صفحات

منٹو، سجدہ، افسانہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
منٹو، سجدہ، افسانہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 14 مئی، 2020

سجدہ (منٹو)

گلاس پر بوتل جُھکی تو ایک دم حمید کی طبیعت پر بوجھ سا پڑ گیا۔ ملِک جو اُس کے سامنے تیسرا پیگ پی رہا تھا، فوراً تاڑ گیا کہ حمید کے اندر روحانی کشمکش پیدا ہو گئی ہے۔ وہ حمید کو سات برس سے جانتا تھا اور اِن سات برسوں میں کئی بار حمید پر ایسے دورے پڑ چکے تھے جن کا مطلب اُس کی سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہا تھا لیکن وہ اتنا ضرور سمجھتا تھا کہ اس کے لاغر دوست کے سینے پر کوئی بوجھ ہے، ایسا بوجھ جس کا احساس شراب پینے کے دوران میں کبھی کبھی حمید کے اندر یوں پیدا ہوتا ہے جیسے بے دھیان بیٹھے ہوئے آدمی کی پسلیوں میں کوئی زور سے ٹہوکا دے دے۔
حمید بڑا خوش باش انسان تھا، ہنسی مذاق کا عادی، حاضر جواب، بذلہ سنج۔ اُس میں بہت سی خوبیاں تھیں جو زیادہ نزدیک آ کر اُس کے دوست ملک نے معلوم کی تھیں۔ مثال کے طور پر سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بے حد مخلص تھا، اِس قدر مخلص کہ بعض اوقات اُس کا اخلاص ملِک کے لیے عہدِ عتیق کا رومانی افسانہ بن جاتا تھا۔
حمید کے کردار میں ایک عجیب و غریب بات جو ملک نے نوٹ کی، یہ تھی کہ اُس کی آنکھیں آنسوئوں سے ناآشنا تھیں۔ یوں تو ملک بھی رونے کے معاملے میں بڑا بخیل تھا مگر وہ جانتا تھا کہ جب کبھی رونے کا موقع آئے گا، وہ ضرور رو دے گا۔ اس پر غم افزا باتیں اثر ضرور کرتی تھیں مگر وہ اس اثر کو اِتنی دیر اپنے دماغ پر بیٹھنے کی اجازت دیتا تھا جتنی دیر گھوڑا اپنے تنے ہوئے جسم پر مکھی کو۔
غموں سے دور رہنے والے اور ہر وقت ہنسی مذاق کے عادی، حمید کی زندگی میں نہ جانے ایسا کون سا واقعہ اُلجھا ہوا تھا کہ وہ کبھی کبھی قبرستان کی طرح خاموش ہو جاتا تھا۔ ایسے لمحات جب اُس پر طاری ہوتے تو اس کا چہرہ ایسی رنگت اختیار کر لیتا تھا جو تین دن کی باسی شراب میں بے جان سوڈا گھولنے سے پیدا ہوتی ہے۔
سات برس کے دوران میں، کئی بار حمید پر ایسے دورے پڑ چکے تھے مگر ملک نے آج تک اُس سے اُن کی وجہ دریافت نہ کی تھی۔ اس لیے نہیں کہ اُن کی وجہ دریافت کرنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا نہیں ہوتی تھی۔ دراصل بات یہ ہے کہ ملِک پرلے درجے کا سُست اور کاہل واقع ہوا تھا۔ اِس خیال سے بھی وہ حمید کے ساتھ اِس معاملے پر بات چیت نہیں کرتا تھا کہ ایک طول طویل کہانی اسے سننا پڑے گی اور اس کے چوتھے پیگ کا سارا سرور غارت ہو جائے گا۔ شراب پی کر لمبی چوڑی آپ بیتیاں سننا یا سنانا اس کے نزدیک بہت بڑی بدذوقی تھی۔ اِس کے علاوہ وہ کہانیاں سننے کے معاملے میں بہت ہی خام تھا۔ اِسی خیال کی وجہ سے کہ وہ اطمینان سے حمید کی داستان نہیں سن سکے گا اس نے آج تک اس سے ان دوروں کی بابت دریافت نہیں کیا تھا۔ 
