صفحات

جمعرات، 14 مئی، 2020

آنندی (غلام عباس)

بلدیہ کا اجلاس زوروں پر تھا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خلاف معمول ایک ممبر بھی غیر حاضر نہ تھا۔ بلدیہ کے زیر بحث مسئلہ یہ تھا کہ زنان بازاری کو شہر بدر کرا دیا جائے کیونکہ ان کا وجود انسانیت، شرافت اور تہذیب کے دامن پر بدنما داغ ہے۔
بلدیہ کے ایک بھاری بھر کم رکن جو ملک و قوم کے سچے خیر خواہ اور درد مند سمجھے جاتے تھے، نہایت فصاحت و بلاغت سے تقریر کر رہے تھے۔
 ... اور پھر حضرات! آپ یہ بھی خیال فرمایئے کہ ان کا قیام شہر کے ایک ایسے حصے میں ہے جو نہ صرف شہر کے بیچوں بیچ عام گزر گاہ ہے بلکہ شہر کا سب سے بڑا تجارتی مرکز بھی ہے۔ چنانچہ ہر شریف آدمی کو چار و ناچار اس بازار سے گزرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں شرفاء کی پاک دامن بہو بیٹیاں اس بازار کی تجارتی اہمیت کی وجہ سے یہاں آنے اور خریدوفروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ صاحبان! جب یہ شریف زادیاں ان آبرو باختہ، نیم عریاں بیسواؤں کے بنائو سنگھار کو دیکھتی ہیں تو قدرتی طور پر ان کے دل میں بھی آرائش و دلربائی کی نئی نئی امنگیں اور ولولے پیدا  ہوتے ہیں اور وہ اپنے غریب شوہروں سے طرح طرح کے غازوں، لونڈروں، زرق برق ساریوں اور قیمتی زیوروں کی فرمائشیں کرنے لگتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا پُرمسرت گھر، ان کا راحت کدہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔
... اور صاحبان! پھر آپ یہ بھی تو خیال فرمایئے کہ نہلانا قوم، جو درس گاہوں میں تعلیم پا رہے ہیں اور جن کی آئندہ ترقیوں سے قوم کی امیدیں وابستہ ہیں اور قیاس چاہتا ہے کہ ایک نہ ایک دن قوم کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کا سہرا ان ہی کے سر بندھے گا، انھیں بھی صبح و شام اسی بازار سے ہو کر آنا جانا پڑتا ہے۔ یہ قحبائیں، جو ہر وقت بارہ ابھرن سولہ سنگار کیے ہر راہرو پر بے حجابانہ نگاہ و مژہ کے تیروسناں برساتی اور اسے دعوت حسن پرستی دیتی ہیں، کیا انھیں دیکھ کر ہمارے بھولے بھالے ناتجربہ کار، جوانی کے نشے میں سرشار، سو دو زیاں سے بے پروا نونہالانِ قوم اپنے جذبات و خیالات اور اپنی اعلیٰ سیرت کو معصیت کے مسموم اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ صاحبان! کیا ان کا حسن زاہد فریب ہمارے نونہالان قوم کو جادۂ مستقیم سے بھٹکا کر ان کے دل میں گناہ کی پراسرار لذتوں کی تشنگی پیدا کرکے ایک بے کلی، ایک اضطراب، ایک ہیجان برپا کر دیتا ہو گا ... 
اس موقع پر ایک رکن بلدیہ جو کسی زمانہ میں مدرس رہ چکے تھے، اور اعداد و شمار سے خاص شغف رکھتے تھے، بول اٹھے:
’’صاحبان! واضح رہے کہ امتحانوں میں ناکام رہنے والے طلبہ کا تناسب پچھلے پانچ سال کی نسبت ڈیوڑھا ہو گیا ہے‘‘
ایک رکن نے جو چشمہ لگائے تھے اور ایک ہفتہ وار اخبار کے مدیر اعزازی تھے، تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’حضرات ہمارے شہر سے روز بروز غیرت، شرافت، مردانگی، نکو کاری و پرہیز گاری اٹھتی جارہی ہے اور اس کے بجائے بے غیرتی، نامردی، بزدلی، بدمعاشی، چوری اور جعل سازی کا دور دورہ ہوتا جارہا ہے۔ منشیات کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، قتل و غارت، خودکشی اور دیوالہ نکلنے کی وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ اس کا سبب محض ان زنانِ بازاری کا ناپاک وجود ہے کیونکہ ہمارے بھولے بھالے شہری ان کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو کر ہوش و خرد کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی بارگاہ تک رسائی کی زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریق سے زر حاصل کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ اس سعی و کوشش میں جامۂ انسانیت سے باہر ہوجاتے ہیں اور نہایت قبیح افعال کا ارتکاب کر بیٹھتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ جان عزیز ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور یا جیل خانوں میں پڑے سڑتے ہیں۔‘‘
ایک پنشن یافتہ معمر رکن، جو ایک وسیع خاندان کے سرپرست تھے اور دنیا کا سرد و گرم دیکھ چکے تھے اور اب کش مکشِ حیات سے تھک کر باقی ماندہ عمر سستانے اور اپنے اہل و عیال کو اپنے سائے میں پنپتا ہوا دیکھنے کے متمنی تھے، تقریر کرنے اٹھے۔ ان کی آواز لرزتی ہوئی تھی اور لہجہ فریاد کا انداز لیے ہوئے تھا۔ بولے: ’’صاحبان! رات رات پھر ان لوگوں کے طبلے کی تھاپ، ان کی گلے بازیاں، ان کے عشاق کی دھینگا مشتی، گالی گلوچ، شوروغل، ہا ہا ہا ہو ہو ہو سن سن کر آس پاس کے رہنے والے شرفاء کے کان پک گئے ہیں۔ ضیق میں جان آگئی ہے۔ رات کی نیند حرام ہے تو دن کا چین مفقود۔ علاوہ ازیں ان کے قرب سے ہماری بہو بیٹیوں کے اخلاق پر جو برا اثر پڑتا ہے ان کا اندازہ ہر صاحب اولاد خود کر سکتا ہے ...‘‘ 
آخری فقرہ کہتے کہتے ان کی آواز بھرّا گئی اور وہ اس سے زیادہ کچھ کہہ نہ سکے۔ سب اراکین بلدیہ کو ان سے ہمدردی تھی کیونکہ بدقسمتی سے ان کا قدیمی مکان اس بازار حسن کے عین وسط میں واقع تھا۔
ان کے بعد ایک رکن بلدیہ نے، جو پرانی تہذیب کے علمبردار تھے اور آثار قدیمہ کو اولاد سے زیادہ عزیز رکھتے تھے، تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’حضرات! باہر سے جو سیاح اور ہمارے احباب اس مشہور اور تاریخی شہر کو دیکھنے آتے ہیں جب وہ اس بازار سے گزرتے ہیں اور اس کے متعلق استفسار کرتے ہیں تو یقین کیجیے کہ ہم پر گھڑوں پانی پڑ جاتا ہے۔‘‘
اب صدر بلدیہ تقریر کرنے اٹھے۔ گو قد ٹھنگنا اور ہاتھ پائوں چھوٹے چھوٹے تھے مگر سر بڑا تھا جس کی وجہ سے بردبار آدمی معلوم ہوتے تھے، لہجہ میں حد درجہ متانت تھی۔ بولے: ’’حضرات میں اس امر میں قطعی طور پر آپ سے متفق ہوں کہ اس طبقہ کا وجود ہمارے شہر اور ہمارے تہذیب و تمدن کے لیے باعثِ صد عار ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کا تدارک کس طرح کیا جائے۔ اگر ان لوگوں کو مجبور کیا جائے کہ یہ اپنا ذلیل پیشہ چھوڑ دیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ کھائیں گے کہاں سے؟‘‘
ایک صاحب بول اٹھے۔ ’’یہ عورتیں شادی کیوں نہیں کر لیتیں۔‘‘
اس پر ایک طویل فرمائشی قہقہہ پڑا اور ہال کی ماتمی فضا میں یکبارگی شگفتگی کے آثار پیدا ہوگئے۔ جب اجلاس میں خاموشی ہوئی تو صاحبِ صدر بولے۔ ’’حضرات یہ تجویز بارہا ان لوگوں کے سامنے پیش کی جا چکی ہے۔ اس کا ان کی طرف سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ آسودہ اور عزت دار لوگ خاندانی حرمت و ناموس کے خیال سے انھیں اپنے گھروں میں نہ گھسنے دیں گے اور مفلس اور ادنیٰ طبقہ کے لوگوں کو جو محض ان کی دولت کے لیے ان سے شادی کرنے پر آمادہ ہوں گے، یہ عورتیں خود منہ نہیں لگائیں گی۔‘‘
اس پر ایک صاحب بولے: ’’بلدیہ کو ان کے نجی معاملوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ بلدیہ کے سامنے تو یہ مسئلہ ہے کہ یہ لوگ چاہے جہنم میں جائیں مگر اس شہر کو خالی کر دیں۔‘‘
صدر نے کہا: ’’صاحبان یہ بھی آسان کام نہیں، ان کی تعداد دس بیس نہیں، سینکڑوں تک پہنچتی ہے اور پھر ان میں سے بہت سی عورتوں کے ذاتی مکانات ہیں۔‘‘
یہ مسئلہ کوئی مہینہ بھر تک بلدیہ کے زیر بحث رہا اور بالآخر تمام اراکین کی اتفاق رائے سے یہ امر قرار پایا کہ زنان بازاری کے مملوکہ مکانوں کو خرید لینا چاہیے اور انھیں رہنے کے لیے شہر سے کافی دور کوئی الگ تھلگ علاقہ دے دینا چاہیے۔ ان عورتوں نے بلدیہ کے اس فیصلہ کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ بعض نے نافرمانی کرکے بھاری جرمانے اور قیدیں تک بھگتیں مگر بلدیہ کی مرضی کے آگے ان کی کوئی پیش نہ چل سکی اور وہ ناچار صبر کرکے رہ گئیں۔
اس کے بعد ایک عرصہ تک ان زنان بازاری کے مملوکہ مکانوں کی فہرستیں اور نقشے تیار ہوتے اور مکانوں کے گاہک پیدا کیے جاتے رہے۔ بیشتر مکانوں کو بذریعہ نیلام فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان عورتوں کو چھ مہینے تک شہر میں اپنے پرانے ہی مکانوں میں رہنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ اس عرصے میں وہ نئے علاقہ میں مکان وغیرہ بنوا سکیں۔
