صفحات

جمعرات، 14 مئی، 2020

دُھواں (منٹو)

وہ جب اسکول روانہ ہوا تو اُس نے راستے میں ایک قصائی دیکھا، جس کے سر پر ایک بہت بڑا ٹوکرا تھا اُس میں دو تازہ ذبح کیے ہوئے بکرے تھے۔ کھالیں اتری ہوئی تھیں اور ان کے ننگے گوشت میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ جگہ جگہ پر یہ گوشت جس کو دیکھ کر مسعود کے ٹھنڈے گالوں پر گرمی کی لہریں سی دوڑ جاتی تھیں، پھڑک رہا تھا جیسے کبھی کبھی اُس کی آنکھ پھڑکا کرتی تھی۔
سوا نو بجے ہوں گے مگر جھکے ہوئے خاکستری بادلوں کے باعث ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بہت سویرا ہے۔ سردی میں شدت نہیں تھی لیکن راہ چلتے آدمیوں کے منہ سے گرم گرم سماوار کی ٹونٹیوں کی طرح گاڑھا سفید دھواں نکل رہا تھا۔ ہر شے بوجھل دکھائی دیتی تھی جیسے بادلوں کے وزن کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ موسم کچھ ویسی ہی کیفیت کا حامل تھا جو ربڑ کے جوتے پہن کر چلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے باوجود کہ بازار میں لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی اور دکانوں میں زندگی کے آثار پیدا ہو چکے تھے؛ آوازیں مدھم تھیں، جیسے سرگوشیاں ہو رہی ہیں، چپکے چپکے، دھیرے دھیرے باتیں ہو رہی ہیں، ہولے ہولے لوگ قدم اٹھا رہے ہیں کہ زیادہ اونچی آواز پیدا نہ ہو۔ 
مسعود بغل میں بستہ دبائے اسکول جا رہا تھا۔ آج اس کی چال بھی سست تھی۔ جب اس نے بے کھال کے تازہ ذبح کیے ہوئے بکروں کے گوشت سے سفید سفید دھواں اٹھتا دیکھا تو اسے راحت محسوس ہوئی۔ اُس دھوئیں نے اس کے ٹھنڈے گالوں پر گرم گرم لکیروں کا ایک جال سا بُن دیا۔ اس گرمی نے اسے راحت پہنچائی اور وہ سوچنے لگا کہ سردیوں میں ٹھنڈے یخ ہاتھوں پر بید کھانے کے بعد اگر یہ دھواں مل جایا کرے تو کتنا اچھا ہو۔ 
فضا میں اجلاپن نہیں تھا۔ روشنی تھی مگر دھندلی۔ کہر کی ایک پتلی سی تہہ ہر شے پر چڑھی ہوئی تھی جس سے فضا میں گدلاپن پیدا ہو گیا تھا۔ یہ گدلاپن آنکھوں کو اچھا معلوم ہوتا تھا۔ اس لیے کہ نظر آنے والی چیزوں کی نوک پلک کچھ مدھم پڑ گئی تھی۔
مسعود جب اسکول پہنچا تو اسے اپنے ساتھیوں سے یہ معلوم کر کے قطعی طور پر خوشی نہ ہوئی کہ اسکول، سکتر صاحب کی موت کے باعث بند کر دیا گیا ہے۔ سب لڑکے خوش تھے جس کا ثبوت یہ تھا کہ وہ اپنے بستے ایک جگہ پر رکھ کر اسکول کے صحن میں اوٹ پٹانگ کھیلوں میں مشغول تھے، کچھ چھٹی کا پتہ معلوم [کذا] کرتے ہی گھر چلے گئے، کچھ آ رہے تھے اور کچھ نوٹس بورڈ کے پاس جمع تھے اور بار بار ایک ہی عبارت پڑھ رہے تھے۔ 
مسعود نے جب سنا کہ سکتر صاحب مر گئے ہیں تو اُسے بالکل افسوس نہ ہوا۔ اس کا دل جذبات سے بالکل خالی تھا۔ البتہ اس نے یہ ضرور سوچا کہ پچھلے برس جب اس کے دادا جان کا انتقال ان ہی دنوں میں ہوا تھا تو ان کا جنازہ لے جانے میں بڑی دقّت ہوئی تھی۔ اس لیے کہ بارش شروع ہو گئی تھی۔ وہ بھی جنازے کے ساتھ گیا تھا اور قبرستان میں چکنی کیچڑ کے باعث ایسا پھسلا تھا کہ کُھدی ہوئی قبر میں گرتے گرتے بچا تھا۔ یہ سب باتیں اس کو اچھی طرح یاد تھیں۔ سردی کی شدت، اس کے کیچڑ سے لت پت کپڑے، سرخی مائل نیلے ہاتھ جن کو دبانے سے سفید سفید دھبّے پڑ جاتے تھے، ناک جو کہ برف کی ڈلی معلوم ہوتی تھی اور پھر [گھر؟] آ کر ہاتھ پائوں دھونے اور کپڑے بدلنے کا مرحلہ ...... یہ سب کچھ اُس کو اچھی طرح یاد تھا۔ چنانچہ جب اس نے سکتر صاحب کی موت کی خبر سنی تو اسے یہ سب بیتی ہوئی باتیں یاد آگئیں اور اس نے سوچا: جب سکتر صاحب کا جنازہ اٹھے گا تو بارش شروع ہو جائے گی اور قبرستان میں اتنی کیچڑ ہو جائے گی کہ کئی لوگ پھسلیں گے اور ان کو ایسی چوٹیں آئیں گی کہ بلبلا اٹھیں گے۔
مسعود نے یہ خبر سن کر سیدھا اپنی کلاس کا رخ کیا۔ کمرے میں پہنچ کر اُس نے اپنے ڈیسک کا تالا کھولا۔ دو تین کتابیں جو کہ اسے دوسرے روز پھر لانا تھیں، اس میں رکھیں اور باقی بستہ اٹھا کر گھر کی جانب چل پڑا۔
راستے میں اس نے پھر وہی دو تازہ ذبح کیے ہوئے بکرے دیکھے۔ ان میں سے ایک کو اب قصائی نے لٹکا دیا تھا۔ دوسرا تختے پر پڑا تھا۔ جب مسعود دُکان پر سے گزرا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ گوشت کو جس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا، چھو کر دیکھے۔ چنانچہ اس نے آگے بڑھ کر انگلی سے بکرے کے اُس حصّے کو چھو کر دیکھا جو ابھی تک پھڑک رہا تھا۔ گوشت گرم تھا۔ مسعود کی ٹھنڈی انگلی کو یہ حرارت بہت بھلی معلوم ہوئی۔ قصائی دکان کے اندر چھریاں تیز کرنے میں مصروف تھا۔ چنانچہ مسعود نے ایک بار پھر گوشت کو چھو کر دیکھا اور وہاں سے چل پڑا۔
گھر پہنچ کر اس نے جب اپنی ماں کو سکتر صاحب کی موت کی خبر سنائی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے ابّاجی اُن ہی کے جنازے کے ساتھ گئے ہیں۔ اب گھر میں صرف دو آدمی تھے: ماں اور بڑی بہن۔ ماں باورچی خانے میں بیٹھی سالن پکا رہی تھی اور بڑی بہن کلثوم، پاس ہی ایک کانگڑی لیے درباری کی سرگم یاد کر رہی تھی۔ 
چونکہ گلی کے دوسرے لڑکے گورنمنٹ اسکول میں پڑھتے تھے جس پر اسلامیہ اسکول کے سکتر کی موت کا کچھ اثر نہیں ہوا تھا، اس لیے مسعود نے خود کو بالکل بیکار محسوس کیا۔ اسکول کا کوئی کام بھی نہیں تھا۔ چھٹی جماعت میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ گھر میں اپنے ابّاجی سے پڑھ چکا تھا۔ کھیلنے کے لیے بھی اُس کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔ ایک میلا کچیلا تاش، طاق میں پڑا تھا مگر اُس سے مسعود کو کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لوڈو اور اسی قسم کے دوسرے کھیل جو اُس کی بڑی بہن اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہر روز کھیلتی تھی، اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ سمجھ سے بالاتر یوں تھے کہ مسعود نے کبھی اُن کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ اس کو فطرتاً ایسے کھیلوں سے کوئی لگائو نہیں تھا۔
بستہ اپنی جگہ پر رکھنے اور کوٹ اتارنے کے بعد وہ باورچی خانے میں اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا اور درباری کی سرگم سنتا رہا جس میں کئی دفعہ سارے گاما آتا تھا۔ اُس کی ماں پالک کاٹ رہی تھی۔ پالک کاٹنے کے بعد اُس نے سبز سبز پتّوں کا گیلا گیلا ڈھیر اٹھا کر ہنڈیا میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب پالک کو آنچ لگی تو اُس میں سے سفید سفید دھواں اٹھنے لگا۔ اُس دھوئیں کو دیکھ کر مسعود کو بکرے کا گوشت یاد آگیا۔ چنانچہ اس نے اپنی ماں سے کہا: ’’امی جان! آج میں نے قصائی کی دُکان پر دو بکرے دیکھے، کھال اتری ہوئی تھی اور ان میں سے دھواں نکل رہا تھا، بالکل ایسے ہی جیسا کہ صبح سویرے میرے منہ سے نکلا کرتاہے۔‘‘
’’اچھا......!‘‘ یہ کہہ کر اس کی ماں چولھے میں لکڑیوں کے کوئلے جھاڑنے لگی۔ 
’’ہاں! اور میں نے گوشت کو اپنی انگلی سے چھو کر دیکھا تو وہ گرم تھا۔۔۔۔‘‘
’’اچھا......!‘‘ یہ کہہ کر اس کی ماں نے وہ برتن اٹھایا جس میں اس نے پالک کا ساگ دھویا تھا اور باورچی خانے سے باہر چلی گئی۔
’’اور یہ گوشت کئی جگہ پر پھڑکتا بھی تھا۔‘‘
’’اچھا......‘‘ مسعود کی بڑی بہن نے درباری کی سرگم یاد کرنا چھوڑ دی اور اُس کی طرف متوجہ ہوئی: ’’کیسے پھڑکتا تھا؟‘‘
’’یوں...... یوں۔‘‘ مسعود نے انگلیوں سے پھڑکن پیدا کر کے اپنی بہن کو دکھائی۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ 
یہ سوال کلثوم نے اپنے سرگم بھرے دماغ سے کچھ اس طور پر نکالا کہ مسعود ایک لحظے کے لیے بالکل خالی الذّہن ہو گیا: ’’پھر کیا ہونا تھا، میں نے ایسے ہی آپ سے بات کی تھی کہ قصائی کی دکان پر گوشت پھڑک رہا تھا۔ میں نے انگلی سے چھو کر بھی دیکھا تھا، گرم تھا۔‘‘
’’گرم تھا ...... اچھا مسعود یہ بتائو تم میرا ایک کام کرو گے؟‘‘
’’بتائیے۔‘‘
’’آئو، میرے ساتھ آئو۔‘‘
’’نہیں آپ پہلے بتائیے۔ کام کیا ہے؟‘‘
’’تم آئو تو سہی میرے ساتھ۔‘‘
’’جی نہیں ...... آپ پہلے کام بتائیے۔‘‘
’’دیکھو میری کمر میں بڑا درد ہو رہا ہے ...... میں پلنگ پر لیٹتی ہوں، تم ذرا پائوں سے دبا دینا ...... اچھے بھائی جو ہوئے۔ اﷲ کی قسم بڑا درد ہو رہا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر مسعود کی بہن نے اپنی کمر پر مکیاں مارنا شروع کر دیں۔
’’یہ آپ کی کمر کو کیا ہو جاتا ہے؟ جب دیکھو درد ہو رہا ہے اور پھر آپ دبواتی بھی مجھی سے ہیں، کیوں نہیں اپنی سہیلیوں سے کہتیں۔‘‘ مسعود اٹھ کھڑا ہوا اور راضی ہو گیا۔
’’چلیے، لیکن آپ سے یہ کہے دیتا ہوں کہ دس منٹ سے زیادہ میں بالکل نہیں دبائوں گا۔‘‘
’’شاباش، شاباش۔‘‘ اُس کی بہن اٹھ کھڑی ہوئی اور سرگموں کی کاپی سامنے طاق میں رکھ کر اُس کمرے کی طرف روانہ ہوئی جہاں وہ اور مسعود دونوں سوتے تھے۔
صحن میں پہنچ کر اس نے اپنی دکھتی ہوئی کمر سیدھی کی اور اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ مٹیالے بادل جھکے ہوئے تھے۔ ’’مسعود! آج ضرور بارش ہو گی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے مسعود کی طرف دیکھا مگر وہ اندر اپنی چارپائی پر لیٹا تھا۔ 
جب کلثوم اپنے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹ گئی تو مسعود نے اٹھ کر گھڑی میں وقت دیکھا۔ ’’دیکھیے باجی! گیارہ بجنے میں دس منٹ باقی ہیں۔ میں پورے گیارہ بجے آپ کی کمر دابنا چھوڑ دوں گا۔‘‘
’’بہت اچھا، لیکن تم اب خدا کے لیے زیادہ نخرے نہ بگھارو۔ ادھر میرے پلنگ پر آ کر جلدی کمر دبائو ورنہ یاد رکھو، بڑے زور سے کان امیٹھوں گی۔‘‘ کلثوم نے مسعود کو ڈانٹ پلائی۔ مسعود نے اپنی بڑی بہن کے حکم کی تعمیل کی اور دیوار کا سہارا لے کر پائوں سے اس کی کمر دبانا شروع کر دی۔ مسعود کے وزن کے نیچے کلثوم کی چوڑی چکلی کمر میں خفیف سا جھکائو پیدا ہو گیا۔ جب اس نے پیروں سے دبانا شروع کیا، ٹھیک اسی طرح جس طرح مزدور مٹی گوندھتے ہیں تو کلثوم نے مزا لینے کی خاطر ہولے ہولے ہائے ہائے کرنا شروع کیا۔ 
کلثوم کے کولھوں پر گوشت زیادہ تھا، جب مسعود کا پائوں اُس حصّے پر پڑا تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ اُس بکرے کے گوشت کو دبا رہا ہے جو اس نے قصائی کی دکان میں اپنی انگلی سے چھو کر دیکھا تھا۔ اس احساس نے چند لمحات کے لیے اس کے دل و دماغ میں ایسے خیالات پیدا کیے جن کا کوئی سر تھا نہ پیر، وہ اُن کا مطلب نہ سمجھ سکا اور سمجھتا بھی کیسے جبکہ کوئی خیال مکمل ہی [نہ؟] تھا۔
ایک دو بار مسعود نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس کے پیروں کے نیچے گوشت کے لوتھڑوں میں حرکت پیدا ہوئی ہے، اُسی قسم کی حرکت جو اس نے بکرے کے گرم گرم گوشت میں دیکھی تھی۔ اس نے بڑی بددلی سے کمر دبانا شروع کی تھی مگر اب اسے اس کام میں لذّت محسوس ہونے لگی۔ اس کے وزن کے نیچے کلثوم ہولے ہولے کراہ رہی تھی۔ یہ بھینچی بھینچی آواز جو کہ مسعود کے پیروں کی حرکت کا ساتھ دے رہی تھی اُس گمنام سی لذّت میں اضافہ کر رہی تھی۔
ٹائم پیس میں گیارہ بج گئے مگر مسعود اپنی بہن کلثوم کی کمر دباتا رہا۔ جب کمر اچھی طرح دبائی جا چکی تو کلثوم سیدھی لیٹ گئی اور کہنے لگی: ’’شاباش مسعود، شاباش! لو اب لگے ہاتھوں ٹانگیں بھی دبا دو، بالکل اسی طرح ...... شاباش میرے بھائی۔‘‘
مسعود نے دیوار کا سہارا لے کر کلثوم کی رانوں پر جب اپنا پورا وزن ڈالا تو اس کے پائوں کے نیچے مچھلیاں سی تڑپ گئیں۔ بے اختیار وہ ہنس پڑی اور دوہری ہو گئی۔ مسعود گرتے گرتے بچا، لیکن اس کے تلووں میں مچھلیوں کی وہ تڑپ منجمد سی ہو گئی۔ اس کے دل میں زبردست خواہش پیدا ہوئی کہ وہ پھر اسی طرح دیوار کا سہارا لے کر اپنی بہن کی رانیں دبائے۔ چنانچہ اس نے کہا: ’’یہ آپ نے ہنسنا کیوں شروع کر دیا۔ سیدھی لیٹ جایے، میں آپ کی ٹانگیں دبا دوں۔‘‘
کلثوم سیدھی لیٹ گئی۔ رانوں کی مچھلیاں اِدھر اُدھر ہونے کے باعث جو گدگدی پیدا ہوئی تھی اس کا اثر ابھی تک اس کے جسم میں باقی تھا۔ ’’نابھائی، میرے گدگدی ہوتی ہے۔ تم وحشیوں کی طرح دباتے ہو۔‘‘ 
مسعود نے خیال کیا کہ شاید اس نے غلط طریقہ استعمال کیا ہے۔ ’’نہیں، اب کی دفعہ میں پورا بوجھ آپ پر نہیں ڈالوں گا ...... آپ اطمینان رکھیے۔ اب ایسی اچھی طرح دبائوں گا کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔‘‘
دیوار کا سہارا لے کر مسعود نے اپنے جسم کو تولا اور اس انداز سے آہستہ آہستہ کلثوم کی رانوں پر اپنے پیر جمائے کہ اس کا آدھا بوجھ کہیں غائب ہو گیا۔ ہولے ہولے بڑی ہوشیاری سے اس نے پیر چلانے شروع کیے۔ کلثوم کی رانوں میں اکڑی ہوئی مچھلیاں، اس کے پیروں کے نیچے دب دب کر اِدھر اُدھر پھسلنے لگیں۔ مسعود نے ایک بار اسکول میں، تنے ہوئے رسّے پر ایک بازی گر کو چلتے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ بازی گر کے پیروں کے نیچے تنا ہوا رسّا اسی طرح پھسلتا ہو گا۔
اس سے پہلے کئی بار اس نے اپنی بہن کلثوم کی ٹانگیں دبائی تھیں مگر وہ لذت جو کہ اسے اب محسوس ہو رہی تھی، پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ بکرے کے گرم گرم گوشت کا اسے بار بار خیال آتا تھا۔ ایک دو مرتبہ اس نے سوچا: کلثوم کو اگر ذبح کیا جائے تو کھال اتر جانے پر کیا اِس کے گوشت میں سے بھی دھواں نکلے گا؟ لیکن ایسی بیہودہ باتیں سوچنے پر اس نے اپنے آپ کو مجرم محسوس کیا اور دماغ کو اس طرح صاف کر دیا جیسے وہ سلیٹ کو اسفنج سے صاف کیا کرتا تھا۔ 
’’بس، بس۔‘‘ کلثوم تھک گئی۔ ’’بس، بس۔‘‘
مسعود کو ایک دم شرارت سوجھی۔ وہ پلنگ پر سے نیچے اترنے لگا تو اس نے کلثوم کی دونوں بغلوں میں گدگدی شروع کر دی۔ ہنسی کے مارے وہ لوٹ پوٹ ہو گئی۔ اُس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مسعود کے ہاتھوں کو پرے جھٹک دے لیکن جب اس نے ارادہ کر کے اس کے لات جمانی چاہی تو مسعود اچھل کر زد سے باہر ہو گیا اور سلیپر پہن کر کمرے سے نکل گیا۔
جب وہ صحن میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ہلکی ہلکی بونداباندی ہو رہی ہے، بادل اور بھی جھک آئے تھے، پانی کے ننھے ننھے قطرے آواز پیدا کیے بغیر صحن کی اینٹوں میں آہستہ آہستہ جذب ہو رہے تھے۔ مسعود کا جسم ایک دل نواز حرارت محسوس کر رہا تھا۔ جب ہوا کا ٹھنڈا ٹھنڈا جھونکا اُس کے گالوں کے ساتھ مس ہوا اور دو تین ننھی ننھی بوندیں اس کی ناک پر پڑیں تو ایک جھرجھری سی اس کے بدن میں لہرا اُٹھی۔ سامنے کوٹھے کی دیوار پر ایک کبوتر اور ایک کبوتری پاس پاس پر پُھلائے بیٹھے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دونوں دم پخت کی ہوئی ہنڈیا کی طرح گرم ہیں۔ گل دائودی اور نازبو کے ہرے ہرے پتّے، اوپر لال لال گملوں میں نہا رہے تھے۔ فضا میں نیندیں گھلی ہوئی تھیں، ایسی نیندیں جن میں بیداری زیادہ ہوتی ہے اور انسان کے اردگرد نرم نرم خواب یوں لپٹ جاتے ہیں جیسے اونی کپڑے۔