کرپارام نے حمید کے گلاس میں تیسرا پیگ ڈال کر، بوتل میز پر رکھ دی اور ملک سے مخاطب ہوا، ’’ملک! اسے کیا ہو گیا ہے؟‘‘
ملک خاموش رہا لیکن حمید مضطرب ہو گیا۔ اُس کے تنے ہوئے اعصاب زور سے کانپ اٹھے۔ کرپارام کی طرف دیکھ کر اُس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ اِس میں جب ناکامی ہوئی تو اُس کا اضطراب اور بھی زیادہ ہو گیا۔ 
حمید کی یہ بہت بڑی کمزوری تھی کہ وہ کسی بات کو چُھپا نہیں سکتا تھا اور اگر چھپانے کی کوشش کرتا تو اُس کی وہی حالت ہوتی جو آندھی میں صرف ایک کپڑے میں لپٹی ہوئی عورت کی ہوتی ہے۔ 
ملک نے اپنا تیسرا پیگ ختم کیا اور اُس فضا کو جو کچھ عرصہ پہلے، طرب افزا باتوں سے گونج رہی تھی، اپنی بے محل ہنسی سے خوش گوار بنانے کے لیے اُس نے کرپارام سے مخاطب ہو کر کہا، ’’کرپا ...... تم مان لو، اِسے اشوک کمار کا فلمی عشق ہو گیا ہے ...... بھئی یہ اشوک کمار بھی عجیب چیز ہے، پردے پر عشق کرتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کاسٹر آئل پی رہا ہے!‘‘
کرپارام، اشوک کمار کو اُتنا ہی جانتا تھا جتنا کہ مہاراجا اشوک اور اُس کی مشہور آہنی لاٹھ کو۔ فلم اور تاریخ سے اُسے کوئی دلچسپی نہیں تھی، البتہ وہ اِن کے فوائد سے ضرور آگاہ تھا کیونکہ وہ عام طور پر کہا کرتا تھا، ’’مجھے اگر کبھی بے خوابی کا عارضہ لاحق ہو جائے تو میں یا تو فلم دیکھنا شروع کر دوں گا یا چکرورتی کی لکھی ہوئی تاریخ پڑھنا شروع کر دوں گا۔‘‘
وہ ہمیشہ، حساب داں چکرورتی کو مورّخ بنا کر اپنی مسرّت کے لیے ایک بات پیدا کر لیا کرتا تھا۔ 
کرپارام چار پیگ پی چکا تھا۔ چار پٹیالا پیگ، نشہ اُس کے دماغ کی آخری منزل تک پہنچ چکا تھا۔ آنکھیں سکیڑ کر اُس نے حمید کی طرف اِس انداز سے دیکھا جیسے وہ کیمرے کا فوکس کر رہا ہے، ’’تمہارا گلاس ابھی تک ویسے کا ویسا پڑا ہے۔‘‘
حمید نے درد سر کے مریض کی سی شکل بنا کر کہا، ’’بس ...... اب مجھ سے زیادہ نہیں پی جائے گی۔‘‘ 
’’تم چغد ہو ...... نہیں چغد نہیں کچھ اور ہو ...... تمہیں پینا ہو گی ...... سمجھے، یہ گلاس اور اِس بوتل میں جتنی پڑی ہے سب کی سب تمہیں پینا ہو گی۔ شراب سے جو انکار کرے وہ انسان نہیں حیوان ہے ...... حیوان بھی نہیں، اس لیے کہ حیوانوں کو اگر انسان بنا دیا جائے تو وہ بھی اس خوب صورت شے کو کبھی نہ چھوڑیں ...... تم سن رہے ہو ملک ...... میں نے اگر یہ ساری شراب اِس کے حلق میں نہ انڈیل دی تو میرا نام کرپارام نہیں، گھسیٹا رام آرٹسٹ ہے۔‘‘
گھسیٹا رام آرٹسٹ سے کرپا رام کو سخت نفرت تھی، صرف اس لیے کہ آرٹسٹ ہو کر [ہو کر بھی؟] اُس کا نام گھسیٹا رام تھا۔ 