ان عورتوں کے لیے جو علاقہ منتخب کیا گیا وہ شہر سے چھ کوس دور تھا۔ پانچ کوس تک پکی سڑک جاتی تھی اور اس کے آگے کوس بھر کا کچا راستہ تھا۔ کسی زمانہ میں وہاں کوئی بستی ہو گی مگر اب تو کھنڈروں کے سوا کچھ نہ رہا تھا جن میں سانپوں اور چمگادڑوں کے مسکن تھے اور دن دہاڑے اُلّو بولتا تھا۔ اس علاقے کے نواح میں کچے گھروندوں والے کئی چھوٹے چھوٹے گائوں تھے مگر کسی کا فاصلہ بھی یہاں سے دو ڈھائی میل سے کم نہ تھا۔ ان گائووں کے بسنے والے کسان دن کے وقت کھیتی باڑی کرتے یا یونہی پھرتے پھراتے ادھر نکل آتے تو نکل آتے ورنہ عام طور پر اس شہر خموشاں میں آدم زاد کی صورت نظر نہ آتی تھی، بعض اوقات روز روشن ہی میں گیدڑ اس علاقے میں پھرتے دیکھے گئے تھے۔ 
پانسو سے کچھ اوپر بیسواؤں میں سے صرف چودہ ایسی تھیں جو اپنے عشاق کی وابستگی یا خود اپنی دل بستگی یا کسی اور وجہ سے شہر کے قریب آزادانہ رہنے پر مجبور تھیں اور اپنے دولت مند چاہنے والوں کی مستقل مالی سرپرستی کے بھروسے بادل ناخواستہ اس علاقے میں رہنے پر آمادہ ہو گئی تھیں، ورنہ باقی عورتوں نے سوچ رکھا تھا کہ وہ یا تو اسی شہر کے ہوٹلوں کو اپنا مسکن بنائیں گی یا بظاہر پارسائی کا جامہ پہن کر شہر کے شریف محلوں کے کونوں کھدروں میں جا چھپیں گی یا پھر اس شہر ہی کو چھوڑ، کہیں اور نکل جائیں گی۔
یہ چودہ بیسوائیں اچھی خاصی مالدار تھیں۔ اس پر شہر میں ان کے جو مملوکہ مکان تھے ان کے دام انھیں اچھے وصول ہو گئے تھے اور اس علاقہ میں زمین کی قیمت برائے نام تھی اور سب سے بڑھ کر یہ ان کے ملنے والے دل و جان سے ان کی مالی امداد کرنے کے لے تیار تھے۔ چنانچہ انھوں نے اس علاقے میں جی کھول کر بڑے عالی شان مکان بنوانے کی ٹھان لی۔ ایک اونچی اور ہموار جگہ، جو ٹوٹی پھوٹی قبروں سے ہٹ کر تھی، منتخب کی گئی۔ زمین کے قطعے صاف کرائے اور چابکدست نقشہ نویسوں سے مکانوں کے نقشے بنوائے گئے اور چند ہی روز میں تعمیر کا کام شروع ہو گیا۔
دن بھر اینٹ، مٹی چونا، شہتیر، گارٹر اور دوسرا عمارتی سامان، لاریوں، چھکڑوں، خچروں، گدھوں اور انسانوں پر لد کر اس بستی میں آتا اور منشی حساب کتاب کی کاپیاں بغلوں میں دبائے انھیں گنواتے اور کاپیوں میں درج کرتے۔ میر صاحب معماروں کو کام کے متعلق ہدایات دیتے، معمار مزدوروں کو ڈانٹتے ڈپٹتے، مزدور ادھر ادھر دوڑتے پھرتے، مزدورنیوں کو چلّا چلّا کو پکارتے اور اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے بلاتے۔ غرض سارا دن ایک شور، ایک ہنگامہ رہتا۔ سارا دن آس پاس کے گائوں کے دیہاتی اپنے کھیتوں میں اور دیہاتنیں اپنے گھروں میں، ہوا کے جھونکوں کے ساتھ دور سے آتی ہوئی کھٹ کھٹ کی دھیمی آوازیں سنتی رہتیں۔
اس بستی کے کھنڈروں میں ایک جگہ مسجد کے آثار تھے اور اس کے پاس ہی ایک کنواں تھا جو بند پڑا تھا۔ راج مزدوروں نے کچھ تو پانی حاصل کرنے اور بیٹھ کر سستانے کی غرض سے اور کچھ ثواب کمانے اور اپنے نمازی بھائیوں کی عبادت گزاری کے خیال سے سب سے پہلے اس کی مرمت کی۔ چونکہ یہ فائدہ بخش اور ثواب کا کام تھا، اس لیے کسی نے کچھ اعتراض نہ کیا۔ چنانچہ دو تین روز میں مسجد تیار ہو گئی۔
دن کو بارہ بجے جیسے ہی کھانا کھانے کی چھٹی ہوتی، دو ڈھائی سو راج، مزدور، میر عمارت، منشی اور ان بیسواؤں کے رشتہ دار یا کارندے جو تعمیر کی نگرانی پر مامور تھے، اس مسجد کے آس پاس جمع ہوجاتے اور اچھا خاصا میلہ سا لگ جاتا۔
ایک دن ایک دیہاتی بڑھیا جو پاس کے کسی گائوں میں رہتی تھی، اس بستی کی خبر سن کر آگئی، اس کے ساتھ ایک خورد سال لڑکا تھا۔ دونوں نے مسجد کے قریب ایک درخت کے نیچے گھٹیا سگرٹ بیڑی، چنے اور گڑ کی بنی ہوئی مٹھائیوں کا خوانچہ لگا دیا، بڑھیا کو آئے ابھی دو دن بھی نہ گزرے تھے کہ ایک بوڑھا کسان کہیں سے ایک مٹکا اٹھا لایا اور کنویں کے پاس اینٹوں کا ایک چھوٹا سا چبوترا بنا پیسے کے دو دو شکر کے شربت کے گلاس بیچنے لگا۔ ایک کنجڑے کو جو خبر ہوئی، وہ ایک ٹوکرے میں خربوزے بھر کر لے آیا اور خوانچہ والی بڑھیا کے پاس بیٹھ کر، لے لو خربوزے شہد سے میٹھے خربوزے، کی صدا لگانے لگا۔ ایک شخص نے کیا کیا، گھر سے سری پائے پکا، دیگچی میں رکھ، خوانچہ میں لگا، تھوڑی سی روٹیاں، مٹی کے دو تین پیالے اور ٹین کا ایک گلاس لے، آ موجود ہوا اور اس بستی کے کارکنوں کو جنگل میں گھر کی ہنڈیا کا مزا چکھانے لگا۔ 
ظہر اور عصر کے وقت میر عمارت، معمار اور دوسرے لوگ مزدوروں سے کنویں سے پانی نکلوا نکلوا کر وضو کرتے نظر آتے۔ ایک شخص مسجد میں جا کر اذان دیتا، پھر ایک کو امام بنایا جاتا اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھے۔ کسی گائوں کے ملّا کے کان میں جو یہ بھنک پڑی کہ فلاں مسجد میں امام کی ضرورت ہے، وہ دوسرے ہی دن علیٰ الصباح ایک سبز جزدان میں قرآن شریف، پنجسورہ، رحل اور مسئلے مسائل کے چند چھوٹے چھوٹے رسالے رکھ آ موجود ہوا اور اس مسجد کی امامت باقاعدہ طور پر اسے سونپ دی گئی۔
ہر روز تیسرے پہر گائوں کا ایک کبابی سر پر اپنے سامان کا ٹوکرا اٹھائے آجاتا اور خوانچہ والی بڑھیا کے پاس زمین پر چولہا بنا کباب، کلیجی، دل گردے سیخوں پر چڑھا بستی والوں کے ہاتھ بیچتا۔ ایک بھٹیاری نے جو یہ حال دیکھا تو اپنے میاں کو ساتھ لے مسجد کے سامنے میدان میں دھوپ سے بچنے کے لیے پھونس کا ایک چھپرّ ڈال، تنور گرم کرنے لگی۔ کبھی کبھی ایک نوجوان دیہاتی نائی پھٹی پرانی کسبت گلے میں ڈالے جوتی کی ٹھوکروں سے راستے کے روڑوں کو لڑھکاتا ادھر ادھر گشت کرتا دیکھنے میں آجاتا۔
ان بیسوائوں کے مکانوں کی تعمیر کی نگرانی ان کے رشتہ دار یا کارندے تو کرتے ہی تھے، کسی کسی دن وہ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر اپنے عشّاق کے ہمراہ خود بھی اپنے اپنے مکانوں کو بنتا دیکھنے آ جاتیں اور غروب آفتاب سے پہلے یہاں سے نہ جاتیں۔ اس موقع پر فقیروں اور فقیرنیوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں نہ جانے کہاں سے آ جاتیں اور جب تک خیرات نہ لے لیتیں اپنی صدائوں سے برابر شور مچاتی رہتیں اور انھیں بات نہ کرنے دیتیں۔ کبھی کبھی شہر کے لفنگے اوباش، بے کار مباش کچھ کیا کرو، کے مصداق شہر سے پیدل چل کر، بیسوائوں کی اس نئی بستی کی سن گن لینے آ جاتے اور اگر اس دن بیسوائیں بھی آئی ہوتیں تو ان کی عید ہوجاتی۔ وہ ان سے ذرا ہٹ کر ان کے گردا گرد چکر لگاتے رہتے، فقرے کستے، بے تکے قہقہے لگاتے، عجیب عجیب شکلیں بنانے اور مجنونانہ حرکتیں کرتے۔ اس روز کبابی کی خوب بکری ہوتی۔
اس علاقے میں جہاں تھوڑے ہی دن پہلے ہو کا عام تھا، اب ہر طرف گہماگہمی اور چہل پہل نظر آنے لگی۔ شروع شروع میں اس علاقے کی ویرانی سے ان بیسوائوں کو یہاں آکر رہنے کے خیال سے جو وحشت ہوتی تھی، وہ بڑی حد تک جاتی رہی تھی اور اب وہ ہر مرتبہ خوش خوش اپنے مکانوں کی آرائش اور اپنے مرغوب رنگوں کے متعلق معماروں کو تاکیدیں کر جاتی تھیں۔
بستی میں ایک جگہ ایک ٹوٹا پھوٹا مزار تھا جو قرائن سے کسی بزرگ کا معلوم ہوتا تھا۔ جب یہ مکان نصف سے زیادہ تعمیر ہو چکے تو ایک دن صبح کو بستی کے راج، مزدوروں نے کیا دیکھا کہ مزار کے پاس سے دھواں اٹھ رہا ہے اور ایک سرخ سرخ آنکھوں والا لمبا تڑنگا مست فقیر لنگوٹ باندھے، چار ابرو کا صفایا کرائے اس مزار کے ارد گرد پھر رہا اور کنکر پتھر اٹھا اٹھا کر پرے پھینک رہا ہے۔ دوپہر کو وہ ایک ایک گھڑا لے کر کنویں پر آیا اور پانی بھر بھر کر مزار پر جانے اور اسے دھونے لگا ایک دفعہ جو آیا تو کنویں پر دو تین راج مزدور کھڑے تھے۔ وہ نیم دیوانگی اور نیم فرزانگی کے عالم میں ان سے کہنے لگا: ’’جانتے ہو وہ کس کا مزار ہے؟ کڑک شاہ پیر بادشاہ کا! میرے باپ دادا ان کے مجاور تھے۔‘‘ اس کے بعد اس نے ہنس ہنس کر اور آنکھوں میں آنسو بھر بھر کر پیر کڑک شاہ کی کچھ جلالی کراماتیں بھی ان راج مزدوروں سے بیان کیں۔
شام کو یہ فقیر کہیں سے مانگ تانگ کر مٹی کے دو دیے اور سرسوں کا تیل لے آیا، اور پیر کڑک شاہ کی قبر کے سرہانے اور پائینتی چراغ روشن کر دیے۔ رات کو پچھلے پہر کبھی کبھی اس مزار سے اللہ ہُو کا مست نعرہ سنائی دے جاتا۔