مسعود ایسی باتیں سوچنے لگا جن کا مطلب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہ اُن باتوں کو چُھو کر دیکھ سکتا تھا مگر اُن کا مطلب اس کی گرفت سے باہر تھا، پھر بھی ایک گمنام سا مزا، اِس سوچ بچار میں اُسے آ رہا تھا۔
بارش میں کچھ دیر کھڑے رہنے کے باعث جب مسعود کے ہاتھ بالکل یخ ہو گئے اور دبانے سے ان پر سفید دھبّے پڑنے لگے تو اُس نے مٹھیاں کس لیں اور اُن کو منہ کی بھاپ سے گرم کرنا شروع کیا۔ ہاتھوں کو اِس عمل سے کچھ گرمی تو پہنچی مگر وہ نم آلود ہو گئے۔ چنانچہ آگ تاپنے کے لیے وہ باورچی خانے میں چلا گیا۔ کھانا تیار تھا، ابھی اس نے پہلا لُقمہ ہی [پہلا ہی لُقمہ؟] اٹھایا تھا کہ اس کا باپ قبرستان سے واپس آ گیا۔ باپ بیٹے میں کوئی بات نہ ہوئی۔ مسعود کی ماں اٹھ کر فوراً دوسرے کمرے میں چلی گئی اور وہاں دیر تک اپنے خاوند کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔
کھانے سے فارغ ہو کر مسعود بیٹھک میں چلا گیا اور کھڑکی کھول کر فرش پر لیٹ گیا۔ بارش کی وجہ سے سردی کی شدّت بڑھ گئی تھی کیونکہ اب ہوا بھی چل رہی تھی مگر یہ سردی ناخوشگوار معلوم نہیں ہوتی تھی، تالاب کے پانی کی طرح یہ اوپر ٹھنڈی اور اندر گرم تھی۔ مسعود جب فرش پر لیٹا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اِس سردی کے اندر دھنس جائے جہاں اس کے جسم کو راحت انگیز گرمی پہنچے۔ دیر تک وہ ایسی شیر گرم باتوں کے متعلق سوچتا رہا جس کے باعث اس کے پٹّھوں میں ہلکی ہلکی دُکھن پیدا ہو گئی۔ ایک دو بار اس نے انگڑائی لی تو اسے مزا آیا۔ اس کے جسم کے کسی حصے میں، یہ اس کو معلوم نہیں تھا کہ کہاں، کوئی چیز اٹک سی گئی تھی، یہ چیز کیا تھی، اس کے متعلق بھی مسعود کو علم نہیں تھا، البتہ اُس اٹکائو نے اس کے سارے جسم میں اضطراب، ایک دبے ہوئے اضطراب، کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ اس کا سارا جسم کھنچ کر لمبا ہو جانے کا ارادہ بن گیا تھا۔
دیر تک گدگدے قالین پر کروٹیں بدلنے کے بعد وہ اٹھا اور باورچی خانے سے ہوتا ہوا صحن میں آ نکلا۔ کوئی باورچی خانے میں تھا، نہ صحن میں۔ اِدھر اُدھر جتنے کمرے تھے سب کے سب بند تھے۔ بارش اب رک گئی تھی۔ مسعود نے ہاکی اور گیند نکالی اور صحن میں کھیلنا شروع کر دیا۔ ایک بار جب اس نے زور سے ہٹ لگائی تو گیند صحن کے دائیں ہاتھ والے کمرے کے دروازے پر لگی۔ اندر سے مسعود کے باپ کی آواز آئی: ’’کون؟‘‘
’’جی میں ہوں مسعود!‘‘
اندر سے آواز آئی: ’’کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’جی کھیل رہا ہوں۔‘‘
’’کھیلو......‘‘ پھر تھوڑے سے توقّف کے بعد، اُس کے باپ نے کہا: ’’تمہاری ماں میرا سر دبا رہی ہے ...... زیادہ شور نہ مچانا!‘‘
یہ سن کر مسعود نے گیند وہیں پڑی رہنے دی اور ہاکی ہاتھ میں لیے سامنے والے کمرے کا رخ کیا۔ اُس کا ایک دروازہ بند تھا اور دوسرا نیم باز ...... مسعود کو ایک شرارت سوجھی۔ دبے پائوں وہ نیم باز دروازے کی طرف بڑھا اور دھماکے کے ساتھ دونوں پٹ کھول دیے۔ دو چیخیں بلند ہوئیں اور کلثوم اور اس کی سہیلی بملا نے جو کہ پاس پاس لیٹی تھیں، خوفزدہ ہو کر جھٹ سے لحاف اوڑھ لیا۔
بملا کے بلائوز کے بٹن کھلے ہوئے تھے اور کلثوم اُس کے عریاں سینے کو گھور رہی تھی۔ 
مسعود کچھ سمجھ نہ سکا، اس کے دماغ پر دھواں سا چھا گیا۔ وہاں سے اُلٹے قدم لوٹ کر وہ جب بیٹھک کی طرف روانہ ہوا تو اسے معاً اپنے اندر ایک اتھاہ طاقت کا احساس ہوا جس نے کچھ دیر کے لیے اس کی سوچنے سمجھنے کی قوّت بالکل کمزور کر دی۔
بیٹھک میں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر جب مسعود نے ہاکی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر گھٹنے پر رکھا تو یہ سوچا کہ ہلکا سا دبائو ڈالنے پر بھی ہاکی میں خم پیدا ہو جائے گا اور زیادہ زور لگانے پر تو ہینڈل چٹاخ سے ٹوٹ جائے گا۔ اس نے گھٹنے پر ہاکی کے ہینڈل میں خم تو پیدا کر لیا مگر زیادہ سے زیادہ زور لگانے پر بھی، وہ ٹوٹ نہ سکا۔ دیر تک وہ ہاکی کے ساتھ کشتی لڑتا رہا۔ جب تھک کر ہار گیا تو جھنجھلا کر اُس نے ہاکی پرے پھینک دی۔ 

ہتک (منٹو)

دن بھر کی تھکی ماندی وہ ابھی ابھی اپنے بستر پر لیٹی تھی اور لیٹتے ہی سو گئی تھی۔ میونسپل کمیٹی کا داروغۂ صفائی، جسے وہ سیٹھ کے نام سے پکارا کرتی تھی، ابھی ابھی اُس کی ہڈّیاں پسلیاں جھنجھوڑ کر شراب کے نشے میں چور، گھر واپس گیا تھا ...... وہ رات کو یہیں ٹھہر جاتا مگر اُسے اپنی دھرم پتنی کا بہت خیال تھا جو اُس سے بے حد پریم کرتی تھی۔
وہ روپے جو اُس نے اپنی جسمانی مشقّت کے بدلے اُس داروغہ سے وصول کیے تھے، اُس کی چُست اور تھوک بھری چولی کے نیچے سے، اوپر کو اُبھرے ہوئے تھے، کبھی کبھی سانس کے اُتار چڑھاؤ سے چاندی کے یہ سکّے کھنکھنانے لگتے اور اِن کی کھنکھناہٹ اُس کے دل کی غیر آہنگ دھڑکنوں میں گھُل مل جاتی۔ ایسا معلوم ہوتا کہ اِن سکّوں کی چاندنی پگھل کر اُس کے دل کے خون میں ٹپک رہی ہے۔
اُس کا سینہ اندر سے تپ رہا تھا۔ یہ گرمی کچھ تو اُس برانڈی کے باعث تھی جس کا ادھّا داروغہ اپنے ساتھ لایا تھا اور کچھ اُس ’’بیوڑا‘‘ کا نتیجہ تھی جس کا سوڈا ختم ہونے پر دونوں نے پانی ملا کر پیا تھا۔
وہ ساگوان کے لمبے اور چوڑے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹی تھی۔ اُس کی باہیں جو کاندھوں تک ننگی تھیں، پتنگ کی اُس کانپ کی طرح پھیلی ہوئی تھیں جو اوس میں بھیگ جانے کے باعث پتلے کاغذ سے جُدا ہوجائے ...... دائیں بازو کی بغل میں شکن آلود گوشت اُبھرا ہُوا تھا جو بار بار مونڈنے کے باعث نیلی رنگت اختیار کر گیا تھا، جیسے نُچی ہوئی مرغی کی کھال کا ایک ٹکٹرا وہاں پر رکھ دیا گیا ہے۔
کمرہ بہت چھوٹا تھا جس میں بے شمار چیزیں بے ترتیبی کے ساتھ بکھری ہوئی تھیں۔ تین چار سوکھے سڑے چپّل، پلنگ کے نیچے پڑے تھے جن کے اوپر منہ رکھ کر ایک خارش زدہ کُتّا سو رہا تھا اور نیند میں کسی غیرمرئی چیز کا منہ چڑا رہا تھا۔ اِس کُتّے کے بال جگہ جگہ سے خارش کے باعث اُڑے ہوئے تھے۔ دور سے اگر کوئی اِس کُتے کو دیکھتا تو سمجھتا کہ پیر پونچھنے والا پُرانا ٹاٹ، دوہرا کرکے زمین پر رکھا ہے۔
اِس طرف چھوٹے سے دیوار گیر پر سنگار کا سامان رکھا تھا: گالوں پر لگانے کی سرخی، ہونٹوں کی سُرخ بتّی، پاؤڈر، کنگھی اور لوہے کے پِن جو وہ غالباً اپنے جوڑے میں لگایا کرتی تھی۔ پاس ہی ایک لمبی کھونٹی کے ساتھ سبز طوطے کا پنجرہ لٹک رہا تھا جو گردن کو اپنی پیٹھ کے بالوں میں چھپائے سو رہا تھا۔ پنجرہ: کچّے امرود کے ٹکڑوں اور گلے ہوئے سنگترے کے چھلکوں [سنگترے کے گلے ہوئے چھلکوں؟] سے بھرا ہوا تھا۔ اِن بدبو دار ٹکڑوں پر چھوٹے چھوٹے کالے رنگ کے مچھّر یا پتنگے اُڑ رہے تھے۔
پلنگ کے پاس ہی بید کی ایک کرسی پڑی تھی جس کی پشت، سرٹیکنے کے باعث بے حد میلی ہو رہی تھی۔ اِس کرسی کے دائیں ہاتھ کو ایک خوب صورت تپائی تھی جس پر ہِز ماسٹرز وائس کا پورٹ ایبل گرامو فون پڑا تھا۔ اُس گرامو فون پر منڈھے ہوئے کالے کپڑے کی بہت بُری حالت تھی۔ زنگ آلود سوئیاں تپائی کے علاوہ کمرے کے ہر کونے میں بکھری ہوئی تھیں۔ اِس تپائی کے عین اوپر، دیوار پر چار فریم لٹک رہے تھے جن میں مختلف آدمیوں کی تصویریں جڑی تھیں۔
اِن تصویروں سے ذرا اِدھر ہٹ کر، یعنی دروازے میں داخل ہوتے ہی، بائیں طرف کی دیوار کے کونے میں، گنیش جی کی شوخ رنگ تصویر تھی جو تازہ اور سوکھے ہوئے پھولوں سے لدی ہوئی تھی۔ شاید یہ تصویر کپڑے کے کسی تھان سے اتار کر فریم میں جڑائی گئی تھی۔ اِس تصویر کے ساتھ چھوٹے سے دیوار گیر پر، جو کہ بے حد چِکنا ہورہا تھا، تیل کی ایک پیالی دھری تھی جو دِیے کو روشن کرنے کے لیے وہاں رکھی گئی تھی۔ پاس ہی دیا پڑا تھا جس کی لَو، ہوا بند ہونے کے باعث، ماتھے کے تلک کے مانند سیدھی کھڑی تھی۔ اِس دیوار گیر پر دھوپ کی چھوٹی بڑی مروڑیاں بھی پڑی تھیں۔
جب وہ بوہنی کرتی تھی تو دور سے گنیش جی کی اِس مورتی سے روپے چھُوا کر اور پھر اپنے ماتھے کے ساتھ لگا کر، اُنہیں اپنی چولی میں رکھ لیا کرتی تھی۔ اُس کی چھاتیاں چونکہ کافی ابھری ہوئی تھیں اِس لیے وہ جتنے روپے بھی اپنی چولی میں رکھتی، محفوظ پڑے رہتے تھے۔ البتہ کبھی کبھی جب مادھو، پونے سے چھّٹی لے کر آتا تو اسے اپنے کچھ روپے، پلنگ کے پائے کے نیچے اُس چھوٹے سے گڑھے میں چھپانا پڑتے تھے جو اُس نے خاص اِس کام کی غرض سے کھودا تھا۔ مادھو سے روپے محفوظ رکھنے کا یہ طریقہ، سوگندھی کو رام لال دلّال نے بتایا تھا۔ اُس نے جب یہ سُنا تھا کہ مادھو پونے سے آکر سوگندھی پر دھاوے بولتا ہے تو کہا تھا ...... ’’ اس سالے کو تو نے کب سے یار بنایا ہے؟ ...... یہ بڑی انوکھی عاشقی معشوقی ہے! ...... سالا ایک پیسہ اپنی جیب سے نکالتا نہیں اور تیرے ساتھ مزے اڑاتا رہتا ہے۔ مزے الگ رہے، تجھ سے کچھ لے بھی مرتا ہے ...... سوگندھی! مجھے کچھ دال میں کالا کالا نظر آتا ہے۔ اس سالے میں کوئی بات ضرور ہے جو تجھے بھاگیا ہے ...... سات سال سے یہ دھندا کررہا ہوں۔ تم چھوکریوں کی ساری کمزوریاں جانتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر رام لال دلّال نے جو بمبئی شہر کے مختلف حصّوں سے دس روپے سے لے کر سو روپے تک والی، ایک سوبیس چھوکریوں کا دھندا کرتا تھا، سوگندھی کو بتایا ...... ’’سالی اپنا دھن یوں نہ برباد کر ...... تیرے انگ پر سے، یہ کپڑے بھی، اتار کر لے جائے گا، وہ تیری ماں کا یار! ...... اِس پلنگ کے پائے کے نیچے چھوٹا سا گڑھا کھود کر اُس میں سارے پیسے دبا دِیا کر، اور جب وہ آیا کرے تو اُس سے کہا کر ...... ’’تیری جان کی قسم مادھو، آج صبح سے ایک دھیلے کا منہ نہیں دیکھا۔ باہر والے سے کہہ کر ایک کوپ چائے اور ایک افلاطون بسکٹ تو منگا، بھوک سے میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں......‘‘ سمجھیں؟ بہت نازک وقت آگیا ہے میری جان ...... اِس سالی کانگرس نے شراب بند کرکے بازار بالکل مندا کردیا ہے۔ پر تجھے تو کہیں نہ کہیں سے پینے کو مل ہی جاتی ہے۔ بھگوان قسم! جب تیرے یہاں کبھی رات کی خالی کی ہوئی بوتل دیکھتا ہوں اور دارو کی باس سونگھتا ہوں تو جی چاہتا ہے تیری جون میں چلا جاؤں۔‘‘
سوگندھی کو اپنے جسم میں سب سے زیادہ اپنا سینہ پسند تھا۔ ایک بار جمنا نے اُس سے کہا تھا: ’’نیچے سے اِن بمب کے گولوں کو باندھ کے رکھا کر، انگیا پہنا کرے گی تو اِن کی سختائی ٹھیک رہے گی۔‘‘
سوگندھی یہ سُن کر ہنس دی تھی۔ ’’جمنا! تو سب کو اپنے سری کا سمجھتی ہے۔ دس روپے میں لوگ تیری بوٹیاں توڑ کر چلے جاتے ہیں تو تو سمجھتی ہے کہ سب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا ...... کوئی مُوا لگائے تو ایسی ویسی جگہ، ہاتھ ...... ارے ہاں! کل کی بات تجھے سناؤں: رام لال رات کے دو بجے ایک پنجابی کو لایا۔ رات کا تیس روپے طے ہوا ...... جب سونے لگے تو میں نے بتی بجھادی ...... ارے وہ تو ڈرنے لگا! ...... سنتی ہو جمنا؟ تیری قسم، اندھیرا ہوتے ہی اُس کا سارا ٹھاٹھ کِرکِرا ہوگیا ...... وہ ڈر گیا! میں نے کہا، چلو چلو دیر کیوں کرتے ہو! تین بجنے والے ہیں، ابھی دن چڑھ آئے گا ...... بولا، روشنی کرو ...... روشنی کرو ...... میں نے کہا، یہ روشنی کیا ہوا؟ ......بولا، لائٹ  ...... لائٹ! ...... اُس کی بھنچی ہوئی آواز سُن کر مجھ سے ہنسی نہ رکی۔ ’’بھئی میں تو لائٹ نہ کروں گی!‘‘ ...... اور یہ کہہ کر میں نے اُس کی گوشت بھری ران کی چٹکی لی ...... تڑپ کر اُٹھ بیٹھا اور لائٹ اون کردی۔ میں نے جھٹ سے چادر اوڑھ لی، اور کہا: ’’تجھے شرم نہیں آتی مردُوے!‘‘ وہ پلنگ پر آیا تو میں اُٹھی اور لپک کر لائٹ بجھا دی! ...... وہ پھر گھبرانے لگا ...... تیری قسم! بڑے مزے میں رات کٹی ...... کبھی اندھیرا کبھی اُجالا، کبھی اُجالا کبھی اندھیرا ...... ٹرام کی کھڑکھڑ ہوئی تو پتلون وتلون پہن کر وہ اٹھ بھاگا ...... سالے نے تیس روپے سٹّے میں جیتے ہوں گے جو یوں مفت دے گیا ...... جمنا! تو بالکل الّھڑ ہے۔ بڑے بڑے گُر یاد ہیں مجھے، اِن لوگوں کے ٹھیک کرنے کے لیے!‘‘
سوگندھی کو واقعی بہت سے گُر یاد تھے جو اُس نے اپنی ایک دو سہیلیوں کو بتائے بھی تھے۔ عام طور پر وہ، یہ گُر سب کو بتایا کرتی تھی ...... ’’اگر آدمی شریف ہو، زیادہ باتیں نہ کرنے والا ہو، تو اُس سے خوب شرارتیں کرو، اَن گنت باتیں کرو، اُسے چھیڑو، ستاؤ، اس کے گُدگُدی کرو، اس سے کھیلو ...... اگر داڑھی رکھتا ہو تو اس میں انگلیوں سے کنگھی کرتے کرتے دو چار بال بھی نوچ لو [نوچ بھی لو؟] ...... پیٹ بڑا ہو تو تھپتھپاؤ ...... اُس کو اتنی مہلت ہی نہ دو کہ اپنی مرضی کے مطابق کچھ کرنے پائے ...... وہ خوش خوش چلا جائے گا اور تم بھی بچی رہوگی ...... ایسے مر د جو گُپ چُپ رہتے ہیں، بڑے خطرناک ہوتے ہیں بہن ...... ہڈی پسلی توڑ دیتے ہیں، اگر اُن کا داؤ چل جائے!‘‘
سوگندھی اتنی چالاک نہیں تھی، جتنی کہ خود کو ظاہر کرتی تھی۔ اُس کے گاہک بہت کم تھے۔ غایت درجہ جذباتی لڑکی تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ تمام گُر جو اُسے یاد تھے، اُس کے دماغ سے پھِسل کر اس کے پیٹ میں آجاتے تھے، جس پر ایک بچّہ پیدا کرنے کے باعث کئی لکیریں پڑ گئی تھیں ...... ان لکیروں کو پہلی مرتبہ دیکھ کر اُسے ایسا لگا تھا کہ اس کے خارش زدہ کُتے نے اپنے پنجے سے یہ نشان بنادیے ہیں ...... جب کوئی کُتیا بڑی بے اعتنائی سے اُس کے پالتو کُتّے کے پاس سے گزر جاتی تھی تو وہ شرمندگی دُور کرنے کے لیے زمین پر اپنے پنجوں سے اِسی قسم کے نشان بنایا کرتا تھا۔
سوگندھی دماغ میں زیادہ رہتی تھی لیکن جوں ہی کوئی نرم و نازک بات ...... کوئی کومل بول ...... اُس سے کہتا تو جھٹ پگھل کر وہ اپنے جسم کے دوسرے حصّوں میں پھیل جاتی۔ گو مرد اور عورت کے جسمانی ملاپ کو اس کا دماغ بالکل فُضول سمجھتا تھا مگر اس کے جسم کے باقی اعضا، سب کے سب، اس کے بہت بُری طرح قائل تھے، وہ تھکن چاہتے تھے ...... ایسی تھکن جو اُنہیں جھنجھوڑ کر ...... انہیں مار کر، سُلانے پر [سونے پر؟] مجبور کردے ...... ایسی نیند جو تھک کر چُور چُور ہونے کے بعد آئے، کتنی مزے دار ہوتی ہے ...... وہ بے ہوشی جو مار کھا کر بند بند ڈھیلے [ڈھیلا؟] ہوجانے پر طاری ہوتی ہے، کتنا آنند دیتی ہے! ......کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم ہو اور کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نہیں ہو! اور اس ہونے اور نہ ہونے کے بیچ میں کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ تم ہَوا میں بہت اونچی جگہ لٹکی ہوئی ہو۔ اوپر ہوا، نیچے ہوا، دائیں ہوا، بائیں ہوا، بس ہوا ہی ہوا! اور پھر اُس ہوا میں دم گھٹنا بھی ایک خاص مزا دیتا ہے۔
بچپن میں جب وہ آنکھ مچولی کھیلا کرتی تھی اور اپنی ماں کا بڑا صندوق کھول کر اُس میں چھُپ جایا کرتی تھی، تو ناکافی ہوا میں دم گھُٹنے کے ساتھ ساتھ، پکڑے جانے کے خوف سے، وہ تیز دھڑکن جو اس کے دل میں پیدا ہوجایا کرتی تھی، کتنا مزہ دیا کرتی تھی!