ملک کا منہ سوڈا ملی وسکی سے بھرا ہوا تھا۔ کرپارام کی بات سن کر وہ بے اختیار ہنس پڑا جس کے باعث اُس کے منہ سے ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا، ’’کرپارام خدا کے لیے تم گھسیٹارام آرٹسٹ کا نام نہ لیا کرو۔ میری انتڑیوں میں ایک طوفان سا مچ جاتا ہے ...... لاحول ولا ...... میری پتلون کا ستیاناس ہو گیا ہے ...... لو بھئی، حمید، اب تو تمہیں پینا ہی پڑے گی۔ کرپارام، گھسیٹارام بنے یا نہ بنے لیکن میں ضرور کرپارام بن جائوں گا اگر تم نے یہ گلاس خالی نہ کیا ...... لو پیو ...... پی جائو ...... ارے، میرا منہ کیا دیکھتے ہو ...... یہ تمہارے چہرے پر قیامت کیسی برس رہی ہے ...... کرپارام اٹھو! ...... لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے۔ زبردستی کرنا ہی پڑے گی......‘‘
کرپارام اور ملک دونوں اٹھے اور حمید کو زبردستی پلانے کی کوشش کرنے لگے۔ حمید کو روحانی کوفت تو ویسے ہی محسوس ہو رہی تھی، جب کرپارام اور ملک نے اُس کو جھنجھوڑنا شروع کیا تو اُس کو جسمانی اذّیت بھی پہنچی جس کے باعث وہ بے حد پریشان ہو گیا۔
اُس کی پریشانی سے کرپارام اور ملک بہت محظوظ ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے ایک کھیل سمجھ کر حمید کو اور زیادہ تنگ کرنا شروع کیا۔ کرپارام نے گلاس پکڑ کر اُس کے سر میں تھوڑی سی شراب ڈال دی اور نائیوں کے انداز میں جب اُس نے حمید کا سر سہلایا تو وہ اِس قدر پریشان ہوا کہ اُس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آ گئے، اُس کی آواز بھرّا گئی، اس کے سارے جسم میں تشنج سا پیدا ہوا اور ایک دم کاندھے ڈھیلے کر کے اس نے رونی اور مردہ آواز میں کہا، ’’میں بیمار ہوں ...... خدا کے لیے مجھے تنگ نہ کرو۔‘‘
کرپارام اِسے بہانہ سمجھ کر حمید کو اور زیادہ تنگ کرنے کے لیے کوئی نیا طریقہ سوچنے ہی والا تھا کہ ملک نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے پرے ہٹا دیا، ’’کرپا، اِس کی طبیعت واقعی خراب ہے ...... دیکھو تو رو رہا ہے۔‘‘
کرپارام نے اپنی موٹی کمر جھکا کر غور سے دیکھا، ’’ارے ...... تم تو سچ مچ رو رہے ہو!‘‘
حمید کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے جس پر سوالوں کی بوچھار شروع ہو گئی:
’’کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ ...... خیر تو ہے؟‘‘
’’یہ تم رو کیوں رہے ہو؟‘‘
’’بھئی حد ہو گئی ...... ہم تو صرف مذاق کر رہے تھے۔‘‘
’’کچھ سمجھ میں بھی تو آئے ...... کیا تکلیف ہے تمہیں؟‘‘
ملک اُس کے پاس بیٹھ گیا: ’’بھئی مجھے معاف کر دو اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو۔‘‘
حمید نے جیب سے رومال نکال کر اپنے آنسو پونچھے اور کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔ جذبات کی شدّت کے باعث اُس کی قوت گویائی جواب دے گئی۔ 