چھ مہینے گزرنے نہ پائے تھے کہ یہ چودہ مکان بن کر تیار ہو گئے۔ یہ سب کے سب دو منزلہ اور قریب قریب ایک ہی وضع کیے تھے۔ سات ایک طرف اور سات دوسری طرف۔ بیچ میں چوڑی چکلی سڑک تھی۔ ہر ایک مکان کے نیچے چار چار دکانیں تھیں۔ مکان کی بالائی منزل میں سڑک کے رخ وسیع برآمدہ تھا۔ اس کے آگے بیٹھنے کے لیے کشتی نما شہ نشین بنائی گئی تھی جس کے دونوں سروں پر یا تو سنگ مر مر کے مور رقص کرتے ہوئے دکھائے گئے تھے اور یا جل پریوں کے مجسمے تراشے گئے تھے جن کا آدھا دھڑ مچھلی کا اور آدھا انسان کا تھا۔ برآمدے کے پیچھے جو بڑا کمرہ بیٹھنے کے لیے تھا، اس میں سنگ مر مر کے نازک نازک ستون بنائے گئے تھے۔ دیواروں پر خوش نما پچی کاری کی گئی تھی۔ فرش سبز چمکدار پتھر کا بنایا گیا تھا۔ جب سنگ مر مر کے ستونوں کے عکس اس فرش زمرّدیں پر پڑتے تو ایسا معلوم ہوتا گویا سفید برّاق پروں والے راج ہنسوں نے اپنی لمبی لمبی گردنیں جھیل میں ڈبو دی ہیں۔
بدھ کا شبھ دن اس بستی میں آنے کے لیے مقرر کیا گیا۔ اس روز اس بستی کی سب بیسوائوں نے مل کر بہت بھاری نیاز دلوائی۔ بستی کے کھلے میدان میں زمین صاف کرا کر شامیانے نصب کر دیے گئے۔ دیگیں کھڑکنے کی آواز اور گوشت کی گھی کی خوشبو بیس بیس کوس سے فقیروں اور کتوں کو کھینچ لائی۔ دوپہر ہوتے ہوتے پیر کڑک شاہ کے مزار کے پاس، جہاں لنگر تقسیم کیا جانا تھا، اس قدر فقیر جمع ہو گئے کہ عید کے روز کسی بڑے شہر کی جامع مسجد کے پاس بھی نہ ہوئے ہوں گے۔ پیر کڑک شاہ کے مزار کو خوب صاف کروایا اور دھلوایا گیا اور اس پر پھولوں کی چادر چڑھائی گئی، اور اس مست فقیر کو نیا جوڑا سلوا کر پہنایا گیا جسے اس نے پہنتے ہی پھاڑ ڈالا۔
شام کو شامیانے کے نیچے دودھ سی اُجلی چاندنی کا فرش کر دیا گیا۔ گائو تکیے لگا دیے گئے پاندان، پیک دان، پیچوان اور گلاب پاش رکھ دیے گئے اور راگ رنگ کی محفل سجائی گئی۔ دور دور سے بہت سی بیسوائوں کو بلوایا گیا جو ان کی سہیلیاں یا برادری کی تھیں، ان کے ساتھ ان کے بہت سے ملنے والے بھی آئے جن کے لیے ایک الگ شامیانے میں کرسیوں کا انتظام کیا گیا اور ان کے سامنے کے رخ چقیں ڈال دی گئیں۔ بے شمار گیسوں کی روشنی سے یہ جگہ بقعۂ نور بنی ہوئی تھی۔ ان بیسوائوں کے توندل سیاہ فام سازندے زربفت اور کمخواب کی شیروانیاں پہنے، عطر میں بسے ہوئے بھوئے کانوں میں رکھے اِدھر اُدھر مونچھوں کو تائو دیتے پھرتے اور زرق برس لباسوں اور تتلی کے پر سے بھی باریک ساریوں میں ملبوس، غازوں اور خوشبوئوں میں بسی ہوئی نازنینیں اٹکھیلیوں سے چلتیں۔ رات بھر رقص وسرود کا ہنگامہ برپا رہا اور جنگل میں منگل ہو گیا۔
دو تین دن کے بعد جب اس جشن کی تھکاوٹ اتر گئی، تو یہ بیسوائیں سازوسامان کی فراہمی اور مکانوں کی آرائش میں مصروف ہوئیں۔ جھاڑ فانوس، ظروف بلّوری، قد آدم آئینے، نواڑی پلنگ، تصویریں اور قطعات نہری چوکھٹوں میں جڑے ہوئے لائے گئے اور قرینے سے کمروں میں لگائے گئے اور کوئی آٹھ روز میں جاکر یہ مکان کیل کانٹے سے لیس ہوئے۔ یہ عورتیں دن کا بیشتر حصہ تو استادوں سے رقص و سرود کی تعلیم لینے، غزلیں یاد کرنے، دھنیں بٹھانے، سبق پڑھنے، تختی لکھنے، سینے پرونے، کاڑھنے، گراموفون سننے، استادوں سے تاش اور کیرم کھیلنے، ضلع جگت، نوک جھونک سے جی بہلانے یا سونے میں گزار دیتیں اور تیسرے پہر غسل خانوں میں نہانے جائیں جہاں ان کے ملازموں نے دستی پمپوں سے پانی نکال کر ٹب بھر رکھے ہوتے۔ اس کے بعد وہ بنائو سنگار میں مصروف ہو جاتیں۔
جیسے ہی رات کا اندھیرا پھیلتا، یہ مکان گیسوں کی روشنی میں جگمگا اٹھتے جو جا بجا سنگ مر مر کے آدھے کھلے ہوئے کنولوں میں نہایت صفائی سے چھپائے گئے تھے اور ان مکانوں کی کھڑکیوں اور دروازوں کے کواڑوں کے شیشے جو پھول پتیوں کی وضع کے کاٹ کر جڑے گئے تھے، ان کی قوس قزح کے رنگوں کی سی روشنیاں دور سے جھلمل جھلمل کرتی ہوئی نہایت بھلی معلوم ہوتی۔ یہ بیسوائیں بنائو سنگار کیے برآمدوں میں ٹہلتیں، آس پاس والیوں سے باتیں کرتیں، ہنستیں کھلکھلاتیں۔ جب کھڑے کھڑے تھک جاتیں تو اندر کمرے میں چاندنی کے فرش پر گائو تکیوں سے لگ کر بیٹھ جاتیں۔ ان کے سازندے ساز ملاتے رہتے اور یہ چھالیا کترتی رہتیں۔ جب رات بھیگ جاتی تو ان کے ملنے والے ٹوکروں میں شراب کی بوتلیں اور پھل پھلاری لیے اپنے دوستوں کے ساتھ موٹروں یا تانگوں میں بیٹھ کر آتے۔ اس بستی میں ان کے قدم رکھتے ہی ایک خاص گہما گہمی اور چہل پہل ہونے لگتی۔ نغمہ و سرود، ساز کے سُر، رقص کرتی ہوئی نازنینوں کے گھنگرئوں کی آواز، قلقلِ مینا میں مل کر ایک عجیب سرور کی سی کیفیت پیدا کر دیتی۔ عیش و مستی کے ان ہنگاموں میں معلوم بھی نہ ہوتا اور رات بیت جاتی۔
ان بیسوائوں کو اس بستی میں آئے چند ہی روز ہوئے تھے کہ دکانوں کے کرایہ دار پیدا ہو گئے جن کا کرایہ اس بستی کو آباد کرنے کے خیال سے بہت ہی کم رکھا گیا تھا۔ سب سے پہلے جو دکاندار آیا وہ وہی بڑھیا تھی جس نے سب سے پہلے مسجد کے سامنے درخت کے نیچے خوانچہ لگایا تھا۔ دکان کو پُر کرنے کے لیے بڑھیا اور اس کا لڑکا سگریٹوں کے بہت سے خالی ڈبے اٹھا لائے اور اسے منبر کے طاقوں میں سجا کر رکھ دیا۔ بوتلوں میں رنگ دار پانی بھر دیا گیا تاکہ معلوم ہو شربت کی بوتلیں ہیں۔
بڑھیا نے اپنی بساط کے مطابق کاغذی پھولوں اور سگرٹ کی خالی ڈبیوں سے بنائی ہوئی بیلوں سے دکان کی کچھ آرائش بھی کی۔ بعض ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی تصویریں بھی پرانے فلمی رسالوں سے نکال کر لئی سے دیواروں پر چپکا دیں۔ دکان کا اصل مال دو تین قسم کے سگرٹ کے تین تین چار چار پیکٹوں، بیڑی کے آٹھ دس بنڈلوں، دیا سلائی کی نصف درجن ڈبیوں، پانوں کی ایک ڈھولی، پینے کے تمباکو کی تین چار ٹکیوں اور موم بتی کے نصف بنڈل سے زیادہ نہ تھا۔
دوسری دکان میں ایک بنیا، تیسری میں حلوائی اور شیر فروش، چوتھی میں قصائی، پانچویں میں کبابی اور چھٹی میں ایک کنجڑا آ بسے۔ کنجڑا آس پاس کے دیہات سے سستے داموں چار پانچ قسم کی سبزیاں لے آتا اور یہاں خاصے منافع پر بیچ دیتا۔ ایک آدھ ٹوکرا پھلوں کا بھی رکھ لیتا۔ چونکہ دکان خاصی کھلی تھی، ایک پھول والا اس کا ساجھی بن گیا۔ وہ دن بھر پھولوں کے ہار، گجرے اور طرح طرح کے گہنے بناتا رہتا اور شام کو انھیں چنگیر میں ڈال ایک ایک مکان پر لے جاتا اور نہ صرف پھول ہی بیچ آتا بلکہ ہر جگہ ایک ایک دو دو گھڑی بیٹھ کے سازندوں سے گپ شپ بھی ہانک لیتا اور حقے کے دم بھی لگا آتا۔ جس دن تماش بینوں کی کوئی ٹولی اس کی موجودگی ہی میں کوٹھے پر چڑھ آتی اور گانا بجانا شروع ہوجاتا تو وہ سازندوں کے ناک بھوں چڑھانے کے باوجود گھنٹوں اٹھنے کا نام نہ لیتا، مزے سے گانے پر سر دھنتا اور بیوقوفوں کی طرح ایک ایک کی صورت تکتا رہتا۔ جس دن رات زیادہ گزر جاتی اور کوئی ہار بچ رہتا تو اسے اپنے گلے میں ڈال لیتا اور بستی کے باہر گلا پھاڑ پھاڑ کر گاتا پھرتا۔
ایک دکان میں ایک بیسوا کا باپ اور بھائی، جو درزیوں کا کام جانتے تھے، سینے کی ایک مشین رکھ کر بیٹھ گئے۔ ہوتے ہوتے ایک حجام بھی آ گیا اور اپنے ساتھ ایک رنگریز کو بھی لیتا آیا۔ اس کی دکان کے باہر الگنی پر لٹکے ہوئے طرح طرح کے رنگوں کے لہریا دوپٹے ہوا میں لہراتے ہوئے آنکھوں کو بہت بھلے معلوم ہونے لگے۔
چند ہی روز گزرتے تھے کہ ایک ٹٹ پونجیے بساطی نے، جس کی دکان شہر میں چلتی نہ تھی بلکہ اسے دکان کا کرایہ نکالنا بھی مشکل ہوجاتا تھا، شہر کو خیر باد کہہ کر اس بستی کا رخ کیا۔ یہاں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اس کے طرح طرح کے لونڈر، قسم قسم کے پائوڈر، صابن، کنگھیاں، بٹن، سوئی، دھاگا، لیس، فیتے، خوشبو دار تیل، رومال، منجن وغیرہ کی خوب بکری ہونے لگی۔
اس بستی کے رہنے والوں کی سرپرستی اور ان کے مربیّانہ سلوک کی وجہ سے اسی طرح دوسرے تیسرے روز کوئی نہ کوئی ٹٹ پونجیا دکاندار، کوئی بزاز، کوئی پنساری، کوئی نیچہ بند، کوئی نانبائی مندے کی وجہ سے یا شہر کے بڑھے ہوئے کرائے سے گھبرا کر اس بستی میں آ پناہ لیتا۔
ایک بڑے میاں عطار جو حکمت میں بھی کس قدر دخل رکھتے تھے، ان کا جی شہر کی گنجان آبادی اور حکیموں اور دواخانوں کی افراط سے جو گھبرایا تو وہ اپنے شاگردوں کو ساتھ لے، شہر سے اٹھ آئے اور اس بستی میں ایک دکان کرایہ پر لے لی۔ سارا دن بڑے میاں اور ان کے شاگرد دوائوں کے ڈبوں، شربت کی بوتلوں اور مربّے، چٹنی اچار کے بویاموں کو الماریوں اور طاقوں میں اپنے اپنے ٹھکانے پر رکھتے رہے۔ ایک طاق میں طب اکبر، قرابا دین قادری اور دوسری طبی کتابیں جما کر رکھ دیں۔ کواڑوں کی اندرونی جانب اور دیواروں میں جو جگہ خالی بچی وہاں انھوں نے اپنے خاص الخاص مجربات کے اشتہار سیاہ روشنائی سے جلی لکھ کر اور دفتیوں پر چپکا کر آویزاں کر دیے۔ ہر روز صبح کو بیسوائوں کے ملازم گلاس لے لے آ موجود ہوتے اور شربت بزوری، شربت بنفشہ، شربت انار اور ایسے ہی اور نزہت بخش، روح افزا شربت و عرق، خمیرہ گائو زبان اور تقویت پہنچانے والے مربّے مع ورق ہائے نقرہ لے جاتے۔