سوگندھی چاہتی تھی کہ اپنی ساری زندگی کسی ایسے ہی صندوق میں چھپ کر گزار دے جس کے باہر ڈھونڈنے والے پھرتے رہیں، کبھی کبھی اُس کو ڈھونڈ نکالیں تاکہ وہ بھی اُن کو ڈھونڈنے کی کوشش کرے۔ یہ زندگی جو وہ پانچ برس سے گزار رہی تھی، آنکھ مچولی ہی تو تھی! ...... کبھی وہ کسی کو ڈھونڈ لیتی تھی اور کبھی کوئی اسے ڈھونڈ لیتا تھا ...... بس یوں ہی اس کا جیون بیت رہا تھا۔ وہ خوش تھی اس لیے کہ اس کو خوش رہنا پڑتا تھا۔ ہر روز رات کو کوئی نہ کوئی مرد اس کے چوڑے ساگوانی پلنگ پر ہوتا تھا اور سوگندھی جس کو مردوں کے ٹھیک کرنے کے لیے بے شمار گُر یاد تھے، اِس بات کا بار بار تہیّہ کرنے پر بھی کہ وہ ان مردوں کی کوئی ایسی ویسی بات نہیں مانے گی اور ان کے ساتھ بڑے روکھے پن کے ساتھ[روکھے پن سے؟] پیش آئے گی، ہمیشہ اپنے جذبات کے دھارے میں بہہ جایا کرتی تھی اور فقط ایک پیاسی عورت رہ جایا کرتی تھی۔
ہر روز رات کو اُس کا پرانا یا نیا ملاقاتی اس سے کہا کرتا تھا: ’’سوگندھی! میں تجھ سے پریم کرتا ہوں۔‘‘ اور سوگندھی یہ جان بوجھ کر کہ وہ جھوٹ بولتا ہے، بس موم ہوجاتی تھی اور ایسا محسوس کرتی تھی جیسے سچ مُچ اس سے پریم کیا جارہا ہے ...... پریم ...... کتنا سندر بول ہے! وہ چاہتی تھی، اِس کو پگھلا کر اپنے سارے انگوں پر مل لے، اِس کی مالش کرے تاکہ یہ سارے کا سارا اس کے مساموں میں رچ جائے ...... یا پھر وہ خود اس کے اندر چلی جائے، سمٹ سمٹاکر اِس کے اندر داخل ہوجائے اور اُوپر سے ڈھکنا بند کردے [کرلے؟] کبھی کبھی جب پریم کرنے اور پریم کیے جانے کا جذبہ اُس کے اندر بہت شّدت اختیار کرلیتا تو کئی بار اس کے جی میں آتا کہ اپنے پاس پڑے ہوئے آدمی کو گود میں لے کر تھپتھپانا شروع کردے اور لوریاں دے کر اُسے اپنی گود ہی میں سلادے۔
پریم کرسکنے کی اہلیت اُس کے اندر اِس قدر زیادہ تھی کہ ہر اُس مرد سے جو اُس کے پاس آتا تھا، وہ محبت کرسکتی تھی اور پھر اس کو نباہ بھی سکتی تھی۔ اب تک چار مردوں سے اپنا پریم نباہ ہی تو رہی تھی جن کی تصویریں اس کے سامنے دیوار پر لٹک رہی تھیں۔ ہر وقت یہ احساس اس کے دل میں موجود رہتا تھا کہ وہ بہت اچھّی ہے۔ لیکن یہ اچھّا پن مردوں میں کیوں نہیں ہوتا؟ یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی ...... ایک بار آئینہ دیکھتے ہوئے بے اختیار اس کے منہ سے نکل گیا تھا...... ’’سوگندھی! ......تجھ سے زمانے نے اچھا سلوک نہیں کیا!‘‘
یہ زمانہ، یعنی پانچ برسوں کے دن اور ان کی راتیں، اُس کے جیون کے ہر تار کے ساتھ وابستہ تھا۔ گو اس زمانے سے اس کو (وہ ) خوشی نصیب نہیں ہوئی تھی جس کی خواہش اس کے دل میں موجود تھی، تاہم وہ چاہتی تھی کہ یوں ہی اس کے دن بیتتے چلے جائیں۔ اسے کون سے محل کھڑے کرنا تھے جو روپے پیسے کا لالچ کرتی۔ دس روپے اس کا عام نرخ تھا جس میں سے ڈھائی روپے رام لال اپنی دلّالی کے کاٹ لیتا تھا۔ ساڑھے سات روپے اسے روز مل ہی جایا کرتے تھے جو اس کی اکیلی جان کے لیے کافی تھے۔ اور مادھو جب پونے سے، بقول رام لال دلّال، سوگندھی پر دھاوے بولنے کے لیے آتا تھا، تو وہ دس پندرہ روپے خراج بھی ادا کرتی تھی۔ یہ خراج صرف اس بات کا تھا کہ سوگندھی کو اُس سے کچھ وہ ہوگیا تھا۔ رام لال دلّال ٹھیک کہتا تھا: اُس میں ایسی بات ضرور تھی جو سوگندھی کو بہت بھا گئی تھی۔ اب اس کو چھپانا کیا ہے، بتا ہی کیوں نہ دیں! ...... سوگندھی سے جب مادھو کی پہلی ملاقات ہوئی تو اُس نے کہا تھا: ’’تجھے لاج نہیں آتی اپنا بھاؤ کرتے! جانتی ہے تو میرے ساتھ کس چیز کا سودا کررہی ہے؟ ...... اور میں تیرے پاس کیوں آیا ہوں؟ ...... چھی چھی چھی ...... دس روپے، اور جیسا کہ تو کہتی ہے ڈھائی روپے دلّال کے، باقی رہے ساڑھے سات، رہے نا ساڑھے سات؟ ...... اب ان ساڑھے سات روپیوں پر تو مجھے ایسی چیز دینے کا وچن دیتی ہے جو تو دے ہی نہیں سکتی اور میں ایسی چیز لینے آیا ہوں جو میں لے ہی نہیں سکتا ...... مجھے عورت چاہیے، پر تجھے کیا اِس وقت، اِسی گھڑی مرد چاہیے؟ ...... مجھے تو کوئی عورت بھی بھا جائے گی، پر کیا میں تجھے جچتا ہوں؟ ...... تیرا میرا ناتا ہی کیا ہے، کچھ بھی نہیں ...... بس یہ دس روپے، جن میں سے ڈھائی، دلّالی میں چلے جائیں گے اور باقی اِدھر اُدھر بکھر جائیں گے، تیرے اور میرے بیچ میں بج رہے ہیں ...... تو بھی ان کا بجنا سُن رہی ہے اور میں بھی۔ تیرا من کچھ اور سوچتا ہے، میرا من کچھ اور ...... کیوں نہ کوئی ایسی بات کریں کہ تجھے میری ضرورت ہو اور مجھے تیری ...... پونے میں حوالدار ہوں۔ مہینے میں ایک بار آیا کروں گا، تین چار دن کے لیے ...... یہ دھندا چھوڑ ...... میں تجھے خرچ دیا کروں گا...... کیا بھاڑا ہے اِس کھولی کا......؟‘‘
مادھو نے اور بھی بہت کچھ کہا تھا، جس کا اثر سوگندھی پر اس قدر زیادہ ہوا تھا کہ وہ چند لمحات کے لیے خود کو حوالدارنی سمجھنے لگی تھی۔ باتیں کرنے کے بعد مادھو نے اُس کے کمرے کی بِکھری ہوئی چیزیں قرینے سے رکھی تھیں اور ننگی تصویریں جو سوگندھی نے اپنے سرہانے لٹکا رکھی تھیں، بنا پوچھے گچھے پھاڑ دی تھیں اور کہا تھا: ’’سوگندھی بھئی میں ایسی تصویریں یہاں نہیں رکھنے دوںگا ...... اور پانی کا یہ گھڑا ...... دیکھنا، کتنا میلا ہے اور یہ  ...... یہ چیتھڑے ...... یہ چِندیاں ...... اف کتنی بُری باس آتی ہے، اُٹھا کے باہر پھینک اِن کو ...... اور تونے اپنے بالوں کا کیا ستیا ناس کررکھا ہے ...... اور ......اور۔‘‘
تین گھنٹے کی بات چیت کے بعد سوگندھی اور مادھو دونوں آپس میں گھُل مل گئے تھے اور سوگندھی کو تو ایسا محسوس ہوا تھا کہ برسوں سے حوالدار کو جانتی ہے۔ اُس وقت تک کسی نے بھی کمرے میں بدبو دار چیتھڑوں، میلے گھڑے اور ننگی تصویروں کی موجودگی کا خیال نہیں کیا تھا اور نہ کبھی کسی نے اس کو یہ محسوس کرنے کا موقع دیا تھا کہ اس کا ایک گھر ہے، جس میں گھریلو پن آسکتا ہے۔ لوگ آتے تھے اور بستر تک کی غلاظت کو محسوس کیے بغیر چلے جاتے تھے۔ کوئی سوگندھی سے یہ نہیں کہتا تھا: ’’دیکھ تو آج تیری ناک کتنی لال ہورہی ہے، کہیں زکام نہ ہوجائے تجھے ...... ٹھہر میں تیرے واسطے دوا لاتا ہوں۔‘‘ مادھو کتنا اچھا تھا۔ اُس کی ہر بات باون تولے اور پاؤرتی کی تھی۔ کیا کھری کھری سنائی تھیں اس نے سوگندھی کو! ...... اسے محسوس ہونے لگا کہ اسے مادھو کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ان دونوں کا سمبندھ ہوگیا۔
مہینے میں ایک بار مادھو پونے سے آتا تھا اور واپس جاتے ہوئے ہمیشہ سوگندھی سے کہا کرتا تھا : ’’دیکھ سوگندھی! اگر تونے پھر سے اپنا دھندا شروع کیا تو بس تیری میری ٹوٹ جائے گی ...... اگر تونے ایک بار بھی کسی مرد کو اپنے یہاں ٹھہرایا تو چٹیا سے پکڑ کر باہر نکال دوںگا ...... دیکھ اِس مہینے کا خرچ میں تجھے پونا پہنچتے ہی منی آرڈر کردوں گا ...... ہاں کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا......؟‘‘
نہ مادھونے کبھی پونا سے خرچ بھیجا تھا اور نہ سوگندھی نے اپنا دھندا بند کیا تھا۔ دونوں اچھی طرح جانتے تھے، کیا ہورہا ہے۔ نہ سوگندھی نے کبھی مادھو سے یہ کہا تھا: ’’تو یہ ٹرٹر کیا کرتا ہے، ایک پھوٹی کوڑی بھی دی ہے کبھی تُونے؟‘‘ اور نہ مادھو نے کبھی سوگندھی سے پوچھا تھا: ’’یہ مال تیرے پاس کہاں سے آتا ہے جب کہ میں تجھے کچھ دیتا ہی نہیں......!‘‘ دونوں جھوٹے تھے۔ دونوں ایک ملمّع کی ہوئی زندگی بسر کررہے تھے ...... لیکن سوگندھی خوش تھی۔ جس کو اصل سونا پہننے کو نہ ملے وہ ملمّع کیے ہوئے گہنوں ہی پر راضی ہوجایا کرتا ہے۔
اِس وقت سوگندھی تھکی ماندی سورہی تھی۔ بجلی کا قمقمہ جسے اوف کرنا وہ بھول گئی تھی، اُس کے سر کے اوپر لٹک رہا تھا۔ اس کی تیز روشنی اس کی مُندی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ٹکرا رہی تھی مگر وہ گہری نیند سورہی تھی۔
دروازے پر دستک ہوئی ...... رات کے دو بجے یہ کون آیا تھا؟ سوگندھی کے خواب آلود کانوں میں دستک کی آواز بھنبھناہٹ بن کر پہنچی۔ دروازہ جب زور سے کھٹکھٹایا گیا تو چونک کر اُٹھ بیٹھی ...... دو ملی جلی شرابوں اور دانتوں کی ریخوں میں پھنسے ہوئے مچھلی کے ریزوں نے اس کے منہ کے اندر ایسا لعاب پیدا کردیا تھا جو بے حد کسیلا اور لیس دار تھا۔ دھوتی کے پلّو سے اس نے یہ بدبو دار لعاب صاف کیا اور آنکھیں ملنے لگی۔ پلنگ پر وہ اکیلی تھی۔ جھک کر اس نے پلنگ کے نیچے دیکھا تو اُس کا کتّا سوکھے ہوئے چپّلوں پر منہ رکھے سو رہا تھا اور نیند میں کسی غیر مرئی چیز کا منہ چڑارہا تھا اور طوطا پیٹھ کے بالوں میں سر دیے سورہا تھا۔
دروازے پر [پھر] دستک ہوئی۔ سوگندھی بستر پر سے اٹھی۔ سر درد کے مارے پھٹا جارہا تھا۔ گھڑے سے پانی کا ایک ڈونگا نکال کر اس نے کُلّی کی اور دوسرا ڈونگا غٹاغٹ پی کر اس نے دروازے کا پٹ تھوڑا سا کھُولا اور کہا: ’’رام لال؟‘‘
رام لال جو باہر دستک دیتے دیتے تھک گیا تھا، بھنّا کر کہنے لگا: ’’تجھے سانپ سونگھ گیا تھا یا کیا ہوگیا تھا۔ ایک کلاک (گھنٹے) سے باہر کھڑا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہوں۔ کہاں مر گئی تھی؟‘‘ ...... پھر آواز دبا کر اس نے ہولے سے کہا: ’’اندر کوئی ہے تو نہیں؟‘‘
جب سوگندھی نے کہا: ’’نہیں‘‘ ...... تو رام لال کی آواز پھر اونچی ہوگئی: ’’تو دروازہ کیوں نہیں کھولتی؟ ...... بھئی حد ہوگئی ہے۔ کیا نیند پائی ہے۔ یوں ایک چھوکری اُتارنے میں دو دو گھنٹے سرکھپانا پڑے تو میں اپنا دھندا کرچکا ...... اب تو میرا منہ کیا دیکھتی ہے؟ جھٹ پٹ یہ دھوتی اتار کر وہ پھولوں والی ساڑی پہن، پوڈر ووڈر لگا اور چل میرے ساتھ...... باہر موٹر میں ایک سیٹھ بیٹھے تیرا انتظار کررہے ہیں ...... چل چل ایک دم جلدی کر۔‘‘
سوگندھی آرام کرسی پر بیٹھ گئی اور رام لال آئینے کے سامنے اپنے بالوں میں کنگھی کرنے لگا۔
سوگندھی نے تپائی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور بام کی شیشی اٹھا کر اس کا ڈھکنا کھولتے ہوئے کہا: ’’رام لال! آج میرا جی اچھا نہیں۔‘‘
رام لال نے کنگھی دیوار گیر پر رکھ دی اور مڑ کر کہا: ’’تو پہلے ہی کہہ دیا ہوتا!‘‘
سوگندھی نے ماتھے اور کنپٹیوں پر بام ملتے ہوئے، رام لال کی غلط فہمی دُور کردی: ’’وہ بات نہیں رام لال! ...... ایسے ہی میرا جی اچھا نہیں ...... بہت پی گئی۔‘‘
رام لال کے منہ میں پانی بھر آیا: ’’تھوڑی بچی ہو تو، لا ...... ذرا ہم بھی منہ کا مزا ٹھیک کرلیں۔‘‘
سوگندھی نے بام کی شیشی تپائی پر رکھ دی اور کہا: ’’بچائی ہوتی تو یہ مُوا سر میں درد ہی کیوں ہوتا ...... دیکھ رام لال! وہ جو باہر موٹر میں بیٹھا ہے اُسے اندر ہی لے آؤ [؟ لے آ]۔‘‘
رام لال نے جواب دیا: ’’نہیں بھئی، وہ اندر نہیں آسکتے، جنٹل مین آدمی ہیں، وہ تو موٹر کو گلی کے باہر کھڑی کرتے ہوئے بھی گھبراتے تھے ...... تو کپڑے وپڑے پہن لے اور ذرا گلی کی نُکّڑ تک چل ...... سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
ساڑھے سات روپے کا سودا، سوگندھی اِس حالت میں جب کہ اُس کے سر میں شدّت کا درد ہورہا تھا، کبھی قبول نہ کرتی مگر اسے روپوں کی سخت ضرورت تھی۔ اس کے ساتھ والی کھولی میں ایک مدراسی عورت رہتی تھی جس کا خاوند موٹر کے نیچے آکر مر گیا تھا۔ اُس عورت کو اپنی جوان لڑکی سمیت اپنے وطن جانا تھا لیکن اس کے پاس چونکہ کرایہ ہی نہیں تھا اس لیے وہ کس مپرسی کی حالت میں پڑی تھی۔ سوگندھی نے کل ہی اُس کو ڈھارس دی تھی اور اُس سے کہا تھا: ’’بہن تو چنتا نہ کر۔ میرا مرد پونے سے آنے ہی والا ہے۔ میں اس سے کچھ روپے لے کر تیرے جانے کا بندوبست کردوں گی۔‘‘ مادھو پونا سے آنے والا تھا، مگر روپوں کا بندوبست تو سوگندھی ہی کو کرنا تھا۔ چنانچہ وہ اُٹھی اور جلدی جلدی کپڑے تبدیل کرنے لگی۔ پانچ منٹوں میں اس نے دھوتی اُتار کر پھولوں والی ساڑی پہنی اور گالوں پر سرخی پوڈر لگا کر تیار ہوگئی۔ گھڑے کے ٹھنڈے پانی کا ایک اور ڈونگا پیا اور رام لال کے ساتھ ہولی۔
گلی جو کہ چھوٹے شہروں کے بازار سے بھی کچھ بڑی تھی، بالکل خاموش تھی۔ گیس کے وہ لیمپ جو کھمبوں پر جڑے تھے، پہلے کی نسبت بہت دھندلی روشنی دے رہے تھے۔ جنگ کے باعث ان کے شیشوں کو گدلا کردیا گیا تھا۔ اس اندھی روشنی میں گلی کے آخری سرے پر ایک موٹر نظر آرہی تھی۔
کمزور روشنی میں اُس سیاہ رنگ کی موٹر کا سایہ سا نظر آنا اور رات کے پچھلے پہر کی بھیدوں بھری خاموشی ...... سوگندھی کو ایسا لگا کہ اس کے سر کا درد فضا پر بھی چھا گیا ہے۔ ایک کسیلا پن اُسے ہوا کے اندر بھی محسوس ہوتا تھا جیسے برانڈی اور بیوڑا کی باس سے وہ بھی بوجھل ہورہی ہے۔
آگے بڑھ کر رام لال نے موٹر کے اندر بیٹھے ہوئے آدمیوں [آدمی؟] سے کچھ کہا۔ اتنے میں جب سوگندھی موٹر کے پاس پہنچ گئی تو رام لال نے ایک طرف ہٹ کر کہا: ’’لیجیے وہ آگئی ...... بڑی اچھی چھوکری ہے۔ تھوڑے ہی دن ہوئے ہیں اِسے دھندا شروع کیے‘‘ ...... پھر سوگندھی سے مخاطب ہو کر کہا: ’’سوگندھی! اِدھر آ، سیٹھ جی بلاتے ہیں۔‘‘
سوگندھی، ساڑی کا ایک کنارہ اپنی انگلی پر لپٹتی ہوئی، آگے بڑھی اور موٹر کے دروازے کے پاس کھڑی ہوگئی۔ سیٹھ صاحب نے بیٹری اس کے چہرے کے پاس روشن کی۔ ایک لمحے کے لیے اُس روشنی نے سوگندھی کی خمار آلود آنکھوں میں چکا چوند پیدا کی۔ بٹن دبانے کی آواز پیدا ہوئی اور روشنی بُجھ گئی۔ ساتھ ہی سیٹھ کے منہ سے ‘‘اونہہ!‘‘ نکلا۔ پھر ایک دم موٹر کا انجن پھڑ پھڑایا اور کار، یہ جا، وہ جا......