تیسرے پیگ سے پہلے اُس کے چہرے پر رونق تھی، اس کی باتیں سوڈے کے بلبلوں کی طرح تروتازہ اور شگفتہ تھیں مگر اب وہ باسی شراب کی طرح بے رونق تھا، وہ سکڑ سا گیا تھا، اس کی حالت ویسی ہی تھی جیسی بھیگی ہوئی پتلون کی ہوتی ہے۔ 
کرسی پر وہ اِس انداز سے بیٹھا تھا گویا وہ اپنے آپ سے شرمندہ ہے۔ اپنے آپ کو چُھپانے کی بھونڈی کوشش میں وہ ایک ایسا بے جان لطیفہ بن کے رہ گیا تھا جو بڑے ہی خام انداز میں سنایا گیا ہو۔ 
ملک کو اُس کی حالت پر بہت ترس آیا: ’’حمید، لو اب خدا کے لیے چپ ہو جائو ...... واﷲ تمہارے آنسوئوں سے مجھے روحانی تکلیف ہو رہی ہے۔ مزا تو سب کرکرا ہو ہی گیا تھا مگر یوں تمہارے ایکاایکی آنسو بہانے سے میں بہت مغموم ہو گیا ہوں ...... خدا جانے تمہیں کیا تکلیف ہے......؟‘‘
’’کچھ نہیں، میں بہت جلد ٹھیک ہو جائوں گا۔ کبھی کبھی مجھے ایسی تکلیف ہو جایا کرتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا: ’’اب میں اجازت چاہتا ہوں۔‘‘
کرپارام بوتل میں بچی ہوئی شراب کو دیکھتا رہا اور ملک یہ ارادہ کرتا رہا کہ حمید سے آج پوچھ ہی لے کہ وقتاً فوقتاً اُسے یہ دورے کیوں پڑتے ہیں مگر وہ جا چکا تھا۔ 
حمید گھر پہنچا تو اُس کی حالت پہلے سے زیادہ خراب تھی۔ کمرے میں چونکہ اُس کے سوا اور کوئی نہیں تھا اِس لیے وہ رو بھی نہ سکتا تھا۔ اُس کی آنسوئوں سے لبالب بھری ہوئی آنکھوں کو کرسیاں اور میزیں نہیں چھلکا سکتی تھیں۔
اُس کی خواہش تھی کہ اس کے پاس کوئی آدمی موجود ہو جس کے چھیڑنے سے وہ جی بھر کے رو سکے مگر ساتھ ہی اس کی یہ بھی خواہش تھی کہ وہ بالکل اکیلا ہو ...... ایک عجیب کشمکش اس کے اندر پیدا ہو گئی تھی۔ 
وہ کرسی پر اِس انداز سے اکیلا بیٹھا تھا جیسے شطرنج کا پِٹا ہوا مُہرہ بساط سے بہت دور پڑا ہے۔ سامنے میز پر اس کی ایک پرانی تصویر چمک دار فریم میں جڑی رکھی تھی۔ حمید نے اداس نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھا تو سات برس، اُس تصویر اور اُس کے درمیان، تھان کی طرح کُھلتے چلے گئے: 
ٹھیک سات برس پہلے، برسات کے اِن ہی دنوں میں، رات کو وہ ریلوے ریسٹوران میں ملک عبدالرحمان کے ساتھ بیٹھا تھا ...... اُس وقت کے حمید اور اِس وقت کے حمید میں کتنا فرق تھا ...... کتنا فرق تھا۔ [کذا] حمید نے یہ فرق اِس شدّت سے محسوس کیا کہ اُسے اپنی تصویر میں ایک ایسا آدمی نظر آیا جس سے ملے اُس کو زمانہ گزر گیا ہے۔
اُس نے تصویر کو غور سے دیکھا تو اُس کے دل میں یہ تلخ احساس پیدا ہوا کہ انسانیت کے لحاظ سے وہ اِس کے مقابلے میں بہت پست ہے۔ تصویر میں جو حمید ہے اِس حمید کے مقابلے میں بدرجہا افضل و برتر ہے جو کرسی پر سر نیوڑھائے بیٹھا ہے۔ چنانچہ اِس احساس نے اُس کے دل میں حسد بھی پیدا کر دیا۔ 
ایک سجدے ...... صرف ایک سجدے نے اُس کا ستیاناس کر دیا تھا......