جو دکانیں بچ رہیں، ان میں بیسوائوں کے بھائی بندوں اور سازندوں نے اپنی چارپائیاں ڈال دیں۔ دن بھر یہ لوگ ان دکانوں میں تاش، چوسر اور شطرنج کھیلتے، بدن پر تیل ملواتے، سبزی گھوٹتے، بٹیروں کی پالیاں کراتے، تیتروں سے سبحان تیری قدرت کی رٹ لگواتے اور گھڑا بجا بجا کر گاتے۔
ایک بیسوا کے سازندے نے ایک دکان خالی کر اپنے بھائی کو، جو ساز بنانا جانتا تھا، اس میں لا بٹھایا۔ دکان کی دیواروں کے ساتھ ساتھ کیلیں ٹھونک کر ٹوٹی پھوٹی مرمت طلب سارنگیاں، ستار، طنبورے، دلربا وغیرہ ٹانگ دیے گئے۔ یہ شخص ستار بجانے میں بھی کمال رکھتا تھا۔ شام کو وہ اپنی دکان میں ستار بجاتا، جس کی میٹھی آواز سن کر آس پاس کے دکاندار اپنی دکانوں سے اٹھ اٹھ کر آ جاتے اور دیر تک بت بنے ستار سنتے رہتے۔ اس ستار نواز کا ایک شاگرد تھا جو ریلوے کے دفتر میں کلرک تھا۔ اسے ستار سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ جیسے ہی دفتر سے چھٹی ہوتی سیدھا سائیکل اڑاتا ہوا اس بستی کا رخ کرتا اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دکان ہی میں بیٹھ کر مشق کیا کرتا۔ غرض اس ستار نواز کے دم سے بستی میں خاصی رونق رہنے لگی۔
مسجد کے ملّا جی، جب تک تو یہ بستی زیر تعمیر رہی، رات کو دیہات میں اپنے گھر چلے جاتے رہے۔ مگر اب جب کہ انھیں دونوں وقت مرغن کھانا بافراط پہنچنے لگا تو وہ رات کو بھی یہیں رہنے لگے۔ رفتہ رفتہ بعض بیسوائوں کے گھروں سے بچے بھی مسجد میں آنے لگے جس سے ملّا جی کو روپے پیسے کی آمدنی بھی ہونے لگی۔
ایک شہر شہر گھومنے والی گھٹیا درجہ کی تھیٹریکل کمپنی کو جب زمین کے چڑھے ہوئے کرائے اور اپنی بے مائگی کے باعث شہر میں کہیں جگہ نہ ملی تو اس نے اس بستی کا رخ کیا اور ان بیسوائوں کے مکانوں سے کچھ فاصلہ پر میدان میں تنبو کھڑے کرکے ڈیرے ڈال دیے۔ اس کے ایکٹر اداکاری کے فن سے محض نابلد تھے۔ ان کے ڈریس پھٹے پرانے تھے جن کے بہت سے ستارے جھڑ چکے تھے اور یہ لوگ تماشے بھی بہت دقیانوسی دکھاتے تھے مگر اس کے باوجود یہ کمپنی چل نکلی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹکٹ کے دام بہت کم تھے۔ شہر کے مزدوری پیشہ لوگ، کارخانوں میں کام کرنے والے اور غریب غربا جو دن بھر کی کڑی محنت و مشقت کی کسر شوروغل، خر مستیوں اور ادنیٰ عیاشیوں سے نکالنا چاہتے تھے، پانچ پانچ چھ چھ کی ٹولیاں بنا کر، گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے، ہنستے بولتے، بانسریاں اور الغوزے بجاتے، راہ چلتوں پر آوازے کستے، گالی گلوچ کرتے، شہر سے پیدل چل کر تھیٹر دیکھنے آتے اور لگے ہاتھوں بازار حسن کی سیر بھی کر جاتے۔ جب تک ناٹک شروع نہ ہوتا تھیٹر کا ایک مسخرہ تنبو کے باہر ایک اسٹول پر کھڑا کبھی کولہا ہلاتا، کبھی منہ پھلاتا، کبھی آنکھیں مٹکاتا عجیب عجیب حیا سوز حرکتیں کرتا جنھیں دیکھ کر یہ لوگ زور زور سے قہقہے لگاتے اور گالیوں کی صورت میں داد دیتے۔
رفتہ رفتہ دوسرے لوگ بھی اس بستی میں آنے شروع ہوئے۔ چنانچہ شہر کے بڑے بڑے چوکوں میں تانگے والے صدائیں لگانے لگے۔ ’’آئو کوئی نئی بستی کو۔‘‘ شہر سے پانچ کوس تک جو پکی سڑک جاتی تھی اس پر پہنچ کر تانگے والے سواریوں سے انعام حاصل کرنے کے لالچ میں یا ان کی فرمائش پر تانگوں کی دوڑیں کراتے، منہ سے ہارن بجاتے، اور جب کوئی تانگہ آگے نکل جاتا تو اس کی سواریاں نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیتیں۔ اس دوڑ میں غریب گھوڑوں کا برا حال ہو جاتا اور ان کے گلے میں پڑے ہوئے پھولوں کے ہاروں سے بجائے خوشبو کے پسینے کی بدبو آنے لگتی۔
رکشا والے تانگے والوں سے کیوں پیچھے رہتے۔ وہ ان سے کم دام پر سواریاں بٹھا، طرارے بھرتے اور گھنگرو بجاتے اس بستی کو جانے لگے۔ علاوہ ازیں ہر ہفتے کی شام کو اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ ایک ایک سائیکل پر دو دو لدے، جوق جوق اس پر اسرار بازار کی سیر دیکھنے آتے جس سے ان کے خیال کے مطابق ان کے بڑوں نے خواہ مخواہ انھیں محروم کر دیا تھا۔
رفتہ رفتہ اس بستی کی شہرت چاروں طرف پھیلنے اور مکانوں اور دکانوں کی مانگ ہونے لگی۔ وہ بیسوائیں جو پہلے اس بستی میں آنے پر تیار نہ ہوتیں تھیں اب اس کی یہ دن دونی رات چوگنی ترقی دیکھ کر اپنی بیوقوفی پر افسوس کرنے لگیں۔ کئی عورتوں نے تو جھٹ زمینیں خرید، ان بیسوائوں کے ساتھ اسی وضع قطع کے مکان بنوانے شروع کر دیے۔ علاوہ ازیں شہر کے بعض مہاجنوں نے بھی اس بستی کے آس پاس سستے داموں زمینیں خرید خرید کر کرایہ پر اٹھانے کے لیے چھوٹے چھوٹے کئی مکان بنوا ڈالے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ فاحشہ عورتیں جو ہوٹلوں اور شریف محلّوں میں روپوش تھیں، مور و ملخ کی طرح اپنے نہاں خانوں سے باہر نکل آئیں اور ان مکانوں میں آباد ہو گئیں۔ بعض چھوٹے چھوٹے مکانوں میں اس بستی کے وہ دکاندار آ بسے جو عیال دار تھے اور رات کو دکانوں میں سو نہ سکتے تھے۔
اس بستی میں آبادی تو خاصی ہو گئی تھی مگر ابھی تک بجلی کی روشنی کا انتظام نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ ان بیسوائوں اور بستی کے تمام رہنے والوں کی طرف سے سرکار کے پاس بجلی کے لیے درخواست بھیجی گئی جو تھوڑے دنوں بعد منظور کرلی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک ڈاک خانہ بھی کھول دیا گیا۔ ایک بڑے میاں ڈاک خانے کے باہر ایک صندوقچے میں لفافے، کارڈ، قلم، دوات رکھ بستی کے لوگوں کے خط پتر لکھنے لگے۔
ایک دفعہ بستی میں شرابیوں کی دو ٹولیوں میں فساد ہو گیا جس میں سوڈا واٹر کی بوتلوں، چاقوئوں اور اینٹوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا اور کئی لوگ سخت مجروح ہوئے۔ اس پر سرکار کو خیال آیا کہ اس بستی میں ایک تھانہ بھی کھول دینا چاہیے۔
تھیٹریکل کمپنی دو مہینے تک رہی اور اپنی بساط کے مطابق خاصا کمالے گئی۔ اس پر شہر کے ایک سینما کے مالک نے سوچا کہ کیوں نہ اس بستی میں بھی ایک سینما کھول دیا جائے۔ یہ خیال آنے کی دیر تھی کہ اس نے جھٹ ایک موقع کی جگہ چن کر خرید لی اور جلد جلد تعمیر کا کام شروع کرا دیا۔ چند ہی مہینوں میں سینما ہال تیار ہو گیا۔ اس کے اندر ایک چھوٹا سا باغیچہ بھی لگوایا گیا تاکہ تماشائی اگر بائیسکوپ شروع ہونے سے پہلے آجائیں تو آرام سے باغیچہ میں بیٹھ سکیں۔ ان کے ساتھ بستی کے لوگ یونہی سستانے یا سیر دیکھنے کی غرض سے آ آکر بیٹھنے لگے۔ یہ باغیچہ خاصی سیر گاہ بن گیا۔ رفتہ رفتہ سقّے کٹورا بجاتے اس باغیچے میں آنے اور پیاسوں کی پیاس بجھانے لگے۔ سر کی تیل مالش والے نہایت گھٹیا قسم کے تیز خوشبو والے تیل کی شیشیاں واسکٹ کی جیبوں میں ٹھونسے، کاندھوں پر میلا کچیلا تولیا ڈالے، دل پسند دل بہار کی مالش کی صدا لگاتے دردِ سر کے مریضوں کو اپنی خدمات پیش کرنے لگے۔
سینما کے مالک نے سینما ہال کی عمارت کی بیرونی جانب دو ایک مکان اور کئی دکانیں بھی بنوائیں۔ مکان میں تو ہوٹل کھل گیا جس میں رات کو قیام کرنے کے لیے کمرے بھی مل سکتے تھے اور دکانوں میں ایک سوڈا واٹر کی فیکٹری والا، ایک فوٹو گرافر، ایک سائیکل کی مرمت والا، ایک لانڈری والا، دو پنواڑی، ایک بوٹ شاپ والا اور ایک ڈاکٹر مع اپنے دواخانہ کے آرہے۔ ہوتے ہوتے پاس ہی ایک دکان میں کلال خانہ کھلنے کی اجازت مل گئی۔ فوٹو گرافر کی دکان کے باہر ایک کونے میں ایک گھڑی ساز نے آڈیرا جمایا اور ہر وقت محدّب شیشہ آنکھ پر چڑھائے گھڑیوں کے کل پرزوں میں غلطاں و بیچاں رہنے لگا۔
اس کے کچھ ہی دن بعد گلی میں نل، روشنی اور صفائی کے باقاعدہ انتظام کی طرف توجہ کی جانے لگی۔ سرکاری کارندے سرخ جھنڈیاں، جریبیں اور اونچ نیچ دیکھنے والے آلے لے کر آ پہنچے اور ناپ ناپ کر سڑکوں اور گلی کوچوں کی داغ بیل ڈالنے لگے اور بستی کی کچی سڑکوں پر سڑک کوٹنے والا انجن چلنے لگا ... 