سوگندھی کچھ سوچنے بھی نہ پائی تھی کہ موٹر چل دی۔ اس کی آنکھوں میں ابھی تک بیٹری کی تیز روشنی گھُسی ہوئی تھی۔ وہ ٹھیک طرح سے سیٹھ کا چہرہ بھی تو نہ دیکھ سکی تھی۔ یہ آخر ہوا کیا تھا۔ اُس ‘‘اونہہ‘‘ کا کیا مطلب تھا جو ابھی تک اُس کے کانوں میں بھنبھنا رہی تھی۔ کیا؟ ...... کیا؟
رام لال دلّال کی آواز سنائی دی: ’’پسند نہیں کیا تجھے! ...... اچھی بھئی، میں چلتا ہوں۔ دو گھنٹے مفت ہی میں برباد کیے۔‘‘
یہ سُن کر سوگندھی کی ٹانگوں میں، اُس کی بانہوں میں، اُس کے ہاتھوں میں: ایک زبردست حرکت پیدا ہوئی ...... کہاں ہے وہ موٹر ...... کہاں ہے وہ سیٹھ ...... تو ’’اونہہ‘‘ کا مطلب یہ تھا کہ اُس نے مجھے پسند نہیں کیا ...... اُس کی......
گالی اُس کے پیٹ کے اندر سے اُٹھی اور زبان کی نوک پر آخر رُ ک گئی۔ وہ آکر گالی کسے دیتی۔ موٹر تو جا چکی تھی۔ اُس کی دُم کی سرخ بتّی اس کے سامنے بازار کے اندھیارے میں ڈُوب رہی تھی اور سوگندھی کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ لال لال انگارہ ’’اونہہ‘‘ ہے جو اُس کے سینے میں برمے کی طرح اُترا چلا جارہا ہے۔ اس کے جی میں آئی کہ زور سے پکارے: ’’او سیٹھ ...... ذرا موٹر روکنا اپنی ...... بس ایک منٹ کے لیے۔‘‘ پر وہ سیٹھ، تُھڑی ہے اُس کی ذات پر! بہت دُور نکل چکا تھا۔
وہ سنسان بازار میں کھڑی تھی۔ پھولوں والی ساڑی جو وہ خاص خاص موقعوں پر پہنا کرتی تھی، رات کے پچھلے پہر کی ہلکی پھلکی ہوا سے لہرا رہی تھی۔ یہ ساڑی اور اس کی ریشمیں سرسراہٹ، سوگندھی کو کتنی بُری معلوم ہورہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس ساڑی کے چیتھڑے اڑا دے کیونکہ ساڑی ہوا میں لہرا لہرا کر ’’اونہہ اونہہ ‘‘ کررہی تھی۔
گالوں پر اُس نے پوڈر لگایا تھا اور ہونٹوں پر سرخی۔ جب اسے خیال آیا کہ یہ سنگار اس نے اپنے آپ کو پسند کرانے کے واسطے کیا تھا تو شرم کے مارے اُسے پسینہ آگیا۔ یہ شرمندگی دور کرنے کے لیے اس نے کیا کچھ نہ سوچا ...... ’’میں نے اُس موئے کو دکھانے کے لیے تھوڑی اپنے آپ کو سجایا تھا، یہ تو میری عادت ہے ...... میری کیا سب کی یہی عادت ہے ...... پر  ...... پر ...... یہ رات کے دو بجے اور رام لال دلّال اور ...... یہ بازار ...... اور وہ موٹر اور بیٹری کی چمک‘‘...... یہ سوچتے ہی روشنی کے دھبّے اس کی حدِ نگاہ تک فضا میں اِدھر اُدھر تیرنے لگے اور موٹر کے انجن کی پھڑپھڑاہٹ اُسے ہوا کے ہر جھونکے میں سنائی دینے لگی۔
اُس کے ماتھے پر بام کا لیپ جو سنگار کرنے کے دوران میں بالکل ہلکا ہوگیا تھا، پسینہ آنے کے باعث اس کے مساموں میں داخل ہونے لگا اور سوگندھی کو اپنا ماتھا، کسی اور کا ماتھا معلوم ہوا۔ جب ہوا کا ایک جھونکا اس کے عرق آلود ماتھے کے پاس سے گزرا تو اسے ایسا لگا کہ سرد سرد ٹین کا ٹکڑا کاٹ کر اس کے ماتھے کے ساتھ چسپاں کردیا گیا ہے۔ سر میں درد ویسے کا ویسا موجود تھا مگر خیالات کی بھیڑ بھاڑ اور اُن کے شور نے اس درد کو اپنے نیچے دبا رکھا تھا۔ سوگندھی نے کئی بار اس درد کو اپنے خیالات کے نیچے سے نکال کر اوپر لانا چاہا مگر ناکام رہی۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح اُس کا انگ انگ دُکھنے لگے، اس کے سر میں درد ہو، اس کی ٹانگوں میں درد ہو، اس کے پیٹ میں درد ہو، اس کی بانہوں میں درد ہو ...... ایسا درد کہ وہ صرف درد ہی کا خیال کرے اور سب کچھ بھول جائے۔ یہ سوچتے سوچتے اس کے دل میں کچھ ہوا ...... کیا یہ درد تھا؟ ...... ایک لمحے کے لیے اس کا دل سُکڑا اور پھر پھیل گیا ...... یہ کیا تھا؟ ...... لعنت! یہ تو وہی ’’اونہہ ‘‘ تھی جو اس کے دل کے اندر کبھی سکڑتی اور کبھی پھیلتی تھی۔
گھر کی طرف سوگندھی کے قدم اٹھے ہی تھے کہ رُک گئے اور وہ ٹھہر کر سوچنے لگی ...... رام لال دلّال کا خیال ہے کہ اُسے میری شکل پسند نہیں آئی ...... شکل کا تو اُس نے ذکر نہیں کیا۔ اُس نے تو یہ کہا تھا:’’ سوگندھی! تجھے پسند نہیں کیا!‘‘ اُسے ...... اُسے ...... صرف میری شکل ہی پسند نہیں آئی ...... نہیں آئی تو کیا ہوا؟ ...... مجھے بھی تو کئی آدمیوں کی شکل پسند نہیں آتی ...... وہ جو اماوس کی رات کو آیا تھا، کتنی بُری صورت تھی اُس کی ...... کیا میں نے ناک بھوں نہیں چڑھائی تھی؟ جب وہ میرے ساتھ سونے لگا تھا تو مجھے گھن نہیں آئی تھی؟ ...... کیا مجھے ابکائی آتے آتے نہیں رُک گئی تھی؟ ...... ٹھیک ہے، پر سوگندھی ...... تو نے اُسے دھتکارا نہیں تھا، تو نے اُس کو ٹھکرایا نہیں تھا ...... اِس موٹر والے سیٹھ نے تو تیرے منہ پر تھوکا ہے ...... ’’اونہہ‘‘ ...... اِس ’’اونہہ‘‘ کا اور مطلب ہی کیا ہے؟ ...... یہی کہ اِس چھچھوندر کے سر میں چنبیلی کا تیل ...... اونہہ ...... یہ منہ اور مسور کی دال ...... ارے رام لال! تو یہ چھپکلی کہاں سے پکڑ کر لے آیا ہے ...... اس لونڈیا کی اتنی تعریف کررہا ہے تو ...... دس روپے اور یہ عورت ...... خچّر کیا بُری ہے......
سوگندھی سوچ رہی تھی اور اُس کے پیر کے انگوٹھے سے لے کر سر کی چوٹی تک گرم لہریں دوڑ رہی تھیں۔ اُس کو کبھی اپنے آپ پر غصہ آتا تھا اور کبھی رام لال دلّال پر جس نے رات کے دو بجے اُسے بے آرام کیا۔ لیکن فوراً ہی دونوں کو بے قصور پاکر وہ سیٹھ کا خیال کرتی تھی۔ اِس خیال کے آتے ہی اُس کی آنکھیں، اُس کے کان، اُس کی بانہیں، اُس کی ٹانگیں، اس کا سب کچھ، مڑتا تھا کہ اُس سیٹھ کو کہیں دیکھ پائے ...... اُس کے اندر یہ خواہش بڑی شدّت سے پیدا ہورہی تھی کہ جو کچھ ہوچکا ہے، ایک بار پھر ہو ...... صرف ایک بار ...... وہ ہولے ہولے موٹر کی طرف بڑھے، موٹر کے اندر سے ایک ہاتھ بیٹری نکالے اور اُس کے چہرے پر روشنی پھینکے۔ ’’اونہہ‘‘ کی آواز آئے اور وہ ...... سوگندھی ...... اندھا دھند اپنے دونوں پنجوں سے اُس کا منہ نوچنا شروع کردے۔ وحشی بلّی کی طرح جھپٹے اور ......اور اپنی انگلیوں کے سارے ناخن جو اس نے موجودہ فیشن کے مطابق بڑھا رکھے تھے، اُس سیٹھ کے گالوں میں گاڑ دے۔ بالوں سے پکڑ کر اُسے باہر گھسیٹ لے اور دھڑا دھڑ مُکّے مارنا شروع کردے اور جب تھک جائے ...... جب تھک جائے تو رونا شروع کردے۔
رونے کا خیال سوگندھی کو صرف اس لیے آیا کہ اُس کی آنکھوں میں، غصّے اور بے بسی کی شدّت کے باعث، تین چار بڑے بڑے آنسو بن رہے تھے۔ ایکا ایکی سوگندھی نے اپنی آنکھوں سے سوال کیا: ’’تم روتی کیوں ہو؟ تمہیں کیا ہوا ہے کہ ٹپکنے لگی ہو؟‘‘ ...... آنکھوں سے کیا ہُوا سوال، چند لمحات تک اُن آنسوؤں میں تیرتا رہا جو اَب پلکوں پر کانپ رہے تھے۔ سوگندھی اُن آنسوؤں میں سے دیر تک اُس خلا کو گھُورتی رہی جدھر سیٹھ کی موٹر گئی تھی۔
پھڑ پھڑپھڑ ...... یہ آواز کہاں سے آئی؟ ...... سوگندھی نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا لیکن کسی کو نہ پایا ...... ارے! یہ تو اس کا دل پھڑ پھڑایا تھا۔ وہ سمجھی تھی موٹر کا انجن بولا ہے ...... اس کا دل ...... یہ کیا ہوگیا تھا اس کے دل کو! ...... آج ہی یہ روگ لگ گیا تھا اِسے ...... اچھا بھلا چلتا چلتا ایک جگہ رُک کر دھڑ دھڑ کیوں کرتا تھا [کر رہا تھا؟] ...... بالکل اُس گھسے ہوئے ریکارڈ کی طرح جو سوئی کے نیچے ایک جگہ آکے رُک جاتا تھا، ’’رات کٹی گِن گِن تارے‘‘ کہتا کہتا، تارے تارے کی رٹ لگا دیتا تھا۔
آسمان تاروں سے اٹا ہوا تھا۔ سوگندھی نے ان کی طرف دیکھا اور کہا: ’’کتنے سُندر ہیں‘‘...... وہ چاہتی تھی کہ اپنا دھیان کسی اور طرف پلٹ دے، پر جب اس نے سندر کہا تو جھٹ سے یہ خیال اس کے دماغ میں کودا: یہ تارے سندر ہیں، پر تو کتنی بھونڈی ہے ...... کیا بھول گئی کہ ابھی ابھی تیری صورت کو پھٹکارا گیا ہے؟
سوگندھی بد صورت تو نہیں تھی۔ یہ خیال آتے ہی وہ تمام عکس ایک ایک کرکے اُس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگے جو اِن پانچ برسوں کے دوران میں وہ آئینے میں دیکھ چُکی تھی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُس کا رنگ روپ اب وہ نہیں رہا تھا جو آج سے پانچ سال پہلے تھا جبکہ وہ تمام فکروں سے آزاد اپنے ماں باپ کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ لیکن وہ بد صورت تو نہیں ہوگئی تھی۔ اُس کی شکل و صورت اُن عام عورتوں کی سی تھی جن کی طرف مرد، گزرتے گزرتے گھُور کر دیکھ لیا کرتے ہیں۔ اُس میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو سوگندھی کے خیال میں، ہر مرد اُس عورت میں ضروری سمجھتا ہے جس کے ساتھ اُسے ایک دو راتیں بسر کرنا ہوتی ہیں۔ وہ جوان تھی۔ اس کے اعضا متناسب تھے۔ کبھی کبھی نہاتے وقت جب اُس کی نگاہیں اپنی رانوں پر پڑتی تھیں تو وہ خود اُن کی گولائی اور گدراہٹ کو پسند کیا کرتی تھی۔ وہ خوش خلق تھی۔ اِن پانچ برسوں کے دوران میں شاید ہی کوئی آدمی اس سے ناخوش ہو کر گیا ہو ...... بڑی ملنسار تھی، بڑی رحم دل تھی۔ پچھلے دنوں کرسمس میں جب وہ گول پیٹھا میں رہا کرتی تھی، ایک نوجوان لڑکا اس کے پاس آیا تھا۔ صبح اُٹھ کر جب اُس نے دوسرے کمرے میں جا کر کھونٹی سے اپنا کوٹ اُتارا تو بٹوا غائب پایا۔ سوگندھی کا نوکر یہ بٹوا لے اُڑا تھا۔ بے چارہ بہت پریشان ہوا، چھٹّیاں گزارنے کے لیے حیدرآباد سے بمبئی آیا تھا، اب اُس کے پاس واپس جانے کے لیے دام نہ تھے۔ سوگندھی نے ترس کھا کر اُسے اُس کے دس روپے واپس دے دیے تھے ...... ’’مجھ میں کیا برائی ہے؟‘‘ سوگندھی نے یہ سوال ہر اُس چیز سے کیا جو اُس کی آنکھوں کے سامنے تھی: گیس کے اندھے لیمپ، لوہے کے کھمبے، فٹ پاتھ کے چوکور پتھّر اور سڑک کی اکھڑی ہوئی بجری ...... اِن سب چیزوں کی طرف اُس نے باری باری دیکھا، پھر آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں جو اُس کے اوپر جھُکا ہوا تھا، مگر سوگندھی کو کوئی جواب نہ ملا۔
جواب اُس کے اندر موجود تھا ...... وہ جانتی تھی کہ وہ بُری نہیں، اچھّی ہے، پر وہ چاہتی تھی کہ کوئی اس کی تائید کرے ......کوئی ......کوئی ...... اِس وقت کوئی اس کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر صرف اتنا کہہ دے: ’’سوگندھی! کون کہتا ہے، تو بُری ہے، جو تجھے بُرا کہے، وہ آپ بُرا ہے‘‘...... نہیں! یہ کہنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی، کسی کا اتنا کہہ دینا کافی تھا: ’’سوگندھی تو بہت اچھّی ہے!‘‘
وہ سوچنے لگی کہ وہ کیوں چاہتی ہے کوئی اُس کی تعریف کرے۔ اِس سے پہلے اُسے اِس بات کی اتنی شدّت سے ضرورت محسوس نہ ہوئی تھی۔ آج کیوں وہ بے جان چیزوں کو بھی ایسی نظروں سے دیکھتی ہے [دیکھ رہی ہے؟] جیسے اُن پر اپنے اچھّے ہونے کا احساس طاری کرنا چاہتی ہے۔ اُس کے جسم کا ذرّہ ذرّہ کیوں ’’ماں ‘‘ بن رہا تھا ......وہ ماں بن کر دھرتی کی ہر شے کو اپنی گود میں لینے کے لیے کیوں تیار ہورہی تھی؟ ...... اُس کا جی کیوں چاہتا تھا کہ سامنے والے گیس کے آہنی کھمبے کے ساتھ چمٹ جائے اور اس کے سرد لوہے پر اپنے گال رکھ دے ...... اپنے گرم گرم گال، اور اُس کی ساری سردی چوس لے۔
تھوڑی دیر کے لیے اُسے ایسا محسوس ہوا کہ گیس کے اندھے لیمپ، لوہے کے کھمبے، فٹ پاتھ کے چوکور پتھّر اور ہر وہ شے جو رات کے سنّاٹے میں اس کے آس پاس تھی، ہمدردی کی نظروں سے اسے دیکھ رہی ہے اور اس کے اوپر جھُکا ہوا آسمان بھی جو مٹیالے رنگ کی ایسی موٹی چادر معلوم ہوتا تھا جس میں بے شمار سُوراخ ہورہے ہوں، اس کی باتیںسمجھتا تھا اور سوگندھی کو بھی ایسا لگتا تھا کہ وہ تاروں کا ٹمٹمانا سمجھتی ہے ...... لیکن اس کے اندر یہ کیا گڑ بڑ تھی؟ ...... وہ کیوں اپنے اندر اُس موسم کی فضا محسوس کرتی [کر رہی؟] تھی جو بارش سے پہلے دیکھنے میں آیا کرتا ہے [آتا ہے؟] ...... اس کا جی چاہتا تھا کہ اس کے جسم کا ہر مسام کھُل جائے اور جو کچھ اس کے اندر اُبل رہا ہے، اُن کے رستے باہر نکل جائے۔ پر، یہ کیسے ہو ...... کیسے ہو؟
سوگندھی گلی کے نکّڑ پر خط ڈالنے والے لال بھبکے کے پاس کھڑی تھی ...... ہوا کے تیز جھونکے سے اس بھبکے کی آہنی زبان جو اس کے کھلے ہوئے منہ میں لٹکی رہتی ہے، لڑکھڑائی تو سوگندھی کی نگاہیں یک بیک اُس طرف اُٹھیں جدھر موٹر گئی تھی مگر اسے کچھ نظر نہ آیا ...... اسے کتنی زبردست آرزو تھی کہ وہ موٹر پھر ایک بار آئے اور ...... اور......