آج سے ٹھیک سات برس پہلے کا ذکر ہے۔ برسات کے یہی دن تھے۔ رات کو وہ ریلوے ریسٹوران میں اپنے دوست ملک عبدالرحمان کے ساتھ بیٹھا تھا۔ حمید کو یہ شرارت سوجھی تھی کہ بغیر بو کی شراب، جِن، کا ایک پورا پیگ لیمونیڈ میں ملا کر اُس کو پلا دے اور جب وہ پی جائے تو آہستہ سے اُس کے کان میں کہے، ’’مولانا! ایک پورا پیگ آپ کے ثوابوں بھرے پیٹ میں داخل ہو چکا ہے۔‘‘
بیرے سے مل ملا کر اُس نے اِس بات کا انتظام کر دیا تھا کہ آرڈر دینے پر لیمونیڈ کی بوتل میں جِن کا ایک پیگ ڈال کر ملک کو دے دیا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، حمید نے وسکی پی اور ملک بظاہر بے خبری کی حالت میں جِن کا پورا پیگ چڑھا گیا۔
حمید چونکہ تین پیگ پینے کا ارادہ رکھتا تھا اِس لیے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد اُس نے پوچھا، ’’ملک صاحب، آپ یوں بیکار نہ بیٹھیے، میں تیسرا پیگ بڑی عیّاشی سے پیا کرتا ہوں، آپ ایک اور لیمونیڈ منگوا لیجیے۔‘‘
ملک رضامند ہو گیا، چنانچہ ایک اور لیمونیڈ آ گیا۔ اُس میں بیرے نے اپنی طرف سے جِن کا ایک پیگ ملا دیا تھا۔
ملک سے حمید کی نئی نئی دوستی ہوئی تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حمید اِس شرارت سے باز رہتا مگر اُن دنوں وہ اِس قدر زندہ دل اور شرارت پسند تھا کہ جب بیرا ملک کے لیے لیمونیڈ کا دوسرا گلاس لایا اور اُس کی طرف دیکھ کر مسکرایا تو وہ اِس خیال سے بہت خوش ہوا کہ ایک کے بجائے دو پیگ ملک کے پیٹ کے اندر چلے جائیں گے۔
ملک آہستہ آہستہ لیمونیڈ ملی جن پیتا رہا اور حمید دل ہی دل میں اُس کبوتر کی طرح گٹگٹاتا رہا جس کے پاس ایک کبوتری آ بیٹھی ہو۔
اُس نے جلدی جلدی اپنا تیسرا پیگ ختم کیا اور ملک سے پوچھا: ’’اور پئیں گے آپ؟‘‘
ملک نے غیرمعمولی سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا: ’’نہیں۔‘‘ پھر اُس نے بڑے روکھے انداز میں کہا، ’’اگر تمہیں اور پینا ہے تو پیو، میں جائوں گا۔ مجھے ایک ضروری کام ہے۔‘‘
اِس مختصر گفتگو کے بعد دونوں اٹھے۔ حمید نے دوسرے کمرے میں جا کر بل ادا کیا۔ جب وہ ریسٹوران سے باہر نکلے تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ حمید کے دل میں یہ خواہش چٹکیاں لینے لگی کہ وہ ملک پر اپنی شرارت واضح کر دے مگر اچّھے موقع کی تلاش میں کافی وقت گزر گیا۔ ملک بالکل خاموش تھا اور حمید کے اندر پھلجھڑی سی چھوٹ رہی تھی۔ بے شمار ننھی ننھی خوب صورت اور شوخ و شنگ باتیں اُس کے دل و دماغ میں پیدا ہو ہو کر بجھ رہی تھیں۔ وہ ملک کی خاموشی سے پریشان ہو رہا تھا اور جب اس نے اپنی پریشانی کا اظہار نہ کیا تو آہستہ آہستہ اس کی طبیعت پر ایک افسردگی سی طاری ہو گئی۔ وہ محسوس کرنے لگا کہ اُس کی شرارت اب دم کٹی گلہری بن کر رہ گئی ہے۔ 
دیر تک دونوں بالکل خاموش چلتے رہے۔ جب کمپنی باغ آیا تو ملک ایک بینچ پر مفکّرانہ انداز میں بیٹھ گیا۔ چند لمحات ایسی خاموشی میں گزرے کہ حمید کے دل میں وہاں سے اٹھ بھاگنے کی خواہش پیدا ہوئی مگر اُس وقت زیادہ دیر تک دبے رہنے کے باعث اُس کی تمام تیزی اور طرّاری ماند پڑ چکی تھی۔ 