اس واقعہ کو بیس برس گزر چکے ہیں۔ یہ بستی اب ایک بھرا پُرا شہر بن گئی ہے جس کا اپنا ریلوے اسٹیشن بھی ہے اور ٹائون ہال بھی، کچہری بھی اور جیل خانہ بھی۔ آبادی ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ شہر میں ایک کالج، دو ہائی اسکول، ایک لڑکوں کے لیے، ایک لڑکیوں کے لیے اور آٹھ پرائمری اسکول ہیں جن میں میونسپلٹی کی طرف سے مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ چھ سینما ہیں اور چار بنک جن میں سے دو دنیا کے بڑے بڑے بینکوں کی شاخیں ہیں۔
شہر سے دو روزانہ، تین ہفتہ وار اور دس ماہانہ رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں۔ ان میں چار ادبی و معاشرتی و مذہبی، ایک صنعتی، ایک طبّی، ایک زنانہ اور ایک بچوں کا رسالہ ہے۔ شہر کے مختلف حصوں میں بیس مسجدیں، پندرہ مندر اور دھرم شالے، چھ یتیم خانے، پانچ اناتھ آشرم اور تین بڑے سرکاری اسپتال ہیں جن میں ایک صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔
شروع شروع میں کئی سال تک یہ شہر اپنے رہنے والوں کی مناسبت سے ’’حُسن آباد‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا رہا، مگر بعد میں اسے نامناسب سمجھ کر اس میں تھوڑی سی ترمیم کردی گئی یعنی بجائے ’’حُسن باد‘‘ کے ’’حَسن آباد‘‘ کہلانے لگا مگر یہ نام چل نہ سکا، کیونکہ عوام حُسن اور حَسن میں کچھ امتیاز نہ کرتے۔ آخر بڑی بڑی بوسیدہ کتابوں کی ورق گردانی اور پرانے نوشتوں کی چھان بین کے بعد اس کا اصلی نام دریافت کیا گیا جس سے یہ بستی آج سے سینکڑوں برس قبل اُجڑنے سے پہلے موسوم تھی اور وہ نام ہے ’’آنندی!‘‘
یوں تو سارا شہر بھرا پُرا، صاف ستھرا اور خوشنما ہے مگر سب سے خوبصورت، سب سے بارونق اور تجارت کا سب سے بڑا مرکز وہی بازار ہے جس میں زنان بازاری رہتی ہیں۔
آنندی کے بلدیہ کا اجلاس زوروں پر ہے۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا ہے اور خلافِ معمول ایک ممبر بھی غیر حاضر نہیں۔ بلدیہ کے زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ زنان بازاری کو شہر بدر کر دیا جائے کیونکہ ان کا وجود انسانیت، شرافت اور تہذیب کے دامن پر بدنما داغ ہے۔
ایک فصیح البیان مقرر تقریر کر رہے ہیں۔ ’’معلوم نہیں وہ کیا مصلحت تھی جس کے زیر اثر اس ناپاک طبقے کو ہمارے اس قدیمی اور تاریخی شہر کے عین بیچوں بیچ رہنے کی اجازت دے دی گئی ...‘‘
اس مرتبہ ان عورتوں کے رہنے کے لیے جو علاقہ منتخب کیا گیا وہ شہر سے باہر کوس دور تھا۔
۱۹۴۰ء

کتبہ (غلام عباس)


شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُرفضا باغوں اور پھلواریوں میں گھری ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ ہے جو دور تک پھیلتا چلا گیا ہے۔ ان عمارتوں میں کئی چھوٹے بڑے دفتر ہیں جن میں کم و بیش چار ہزار آدمی کام کرتے ہیں۔ دن کے وقت اس علاقے کی چہل پہل اور گہما گہمی عموماً کمروں کی چار دیواریوں ہی میں محدود رہتی ہے مگر صبح کو ساڑھے دس بجے سے پہلے اور سہ پہر کو ساڑھے چار بجے کے بعد وہ سیدھی اور چوڑی چکلی سڑک، جو شہر کے بڑے دروازے سے اس علاقے تک جاتی ہے، ایک ایسے دریا کا روپ دھار لیتی ہے جو پہاڑوں پر سے آیا ہو اور اپنے ساتھ بہت سا خس و خاشاک بہا لایا ہو۔
گرمی کا زمانہ، سہ پہر کا وقت، سڑکوں پر درختوں کے سائے لمبے ہونے شروع ہو گئے تھے مگر ابھی تک زمین کی تپش کا یہ حال تھا کہ جوتوں کے اندر تلوے جُھلسے جاتے تھے۔ ابھی ابھی ایک چھڑکائو گاڑی گزری تھی۔ سڑک پر جہاں جہاں پانی پڑا تھا ابخرات اٹھ رہے تھے۔
شریف حسین کلرک درجہ دوم معمول سے کچھ سویرے دفتر سے نکلا اور اس بڑے پھاٹک کے باہر آکر کھڑا ہو گیا جہاں سے تانگے والے شہر کی سواریاں لے جایا کرتے تھے۔ گھر کو لوٹتے ہوئے آدھے راستے تک تانگے میں سوار ہو کر جانا ایک ایسا لطف تھا جو اسے مہینے کے شروع کے صرف چار پانچ روز ہی ملا کرتا تھا اور آج کا دن بھی انھی مبارک دنوں میں سے ایک تھا۔ آج خلاف معمول تنخواہ کے آٹھ روز بعد اس کی جیب میں پانچ روپے کا نوٹ اور کچھ آنے پیسے پڑے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اس کی بیوی مہینے کے شروع ہی میں بچوں کو لے کر میکے چلی گئی تھی اور گھر میں وہ اکیلا رہ گیا تھا۔ دن میں دفتر کے حلوائی سے دو چار پوریاں لے کر کھا لی تھیں اور اوپر سے پانی پی کر پیٹ بھر لیا تھا۔ رات کو شہر کے کسی سستے سے ہوٹل میں جانے کی ٹھہرائی تھی۔ بس بے فکری ہی بے فکری تھی۔ گھر میں کچھ ایسا اثاثہ تھا نہیں جس کی رکھوالی کرنی پڑتی، اس لیے وہ آزاد تھا کہ جب چاہے گھر جائے اور چاہے تو ساری رات سڑکوں ہی پر گھومتا رہے۔
تھوڑی دیر میں دفتروں سے کلرکوں کی ٹولیاں نکلنی شروع ہوئیں۔ ان میں ٹائپسٹ، ریکارڈ کیپر، ڈسپیچر، اکائونٹنٹ، ہیڈ کلرک، سپرنٹنڈنٹ، غرض ادنیٰ و اعلیٰ ہر درجہ اور حیثیت کے کلرک تھے اور اسی لحاظ سے ان کی وضع قطع بھی ایک دوسرے سے جدا تھی، مگر بعض ٹائپ خاص طور پر نمایاں تھے۔ سائیکل سوار آدھی آستینوں کی قمیص، خاکی زین کے نیکر اور چپل پہنے، سر پر سولاہیٹ رکھے، کلائی پر گھڑی باندھے، رنگدار چشمہ لگائے، بڑی بری توندوں والے بابو چھاتا کھولے، منہ میں بیڑی، بغلوں میں فائلوں کے گٹھے دبائے۔ ان فائلوں کو وہ قریب قریب ہر روز اس امید میں ساتھ لے جاتے کہ جو گتھیاں وہ دفتر کے غل غپاڑے میں نہیں سلجھا سکے، ممکن ہے گھر کی یکسوئی میں ان کا کوئی حل سوجھ جائے۔ مگر گھر پہنچتے ہی وہ گرہستی کاموں میں ایسے الجھ جاتے کہ انھیں دیکھنے تک کا موقع نہ ملتا اور اگلے روز انھیں یہ مفت کا بوجھ جوں کا توں واپس لے آنا پڑا۔
بعض منچلے تانگے، سائیکل اور چھاتے سے بے نیاز، ٹوپی ہاتھ میں، کوٹ کاندھے پر، گریبان کھلا ہوا، جسے بٹن ٹوٹ جانے پر انھوں نے سیفٹی پن سے بند کرنے کی کوشش کی تھی اور جس کے نیچے سے چھاتی کے گھنے بال پسینے میں تربتر نظر آتے تھے۔ نئے رنگروٹ سستے، سلے سلائے، ڈھیلے ڈھالے، بدقطع سوٹ پہنے اس گرمی کے عالم میں واسکٹ اور نکٹائی کالر تک سے لیس، کوٹ کی بالائی جیب میں دو دو تین تین فونٹین پن اور پنسلیں لگائے خراماں خراماں چلے آرہے تھے۔
گو ان میں سے زیادہ تر کلرکوں کی مادری زبان ایک ہی تھی مگر وہ لہجہ بگاڑ بگاڑ کر غیر زبان میں باتیں کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ وہ طمانیت نہ تھی جو کسی غیر زبان پر قدرت حاصل ہونے پر اس میں باتیں کرنے پر اکساتی ہے بلکہ یہ کہ انھیں دفتر میں دن بھر اپنے افسروں سے اسی غیر زبان میں بولنا پڑتا تھا اور اس وقت وہ باہم بات چیت کرکے اس کی مشق بہم پہنچا رہے تھے۔
ان کلرکوں پر ہر عمر کے لوگ تھے۔ ایسے کم عمر، بھولے بھالے ناتجربہ کار بھی جن کی ابھی مَسیں بھی پوری نہیں بھیگی تھیں اور جنھیں ابھی اسکول سے نکلنے تین مہینے بھی نہیں ہوئے تھے، اور ایسے عمر رسیدہ، جہاں دیدہ، گھاگ بھی جن کی ناک پر سالہا سال عینک کے استعمال کے باعث گہرا نشان پڑ گیا تھا اور جنھیں اس سڑک کے اتار چڑھائو دیکھتے دیکھتے، پچیس پچیس تیس تیس برس ہو چکے تھے۔ بیشتر کارکنوں کی پیٹھ میں گدی سے ذرا نیچے خم سا آگیا تھا اور کند استروں سے متواتر ڈاڑھی مونڈھتے رہنے کے باعث ان کے گالوں اور ٹھوڑی پر بالوں میں جڑیں پھوٹ نکلی تھیں جنھوں نے بے شمار ننھی پھنسیوں کی شکل اختیار کرلی تھی۔
پیدل چلنے والوں میں بہتیرے لوگ بخوبی جانتے تھے کہ دفتر سے ان کے گھر کو جتنے راستے جاتے ہیں ان کا فاصلہ کَے کَے ہزار قدم ہے۔ ہر شخص افسروں کے چڑچڑے پن یا ماتحتوں کی نالائقی پر نالاں نظر آتا تھا۔
ایک تانگے کی سواریوں میں ایک کی کمی دیکھ کر شریف حسین لپک کر اس میں سوار ہو گیا۔ تانگہ چلا اور تھوڑی دیر میں شہر کے دروازے کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ شریف حسین نے اکنی نکال کر کوچوان کو دی اور گھر کے بجائے شہر کی جامع مسجد کی طرف چل پڑا جس کی سیڑھیوں کے گرد اگرد ہر روز شام کو کہنہ فروشوں اور سستا مال بیچنے والوں کی دکانیں سجا کرتی تھیں اور میلہ سا لگا کرتا تھا۔ دنیا بھر کی چیزیں اور ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ یہاں ملتے تھے۔ اگر مقصد خریدوفروخت نہ ہو تو بھی یہاں اور لوگوں کو چیزیں خریدتے، مول تول کرتے دیکھنا بجائے خود ایک پر لطف تماشا تھا۔ 
شریف حسین لیکچر باز حکیموں، سنیاسیوں، تعویذ گنڈے بیچنے والے سیانوں اور کھڑے کھڑے تصویر اتار دینے والے فوٹو گرافروں کے جمگھٹو کے پاس ایک ایک دو دو منٹ رکتا، سیر دیکھتا اس طرف جا نکلا جہاں کباڑیوں کی دکانیں تھیں۔ یہاں اسے مختلف قسم کی بے شمار چیزیں نظر آئیں۔ ان میں سے بعض ایسی تھیں جو اپنی اصلی حالت میں بلا شبہ صنعت کا اعلیٰ نمونہ ہوں گی مگر ان کباڑیوں کے ہاتھ پڑتے پڑتے یا تو ان کی صورت اس قدر مسخ ہو گئی تھی کہ پہچانی ہی نہ جاتی تھی یا ان کا کوئی حصہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہو جس سے وہ بیکار ہو گئی تھیں۔ چینی کے ظروف اور گلدان، ٹیبل لیمپ، گھڑیاں، جلی ہوئی بیٹریاں، چوکھٹے، گرامو فون کے کل پرزے، جراحی کے آلات، ستار، بھس بھرا ہرن، پیتل کے لم ڈھینگ، بدھ کا نیم قد مجسمہ ... 