’’نہ آئے ...... بلا سے ...... میں اپنی جان کیوں بے کار ہلکان کروں ...... گھر چلتے ہیں اور آرام سے لمبی تان کر سوتے ہیں۔ اِن جھگڑوں میں رکھا ہی کیا ہے۔ مُفت کی دردِ سری ہی تو ہے ...... چل سوگندھی گھر چل ...... ٹھنڈے پانی کا ایک ڈونگا پی، اور تھوڑا سا بام مل کر سوجا ...... فسٹ کلاس نیند آئے گی اور سب ٹھیک ہوجائے گا ...... سیٹھ اور اُس موٹر کی ایسی تیسی......‘‘
یہ سوچتے ہوئے سوگندھی کا بوجھ ہلکا ہوگیا جیسے وہ کسی ٹھنڈے تالاب سے نہا دھو کر باہر نکلی ہے۔ جس طرح پُوجا کرنے کے بعد اس کا جسم ہلکا ہوجاتا تھا اُسی طرح اب بھی ہلکا ہوگیا تھا۔ گھر کی طرف چلنے لگی تو خیالات کا بوجھ نہ ہونے کے باعث اس کے قدم کئی بار لڑ کھڑائے۔
اپنے مکان کے پاس پہنچی تو ایک ٹیس کے ساتھ پھر تمام واقعہ اُس کے دل میں اُٹھا اور درد کی طرح اس کے روئیں روئیں پر چھا گیا ...... قدم پھر بوجھل ہوگئے اور وہ اس بات کو شدّت کے ساتھ محسوس کرنے لگی کہ گھر سے بُلا کر، باہر بازار میں، منہ پر روشنی کا چانٹا مار کر، ایک آدمی نے اس کی ابھی ابھی ہتک کی ہے۔ یہ خیال آیا تو اس نے اپنی پسلیوں پر کسی کے سخت انگوٹھے محسوس کیے جیسے کوئی اسے بھیڑ بکری کی طرح دبا دبا کر دیکھ رہا ہے کہ آیا گوشت بھی ہے یا بال ہی بال ہیں ...... اس سیٹھ نے ...... پر ماتما کرے ... سوگندھی نے چاہا کہ اُس کو بددُعا دے مگر سوچا، بددُعا دینے سے کیا بنے گا ...... مزا تو جب تھا کہ وہ سامنے ہوتا اور وہ اُس کے وجود کے ہر ذرّے پر اپنی لعنتیں لکھ دیتی ...... اس کے منہ پر کچھ ایسے الفاظ کہتی کہ زندگی بھر بے چین رہتا ......  کپڑے پھاڑ کر اُس کے سامنے ننگی ہوجاتی اور کہتی: ’’یہی لینے آیا تھا نا تُو؟ ...... لے، دام دِیے بنا لے جا اِسے ...... پر جو کچھ میں ہوں، جو کچھ میرے اندر چھُپا ہوا ہے، وہ تُو کیا، تیرا باپ بھی نہیں خرید سکتا......‘‘
انتقام کے نئے نئے طریقے سوگندھی کے ذہن میں آرہے تھے، اگر اُس سیٹھ سے ایک بار ...... صرف ایک بار ...... اس کی مُڈ بھیڑ ہوجائے تو وہ یہ کرے۔ نہیں، یہ نہیں، یہ کرے ...... یوں اس سے انتقام لے، نہیں یوں نہیں، یوں ...... لیکن جب سوگندھی سوچتی کہ سیٹھ سے اس کا دوبارہ ملنا محال ہے تو وہ ایک چھوٹی سی گالی دینے ہی پر، خود کو راضی کرلیتی ...... بس صرف ایک چھوٹی سی گالی، جو اُس کی ناک پر چپکو مکھّی کی طرح بیٹھ جائے اور ہمیشہ وہیں جمی رہے۔
اِسی اُدھیڑ بُن میں وہ دوسری منزل پر اپنی کھولی کے پاس پہنچ گئی۔ چولی میں سے چابی نکال کر تالا کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو چابی ہوا ہی میں گھوم کر رہ گئی۔ کُنڈے میں تالا نہیں تھا۔ سوگندھی نے کواڑ اندر کی طرف دبائے تو ہلکی سی چرچراہٹ پیدا ہوئی۔ اندر سے کسی نے کنڈی کھولی اور دروازے نے جمائی لی۔ سوگندھی اندر داخل ہوگئی۔
مادھو مونچھوں میں ہنسا اور دروازہ بند کرکے سوگندھی سے کہنے لگا: ’’آج تو نے میرا کہا مان ہی لیا ...... صبح کی سیر تندرستی کے لیے بڑی اچھی ہوتی ہے۔ ہر روز، اس طرح صبح اُٹھ کر، گھُومنے جایا کرے گی تو تیری ساری سُستی دور ہوجائے گی اور وہ تیری کمر کا درد بھی غائب ہوجائے گا جس کی بابت تو آئے دن شکایت کیا کرتی ہے۔ وکٹوریا گارڈن تک تو ہو آئی ہوگی تُو؟ ...... کیوں؟‘‘
سوگندھی نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ مادھو نے جواب کی خواہش ظاہر کی۔ دراصل جب مادھو بات کیا کرتا تھا تو اُس کا مطلب یہ نہیں ہوتا تھا کہ سوگندھی ضرور اس میں حصّہ لے۔ اور سوگندھی جب کوئی بات کیا کرتی تھی تو یہ ضروری نہیں ہوتا تھا کہ مادھو اُس میں حصّہ لے ...... چونکہ کوئی بات کرنا ہوتی تھی، اس لیے وہ کچھ کہہ دیا کرتے تھے۔
مادھو بید کی کرسی پر بیٹھ گیا جس کی پشت پر اس کے تیل سے چپڑے ہوئے سر نے میل کا ایک بہت بڑا دھبّا بنا رکھا تھا، اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر اپنی مونچھوں پر اُنگلیاں پھیرنے لگا۔
سوگندھی پلنگ پر بیٹھ گئی اور مادھو سے کہنے لگی: ’’میں آج تیرا انتظار ہی کررہی تھی۔‘‘
مادھو بڑا سٹپٹایا: ’’انتظار؟ ......تجھے کیسے معلوم ہوا کہ میں آج آنے والا ہوں۔‘‘
سوگندھی کے بھنچے ہوئے لب کھُلے، اُن پر ایک پیلی مسکراہٹ نمودار ہوئی: ’’میں نے رات تجھے سپنے میں دیکھا تھا۔ اُٹھی تو کوئی بھی نہ تھا۔ سو، جی نے کہا: چلو کہیں باہر گھُوم آئیں ...... اور......‘‘
مادھو خوش ہو کر بولا: ’’اور میں آگیا ...... بھئی بڑے لوگوں کی باتیں بڑی پکّی ہوتی ہیں۔ کسی نے ٹھیک کہا ہے، دل کو دل سے راہ ہے ...... تو نے یہ سپنا کب دیکھا تھا؟‘‘
سوگندھی نے جواب دیا: ’’چار بجے کے قریب۔‘‘
مادھو کرسی پر سے اُٹھ کر سوگندھی کے پاس بیٹھ گیا۔’’ اور میں نے تجھے ٹھیک دو بجے سپنے میں دیکھا ...... جیسے تو پھُولوں والی ساڑی ...... ارے! بالکل یہی ساڑی پہنے، میرے پاس کھڑی ہے۔ تیرے ہاتھوں میں ... کیا تھا تیرے ہاتھوں میں؟ ... ہاں، تیرے ہاتھوں میں روپوں سے بھری ہوئی تھیلی تھی! تونے یہ تھیلی [وہ تھیلی؟] میری جھُولی میں رکھ دی اور کہا: ’’مادھو! تو چنتا کیوں کرتا ہے؟ ...... لے یہ تھیلی ...... ارے تیرے میرے روپے کیا دو ہیں؟‘‘ ...... سوگندھی تیری جان کی قسم! فوراً اُٹھا اور ٹکٹ کٹا کر اِدھر کا رخ کیا......کیا سناؤں بڑی پریشانی ہے! ...... بیٹھے بٹھائے ایک کیس ہوگیا ہے۔ اب بیس تیس روپے ہوں تو ...... انسپکٹر کی مٹھّی گرم کرکے چھٹکارا ملے ...... تھک تو نہیں گئی تو؟ لیٹ جا، میں تیرے پیر دبا دوں۔ سیر کی عادت نہ ہو تو تھکن ہو ہی جایا کرتی ہے ...... اِدھر میری طرف پیر کرکے لیٹ جا۔‘‘
سوگندھی لیٹ گئی۔ دونوں بانہوں کا تکیہ بنا کر وہ اُن پر سر رکھ کر لیٹ گئی اور اُس لہجے میں جو اُس کا اپنا نہیں تھا، مادھو سے کہنے لگی: ’’مادھو، یہ کس موئے نے تجھ پر کیس کیا ہے؟ ...... جیل ویل کا ڈر ہو تو مجھ سے کہہ دے ...... بیس تیس کیا سو پچاس بھی ایسے موقعوں پر پولیس کے ہاتھ میں تھما دِیے جائیں تو فائدہ اپنا ہی ہے ...... جان بچی لاکھوں پائے ...... بس بس، اب جانے دے، تھکن کچھ زیادہ نہیں ہے ...... مٹھّی چاپی چھوڑ اور مجھے ساری بات سُنا ...... کیس کا نام سُنتے ہی میرا دل دھک دھک کرنے لگا ہے ...... واپس کب جائے گا تو؟‘‘
مادھو کو سوگندھی کے منہ سے شراب کی باس آئی۔ اُس نے یہ موقع اچھا سمجھا اور جھٹ سے کہا: ’’دوپہر کی گاڑی سے واپس جانا پڑے گا ...... اگر شام تک سب انسپکٹر کو سو پچاس نہ تھمائے تو ... زیادہ دینے کی ضرورت نہیں، میں سمجھتا ہوں پچاس میں کام چل جائے گا۔‘‘
’’پچاس! ‘‘ یہ کہہ کر سوگندھی بڑے آرام سے اُٹھی اور اُن چار تصویروں کے پاس، آہستہ آہستہ گئی جو دیوار پر لٹک رہی تھیں۔ بائیں طرف سے تیسرے فریم میں مادھو کی تصویر تھی۔ بڑے بڑے پھولوں والے پردے کے آگے، کرسی پر، وہ دونوں رانوں پر اپنے ہاتھ رکھے بیٹھا تھا۔ ایک ہاتھ میں گلاب کا پھول تھا۔ پاس ہی تپائی پر دو موٹی موٹی کتابیں دھری تھیں۔ تصویر اُترواتے وقت، تصویر اُتروانے کا خیال، مادھو پر اس قدر غالب تھا کہ اس کی ہر شے تصویر سے باہر نکل نکل کر گویا پکار رہی تھی: ’’ہمارا فوٹو اُترے گا! ہمارا فوٹو اُترے گا!‘‘ کیمرے کی طرف مادھو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فوٹو اترواتے وقت اسے بہت تکلیف ہورہی تھی۔
سوگندھی کھلکھلاکر ہنس پڑی ...... اُس کی ہنسی کچھ ایسی تیکھی اور نوکیلی تھی کہ مادھو کے سوئیاں سی چبھیں۔ پلنگ پر سے اٹھ کر وہ سوگندھی کے پاس گیا۔’’ کس کی تصویر دیکھ کر تو اِس قدر زور سے ہنسی ہے؟‘‘
سوگندھی نے بائیں ہاتھ کی پہلی تصویر کی طرف اشارہ کیا جو میونسپلٹی کے داروغۂ صفائی کی تھی۔ ’’اِس کی ...... منشی پالٹی کے اِس داروغہ کی ...... ذرا دیکھ تو اِس کا تھوبڑا ...... کہتا تھا، ایک رانی مجھ پر عاشق ہوگئی تھی ...... اونہہ! یہ منہ اور مسور کی دال۔‘‘ یہ کہہ کر سوگندھی نے فریم کو اِس زور سے کھینچا کہ دیوار میں سے کیل بھی پلستر سمیت اُکھڑ آئی۔
مادھو کی حیرت ابھی دُور نہ ہوئی تھی کہ سوگندھی نے فریم کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ دو منزلوں سے یہ فریم نیچے زمین پر گرا اور کانچ ٹوٹنے کی جھنکار سُنائی دی۔ سوگندھی نے اُس جھنکار کے ساتھ کہا: ’’رانی بھنگن، کچرا اُٹھانے آئے گی تو میرے اِس راجا کو بھی ساتھ لے جائے گی۔‘‘
ایک بار پھر، اُسی نوکیلی اور تیکھی ہنسی کی پھوار سوگندھی کے ہونٹوں سے گرنا شروع ہوئی جیسے وہ اُن پر چاقو یا چھری کی دھار تیز کررہی ہے۔
مادھو بڑی مشکل سے مسکرایا، پھرہنسا: ’’ہی ہی ہی ...‘‘
سوگندھی نے دوسرا فریم بھی نوچ لیا اور کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ ’’اِس سالے کا یہاں کیا مطلب ہے؟ ...... بھونڈی شکل کا کوئی آدمی یہاں نہیں رہے گا ...... کیوں مادھو؟‘‘
مادھو پھر بڑی مشکل سے مسکرایا اور پھر ہنسا: ’’ہی ہی ہی ...‘‘
ایک ہاتھ سے سوگندھی نے پگڑی والے کی تصویر اُتاری اور دوسرا ہاتھ اُس فریم کی طرف بڑھایا جس میں مادھو کا فوٹو جڑا تھا۔ مادھو اپنی جگہ پر سمٹ گیا جیسے ہاتھ اُس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک سیکنڈ میں، فریم کیل سمیت، سوگندھی کے ہاتھ میں تھا۔
زور کا قہقہہ لگا کر اُس نے ’’اونہہ‘‘ کی اور دونوں فریم ایک ساتھ کھڑکی میں سے باہر پھینک دیے۔ دو منزلوں سے جب فریم زمین پر گرے اور کانچ ٹوٹنے کی آواز آئی تو مادھو کو ایسا معلوم ہوا کہ اُس کے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی ہے۔ بڑی مشکل سے اس نے ہنس کر اتنا کہا: ’’اچھا کِیا ...... مجھے بھی یہ فوٹو پسند نہیں تھا۔‘‘
آہستہ آہستہ سوگندھی مادھو کے پاس آئی اور کہنے لگی: ’’تجھے یہ فوٹو پسند نہیں تھا ...... پر میں پوچھتی ہوں، تجھ میں ہے ایسی کون سی چیز، جو کسی کو پسند آسکتی ہے ...... یہ تیری پکوڑا ایسی ناک، یہ تیرا بالوں بھرا ماتھا، یہ تیرے سُوجے ہوئے نتھنے، یہ تیرے مُڑے ہوئے کان، یہ تیرے منہ کی باس، یہ تیرے بدن کا میل؟ ...... تجھے اپنا فوٹو پسند نہیں تھا، اونہہ ...... پسند کیوں ہوتا، تیرے عیب جو چھپا رکھے تھے اُس نے......آج کل زمانہ ہی ایسا ہے، جو عیب چھُپائے وہی بُرا......‘‘
مادھو پیچھے ہٹتا گیا۔ آخر جب وہ دیوار کے ساتھ لگ گیا تو اس نے اپنی آواز میں زور پیدا کرکے کہا: ’’دیکھ سوگندھی! مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تونے پھِر سے اپنا دھندا شروع کیا ہے [کر دیاہے؟] ...... اب تجھ سے آخری بار کہتا ہوں...‘‘
سوگندھی نے اِس سے آگے مادھو کے لہجے میں کہنا شروع کیا: ’’اگر تونے پھِر سے اپنا دھندا شروع کیا تو بس تیری میری ٹوٹ جائے گی۔ اگر تو نے پھر کسی کو اپنے یہاں ٹھہرایا تو چٹیا سے پکڑ کر تجھے باہر نکال دوںگا ...... اِس مہینے کا خرچ میں تجھے پونا پہنچتے ہی منی آرڈر کردوں گا ...... ہاں، کیا بھاڑا ہے اِس کھولی کا؟‘‘
مادھو چکرا گیا۔
سوگندھی نے کہنا شروع کیا: ’’میں بتاتی ہوں ...... پندرہ روپے بھاڑا ہے اِس کھولی کا ...... اور دس روپے بھاڑا ہے میرا ...... اور جیسا تجھے معلوم ہے، ڈھائی روپے دلّال کے، باقی رہے ساڑھے سات، رہے نا ساڑھے سات؟ ان ساڑھے سات روپیوں میں مَیں نے ایسی چیز دینے کا وچن دیا تھا، جو میں دے ہی نہیں سکتی تھی اور تو ایسی چیز لینے آیا تھا جو تُو لے ہی نہیں سکتا تھا ...... تیرا میرا ناتا ہی کیا تھا۔ کچھ بھی نہیں۔ بس یہ دس روپے تیرے اور میرے بیچ میں بج رہے تھے، سو ہم دونوں نے مل کر ایسی بات کی کہ تجھے میری ضرورت ہوئی اور مجھے تیری ...... پہلے تیرے اور میرے بیچ میں دس روپے بجتے تھے، آج پچاس بج رہے ہیں۔ تو بھی ان کا بجنا سُن رہا ہے اور میں بھی اُن کا بجنا سن رہی ہوں ...... یہ تو نے اپنے بالوں کا کیا ستیاناس کر رکھا ہے؟‘‘
یہ کہہ کر سوگندھی نے مادھو کی ٹوپی، انگلی سے ایک طرف اُڑادی۔ یہ حرکت مادھو کو بہت ناگوار گزری۔ اس نے بڑے کڑے لہجے میں کہا: ’’سوگندھی!‘‘
سوگندھی نے مادھو کی جیب سے رومال نکال کر سونگھا اور زمین پر پھینک دیا۔ ’’یہ چیتھڑے، یہ چِندیاں ......اُف کتنی بُری باس آتی ہے، اُٹھا کے باہر پھینک اِن کو......‘‘
مادھو چلّایا : ’’سوگندھی!‘‘
سوگندھی نے تیز لہجے میں کہا: ’’سوگندھی کے بچے! تو آیا کس لیے ہے، یہاں؟ ...... تیری ماں رہتی ہے اِس جگہ جو تجھے پچاس روپے دے گی؟ یا تو کوئی ایسا بڑا گبرو جوان ہے جو میں تجھ پر عاشق ہوگئی ہوں ...... کتّے، کمینے، مجھ پر رعب گانٹھتا ہے! میں تیری دبیل ہوں کیا؟ ...... بِھک منگے، تو اپنے آپ کو سمجھ کیا بیٹھا ہے؟ ...... میں پوچھتی ہوں تو ہے کون؟ ...... چوریا گٹھ کُترا؟ ...... اِس وقت تو میرے مکان میں کرنے کیا آیا ہے؟ ...... بلاؤں پولیس کو؟ ...... پونے میں تجھ پر کیس ہو نہ ہو، یہاں تو تجھ پر ایک کیس کھڑا کر [ہی؟] دوں۔‘‘
مادھو سہم گیا۔ دبے ہوئے لہجے میں وہ صرف اِس قدر کہہ سکا ’’سوگندھی، تجھے کیا ہوگیا ہے۔‘‘
’’تیری ماں کا سر ...... تو ہوتا کون ہے مجھ سے ایسے سوال کرنے والا ...... بھاگ یہاں سے، ورنہ ......‘‘ سوگندھی کی بلند آواز سُن کر اُس کا خارش زدہ کتّا جو سوکھے ہوئے چپلوں پر منہ رکھے سو رہا تھا، ہڑ بڑا کر اٹھا اور مادھو کی طرف منہ اُٹھا کر بھونکنا شروع کردیا۔ کتّے کے بھونکنے کے ساتھ ہی سوگندھی زور زور سے ہنسنے لگی۔
مادھو ڈر گیا۔ گری ہوئی ٹوپی اُٹھانے کے لیے وہ جھُکا تو سوگندھی کی گرج سنائی دی: ’’خبردار ......! پڑی رہنے دے وہیں ...... توجا! تیرے پونا پہنچتے ہی میں اِس کو منی آرڈر کردوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اور زور سے ہنسی اور ہنستی ہنستی بید کی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اُس کے خارش زدہ کتّے نے بھونک بھونک کر مادھو کو کمرے سے باہر نکال دیا۔ سیڑھیاں اُتار کر، جب کتّا اپنی ٹنڈ منڈ دُم ہلاتا سوگندھی کے پاس واپس آیا اور اُس کے قدموں کے پاس بیٹھ کر کان پھڑ پھڑانے لگا تو سوگندھی چونکی ...... اُس نے اپنے چاروں طرف ایک ہول ناک سنّاٹا دیکھا ...... ایسا سنّاٹا جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ اُسے ایسا لگا کہ ہر شے خالی ہے ...... جیسے مسافروں سے لدی ہوئی ریل گاڑی، سب اسٹیشنوں پر مسافر اتار کر، اب لوہے کے شیڈ میں بالکل اکیلی کھڑی ہے ...... یہ خلا جو اچانک سوگندھی کے اندر پیدا ہوگیا تھا، اُسے بہت تکلیف دے رہا تھا۔ اس نے کافی دیر تک اس خلا کو بھرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ وہ ایک ہی وقت میں بے شمار خیالات اپنے دماغ میں ٹھونستی تھی مگر بالکل چھلنی کاسا حساب تھا: اِدھر دماغ کو پُر کرتی تھی، اُدھر وہ خالی ہوجاتا تھا۔ 