ملک بینچ پر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’حمید، تم نے آج مجھے روحانی تکلیف پہنچائی ہے ...... تمہیں یہ شرارت نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘‘ اُس کی آواز میں اور درد پیدا ہو گیا، ’’تم نہیں جانتے کہ تمہاری اِس شرارت سے مجھے کس قدر روحانی تکلیف پہنچی ہے۔ اﷲ تمہیں معاف کرے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور حمید اپنے آپ کو بڑی شدّت سے گناہ گار محسوس کرنے لگا۔ معافی مانگنے کا خیال اُس کو آیا تھا مگر ملک باغ سے نکل کر باہر سڑک پر پہنچ چکا تھا۔
ملک کے چلے جانے کے بعد حمید گناہ اور ثواب کے چکّر میں پھنس گیا۔ شراب کے حرام ہونے کے متعلق اُس نے جتنی باتیں لوگوں سے سنی تھیں، سب کی سب اُس کے کانوں میں بھنبھنانے لگیں:
’’شراب اخلاق بگاڑ دیتی ہے ...... شراب، خانہ خراب ہے۔ شراب پی کر آدمی بے ادب اور بے حیا ہو جاتا ہے، شراب اِسی لیے حرام ہے۔ شراب صحت کا ستیاناس کر دیتی ہے، اِس کے پینے سے پھیپھڑے چھلنی ہو جاتے ہیں ...... شراب......‘‘
شراب، شراب، کی ایک لامتناہی گردان حمید کے دماغ میں شروع ہو گئی اور اس کی تمام برائیاں ایک ایک کر کے اُس کے سامنے آ گئیں۔ 
’’سب سے بڑی برائی تو یہ ہے‘‘ حمید نے محسوس کیا کہ ’’میں نے بے ضرر شرارت سمجھ کر ایک شریف آدمی کو دھوکے سے شراب پلا دی ہے۔ ممکن ہے وہ پکّا نمازی اور پرہیزگار ہو۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ غلطی میری ہے اور سارا گناہ میرے ہی سر ہو گا مگر اُسے جو روحانی تکلیف پہنچی ہے اُس کا کیا ہو گا؟ واﷲباﷲ میرا یہ مقصد نہیں تھا کہ اُسے تکلیف پہنچے ...... میں اُس سے معافی مانگ لوں گا اور ...... لیکن اس سے معافی مانگ کر بھی تو میرا گناہ ہلکا نہیں ہو گا۔ ایک میں نے شراب پی اوپر سے اُس کو دھوکا دے کر پلائی۔‘‘
وسکی کا نشہ اُس کے دماغ میں جماہیاں لینے لگا جس سے اس کا احساسِ گناہ گھنائونی شکل اختیار کر گیا، ’’مجھے معافی مانگنی چاہیے، مجھے شراب چھوڑ دینی چاہیے ...... مجھے گناہوں سے پاک زندگی بسر کرنی چاہیے۔‘‘
اُس کو شراب شروع کیے صرف دو برس ہوئے تھے۔ ابھی تک وہ اِس کا عادی نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ اس نے گھر لوٹتے ہوئے راستے میں دوسری باتوں کے ساتھ اِس پر بھی غور کیا، ’’میں شراب کو ہاتھ تک نہیں لگائوں گا۔ یہ کوئی ضروری چیز نہیں۔ میں اس کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہوں ...... دنیا کہتی ہے ...... دنیا کہتی ہے تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ منہ سے لگی ہوئی یہ چُھٹ ہی نہیں سکتی۔ میں اِسے بالکل چھوڑ دوں گا ...... میں اِس خیال کو غلط ثابت کر دوں گا۔‘‘
یہ سوچتے ہوئے حمید نے خود کو ایک ہیرو محسوس کیا۔ پھر ایک دم اس کے دماغ میں خدا کا خیال آیا جس نے اسے تباہی سے بچا لیا تھا، ’’مجھے شکر بجا لانا چاہیے کہ میرے سینے میں نور پیدا ہو گیا ہے۔ میں نہ جانے کتنی دیر تک اِس کھائی میں پڑا رہتا۔‘‘