ایک دکان پر اس کی نظر سنگ مرمر کے ایک ٹکڑے پر پڑی جو معلوم ہوتا تھا کہ مغل بادشاہوں کے کسی مقبرے یا بارہ دری سے اکھاڑا گیا ہے۔ اس کا طول کوئی سوا فٹ تھا اور عرض ایک فٹ۔ شریف حسین نے اس ٹکڑے کو اٹھا کر دیکھا۔ یہ ٹکڑا ایسی نفاست سے تراشا گیا تھا کہ اس نے محض یہ دیکھنے کے لیے کہ بھلا کباڑی اس کے کیا دام بتائے گا قیمت دریافت کی۔
تین روپے! کباڑی نے اس کے دام کچھ زیادہ نہیں بتائے تھے مگر آخر اسے اس کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اس نے ٹکڑا رکھ دیا اور چلنے لگا۔
’’کیوں حضرت چل دیے؟ آپ بتایئے کیا دیجیے گا!‘‘
وہ رک گیا۔ اسے یہ ظاہر کرتے ہوئے شرم سی آئی کہ اسے اس چیز کی ضرورت نہ تھی اور اس نے محض اپنے شوق تحقیق کو پورا کرنے کے لیے قیمت پوچھی تھی۔ اس نے سوچا، دام اس قدر کم بتائو کہ جو کباڑی کو منظور نہ ہوں۔ کم از کم وہ اپنے دل میں یہ تو نہ کہے کہ یہ کوئی کنگلا ہے جو دکانداروں کا وقت ضائع اور اپنی حرص پوری کرنے آیا ہے۔
’’ہم تو ایک روپیہ دیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر شریف حسین نے چاہا کہ جلد جلد قدم اٹھاتا ہوا کباڑی کی نظروں سے اوجھل ہوجائے مگر اس نے اس کی مہلت ہی نہ دی۔
’’اجی سنیے تو۔ کچھ زیادہ نہیں دیں گے؟ سوا روپیہ بھی نہیں ... اچھا لے جایئے۔‘‘
شریف حسین کو اپنے آپ پر غصہ آیا کہ میں نے بارہ آنے کیوں نہ کہے۔ اب لوٹنے کے سوا چارہ ہی کیا تھا۔ قیمت ادا کرنے سے پہلے اس نے اس مر مریں ٹکڑے کو اٹھا کر دوبارہ دیکھا بھالا کہ اگر ذرا سا بھی نقص نظر آئے تو اس سودے کو منسوخ کر دے۔ مگر وہ ٹکڑا بے عیب تھا۔ نہ جانے کباڑی نے اسے اس قدر سستا بیچنا کیوں قبول کیا تھا۔
رات کو جب وہ کھلے آسمان کے نیچے اپنے گھر کی چھت پر اکیلا بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا تو اس سنگ مر مر کے ٹکڑے کا ایک مصرف اس کے ذہن میں آیا۔ خدا کے کارخانے عجیب ہیں۔ وہ بڑا غفور الرحیم ہے۔ کیا عجب اس کے دن پھر جائیں۔ وہ کلرک درجہ دوم سے ترقی کرکے سپرنٹنڈنٹ بن جائے اور اس کی تنخواہ چالیس سے بڑھ کر چار سو ہوجائے ... یہ نہیں تو کم سے کم ہیڈ کلرکی ہی سہی۔ پھر اسے ساجھے کے مکان میں رہنے کی ضرورت نہ رہے بلکہ وہ کوئی چھوٹا سا مکان لے لے اور اس مر مریں ٹکڑے پر اپنا نام کندہ کرا کے دروازے کے باہر نصب کر دے۔
مستقبل کی یہ خیالی تصویر اس کے ذہن پر کچھ اس طرح چھا گئی کہ یا تو وہ اس مر مریں ٹکڑے کو بالکل بے مصرف سمجھتا تھا یا اب اسے ایسا محسوس ہونے لگا گویا وہ ایک عرصے سے اس قسم کے ٹکڑے کی تلاش میں تھا اور اگر اسے نہ خریدتا تو بڑی بھول ہوتی۔
شروع شروع میں جب وہ ملازم ہوا تھا تو اس کا کام کرنے کا جوش اور ترقی کا ولولہ انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ مگر دو سال کی سعیٔ لا حاصل کے بعد رفتہ رفتہ اس کا یہ جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور مزاج میں سکون آچلا تھا۔ مگر اس سنگ مر مر کے ٹکڑے نے پھر اس کے خیالوں میں ہلچل ڈال دی۔ مستقبل کے متعلق طرح طرح کے خوش آئند خیالات ہر روز اس کے دماغ میں چکر لگانے لگے۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، دفتر جاتے، دفتر سے آتے، کوٹھیوں کے باہر لوگوں کے نام کے بورڈ دیکھ کر، یہاں تک کہ جب مہینہ ختم ہوا اور اسے تنخواہ ملی تو اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس سنگ مر مر کے ٹکڑے کو شہر کے ایک مشہور سنگ تراش کے پاس لے گیا، جس نے بہت چابکدستی سے اس پر اس کا نام کندہ کرکے کونوں میں چھوٹی چھوٹی خوشنما بیلیں بنا دیں۔
اس سنگ مر مر کے ٹکڑے پر اپنا نام کھدا ہوا دیکھ کر اسے ایک عجیب سی خوشی ہوئی۔ زندگی میں شاید یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے اپنا نام اس قدر جلی حروف میں لکھا ہوا دیکھا ہو۔
سنگ تراش کی دکان سے روانہ ہوا تو بازار میں کئی مرتبہ اس کا جی چاہا کہ کتبہ پر سے اس اخبار کو اتار ڈالے جس میں سنگ تراش نے اسے لپیٹ دیا تھا اور اس پر ایک نظر اور ڈال لے، مگر ہر بار ایک نامعلوم حجاب جیسے اس کے ہاتھ پکڑ لیتا، شاید وہ راہ چلتوں کی نگاہوں سے ڈرتا کہ کہیں وہ اس کتبہ کو دیکھ کر اس کے ان خیالات کو نہ بھانپ جائیں جو پچھلے کئی دنوں سے دماغ پر مسلط تھے۔
گھر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی اس نے اخبار اتار پھینکا اور نظریں کتبہ کی دلکش تحریر پر گاڑے دھیرے دھیرے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ بالائی منزل میں اپنے مکان کے دروازے کے سامنے پہنچ کر رک گیا، جیب سے چابی نکالی، قفل کھولنے لگا۔ پچھلے دو برس میں آج پہلی مرتبہ اس پر یہ انکشاف ہوا کہ اس کے مکان کے دروازے کے باہر ایسی کوئی جگہ ہی نہیں کہ اس پر کوئی بورڈ لگایا جاسکے۔ اگر جگہ ہوتی بھی تو اس قسم کے کتبے وہاں تھوڑا ہی لگائے جاتے ہیں۔ ان کے لیے تو بڑا سا مکان چاہیے جس کے پھاٹک کے باہر لگایا جائے تو آتے جاتے کی نظر بھی پڑے ... 
قفل کھول کر مکان کے اندر پہنچا اور سوچنے لگا کہ فی الحال اس کتبہ کو کہاں رکھوں۔ اس کے ایک حصۂ مکان میں دو کوٹھڑیاں، ایک غسل خانہ اور ایک باورچی خانہ تھا۔ الماری صرف ایک ہی کوٹھڑی میں تھی مگر اس کے کواڑ نہیں تھے۔ بالآخر اس نے کتبہ کو اسی بے کواڑ کی الماری میں رکھ دیا۔
ہر روز شام کو جب وہ دفتر سے تھکا ہارا واپس آتا تو سب سے پہلے اس کی نظر اس کتبہ ہی پر پڑتی۔ امیدیں اسے سبز باغ دکھاتیں اور دفتر کی مشقت کی تکان کسی قدر کم ہوجاتی۔ دفتر میں جب کبھی اس کا کوئی ساتھی کسی معاملے میں اس کی رہنمائی کا جویا ہوتا تو اپنی برتری کے احساس سے اس کی آنکھیں چمک اٹھتیں، جب کبھی کسی ساتھی کی ترقی کی خبر سنتا، آرزوئیں اس کے سینے میں ہیجان پیدا کر دیتیں۔ افسر کی ایک ایک نگاہ لطف و کرم کا نشہ اسے آٹھ آٹھ دن رہتا۔
جب تک اس کی بیوی بچے نہیں آئے وہ اپنے خیالوں ہی میں مگن رہا۔ نہ دوستوں سے ملتا، نہ کھیل تماشوں میں حصہ لیتا، رات کو جلد ہی ہوٹل سے کھانا کھا کر گھر آجاتا اور سونے سے پہلے گھنٹوں عجیب عجیب خیالی دنیائوں میں رہتا، مگر ان کے آنے کی دیر تھی کہ نہ تو وہ فراغت ہی رہی اور نہ وہ سکون ہی ملا۔ ایک بار پھر گرہستی کے فکروں نے اسے ایسا گھیر لیا کہ مستقبل کی یہ سہانی تصویریں رفتہ رفتہ دھندلی پڑ گئیں۔
کتبہ سال بھر تک اسی بے کواڑ کی الماری میں پڑا رہا۔ اس عرصے میں اس نے نہایت محنت سے کام کیا۔ اپنے افسروں کو خوش رکھنے کی انتہائی کوشش کی مگر اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔
اب اس کے بیٹے کی عمر چار برس کی ہو گئی تھی اور اس کا ہاتھ اس بے کواڑ کی الماری تک بخوبی پہنچ جاتا تھا۔ شریف حسین نے اس خیال سے کہ کہیں اس کا بیٹا کتبہ کو گرا نہ دے، اسے وہاں سے اٹھا لیا اور اپنے صندوق میں کپڑوں کے نیچے رکھ دیا۔
ساری سردیاں یہ کتبہ اس صندوق ہی میں پڑا رہا۔ جب گرمی کا موسم آیا تو اس کی بیوی کو اس کے صندوق سے فالتو چیزوں کو نکالنا پڑا۔ چنانچہ دوسری چیزوں کے ساتھ بیوی نے کتبہ بھی نکال کر کاٹھ کے اس پرانے بکس میں ڈال دیا جس میں ٹوٹے ہوئے چوکھٹے، بے بال کے برش، بے کار صابن دانیاں، ٹوٹے ہوئے کھلونے اور ایسی ہی اور دوسری چیزیں پڑی رہتی تھیں۔
شریف حسین نے اپنے مستقبل کے متعلق زیادہ سوچنا شروع کر دیا تھا۔ دفتروں کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ ترقی لطیفہ غیبی سے نصیب ہوتی ہے، کڑی محنت جھیلنے اور جان کھپانے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اس کی تنخواہ میں ہر دوسرے برس تین روپے کا اضافہ ہوجاتا جس سے بچوں کی تعلیم وغیرہ کا خرچ نکل آتا اور اسے زیادہ تنگی نہ اٹھانی پڑتی۔
پے در پے مایوسیوں کے بعد، جب اس کو ملازمت کرتے بارہ برس ہو چکے تھے اور اس کے دل سے رفتہ رفتہ ترقی کے تمام ولولے نکل چکے تھے اور کتبہ کی یاد تک ذہن سے محو ہو چکی تھی تو اس کے افسروں نے اس کی دیانت داری اور پرانی کار گزاری کا خیال کرکے اسے تین مہینے کے لیے عارضی طور پر درجہ اول کے ایک کلرک کی جگہ دے دی جو چھٹی جانا چاہتا تھا۔
جس روز اسے یہ عہدہ ملا اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی، اس نے تانگے کا بھی انتظار نہ کیا بلکہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا پیدل ہی بیوی کو یہ مژدہ سنانے چل دیا۔ شاید تانگہ اسے کچھ زیادہ جلدی گھر نہ پہنچا سکتا!