بہت دیر تک وہ بید کی کرسی پر بیٹھی رہی۔ سوچ بچار کے بعد بھی جب اُس کو اپنا دِل پر چانے کا کوئی طریقہ نہ ملا تو اُس نے اپنے خارش زدہ کُتّے کو گود میں اٹھایا اور ساگوان کے چوڑے پلنگ پر، اُسے پہلو میں لٹا کر سوگئی۔

خوشیا (منٹو)

خوشیا سوچ رہا تھا۔
بنواری سے کالے تمباکو والا پان لے کر وہ اُس کی دُکان کے ساتھ اُس سنگین چبوترے پر بیٹھا تھا جو دن کے وقت ٹائروں اور موٹروں کے مختلف پُرزوں سے بھرا ہوتا ہے۔ رات کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب موٹر کے پُرزے اور ٹائر بیچنے والوں کی یہ دکان بند ہوجاتی ہے۔ اور اِس کا سنگین چبوترہ خوشیا کے لیے خالی ہوجاتا ہے۔
وہ کالے تمباکو والا پان آہستہ آہستہ چبا رہا تھا اور سوچ رہا تھا۔ پان کی گاڑھی، تمباکو ملی پیک، اُس کے دانتوں کی ریخوں سے نکل کر اس کے منہ میں اِدھر اُدھر پھِسل رہی تھی اور اُسے ایسا لگتا تھا کہ اُس کے خیال، دانتوں تلے پس کر اُس کی پیک میں گھل رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اسے پھینکنا [تھوکنا؟] نہیں چاہتا تھا۔
خوشیا پان کی پیک منہ میں پِلپِلا رہا تھا اور اُس واقعے پر غور کررہا تھا جو اس کے ساتھ ابھی ابھی پیش آیا تھا، یعنی آدھ گھنٹہ پہلے۔ 
وہ اِس سنگین چبوترے پر حسبِ معمول بیٹھنے سے پہلے کھیت واڑی کی پانچویں گلی میں گیا تھا۔ منگلور سے جو نئی چھوکری کانتا آئی تھی، اُسی گلی کے نکّڑ پر رہتی تھی۔ خوشیا سے کسی نے کہا تھا کہ وہ اپنا مکان تبدیل کررہی ہے۔ چنانچہ وہ اِسی بات کا پتہ لگانے کے لیے وہاں گیا تھا۔
کانتا کی کھولی کا دروازہ اُس نے کھٹکھٹایا۔ اندر سے آواز آئی ’’کون ہے؟‘‘ اس پر خوشیا نے کہا: ’’میں خوشیا!‘‘
آواز دوسرے کمرے سے آئی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھلا۔ خوشیا اندر داخل ہوا۔ جب کانتا نے دروازہ اندر سے بند کیا تو خوشیا نے مڑ کر دیکھا۔ اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے کانتا کو بالکل ننگا دیکھا۔ بالکل ننگا ہی سمجھو کیونکہ وہ اپنے انگ کو صرف ایک تولیے سے چھپائے ہوئے تھی۔ چھپائے ہوئے، بھی نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ چھپانے کی جتنی چیزیں ہوتی ہیں وہ تو سب کی سب خوشیا کی حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے تھیں۔
’’کہو خوشیا کیسے آئے؟ ...... میں بس اب نہانے والی ہی تھی۔ بیٹھوبیٹھو ...... باہر والے سے اپنے لیے چائے کے لیے تو کہہ آئے ہوتے ...... جانتے تو ہو، وہ مُوا راما، یہاں سے بھاگ گیا ہے۔‘‘
خوشیا جس کی آنکھوں نے کبھی عورت کو یوں اچانک طور پر ننگا نہیں دیکھا تھا، بہت گھبرا گیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے؟ اس کی نظریں جو ایک دم عریانی سے دوچار ہوگئی تھیں، اپنے آپ کو کہیں چھپانا چاہتی تھیں۔
اُس نے جلدی جلدی صرف اتنا کہا: ’’جاؤ ...... جاؤ تم نہالو۔‘‘ پھر ایک دم اس کی زبان کھل گئی: ’’پر جب تم ننگی تھیں تو دروازہ کھولنے کی کیا ضرورت تھی؟ ...... اندر سے کہہ دیا ہوتا، میں پھر آجاتا ...... لیکن جاؤ ...... تم نہالو۔‘‘
کانتا مسکرائی: ’’جب تم نے کہا خوشیا ہے، تو میں نے سوچا کیا ہرج ہے، اپنا خوشیا ہی تو ہے آنے دو......‘‘
کانتا کی یہ مسکراہٹ ابھی تک خوشیا کے دل و دماغ میں تیر رہی تھی۔ اِس وقت بھی کانتا کا ننگا جسم موم کے پتلے کی مانند اُس کی آنکھوں کے سامنے کھڑا تھا اور پگھل پگھل کر اُس کے اندر جارہا تھا۔ 
اُس کا جسم خوب صورت تھا۔ پہلی مرتبہ خوشیا کو معلوم ہوا کہ جسم بیچنے والی عورتیں بھی ایسا سڈول بدن رکھتی ہیں۔ اُس کو اِس بات پر حیرت ہوئی تھی۔ پر سب سے زیادہ تعجب اُسے اِس بات پر ہوا تھا کہ ننگ دھڑنگ وہ اس کے سامنے کھڑی ہوگئی اور اُس کو لاج تک نہ آئی۔ کیوں؟
اِ س کا جواب کانتا نے یہ دیا تھا: ’’جب تم نے کہا خوشیا ہے، تو میں نے سوچا کیا ہرج ہے، اپنا خوشیا ہی تو ہے، آنے دو......‘‘
کانتا اور خوشیا ایک ہی پیشے میں شریک تھے۔ وہ اُس کا دلّال تھا۔ اِس لحاظ سے وہ اُسی کا تھا ...... پر یہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اس کے سامنے ننگی ہوجاتی کوئی خاص بات تھی۔ کانتا کے الفاظ میں، خوشیا کوئی اور ہی مطلب کرید رہا تھا۔
یہ مطلب بیک وقت اِس قدر صاف اور اِس قدر مبہم تھا کہ خوشیا کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکا تھا۔ 
اِس وقت بھی وہ کانتا کے ننگے جسم کو دیکھ رہا تھا جو ڈھولکی پر منڈھے ہوئے چمڑے کی طرح تنا ہوا تھا۔ اُس کی لڑھکتی ہوئی نگاہوں سے بالکل بے پروا! کئی بار حیرت کے عالم میں بھی اُس نے اُس کے سانولے سلونے بدن پر ٹوہ لینے والی نگاہیں گاڑی تھیں۔ مگر اُس کا ایک رواں تک بھی نہ کپکپایا تھا، بس سانولے پتھر کی مورتی کے مانند کھڑی رہی جو احساس سے عاری ہو۔
بھئی، ایک مرد اُس کے سامنے کھڑا تھا ...... مرد، جس کی نگاہیں کپڑوں میں بھی عورت کے جسم تک پہنچ جاتی ہیں اور جو پر ماتما جانے، خیال ہی خیال میں کہاں کہاں پہنچ جاتا ہے۔ لیکن وہ ذرا بھی نہ گھبرائی اور ...... اور اس کی آنکھیں، ایسا سمجھ لو کہ ابھی لانڈری سے دُھل کر آئی ہیں ...... اس کو تھوڑی سی لاج تو آنی چاہیے تھی۔ ذرا سی سُرخی تو اُس کے دیدوں میں پیدا ہونی چاہیے۔ مان لیا، کسبی تھی، پر کسبیاں یوں ننگی تو نہیں کھڑی ہوجاتیں!
دس برس اُس کو دلاّلی کرتے ہوگئے تھے اور ان دس برسوں میں وہ پیشہ کرانے والی لڑکیوں کے تمام رازوں سے واقف ہوچکا تھا۔ مثال کے طور پر، اُسے یہ معلوم تھا کہ پائے دھونی کے آخری سرے پر جو چھوکری ایک نوجوان لڑکے کو بھائی بنا کر رہتی ہے؛ اِ س لیے ’’اچھوت کنّیا‘‘ کا ریکارڈ ’’کاہے کرتا مورکھ پیار پیار، پیار‘‘ اپنے ٹوٹے ہوئے باجے پر بجایا کرتی ہے کہ اُسے اشوک کمار سے بہت بُری طرح عشق ہے۔ کئی من چلے لونڈے، اشوک کمار سے اُس کی ملاقات کرانے کا جھانسا دے کر اپنا الّو سیدھا کرچکے تھے۔ اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ دادر میں جو پنجابن رہتی ہے، صرف اِس لیے کوٹ پتلون پہنتی ہے کہ اُس کے ایک یار نے اُس سے کہا تھا کہ تیری ٹانگیں تو بالکل اُس انگریز ایکٹرس کی طرح ہیں جس نے ’’مراکو عرف خونِ تمنّا ‘‘ میں کام کیا تھا۔ یہ فلم اُس نے کئی بار دیکھا اور جب اُس کے یار نے کہا کہ مارلین ڈیٹرچ اس لیے پتلون پہنتی ہے کہ اُس کی ٹانگیں بہت خوبصورت ہیں اور اُن ٹانگوں کا اس نے دو لاکھ کا بیمہ کرا رکھا ہے تو اُس نے بھی پتلون پہننی شروع کردی۔ جو اُس کے چوتڑوں میں بہت پھنس کر آتی تھی۔ اور اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ ’’مزگاؤں‘‘ والی دکھشنی چھوکری صرف اس لیے کالج کے خوب صورت لونڈوں کو پھانستی ہے کہ اُسے ایک خوب صورت بچے کی ماں بننے کا شوق ہے۔ اُس کو یہ بھی پتہ تھا کہ وہ کبھی اپنی خواہش پوری نہ کرسکے گی، اس لیے کہ بانجھ ہے۔ اور اُس کالی مدراسن کی بابت جوہر وقت کانوں میں ہیرے کی ’’بوٹیاں‘‘ پہنے رہتی تھی، اُس کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ اُس کا رنگ کبھی سفید نہیں ہوگا اور وہ اُن دواؤں پر بے کار روپیہ برباد کررہی ہے جو آئے دن خریدتی رہتی ہے۔
اُس کو اُن تمام چھوکریوں کا، اندر باہر کا، حال معلوم تھا جو اس کے حلقے میں شامل تھیں۔ مگر اُس کو یہ خبر نہ تھی کہ ایک روز کانتا کماری، جس کا اصلی نام اتنا مشکل تھا کہ وہ عمر بھر یاد نہیں کرسکتا تھا، اُس کے سامنے ننگی کھڑی ہوجائے گی اور اُس کو زندگی کے سب سے بڑے تعجب سے دوچار کرائے گی۔
سوچتے سوچتے اُس کے منہ میں پان کی پیک اس قدر جمع ہوگئی تھی کہ اب وہ مشکل سے چھالیا کے ان ننھے ننھے ریزوں کو چبا سکتا تھا جو اس کے دانتوں کی ریخوں میں سے ادھر اُدھر پھِسل کر نکل جاتے تھے۔ 
اس کے تنگ ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیںنمودار ہوگئی تھیں جیسے ململ میں پنیر کو آہستہ سے دبا دیا گیا ہے [دبا دیا گیا ہو؟] ...... اُس کے مردانہ وقار کو دھکّا سا پہنچتا تھا جب وہ کانتا کے ننگے جسم کو اپنے تصور میں لاتا تھا۔ اسے محسوس ہوتا تھا جیسے اس کا اپمان ہُوا ہے۔
ایک دم اُس نے اپنے دل میں کہا: بھئی یہ اپمان نہیں ہے تو کیا ہے ...... یعنی ایک چھوکری ننگ دھڑنگ تمہارے سامنے کھڑی ہوجاتی ہے اور کہتی ہے اِس میں ہرج ہی کیا ہے؟ ...... تم خوشیا ہی تو ہو ...... خوشیانہ ہُوا، سالا وہ بِلّا ہوگیا جو اُس کے بستر پر ہر وقت اونگھتا رہتا ہے ...... اور کیا؟
اب اُسے یقین ہونے لگا کہ سچ مچ اس کی ہتک ہوئی ہے۔ وہ مرد تھا اور اُس کو اِس بات کی غیر محسوس طریق پر توقع تھی کہ عورتیں خواہ شریف ہوںیا بازاری، اس کو مرد ہی سمجھیں گی۔ اور اس کے اور اپنے درمیان وہ پر دہ قائم رکھیں گی جو ایک مدت سے چلا آرہا ہے۔وہ تو صرف یہ پتہ لگانے کے لیے کانتا کے یہاں گیا تھا کہ وہ کب مکان تبدیل کررہی ہے؟ اور کہاں جارہی ہے ؟ کانتا کے پاس اس کا جانا یکسر بزنس سے متعلق تھا۔ اگر خوشیا، کانتا کی بابت سوچتا کہ جب وہ اُس کا دروازہ کھٹکھٹائے گا تو وہ اندر کیا کررہی ہوگی؟ تو اُس کے تصور میں زیادہ سے زیادہ اتنی باتیں آسکتی تھیں: 
سر پر پٹی باندھے لیٹ رہی ہوگی۔ [کذا]
بِلّے کے بالوں میں سے پِسّو نکال رہی ہوگی۔
اُس بال صفا پوڈر سے بغلوں کے بال اُڑا رہی ہوگی جو اتنی باس مارتا تھا کہ خوشیا کی ناک برداشت نہیں کرسکتی تھی۔
پلنگ پر اکیلی بیٹھی تاش پھیلائے پیشنس کھیلنے میں مشغول ہوگی۔
بس اتنی چیزیں تھیں جو اُس کے ذہن میں آتیں۔ گھر میں وہ کسی کو رکھتی نہیں تھی اِس لیے ’اُس بات‘ کا خیال ہی نہیں آسکتا تھا۔ پر خوشیا نے تو یہ سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ تو کام سے وہاں گیا تھا کہ اچانک کانتا ...... یعنی کپڑے پہننے والی کانتا......مطلب یہ کہ وہ کانتا جس کو وہ ہمیشہ کپڑوںمیں دیکھا کرتا تھا، اُس کے سامنے بالکل ننگی کھڑی ہوگئی ...... بالکل ننگی ہی سمجھو کیونکہ ایک چھوٹا سا تولیہ سب کچھ تو چھپا نہیں سکتا۔ خوشیا کو یہ نظارہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوا تھا جیسے چھلکا اُس کے ہاتھ میں رہ گیا ہے اور کیلے کا گودا پُرچ کرکے اس کے سامنے آگرا ہے۔ نہیں، اُسے کچھ اور ہی محسوس ہوا تھا۔ جیسے ...... جیسے وہ خود ننگا ہوگیا ہے۔ اگر بات یہاں تک ہی ختم ہوجاتی تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ خوشیا اپنی حیرت کو کسی نہ کسی حیلے سے دُور کردیتا۔ مگر یہاں مصیبت یہ آن پڑی تھیں کہ اُس لونڈیا نے مسکرا کر کہا تھا: ’’جب تم نے کہا‘‘ خوشیا ہے، تو میں نے سوچا اپنا خوشیا ہی تو ہے، آنے دو‘‘ ...... یہ بات اُسے کھائے جارہی تھی۔
’’سالی مسکرا رہی تھی‘‘ ...... وہ بار بار بڑبڑاتا۔ جس طرح کانتا ننگی تھی، اُسی طرح اس کی مسکراہٹ، خوشیا کو ننگی نظر آئی تھی۔ مسکراہٹ ہی نہیں، اُسے کانتا کا جسم بھی اس حد تک نظر آیا تھا گویا اُس پر رندا پھِرا ہوا ہے۔
اُسے بار بار بچپن کے وہ دن یاد آرہے تھے جب پڑوس کی ایک عورت اس سے کہا کرتی تھی: ’’خوشیا بیٹا جا دوڑ کے جا، یہ بالٹی پانی سے بھرلا۔‘‘ جب وہ بالٹی بھر کے لایا کرتا تو وہ دھوتی سے بنائے ہوئے پردے کے پیچھے سے کہا کرتی تھی: ’’اندر آکے، یہاں میرے پاس رکھ دے۔ میں نے منہ پر صابن ملا ہوا ہے۔ مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔‘‘ وہ دھوتی کا پردہ ہٹا کر، بالٹی اُس کے پاس رکھ دیا کرتا تھا۔ اُس وقت صابن کے جھاگ میں لپٹی ہوئی ننگی عورت اسے نظر آیا کرتی تھی مگر اس کے دل میں کسی قسم کا ہیجان پیدا نہیں ہوتا تھا۔
بھئی میں اُس وقت بچہ تھا، بالکل بھولا بھالا۔ بچے اور مرد میں بہت فرق ہوتا ہے۔ بچوں سے کون پردہ کرتا ہے مگر اب تو میں پورا مرد ہوں ۔ میری عمر اس وقت اٹھائیس برس کے قریب ہے اور اٹھائیس برس کے جوان آدمی کے سامنے تو کوئی بوڑھی عورت بھی ننگی کھڑی نہیں ہوتی۔
کانتا نے اسے کیا سمجھا تھا؟ کیا اس میں وہ تمام باتیں نہیں تھیں جو ایک نوجوان مرد میں ہوتی ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کانتا کو یک بیک ننگ دھڑنگ دیکھ کر بہت گھبرا گیا تھا لیکن چور نگاہوں سے کیا اس نے کانتا کی اُن چیزوں کا جائزہ نہیں لیا جو روزانہ استعمال کے باوجود اصلی حالت پر قائم تھیں اور کیا تعجب کے ہوتے ہوئے اس کے دماغ میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ دس روپے میں کانتا بالکل مہنگی نہیں۔ اور دسہرے کے روز بینک کا وہ منشی جو دو روپے کی رعایت نہ ملنے پر واپس چلا گیا تھا، بالکل گدھا تھا ...... اور ......اِن سب کے اوپر، کیا ایک لمحے کے لیے اُس کے تمام پٹھّوں میں ایک عجیب قسم کا کھنچاؤ پیدا نہیں ہوگیا تھا۔ اور اُس نے ایک ایسی انگڑائی نہیں لینا چاہی تھی جس سے اُس کی ہڈّیاں تک چٹخنے لگیں؟ ...... پھر کیا وجہ تھی کہ منگلور کی اُس سانولی چھوکری نے اس کو مرد نہ سمجھا اور صرف ...... صرف خوشیا سمجھ کر، اُس کو اپنا سب کچھ دیکھنے دیا؟
اس نے غصّے میں آکر پان کی گاڑھی پیک تھوک دی جس نے فٹ پاتھ پر کئی بیل بوٹے بنادیے۔ پیک تھوک کر وہ اٹھا اور ٹرام میں بیٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔
گھر میں اُس نے نہا دھو کر، نئی دھوتی پہنی۔ جس بلڈنگ میں رہتا تھا اُس کی ایک دُکان میں سیلون تھا۔ اُس کے اندر جا کر اس نے آئینے کے سامنے اپنے بالوں میں کنگھی کی۔ پھر فوراً ہی کچھ خیال آیا تو کرسی پر بیٹھ گیا اور بڑی سنجیدگی سے اس نے داڑھی مونڈنے کے لیے حجّام سے کہا۔ آج چونکہ وہ دوسری مرتبہ داڑھی مُنڈوا رہا تھا، اس لیے حجّام نے کہا: ’’ارے بھئی خوشیا بھول گئے کیا؟ صبح میں نے ہی تو تمہاری داڑھی مونڈی تھی۔‘‘ اِس پر خوشیا نے، بڑی متانت سے، داڑھی پر اُلٹا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: ’’کھونٹی اچھی طرح نہیں نکلی......‘‘
اچھی طرح کھونٹی نکلواکر اور چہرے پر پوڈر ملوا کر، وہ سیلون سے باہر نکلا۔ سامنے ٹیکسیوں کا اڈّا تھا۔ بمبے کے مخصوص انداز میں اُس نے ’’چھی چھی‘‘ [؟شی شی] کرکے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو اپنی طرف متوجہ کیا اور انگلی کے اشارے سے اُسے ٹیکسی لانے کے لیے کہا۔ 
جب وہ ٹیکسی میں بیٹھ گیا تو ڈرائیور نے مڑ کر، اُس سے پوچھا: ’’کہاں جانا ہے صاحب؟‘‘
ان چار لفظوں نے اور خاص طور پر’’ صاحب‘‘ نے خوشیا کو بہت مسرور کیا۔ مسکرا کر، اُس نے بڑے دوستانہ لہجے میں جواب دیا: ’’بتائیں گے، پہلے تم ’’آپِرا ہاؤس‘‘ کی طرف چلو......لیمنگٹن روڈ سے ہوتے ہوئے ...... سمجھے!‘‘