وہ اپنی گلی میں پہنچ چکا تھا۔ اوپر آسمان پر گدلے بادلوں میں چاند، صابن کے جھاگ لگے گالوں کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ ہوا خنک تھی۔ فضا بالکل خاموش تھی ...... حمید پر خدا کے رعب اور شراب نوشی سے بچ جانے کے احساس نے رِقّت طاری کر دی۔ اُس نے شکرانے کا سجدہ کرنا چاہا۔ وہیں پتھریلی زمین پر اس نے گھٹنے ٹیک کر اپنا ماتھا رگڑنا چاہا۔ اِس خیال سے کہ اسے کوئی دیکھ لے گا وہ کچھ دیر کے لیے ٹھٹک گیا مگر فوراً ہی یہ سوچ کر کہ یوں خدا کی نگاہوں میں اُس کی وقعت بڑھ جائے گی، وہ ڈُبکی لگانے کے انداز میں جھکا اور اپنی پیشانی گلی کے ٹھنڈے ٹھنڈے پتھریلے فرش کے ساتھ جوڑ دی۔ 
جب وہ اٹھا تو اُس نے اپنے آپ کو ایک بہت بڑا آدمی محسوس کیا۔ اس نے جب آس پاس کی اونچی دیواروں کو دیکھا تو وہ اُسے اپنے قد کے مقابلے میں بہت پست معلوم ہوئیں۔
اِس واقعے کے ڈیڑھ مہینے بعد، اِسی کمرے میں جہاں اب حمید بیٹھا اپنی سات برس کی پرانی تصویر پر رشک کھا رہا تھا، اُس کا دوست ملک آیا۔ اندر آتے ہی اُس نے اپنی جیب سے بلیک اینڈ وہائٹ کا ادھا نکالا اور زور سے میز پر رکھ کر کہا، ’’حمید آئو ...... آج پِییں اور خوب پِییں ...... یہ ختم ہو جائے گی تو اور لائیں گے۔‘‘
حمید اِس قدر متحیر ہوا کہ وہ اُس سے کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ ملک نے دوسری جیب سے سوڈے کی بوتل نکالی، تپائی پر سے گلاس اٹھا کر اُس میں شراب انڈیلی، سوڈے کی بوتل انگوٹھے سے کھولی اور حمید کی متحیر آنکھوں کے سامنے وہ دو پیگ غٹاغٹ پی گیا۔ 
حمید نے تتلاتے [؟ ہکلاتے] ہوئے کہا، ’’لیکن ... لیکن ... اُس روز تم نے مجھے اِتنا بُرا بھلا کہا تھا......‘‘
ملک نے ایک قہقہہ بلند کیا، ’’تم نے مجھ سے شرارت کی، میں نے بھی اُس کے جواب میں تم سے شرارتاً کچھ کہہ دیا ...... مگر بھئی، ایمان کی بات ہے جو مزہ اُس روز جِن کے دو پیگ پینے میں آیا ہے، زندگی بھر کبھی نہیں آئے گا ...... لو اب چھوڑو اُس قصّے کو ...... وِسکی پیو۔ جِن وِن بکواس ہے۔ شراب پینی ہو تو وِسکی پینی چاہیے۔‘‘
یہ سن کر حمید کو ایسا محسوس ہوا تھا کہ جو سجدہ اُس نے گلی میں کیا تھا، ٹھنڈے فرش سے نکل کر اُس کی پیشانی پر چپک گیا ہے۔
یہ سجدہ بھوت کی طرح حمید کی زندگی سے چمٹ گیا تھا۔ اُس نے اِس سے نجات حاصل کرنے کے لیے پھر پینا شروع کی مگر اس سے بھی کچھ فائدہ نہ ہوا۔
اُن سات برسوں میں جو اُس کی پرانی تصویر اور اُس کے درمیان کُھلے ہوئے تھے، یہ ایک سجدہ بے شمار مرتبہ حمید کو اُس کی اپنی نگاہوں میں ذلیل و رسوا کر چکا تھا۔ اُس کی خودی، اس کی تخلیقی قوت، اُس کی زندگی کی وہ حرارت جس سے حمید اپنے ماحول کو گرما کے رکھنا چاہتا تھا، اِس سجدے نے قریب قریب سرد کر دی تھی۔ یہ سجدہ اُس کی زندگی میں ایک ایسی خراب بریک بن گئی تھی [؟ بن گیا تھا] جو کبھی کبھی اپنے آپ، اُس کے چلتے ہوئے پہیوں کو ایک دھچکے کے ساتھ ٹھہرا دیتی تھی [؟ دیتا تھا]۔ 
سات برس کی پرانی تصویر اُس کے سامنے میز پر پڑی تھی۔ جب سارا واقعہ اُس کے دماغ میں پوری تفصیل کے ساتھ دُہرایا جا چکا تو اُس کے اندر ایک ناقابلِ بیان اضطراب پیدا ہو گیا، وہ ایسا محسوس کرنے لگا جیسے اُس کو قے ہونے والی ہے۔
وہ گھبرا کر اٹھا اور سامنے کی دیوار کے ساتھ اُس نے اپنا ماتھا رگڑنا شروع کر دیا جیسے وہ اُس سجدے کا نشان مٹانا چاہتا ہے۔ اِس عمل سے اسے جب جسمانی تکلیف پہنچی تو وہ پھر کرسی پر بیٹھ گیا ...... سر جھکا کر اور کاندھے ڈھیلے کر کے اُس نے تھکی ہوئی آواز میں کہا، ’’اے خدا! میرا سجدہ مجھے واپس دے دے......!‘‘