اگلے مہینے اس نے نیلام گھر سے ایک سستی سی لکھنے کی میز اور ایک گھومنے والی کرسی خریدی، میز کے آتے ہی اسے پھر کتبہ کی یاد آئی اور اس کے ساتھ ہی اس کی سوئی ہوئی اُمنگیں جاگ اٹھیں۔ اس نے ڈھونڈ ڈھانڈ کے کاٹھ کی پیٹی میں سے کتبہ نکالا، صابن سے دھویا پونچھا اور دیوار کے سہارے میز پر ٹکا دیا۔
یہ زمانہ اس کے لیے بہت کٹھن تھا کیونکہ وہ اپنے افسروں کو اپنی برتر کار گزاری دکھانے کے لیے چھٹی پر گئے ہوئے کلرک سے دگنا کام کرتا۔ اپنے ماتحتوں کو خوش رکھنے کے لیے بہت سا ان کا کام بھی کر دیتا۔ گھر پر آدھی رات تک فائلوں میں غرق رہتا، پھر بھی وہ خوش تھا۔ ہاں جب کبھی اسے اس کلرک کی واپسی کا خیال آتا تو اس کا دل بجھ سا جاتا۔ کبھی کبھی وہ سوچتا، ممکن ہے وہ اپنی چھٹی کی میعاد بڑھوالے ... ممکن ہے وہ بیمار پڑ جائے ... ممکن ہے وہ کبھی نہ آئے ... 
مگر جب تین مہینے گزرے تو نہ تو اس کلرک نے چھٹی کی میعاد ہی بڑھوائی اور نہ بیمار ہی پڑا، البتہ شریف حسین کو اپنی پرانی جگہ پر آ جانا پڑا۔
اس کے بعد جو دن گزرے وہ اس کے لیے بڑی مایوسی اور افسردگی کے تھے۔ تھوڑی سی خوشحالی کی جھلک دیکھ لینے کے بعد اب اسے اپنی حالت پہلے سے بھی زیادہ ابتر معلوم ہونے لگی تھی۔ اس کا جی کام میں مطلق نہ لگتا تھا۔ مزاج میں آلکس اور حرکات میں سستی سی پیدا ہونے لگی۔ ہر وقت بیزار بیزار سا رہتا۔ نہ کبھی ہنستا، نہ کسی سے بولتا چالتا، مگر یہ کیفیت چند دن سے زیادہ نہ رہی۔ افسروں کے تیور جلد ہی اسے راہ راست پر آئے۔
اب اس کا بڑا لڑکا چھٹی میں پڑھتا تھا اور چھوٹا چوتھی میں، اور منجھلی لڑکی ماں سے قرآن مجید پڑھتی، سینا پرونا سیکھتی اور گھر کے کام کاج میں اس کا ہاتھ بٹاتی۔ باپ کی میز کرسی پر بڑے لڑکے نے قبضہ جما لیا۔ وہاں بیٹھ کر وہ اسکول کا کام کیا کرتا چونکہ میز کے ہلنے سے کتبہ گر جانے کا خدشہ رہتا تھا اور پھر اس نے میز کی بہت سی جگہ بھی گھیر رکھی تھی، اس لیے اس لڑکے نے اسے اٹھا کر پھر اسی بے کواڑ کی الماری میں رکھ دیا۔
سال پر سال گزرتے گئے۔ اس عرصہ میں کتبہ نے کئی جگہیں بدلیں، کبھی بے کواڑ کی الماری میں تو کبھی میز پر، کبھی صندوقوں کے اوپر تو کبھی چار پائی کے نیچے، کبھی بوری میں تو کبھی کاٹھ کے بکس میں۔ ایک دفعہ کسی نے اٹھا کر باورچی خانے کے اس بڑے طاق میں رکھ دیا جس میں روز مرہ کے استعمال کے برتن رکھے رہتے تھے۔ شریف حسین کی نظر پڑ گئی، دیکھا تو دھوئیں سے اس کا سفید رنگ پیلا پڑ چلا تھا، اٹھا کر دھویا پونچھا اور پھر بے کواڑ کی الماری میں رکھ دیا، مگر چند ہی روز میں اسے پھر غائب کر دیا گیا اور اس کی جگہ وہاں کاغذی پھولوں کے بڑے بڑے گملے رکھ دیے گئے جو شریف حسین کے بڑے بیٹے کے کسی دوست نے اسے تحفے میں دیے تھے۔ رنگ پیلا پڑ جانے سے کتبہ الماری میں رکھا ہوا بدنما معلوم ہوتا تھا مگر اب کاغذی پھولوں کے سرخ سرخ رنگوں سے الماری میں جیسے جان پڑ گئی تھی اور ساری کوٹھڑی دہک اٹھی تھی۔
اب شریف حسین کو ملازم ہوئے پورے بیس سال گزر چکے تھے۔ اس کے سر کے بال نصف سے زیادہ سفید ہو چکے تھے اور پیٹھ میں گدی سے ذرا نیچے خم آگیا تھا۔ اب بھی کبھی کبھی اس کے دماغ میں خوشحالی و فارغ البالی کے خیالات چکر لگاتے مگر اب ان کی کیفیت پہلے کی سی نہ تھی کہ خواہ وہ کوئی کام کر رہا ہو۔ تصورات کا ایک تسلسل ہے کہ پہروں ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اب اکثر اوقات ایک آہ دم بھر میں ان تصورات کو اڑا لے جاتی اور پھر بیٹی کی شادی، لڑکوں کی تعلیم، اس کے بڑھتے ہوئے اخراجات، پھر ساتھ ہی ساتھ ان کے لیے نوکریوں کی تلاش ... یہ ایسی فکریں نہ تھیں کہ پل بھر کو بھی اس خیال کو کسی اور طرف بھٹکنے دیتیں۔
پچپن برس کی عمر میں اسے پنشن مل گئی۔ اب اس کا بڑا بیٹا ریل کے مال گودام میں کام کرتا تھا۔ چھوٹا کسی دفتر میں ٹائپسٹ تھا اور اس سے چھوٹا انٹرنس میں پڑتا تھا۔ اپنی پنشن اور لڑکوں کی تنخواہیں سب مِل ملا کے کوئی ڈیڑھ سو روپے ماہوار کے لگ بھگ آمدنی ہوجاتی تھی جس میں بخوبی گزر ہونے لگی۔ علاوہ ازیں اس کا ارادہ کوئی چھوٹا موٹا بیوپار شروع کرنے کا بھی تھا مگر مندے کے ڈر سے ابھی پورا نہ ہو سکا تھا۔
اپنی کفایت شعاری اور بیوی کی سلیقہ مندی کی بدولت اس نے بڑے بیٹے اور بیٹی کی شادیاں خاصی دھوم دھام سے کردی تھیں۔ ان ضروری کاموں سے نمٹ کر اس کے جی میں آئی کہ حج کر آئے مگر اس کی توفیق نہ ہو سکی۔ البتہ کچھ دنوں مسجدوں کی رونق خوب بڑھائی مگر پھر جلد ہی بڑھاپے کی کمزوریوں اور بیماریوں نے دبانا شروع کر دیا اور زیادہ تر چارپائی ہی پر پڑا رہنے لگا۔
جب اسے پنشن وصول کرتے تین سال گزر گئے تو جاڑے کی ایک رات کو وہ کسی کام سے بستر سے اٹھا۔ گرم گرم لحاف سے نکلا تھا۔ پچھلے پہر کی سرد اور تند ہوا تیر کی طرح اس کے سینے میں لگی اور اسے نمونیا ہو گیا بیٹوں نے ایک کے بہتیرے علاج معالجے کرائے۔ اس کی بیوی اور بہو دن رات اس کی پٹی سے لگی بیٹھی رہیں مگر افاقہ نہ ہوا اور وہ کوئی چار دن بستر پر پڑے رہنے کے بعد مر گیا۔
اس کی موت کے بعد اس کا بڑا بیٹا مکان کی صفائی کرا رہا تھا کہ پرانے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے ایک بوری میں اسے یہ کتبہ مل گیا۔ بیٹے کو باپ سے بے حد محبت تھی، کتبہ پر باپ کا نام دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو بھر آئے اور وہ دیر تک ایک محویت کے عالم میں اس کی خطاطی اور نقش و نگار کو دیکھتا رہا۔ اچانک اسے ایک بات سوجھی جس نے اس کی آنکھوں میں چمک پیدا کردی۔
اگلے روز وہ کتبہ کو ایک سنگ تراش کے پاس لے گیا اور اس سے کتبہ کی عبارت میں تھوڑی سی ترمیم کرائی اور پھر اسی شام اسے اپنے باپ کی قبر پر نصب کر دیا۔
۱۹۴۷ء

دھنک (غلام عباس)


یہ بیسویں صدی کے اواخر کی ایک شب کا ماجرا ہے۔ ہوٹل موہن جو ڈارو کی اکہترویں منزل پر جو سب سے اونچی اور ’’باغیچہ آویزاں‘‘ کے نام سے موسوم ہے، ارباب حکومت کی جانب سے ایک پر تکلف ضیافت نیم شبی دی جارہی ہے۔ مہمانوں میں دنیا بھر کے ملکوں کے سفیر سائنس دان، مفکر اور صحافی شامل ہیں۔
ہوٹل کی چھت پر کھلے آسمان کے نیچے کم خواب کا ایک شامیانہ جس کے کناروں پر موتیوں کی خوش نما جھالر لگی ہے جڑائو استادوں پر نصب کیا گیا ہے۔ شامیانے کے نیچے رنگارنگ قالینوں کا فرش بچھا ہے۔ یہ وہی قالین ہیں جو پٹ سن کے سنہرے ریشے سے بنائے جاتے ہیں۔ اور اپنی نفیس بنت، پائیداری اور نقش و نگار کی دل آویزی کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ ان قالینوں پر تھوڑے تھوڑے فصل سے کشادہ اور آرام دہ مخملی صوفے رکھے ہیں جن پر معزز مہمان اپنی بیگمات کے ساتھ متمکن ہیں۔
یہ مہمان جو پانچ براعظموں کے مختلف تمدنوں کی نمائندگی کرتے ہیں اپنا اپنا پروقار قومی لباس پہنے ہوئے ہیں۔ ان کے جدا جدا ناک نقشے، ان کی مخصوص حرکات و سکنات، ان کی الگ الگ بولیاں، ہر ملک کی عورت کا جداگانہ حسن، اس کی مختلف طرز آرائش و زیبائش، اس کے مخصوص کرشمہ و ادا دیکھنے والوں پر ایک محویت کا عالم طاری کر دیتے ہیں۔
ہر چند بظاہر کوئی ہنڈا، بلب، گیس یا ٹیوب لائٹ دکھائی نہیں دیتی۔ پھر بھی سارا پنڈال بقعہ نور بنا ہوا ہے۔ جا بجا فوارے چھوٹ رہے ہیں جن کی پھواروں پر رنگ برنگی شعاعیں پڑ رہی ہیں۔ ’’باغیچہ آویزاں‘‘ میں قسم قسم کے پیڑ پودے کثرت سے لگائے گئے ہیں۔ جن کے پھولوں کی ملی جلی خوشبو دلوں میں ایک نشاط کی کیفیت پیدا کر رہی ہے۔
مہمانوں کے وسط میں ایک اونچی گول میز پر جو کارچوبی کے کام کے ایک بیش قیمت میز پوش سے مزین ہے، ایک بڑا سا خوبصورت ریڈیو سیٹ رکھا ہے۔ اس سیٹ کے اندر چاروں طرف اسپیکر اس ترکیب سے لگائے گئے ہیں کہ ہر شخص کو خواہ وہ کسی سمت بیٹھا ہو آواز صاف سنائی دے سکے۔
اس وقت ریڈیو سے آرکسٹرا کی موسیقی نشر ہو رہی ہے جس کی دھن اس تقریب کے لیے خاص طور پر باندھی گئی ہے۔ اور وہ تقریب کیا ہے؟ وہ یہ کہ آج رات پونے دو سے لے کر دو بجے کے درمیان کسی وقت پاکستان کا پہلا خلا پیما چاند پر اتر جائے گا۔ اور اس کی اس بے نظیر کامیابی کا حال اور چاند پر اُس کے مشاہدات براہ رات اسی کی زبان سے نشر کیے جائیں گے۔