ڈرائیور نے میٹر کی لال جھنڈی کا سر نیچے دبا دیا۔ ٹن ٹن ہوئی اور ٹیکسی نے لیمنگٹن روڈ کا رخ کیا۔ لیمنگٹن روڈ کا جب آخری سِرا آگیا تو خوشیا نے ڈرائیور کو ہدایت دی: ’’بائیں ہاتھ موڑ لو۔‘‘
ٹیکسی بائیں ہاتھ مڑ گئی۔ ابھی ڈرائیور نے گیئر بھی نہ بدلا تھا کہ خوشیا نے کہا: ’’یہ سامنے والے کھمبے کے پاس روک لینا ذرا۔‘‘ ڈرائیور نے عین کھمبے کے پاس ٹیکسی کھڑی کردی۔ خوشیا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور ایک پان والے کی دُکان کی طرف بڑھا۔ یہاں سے اس نے ایک پان لیا۔ اور اُس آدمی سے جو کہ دُکان کے پاس کھڑا تھا، چند باتیں کیں اور اُسے اپنے ساتھ ٹیکسی پر بٹھا کر ڈرائیور سے کہا: ’’سیدھے لے چلو!‘‘
دیر تک ٹیکسی چلتی رہی۔ خوشیا نے جدھر اشارہ کیا، ڈرائیور نے اُدھر ہینڈل پھرا دیا۔ مختلف پُررونق بازاروں میں سے ہوتے ہوئے، ٹیکسی ایک نیم روشن گلی میں داخل ہوئی جس میں آمدورفت بہت کم تھی۔ کچھ لوگ سڑک پر بستر جمائے لیٹے تھے۔ اُن میں سے کچھ بڑے اطمینان سے چمپی کرا رہے تھے۔ جب ٹیکسی اُن چمپی کرانے والوں کے آگے نکل گئی اور ایک کاٹھ کے بنگلہ نما مکان کے پاس پہنچی، تو خوشیا نے ڈرائیور کو ٹھہرنے کے لیے کہا: ’’بس اب یہاں رُک جاؤ۔‘‘ ٹیکسی ٹھہر گئی تو خوشیا نے، اُس آدمی سے جس کو وہ پان والے کی دُکان سے اپنے ساتھ لایا تھا، آہستہ سے کہا: ’’جاؤ ...... میں یہاں انتظار کرتا ہوں۔‘‘
وہ آدمی، بے وقوفوں کی طرح خوشیا کی طرف دیکھتا ہوا، ٹیکسی سے باہر نکلا اور سامنے والے چوبی مکان میں داخل ہوگیا۔
خوشیا جم کر ٹیکسی کے گدّے پر بیٹھ گیا۔ ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر، اُس نے جیب سے بیڑی نکال کر سلگائی اور ایک دو کش لے کر باہر سڑک پر پھینک دی۔ وہ بہت مضطرب تھا۔ اِس لیے اسے ایسا لگا کہ ٹیکسی کا انجن بند نہیں ہوا۔ اُس کے سینے میں چونکہ پھڑ پھڑاہٹ سی ہورہی تھی اس لیے وہ سمجھا کہ ڈرائیور نے بل بڑھانے کی غرض سے پٹرول چھوڑ رکھا ہے۔ چنانچہ اُس نے تیزی سے کہا: ’’یوں بے کار انجن چالو رکھ کر تم کتنے پیسے اور بڑھا لو گے؟‘‘
ڈرائیور نے مڑ کر خوشیا کی طرف دیکھا اور کہا : ’’سیٹھ انجن تو بند ہے۔‘‘
جب خوشیا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اُس کا اضطراب اور بھی بڑھ گیا اور اس نے کچھ کہنے کے بجائے اپنے ہونٹ چبانے شروع کردیے۔ پھر ایکا ایکی، سر پر وہ کشتی نما کالی ٹوپی پہن کر، [اوڑھ کر؟] جو اب تک اُس کی بغل میں دبی ہوئی تھی، اس نے ڈرائیور کا شانہ ہلایا اور کہا: ’’دیکھو، ابھی ایک چھوکری آئے گی۔ جوں ہی اندر داخل ہو تم موٹر چلا دینا ...... سمجھے ...... گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، معاملہ ایسا ویسا نہیں۔‘‘
اتنے میں، سامنے چوبی مکان سے دو آدمی باہر نکلے۔ آگے آگے خوشیا کا دوست تھا۔ اور اُس کے پیچھے کانتا جس نے شوخ رنگ کی ساڑھی پہن رکھی تھی۔
خوشیا، جھٹ سے اُس طرف کو سرک گیا، جدھر اندھیرا تھا۔ خوشیا کے دوست نے ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور کانتا کو اندر داخل کرکے دروازہ بند کردیا۔ فوراً ہی، کانتا کی حیرت بھری آواز سنائی دی جو چیخ سے ملتی جُلتی تھی: ’’خوشیا تم!‘‘
’’ہاں میں ...... لیکن تمہیں روپے مل گئے ہیں نا؟‘‘ خوشیا کی موٹی آواز بلند ہوئی۔ ’’دیکھو ڈرائیور! ...... جو‘ ہو‘ لے چلو۔‘‘
ڈرائیور نے سَیلف دبایا، انجن پھڑ پھڑانا شروع ہوا وہ بات جو کانتا نے کہی، سنائی نہ دے سکی۔ ٹیکسی، ایک دھچکے کے ساتھ، آگے بڑھی اور خوشیا کے دوست کو سڑک کے بیچ حیرت زدہ چھوڑ کر، نیم روشن گلی میں غائب ہوگئی۔
اس کے بعد، کسی نے خوشیا کو، موٹروں کے پرزوں کی دُکان کے سنگین چبوترے پر، نہیں دیکھا۔

نیا قانون (منٹو)

منگو کوچوان اپنے اڈے میںبہت عقل مند آدمی سمجھا جاتا تھا۔ گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابر تھی اور اس نے کبھی اسکول کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی تھی کہ دنیا کے اندر کیا ہورہا ہے، استاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔
پچھلے دنوں جب استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی افواہ سنی تھی تو اس نے گاما چودھری کے چوڑے کاندھے پر تھپکی دے کر مدبرانہ انداز میں پیش گوئی کی تھی: ’’دیکھ لینا گاما چودھری! تھوڑے ہی دنوں میں اسپین کے اندر جنگ چھڑ جائے گی۔‘‘
اور جب گاما چودھری نے اس سے یہ پوچھا تھا کہ اسپین کہاں واقع ہے تو استاد منگو نے بڑی متانت سے جواب دیا تھا: ’’ولایت میں اور کہاں؟‘‘
اسپین میں جنگ چھڑی۔ اور جب ہر شخص کو پتہ چل گیا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے، دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔ اور استاد منگو اس وقت مال روڈ کی چمکیلی سطح پر تانگا چلاتے ہوئے، اپنی سواری سے تازہ ہندو مسلم فساد پر تبادلۂ خیال کر رہا تھا۔
اس روز شام کے قریب جب وہ اڈے میں آیا تو اس کا چہرہ غیر معمولی طور پر تمتمایا ہوا تھا۔ حقے کا دور چلتے چلتے جب ہندو مسلم فساد کی بات چھڑی تو استاد منگو نے سر پر سے خاکی پگڑی اتاری اور بغل میں داب کر بڑے مفکرانہ لہجے میں کہا:
’’یہ کسی پیر کی بد دعا کا نتیجہ ہے کہ آئے دن ہندوؤں اور مسلمانوں میں چاقو چھریاں چلتی رہتی ہیں اور میں نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ اکبر بادشاہ نے کسی درویش کا دل دکھایا تھا اور اس درویش نے جل کر یہ بد دعا دی تھی: ’’جا، تیرے ہندستان میں ہمیشہ فساد ہی ہوتے رہیں گے ...... اور دیکھ لو جب سے اکبر بادشاہ کا راج ختم ہوا ہے ہندستان میں فساد پر فساد ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور پھر حقے کا دم لگا کر اپنی بات شروع کی: ’’یہ کانگرسی ہندستان کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں، اگر یہ لوگ ہزار سال بھی سر پٹکتے رہیں تو کچھ نہ ہوگا۔ بڑی سے بڑی بات یہ ہوگی کہ انگریز چلا جائے گا اور کوئی اٹلی والا آجائے گا، یا وہ روس والا جس کی بابت میں نے سنا ہے کہ بہت تگڑا آدمی ہے۔ لیکن ہندستان سد اغلام رہے گا۔ ہاں میں یہ کہنا بھول ہی گیا کہ پیر نے یہ بد دعا بھی دی تھی کہ ہندستان پر ہمیشہ باہر کے آدمی راج کرتے رہیں گے۔‘‘
استاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی اور اس نفرت کا سبب تو وہ یہ بتلایا کرتا تھا کہ وہ اس کے ہندستان پر اپنا سکہ چلاتے ہیں اور طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں مگر اس کے تنفر کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے۔ وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے تھے گویا وہ ایک ذلیل کتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے ان کا رنگ بھی بالکل پسند نہ تھا۔ جب کبھی وہ گورے کے سرخ و سپید چہرے کو دیکھتا تو اسے متلی آجاتی۔ نہ معلوم کیوں۔ وہ کہا کرتا تھا کہ ان کے لال جھریوں بھرے چہرے دیکھ کر مجھے وہ لاش یاد آجاتی ہے جس کے جسم پر سے اوپر کی جھلی گل گل کر جھڑ رہی ہو!
جب کسی شرابی گورے سے اس کا جھگڑا ہو جاتا تو سارا دن اس کی طبیعت مکدر رہتی۔ اور وہ شام کو اڈے میں آکر ہل مارکہ سگریٹ پیتے یا حقے کے کش لگاتے ہوئے اس ’’گورے‘‘ کو جی بھر کر سنایا کرتا۔
’’......‘‘ یہ موٹی گالی دینے کے بعد وہ اپنے سر کو ڈھیلی پگڑی سمیت جھٹکا دے کر کہا کرتا تھا: ’’آگ لینے آئے تھے۔ اب گھر کے مالک ہی بن گئے ہیں۔ ناک میں دم کر رکھا ہے ان بندروں کی اولاد نے، یوں رعب گانٹھتے ہیں گویا ہم ان کے باوا کے نوکر ہیں......‘‘
اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا۔ جب تک اس کا کوئی ساتھی اس کے پاس بیٹھا رہتا، وہ اپنے سینے کی آگ اگلتا رہتا:
’’شکل دیکھتے ہو نا تم اس کی ...... جیسے کوڑھ ہورہا ہے ...... بالکل مردار ...... ایک دھپے کی مار، اور گٹ پٹ گٹ پٹ یوں بک رہا تھا جیسے مار ہی ڈالے گا۔ تیری جان کی قسم، پہلے پہل جی میں آئی کہ ملعون کی کھوپڑی کے پرزے اڑا دوں لیکن اس خیال سے ٹل گیا کہ اس مردود کو مارنا اپنی ہتک ہے......‘‘ یہ کہتے کہتے وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوجاتا اور ناک کو خاکی قمیص کی آستین سے صاف کرنے کے بعد پھر بڑبڑانے لگ جاتا:
’’قسم ہے بھگوان کی، ان لاٹ صاحبوں کے ناز اٹھاتے اٹھاتے تنگ آگیا ہوں۔ جب کبھی ان کا منحوس چہرہ دیکھتا ہوں، رگوں میں خون کھولنے لگ جاتا ہے۔ کوئی نیا قانون وانون بنے تو ان لوگوں سے نجات ملے۔ تیری قسم، جان میں جان آجائے۔‘‘
اور جب ایک روز استاد منگو نے کچہری سے اپنے تانگے پر دو سواریاں لادیں اور ان کی گفتگو سے اسے پتہ چلا کہ ہندستان میں جدید آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
دو مار واڑی جو کچہری میں اپنے دیوانی مقدمے کے سلسلے میں آئے تھے، گھر جاتے ہوئے جدید آئین یعنی انڈیا ایکٹ کے متعلق آپس میں بات چیت کررہے تھے:
’’سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندستان میں نیا قانون چلے گا ...... کیا ہر چیز بدل جائے گی؟‘‘
’’ہر چیز تو نہیں بدلے گی۔ مگر کہتے ہیں کہ بہت کچھ بدل جائے گا اور ہندستانیوں کو آزادی مل جائے گی۔‘‘
’’کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہوگا؟‘‘
’’یہ پوچھنے کی بات ہے۔ کل کسی وکیل سے دریافت کریں گے۔‘‘
ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابل بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔ وہ اپنے گھوڑے کو ہمیشہ گالیاں دیتا تھا اور چابک سے بہت بری طرح پیٹا کرتا تھا مگر اس روز وہ بار بار پیچھے مڑ کر مارواڑیوں کی طرف دیکھتا اور اپنی بڑھی ہوئی مونچھوں کے بال، ایک انگلی سے بڑی صفائی کے ساتھ اونچے کرکے، گھوڑے کی پیٹھ پر باگیں ڈھیلی کرتے ہوئے بڑے پیار سے کہتا: ’’چل بیٹا ...... ذرا ہوا سے باتیں کرکے دکھا دے۔‘‘
مارواڑیوں کو ان کے ٹھکانے پہنچا کر اس نے انارکلی میں دینو حلوائی کی دکان پر آدھ سیر دہی کی لسی پی کر ایک بڑی ڈکار لی۔ اور مونچھوں کو منہ میں دبا کر ان کو چوستے ہوئے، ایسے ہی بلند آواز میں کہا: ’’ہت تیری ایسی تیسی۔‘‘
شام کو جب وہ اڈے کو لوٹا تو خلاف معمول اسے وہاں اپنی جان پہچان کا کوئی آدمی نہ مل سکا۔ یہ دیکھ کر اس کے سینے میں ایک عجیب و غریب طوفان برپا ہوگیا۔ آج وہ ایک بڑی خبر اپنے دوستوں کو سنانے والا تھا ...... بہت بڑی خبر، اور اس خبر کو اپنے اندر سے باہر نکالنے کے لیے وہ سخت مجبور ہورہا تھا۔ لیکن وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔
آدھ گھنٹے تک وہ چابک بغل میں دبائے، اسٹیشن کے اڈے کی آہنی چھت کے نیچے بے قراری کی حالت میں ٹہلتا رہا۔ اس کے دماغ میں بڑے اچھے اچھے خیالات آرہے تھے۔ نئے قانون کے نفاذ کی خبر نے اس کو ایک نئی دنیا میں لاکر کھڑا کردیا تھا۔ وہ اس نئے قانون کے متعلق جو پہلی اپریل کو ہندستان میں نافذ ہونے والا تھا، اپنے دماغ کی تمام بتیاں روشن کرکے غور و فکر کررہا تھا۔ اس کے کانوں میں مارواڑی کا یہ اندیشہ ’’کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہوگا؟‘‘ بار بار گونج رہا تھا اور اس کے تمام جسم میں مسرت کی ایک لہر دوڑا رہا تھا۔ کئی بار اپنی گھنی مونچھوں کے اندر ہنس کر اس نے ان مارواڑیوں کو گالی دی ...... ’’غریبوں کی کھٹیا میں گھسے ہوئے کھٹمل ...... نیا قانون ان کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا۔‘‘
وہ بے حد مسرور تھا۔ خاص کر اس وقت اس کے دل کو بہت ٹھنڈک پہنچتی جب وہ خیال کرتا کہ گوروں ...... سفید چوہوں (وہ ان کو اسی نام سے یاد کرتا تھا) کی تھوتھنیاں نئے قانون کے آتے ہی بلوں میں ہمیشہ کے لیے غائب ہوجائیں گی۔
جب نتھو گنجا، پگڑی بغل میں دبائے، اڈے میں داخل ہوا تو استاد منگو بڑھ کر اس سے ملا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند آواز سے کہنے لگا: ’’لاہاتھ ادھر ...... ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہوجائے ...... تیری اس گنجی کھوپری پر بال اگ آئیں۔‘‘
اور یہ کہہ کر منگو نے بڑے مزے لے لے کر نئے قانون کے متعلق اپنے دوست سے باتیں شروع کردیں۔ دوران گفتگو میں اس نے کئی مرتبہ نتھو گنجے کے ہاتھ پر زور سے اپنا ہاتھ مار کر کہا: ’’تو دیکھتا رہ، کیا بنتا ہے، یہ روس والا بادشاہ کچھ نہ کچھ ضرور کرکے رہے گا۔‘‘
استاد منگو موجودہ سویٹ نظام کی اشتراکی سرگرمیوں کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا اور اسے وہاں کے نئے قانون اور دوسری نئی چیزیں بہت پسند تھیں۔ اسی لیے اس نے ’’روس والے بادشاہ‘‘ کو ’’انڈیا ایکٹ‘‘ یعنی جدید آئین کے ساتھ ملادیا اور پہلی اپریل کو پرانے نظام میں جو نئی تبدیلیاں ہونے والی تھیں، وہ انہیں ’’روس والے بادشاہ‘‘ کے اثر کا نتیجہ سمجھتا تھا۔
کچھ عرصے سے پشاور اور دیگر شہروں میں سرخ پوشوں کی تحریک جاری تھی۔ استاد منگو نے اس تحریک کو اپنے دماغ میں ’’روس والے بادشاہ‘‘ اور پھر نئے قانون کے ساتھ خلط ملط کردیا تھا۔ اس کے علاوہ جب کبھی وہ کسی سے سنتا کہ فلاں شہر میں اتنے بم ساز پکڑے گئے ہیں، یا فلاں جگہ اتنے آدمیوں پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا ہے، تو ان تمام واقعات کو نئے قانون کا پیش خیمہ سمجھتا اور دل ہی دل میں بہت خوش ہوتا۔
ایک روز اس کے تانگے میں دو بیرسٹر بیٹھے نئے آئین پر بڑے زور سے تنقید کررہے تھے اور وہ خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ ان میں سے ایک، دوسرے سے کہہ رہا تھا:
’’جدید آئین کا دوسرا حصہ فیڈریشن ہے جو میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آیا۔ ایسی فیڈریشن دنیا کی تاریخ میں آج تک نہ سنی نہ دیکھی گئی ہے۔ سیاسی نظریے کے اعتبار سے بھی یہ فیڈریشن بالکل غلط ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کوئی فیڈریشن ہے ہی نہیں!‘‘
ان بیرسٹروں کے درمیان جو گفتگو ہوئی چونکہ اس میں بیشتر الفاظ انگریزی کے تھے، اس لیے استاد منگو صرف اوپر کے جملے ہی کو کسی قدر سمجھا اور اس نے خیال کیا: یہ لوگ ہندوستان میں نئے قانون کی آمد کو برا سمجھتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان کا وطن آزاد ہو۔ چنانچہ اس خیال کے زیر اثر اس نے کئی مرتبہ ان دو بیرسٹروں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھ کر دل ہی دل میں کہا: ’’ٹوڈی بچے!‘‘
جب کبھی وہ کسی کو دبی زبان میں ’’ٹوڈی بچہ ‘‘ کہتا تو دل میں یہ محسوس کرکے بڑا خوش ہوتا تھا کہ اس نے اس نام کو صحیح جگہ استعمال کیا ہے اور یہ کہ وہ شریف آدمی اور ’’ٹوڈی بچے‘‘ میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
اس واقعے کے تیسرے روز وہ گورنمنٹ کالج کے تین طلبہ کو اپنے تانگے میں بٹھا کر مزنگ جارہا تھا کہ اس نے ان تین لڑکوں کو آپس میں یہ باتیں کرتے سنا:
’’نئے آئین نے میری امیدیں بڑھا دی ہیں اگر ...... صاحب اسمبلی کے ممبر ہوگئے تو کسی سرکاری دفتر میں ملازمت ضرور مل جائے گی۔‘‘
’’ویسے بھی بہت سی جگہیں اور نکلیں گی۔ شاید اسی گڑ بڑ میں ہمارے ہاتھ بھی کچھ آجائے ۔‘‘
’’ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔‘‘
’’وہ بے کار گریجویٹ جو مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ان میں کچھ تو کمی ہوگی۔‘‘
اس گفتگو نے استاد منگو کے دل میں جدید آئین کی اہمیت اور بھی بڑھا دی اور وہ اس کو ایسی ’’چیز‘‘ سمجھنے لگا جو بہت چمکتی ہو۔’’ نیا قانون…!‘‘ وہ دن میں کئی بار سوچتا: ’’یعنی کوئی نئی چیز!‘‘ اور ہر بار اس کی نظروں کے سامنے اپنے گھوڑے کا وہ نیا ساز آجاتا جو اس نے دو برس ہوئے چودھری خدا بخش سے بڑی اچھی طرح ٹھونک بجا کر خریدا تھا۔ اس ساز پر جب وہ نیا تھا، جگہ جگہ لوہے کی نکل چڑھی ہوئی کیلیں چمکتی تھیں اور جہاں جہاں پیتل کا کام تھا، وہ تو سونے کی طرح دمکتا تھا۔ اس لحاظ سے بھی ’’نئے قانون‘‘ کا درخشاں و تاباں ہونا ضروری تھا۔
پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا۔ مگر اس کے متعلق جو تصور وہ اپنے ذہن میں قائم کرچکا تھا، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اس کو یقین تھا کہ اس کی آمد پر جو چیزیں نظر آئیں گی ان سے اس کی آنکھوں کو ضرور ٹھنڈک پہنچے گی۔
آخر کار مارچ کے اکتیس دن ختم ہوگئے اور اپریل کے شروع ہونے میں رات کے چند خاموش گھنٹے باقی رہ گئے۔ موسم خلاف معمول سرد تھا اور ہوا میں تازگی تھی۔ پہلی اپریل کو صبح سویرے استاد منگو اٹھا اور اصطبل میں جا کر تانگے میں گھوڑے کو جوتا اور باہر نکل گیا۔ اس کی طبیعت آج غیرمعمولی طور پر مسرور تھی ...... وہ نئے قانون کو دیکھنے والا تھا۔
اس نے صبح کے سرد دھندلکے میں کئی تنگ اور کھلے بازاروں کا چکر لگایا مگر اسے ہر چیز پرانی نظر آئی۔ آسمان کی طرح پرانی۔ اس کی نگاہیں آج خاص طور پر نیا رنگ دیکھنا چاہتی تھیں مگر سوائے اس کلغی کے جو رنگ برنگ کے پروں سے بنی تھی اور اس کے گھوڑے کے سر پر جمی ہوئی تھیں، اور سب چیزیں پرانی نظر آتی تھیں۔ یہ نئی کلغی اس نے نئے قانون کی خوشی میں ۳۱؍مارچ کو چودھری خدا بخش سے ساڑھے چودہ آنے میں خریدی تھی۔
گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز، کالی سڑک اور اس کے آس پاس تھوڑا تھوڑا فاصلہ چھوڑ کر لگائے ہوئے بجلی کے کھمبے، دکانوں کے بورڈ، اس کے گھوڑے کے گلے میں پڑے ہوئے گھنگھرو کی جھنجھناہٹ، بازار میں چلتے پھرتے آدمی ...... ان میں سے کون سی چیز نئی تھی؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی نہیں ۔ لیکن استاد منگو مایوس نہیں تھا۔
’’ابھی بہت سویرا ہے، دکانیں بھی تو سب کی سب بند ہیں۔‘‘ اس خیال سے اسے تسکین تھی۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی سوچتا تھا:’’ ہائی کورٹ میں نو بجے کے بعد ہی کام شروع ہوتا ہے۔ اب اس سے پہلے نئے قانون کا کیا نظر آئے گا؟‘‘
جب اس کا تانگا گورنمنٹ کالج کے دروازے کے قریب پہنچا تو کالج کے گھڑیال نے بڑی رعونت سے نو بجائے۔ جو طلبہ کالج کے بڑے دروازے سے باہر نکل رہے تھے، خوش پوش تھے۔ مگر استاد منگو کو نہ جانے ان کے کپڑے میلے میلے سے کیوں نظر آئے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی نگاہیں آج کسی خیرہ کن جلوے کا نظارہ کرنے والی تھیں۔
تانگے کو دائیں ہاتھ موڑ کر وہ تھوڑی دیر کے بعد پھر انارکلی میں تھا۔ بازاروں کی آدھی دکانیں کھل چکی تھیں اور اب لوگوں کی آمدورفت بھی بڑھ گئی تھیں۔ حلوائی کی دکانوں پر گاہکوں کی خوب بھیڑ تھی۔ منہاری والوں کی نمائشی چیزیں شیشے کی الماریوں میں لوگوں کو دعوت نظارہ دے رہی تھیں۔ اور بجلی کے تاروں پر کئی کبوتر آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے۔ مگر استاد منگو کے لیے ان تمام چیزوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی ...... وہ نئے قانون کو دیکھنا چاہتا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح وہ اپنے گھوڑے کو دیکھ رہا تھا۔
جب استاد منگو کے گھر میں بچہ پیدا ہونے والا تھا تو اس نے چار پانچ مہینے بڑی بے قراری میں گزارے تھے۔ اس کو یقین تھا کہ بچہ کسی نہ کسی دن ضرور پیدا ہوگا۔ مگر وہ انتظار کی گھڑیاں نہیں کاٹ سکتا تھا، وہ چاہتا تھا کہ اپنے بچے کو صرف ایک نظر دیکھ لے۔ اس کے بعد وہ پیدا ہوتا رہے۔ چنانچہ اسی غیر مغلوب خواہش کے زیر اثر اُس نے کئی بار اپنی بیمار بیوی کے پیٹ کو دبا دبا کر اور اس کے اوپر کان رکھ رکھ کر اپنے بچے کے متعلق کچھ جاننا چاہا مگر ناکام رہا تھا۔ ایک مرتبہ وہ انتظار کرتے کرتے اس قدر تنگ آگیا تھا کہ اپنی بیوی پر برس بھی پڑا تھا:
’’تو ہر وقت مردے کی طرح پڑی رہتی ہے۔ اٹھ ذرا چل پھر، تیرے انگ میں تھوڑی سی طاقت تو آئے۔ یوں تختہ بنے رہنے سے کچھ نہ ہوسکے گا۔ تو سمجھتی ہے کہ اس طرح لیٹے لیٹے بچہ جن دے گی؟‘‘
استاد منگو طبعاً بہت جلد باز واقع ہوا تھا۔ وہ ہر سبب کی عملی تشکیل دیکھنے کا نہ صرف خواہش مند تھا بلکہ متجسس تھا۔ اس کی بیوی گنگادئی اس کی اس قسم کی بے قراریوں کو دیکھ کر عام طور پر یہ کہا کرتی تھی: ’’ابھی کنواں کھودا نہیں گیا اور تم پیاس سے بے حال ہورہے ہو۔‘‘
کچھ بھی ہو مگر استاد منگو نئے قانون کے انتظار میں اتنا بے قرار نہیں تھا جتنا کہ اسے اپنی طبیعت کے لحاظ سے ہونا چاہیے تھا۔ وہ آج نئے قانون کو دیکھنے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے وہ گاندھی یا جواہر لال کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے نکلتا تھا۔
لیڈروں کی عظمت کا اندازہ استاد منگو ہمیشہ ان کے جلوس کے ہنگاموں اور ان کے گلے میں ڈالے ہوئے پھولوں کے ہاروں سے کیا کرتا تھا۔ اگر کوئی لیڈر گیندے کے پھولوں سے لدا ہو تو استاد منگو کے نزدیک وہ بڑا آدمی تھا اور اگر کسی لیڈر کے جلوس میں بھیڑ کے باعث دو تین فساد ہوتے ہوتے رہ جائیں تو اس کی نگاہوں میں وہ اور بھی بڑا تھا۔ اب نئے قانون کو وہ اپنے ذہن کے اسی ترازو میں تولنا چاہتا تھا۔
انارکلی سے نکل کر وہ مال روڈ کی چمکیلی سطح پر اپنے تانگے کو آہستہ آہستہ چلا رہا تھا کہ موٹروں کی دکان کے پاس اسے چھاؤنی کی ایک سواری مل گئی۔ کرایہ طے کرنے کے بعد اس نے اپنے گھوڑے کو چابک دکھایا اور دل میں خیال کیا:
’’چلو یہ بھی اچھا ہوا ...... شاید چھاؤنی ہی سے نئے قانون کا کچھ پتا چل جائے۔‘‘
چھاؤنی پہنچ کر استاد منگو نے سواری کو اس کی منزل مقصود پر اتار دیا اور جیب سے سگریٹ نکال کر، بائیں ہاتھ کی آخری دو انگلیوں میں دبا کر سلگایا اور پچھلی نشست کے گدے پر بیٹھ گیا ...... جب استاد منگو کو کسی سواری کی تلاش نہیں ہوتی تھی یا اسے کسی بیتے ہوئے واقعے پر غور کرنا ہوتا تھا تو وہ، عام طور پر اگلی نشست چھوڑ کر، پچھلی نشست پر بڑے اطمینان سے بیٹھ کر، اپنے گھوڑے کی باگیں دائیں ہاتھ کے گرد لپیٹ لیا کرتا تھا۔ ایسے موقعوں پر اس کا گھوڑا تھوڑا سا ہنہنانے کے بعد، بڑی دھیمی چال چلنا شروع کردیتا تھا۔ گویا اسے کچھ دیر کے لیے بھاگ دوڑ سے چھٹی مل گئی ہے۔
گھوڑے کی چال اور استاد منگو کے دماغ میں خیالات کی آمد بہت سست تھی جس طرح گھوڑا آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا تھا اسی طرح استاد منگو کے ذہن میں نئے قانون کے متعلق نئے قیاسات داخل ہورہے تھے۔
وہ نئے قانون کی موجودگی میں میونسپل کمیٹی سے تانگوں کے نمبر ملنے کے طریقے پر غور کررہا تھا اور اس قابل غور بات کو آئین جدید کی روشنی میں دیکھنے کی سعی کررہا تھا۔ وہ اس سوچ بچار میں غرق تھا۔ اسے یوں معلوم ہوا جیسے کسی سواری نے اسے بلایا ہے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھنے سے اسے، سڑک کے اس طرف، دور بجلی کے کھمبے کے پاس، ایک ’’گورا‘‘ کھڑا نظر آیا جو اسے ہاتھ سے بلا رہا تھا۔
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے، استاد منگو کو گوروں سے بے حد نفرت تھی۔ جب اس نے اپنے تازہ گاہک کو گورے کی شکل میں دیکھا تو اس کے دل میں نفرت کے جذبات بیدار ہوگئے۔ پہلے تو اس کے جی میں آئی کہ بالکل توجہ نہ دے اور اس کو چھوڑ کر چلا جائے مگر بعد میں اس کو خیال آیا: ان کے پیسے چھوڑنا بھی بے وقوفی ہے۔ کلغی پر جو مفت میں ساڑھے چودہ آنے خرچ کردیے ہیں، ان کی جیب ہی سے وصول کرنے چاہییں، چلو چلتے ہیں۔
خالی سڑک پر بڑی صفائی سے تانگا موڑ کر اس نے گھوڑے کو چابک دکھایا اور آنکھ جھپکنے میں وہ بجلی کے کھمبے کے پاس تھا۔ گھوڑے کی باگیں کھینچ کر اس نے تانگا ٹھہرایا اور پچھلی نشست پر بیٹھے بیٹھے گورے سے پوچھا:
’’صاحب بہادر کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘
اس سوال میں بلا کا طنزیہ انداز تھا۔ ’صاحب بہادر‘ کہتے وقت اس کا اوپر کا مونچھوں بھرا ہونٹ، نیچے کی طرف کھچ گیا اور پاس ہی، گال کے اس طرف جو مدھم سی لکیر، ناک کے نتھنے سے ٹھوڑی کے بالائی حصے تک چلی آرہی تھی، ایک لرزش کے ساتھ گہری ہوگئی۔ گویا کسی نے نوکیلے چاقو سے شیشم کی سانولی لکڑی میں دھاری ڈال دی ہے۔ اس کا سارا چہرہ ہنس رہا تھا۔ اور اپنے اندر اس نے اس ’’گورے ‘‘ کو سینے کی آگ میں جلا کر بھسم کر ڈالا تھا۔
جب ’’گورے‘‘ نے جو بجلی کے کھمبے کی اوٹ میں ہوا کا رخ بچا کر سگریٹ سلگا رہا تھا، مڑ کر تانگے کے پائدان کی طرف قدم بڑھایا تو اچانک استاد منگو کی اور اس کی نگاہیں چار ہوئیں۔ اور ایسا معلوم ہوا کہ بیک وقت آمنے سامنے کی بندوقوں سے گولیاں خارج ہوئیں اور آپس میں ٹکرا کر ایک آتشیں بگولا بن کر اوپر کو اڑ گئیں۔
استاد منگو جو اپنے دائیں ہاتھ سے باگ کے بل کھول کر تانگے پر سے نیچے اترنے والا تھا، اپنے سامنے کھڑے ’’گورے‘‘ کو یوں دیکھ رہا تھا گویا وہ اس کے وجود کے ذرے ذرے کو اپنی نگاہوں سے چبا رہا ہے ...... اور گورا کچھ اس طرح اپنی نیلی پتلون پر سے غیر مرئی چیزیں جھاڑ رہا ہے گویا وہ استاد منگو کے اس حملے سے اپنے وجود کے کچھ حصے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔
گورے نے سگریٹ کا دھواں نگلتے ہوئے کہا: ’’جانا مانگٹا یا پھر گڑبڑ کرے گا؟‘‘
’’وہی ہے۔‘‘ یہ لفظ استاد منگو کے ذہن میں پیدا ہوئے۔ اور اس کی چوڑی چھاتی کے اندر ناچنے لگے۔
’’وہی ہے۔‘‘ اس نے یہ لفظ اپنے منہ کے اندر ہی دہرائے اور ساتھ ہی اسے پورا یقین ہوگیا کہ وہ گورا جو اس کے سامنے کھڑا تھا، وہی ہے جس سے پچھلے برس اس کی جھڑپ ہوئی تھی اور اس خوامخواہ کے جھگڑے میں جس کا باعث گورے کے دماغ میں چڑھی ہوئی شراب تھی، اسے طوعاً کرہاً بہت سی باتیں سہنا پڑی تھیں۔ استاد منگو نے گورے کا دماغ درست کردیا ہوتا بلکہ اس کے پرزے اڑا دیے ہوتے، مگر وہ کسی خاص مصلحت کی بنا پر خاموش ہوگیا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس قسم کے جھگڑوں میں عدالت کا نزلہ عام طور پر کوچوانوں ہی پر گرتا ہے۔
استاد منگو نے، پچھلے برس کی لڑائی اور پہلی اپریل کے نئے قانون پر غور کرتے ہوئے، گورے سے کہا: ’’کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘
استاد منگو کے لہجے میں چابک ایسی تیزی تھی۔
گورے نے جواب دیا ’’ہیرا منڈی۔‘‘
’’کرایہ پانچ روپے ہوگا۔‘‘ استاد منگو کی مونچھیں تھرتھرائیں۔
یہ سن کر گورا حیران ہوگیا۔ وہ چلایا: ’’پانچ روپے۔ کیا تم…؟‘‘
’’ہاں، ہاں، پانچ روپے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے استاد منگو کا داہنا بالوں بھرا ہاتھ بھنچ کر ایک وزنی گھونسے کی شکل اختیار کر گیا۔’’ کیوں جاتے ہو یا بے کار باتیں بناؤگے؟‘‘
استاد منگو کا لہجہ زیادہ سخت ہوگیا۔
گورا، پچھلے برس کے واقعے کو پیش نظر رکھ کر، استاد منگو کے سینے کی چوڑائی نظر انداز کرچکا تھا۔ وہ خیال کررہا تھا کہ اس کی کھوپڑی پھر کھجلا رہی ہے۔ اس حوصلہ افزا خیال کے زیر اثر وہ تانگے کی طرف اکڑ کر بڑھا اور اپنی چھڑی سے استاد منگو کو تانگے پر سے نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ بید کی یہ پالش کی ہوئی پتلی چھڑی استاد منگو کی موٹی ران کے ساتھ دو تین مرتبہ چھوئی۔ اس نے کھڑے کھڑے اوپر سے پست قد گورے کو دیکھا ۔ گویا وہ اپنی نگاہوں کے وزن ہی سے اسے پیس ڈالنا چاہتا ہے۔ پھر اس کا گھونسا کمان میں سے تیر کی طرح سے اوپر کو اٹھا اور چشم زدن میں گورے کی ٹھڈی کے نیچے جم گیا۔ دھکا دے کر اس نے گورے کو پرے ہٹایا اور نیچے اتر کر اسے دھڑ ادھڑ پیٹنا شروع کردیا۔
ششدر و متحیر گورے نے ادھر ادھر سمٹ کر استاد منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی اور جب دیکھا کہ اس کے مخالف پر دیوانگی کی سی حالت طاری ہے اور اس کی آنکھوں میں سے شرارے برس رہے ہیں تو اس نے زور زور سے چلانا شروع کیا۔ اس کی چیخ پکار نے استاد منگو کی باہوں کا کام اور بھی تیز کردیا ۔ وہ گورے کو جی بھر کے پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا:
’’پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں ...... پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں ...... اب ہمارا راج ہے بچہ!‘‘
لوگ جمع ہوگئے اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مشکل سے، گورے کو استاد منگو کی گرفت سے چھڑایا۔ استاد منگو ان دو سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا۔ اس کی چوڑی چھاتی پھولی ہوئی سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہورہی تھی، منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور اپنی مسکراتی ہوئی آنکھوں سے، حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر، وہ ہانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا:
’’وہ دن گزر گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے ...... اب نیا قانون ہے میاں ...... نیا قانون!‘‘
اور بے چارہ گورا، اپنے بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ، بے وقوفوں کے مانند، کبھی استاد منگو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجوم کی طرف۔
استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں وہ ’’نیا قانون، نیا قانون‘‘ چلاتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی۔
’’نیا قانون، نیاقانون، کیا بک رہے ہو ...... قانون وہی ہے، پرانا!‘‘
اور اس کو حوالات میں بند کردیا گیا۔