گو دنیا کے بعض ممالک پچھلے کئی برس سے چاند پر پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر اس امر میں اولیت حاصل کرنا پاکستان کی قسمت میں لکھا تھا۔ جب پاکستان نے تسخیر قمر کے سلسلے میں اپنے عزم کا اعلان کیا تو پہلے تو ان ملکوں کے سربراہوں کو یقین ہی نہیں آیا کہ پاکستان نے اس میدان میں اس قدر ترقی کرلی ہے۔ مگر جب ان کے سفیروں نے جو پاکستان میں مقیم تھے پاکستان کے اس ارادے کی تصدیق کردی تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اور انھوں نے اپنے اپنے ہاں کے سائنس دانوں اور دانشوروں کو اس تقریب کا حال بچشم خود دیکھنے کے لیے یہاں بھیج دیا۔
اس وقت رات کا ایک بج چکا ہے مگر دنیا کے دور دراز حصوں سے آئے ہوئے ان مہمانوں میں سے کسی کے چہرے سے بھی تھکاوٹ یا کسلمندی کے آثار ظاہر نہیں ہوئے۔ اس کے برعکس جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے وہ پہلے سے بھی زیادہ چاق و چوبند نظر آرہے ہیں۔
ہوٹل کے خدام زرنگار وردیاں پہنے ہلکے پھلکے طعام اور مشروبات کے طشت اٹھائے مہمانوں کی تواضع میں مصروف ہیں۔ کچھ لوگ باہم گفتگو کر رہے ہیں۔ کچھ ریڈیو کی موسیقی سن رہے ہیں جس کا سلسلہ کبھی کبھی منقطع ہوجاتا ہے اور انائونسر آج رات کے پروگرام کی تفصیل یا کوئی مقرر چاند کی مہم کے سلسلے میں ابتدائی کامیابیوں کا حال سنانے لگتا ہے۔ کچھ مہمان جب بیٹھے بیٹھے اکتا جاتے ہیں تو شامیانے سے باہر نکل کر ’’باغیچہ آویزاں‘‘ کی پر فضا روشوں میں ٹہلنے یا گرد و نواح کا منظر دیکھنے لگتے ہیں۔ یوں تو شہر میں کئی عمارتیں ہوٹل موہن جو ڈارو سے بھی اونچی اونچی ہیں، مگر مضافات اور سمندر کا جیسا دلفریب نظارہ ’’باغیچہ آویزاں‘‘ سے دکھائی دیتا ہے اور کہیں سے دکھائی نہیں دیتا۔ خصوصاً رات کے وقت تو جہازوں اور جزیروں کے مکانوں کی روشنیاں دور سے جھلملاتی ہوئی بہت ہی بھلی معلوم ہوتی ہیں۔
اس وقت فروری کا چاند اپنی پوری تابندگی کے ساتھ روئے زمین پر خنک چاندنی بکھیر رہا ہے۔ اُس کا نظارہ بجائے خود ایک عجیب جاذبیت رکھتا ہے۔ مہمانوں کی نظریں بار بار اس کی طرف اٹھ جاتی ہیں اور وہ موجودہ تقریب کی مناسبت سے اور بھی محویت کے ساتھ اسے دیکھنے لگتے ہیں۔
آخر ڈیڑھ بجے کے قریب ریڈیو پر اعلان کیا گیا کہ سب مہمان اپنی اپنی نشستوں پر آکر بیٹھ جائیں۔ اس وقت مہمانوں کے اشتیاق کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، خصوصاً بعض خواتین پر تو اضطراب کی سی حالت طاری ہے جس پر قابو پانے کے لیے انھوں نے اپنی مٹھیاں بھینچ رکھی ہیں۔ دم بھر میں سب لوگ جو ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے اپنے اپنے صوفوں پر آکر بیٹھ گئے۔ سب نے کان ریڈیو کی آواز پر لگا دیے۔ کچھ وقت اور انتظار میں گزرا۔ اس کے بعد انائونسر کی آواز یہ اعلان کرتی ہوئی سنائی دی:
’’اب ہم اپنے سننے والوں کو چاند پر لیے چلتے ہیں جہاں اس وقت اجرام فلکی پر انسانی فتوحات میں ایک نیا اور انوکھا اضافہ ہونے کو ہے۔ لیجیے ہمارے خلا پیما جو اس مہم کو سر کر رہے ہیں آپ سے مخاطب ہوتے ہیں۔‘‘
اس اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو سے ایسی گھڑ گھڑاہٹ سنائی دینے لگی جیسی کسی دور دراز ملک کے اسٹیشن کو ’’پکڑتے‘‘ وقت سنائی دیا کرتی ہے۔ اس فضائی گڑ بڑ کا سلسلہ چند لمحے جاری رہا۔ اس کے بعد ایک انسانی آواز اس شور میں سے ابھرنی شروع ہوئی۔ پہلے پہل الفاظ صاف سنائی نہ دیے مگر رفتہ رفتہ واضح ہوتے گئے: 
’’میں کیپٹن آدم خان سکنہ ضلع جھنگ عمر پینتیس (۳۵) سال آپ سے مخاطب ہوں۔ میرا خلائی جہاز اس وقت چاند کی سطح سے صرف پانچ ہزار فیٹ کی بلندی پر رہ گیا ہے۔ جہاز کی رفتار پچھتر میل فی گھنٹہ کردی گئی ہے۔ مجھ کو چاند کی سطح بہت صاف نظر آرہی ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جسے سائنس داں ’’طوفانوں کے سمندر‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ عجیب نظارہ ہے پر ہول بھی اور دلکش بھی۔ لیجیے اب بلندی صرف دو ہزار فیٹ رہ گئی ہے۔ جہاز کی رفتار چالیس میل فی گھنٹہ ہے۔ مجھے اس سفر میں بحمد اللہ کسی قسم کا حادثہ پیش نہیں آیا۔ خدا نے چاہا تو میرا جہاز حسب توقع آہستگی کے ساتھ چاند پر اتر جائے گا ... اب میں ایک ہزار فیٹ سے بھی کم بلندی پر ہوں۔ جہاز کی رفتار بتدریج بہت کم کی جارہی ہے ... لیجیے اب میں صرف سات سو فیٹ چاند کی سطح سے بلند ہوں ... پانچ سو فیٹ ... رفتار دس میل فی گھنٹہ ... صرف اڑھائی سو فیٹ ... سو فیٹ ... الحمد للہ کہ میرا خلائی جہاز صحیح سلامت چاند کی سطح پر اتر گیا ہے ... اس وقت پاکستانی گھڑیوں کے مطابق رات کا ایک بج کر اڑتالیس منٹ اور چار سیکنڈ آئے ہیں۔ پاکستان زندہ باد!‘‘
جلسے کے تمام شرکا نے جو دم سادھے بیٹھے تھے اور جن کے دل کی دھڑکن پل پل میں تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھی ایک ساتھ اطمینان کا لمبا سانس لیا۔ ریڈیو سے خلا پیما کی آواز سنائی دینی بند ہو گئی۔ اور اس کے بجائے قومی ترانہ بجنا شروع ہوا۔ سب لوگ تعظیماً کھرے ہو گئے۔ جب ترانہ ختم ہوا تو جلسے کا پنڈال تالیوں کے شور اور نعرہ ہائے تحسین و آفرین سے گونج اٹھا۔ غیر ملکی سفیر، سائنس داں اور اہل دانش اپنی نشستوں سے اٹھ اٹھ کر ارباب حکومت کے پاس جانے ان سے مصافحہ کرنے اور انھیں مبارک باد دینے لگے۔ یہ سلسلہ کچھ دیر جاری رہا۔ اس کے بعد ریڈیو سے پھر پہلے کی طرح گھڑ گھڑاہٹ سنائی دینے لگی۔ سب مہمان جلدی سے پھر اپنی اپنی جگہ آ بیٹھے اب کے کیپٹن آدم خان کی آواز پہلے سے بھی زیادہ صاف سنائی دی:
’’ابھی ابھی میں نے اپنا قومی پرچم ’’طوفانوں کے سمندر‘‘ کی سرزمین پر گاڑ دیا ہے۔ چاند کی سطح جمی ہوئی بھوبل کی طرح ہے، کہیں سخت کہیں نرم مگر اس میں پائوں نہیں دھستے جابجا دراڑیں اور گڑھے ہیں۔ کہیں کہیں یہ گڑھے بہت بڑے بڑے ہیں جیسے آتش فشاں پہاڑوں کے دہانے ہوں۔ پرچم گاڑنے کے مقدس فریضے سے فارغ ہو کر میں نے سب سے پہلے اس کے سائے میں اس خدائے لم یزل کے حضور نماز شکرانہ ادا کی جس کے فضل و کرم سے آج ہمارے ملک نے اپنا صحیح مقام پالیا ہے۔ اور اب وہ دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک کی صف میں شامل ہو گیا ہے۔ پاکستان پائندہ باد!‘‘
جلسے کا پنڈال ایک مرتبہ پھر نعرہ ہائے تحسین و آفرین سے گونج اٹھا۔ جب شور تھما تو خلا پیما کی آواز یہ کہتی ہوئی سنائی دی۔
’’آپ کو یہ تو معلوم ہی ہو گا کہ چاند میں دو ہفتے کا دن ہوتا ہے اور دو ہفتے کی رات۔ یہاں اس وقت دن ہے جس کو شروع ہوئے ہمارے حساب سے تقریباً چھتیس گھنٹے گزر چکے ہیں۔ میرے پاس اتنی آکسیجن موجود ہے کہ میں یہاں چاند کا پورا ایک دن بسر کر سکوں۔ اور میرے خلائی جہاز میں اتنا ایندھن ہے کہ وہ مجھے بفضل خدا خیر و عافیت کے ساتھ وطن پہنچا سکے ...‘‘
’’لیجیے اب میں آپ سے یہاں کے گرد و پیش کے حالات اور اپنے مشاہدات بیان کرتا ہوں ...‘‘
۲
ابھی سپیدۂ سحر نمودار نہیں ہوا تھا کہ کراچی سے سینکڑوں میل دور ایک قصبے کی چھوٹی سی مسجد میں ایک ملا صاحب نماز فجر کے بعد نمازیوں سے کہہ رہے تھے:
’’ابھی ابھی میں نے اپنے ٹرانسسٹر پر یہ اعلان سنا ہے کہ پاکستان کا کوئی مردود شخص چاند پر پہنچ گیا ہے خدا اس کو غارت کرے۔‘‘
’’برادران اسلام۔ یہ صریح کفر ہے کہ جن اشیاء پر مشیت ایزدی نے اسرار و رموز کے حجاب ڈال رکھے ہیں انھیں سائنس اور نام نہاد ترقی کے نام پر بے نقاب کیا جائے۔‘‘
’’بھائیو۔ ہم نے اپنی اس چھچھوری حرکت سے باری تعالیٰ کی جناب میں سخت گستاخی کی ہے۔ میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ عنقریب ہم پر خدائے قہار کا غضب نازل ہونے والا ہے ...‘‘
گاوئوں اور قصبوں ہی کے نہیں شہروں کے ملائوں میں بھی اس خبر سے ہلچل مچ گئی۔ چنانچہ ایک شہر کی درس گاہ میں ایک ملّا صاحب جو در پردہ شعر و سخن کا بھی مذاق رکھتے تھے۔ یوں نکتہ سنج تھے:
’’باری تعالیٰ نے انسان کو زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجا اور یہ اختیار بخشا کہ جا وہاں جو جی میں آئے کرتا پھر۔ مگر انسان کا ناشکرا پن اور اس کی ہوس ملک گیری دیکھو کہ اسے زمین کی لامحدود وسعتیں اپنے اعمال و افعال کے لیے تنگ معلوم ہوئیں۔ اور اس نے اپنے خالق ہی کے آستانہ خاص، اس کی آسمانی مملکت ہی پر جو چاند سورج اور ستاروں پر محیط ہے، غاصبانہ قبضہ جمانے کی ٹھان لی ہے...‘‘
’’اللہ اللہ! انسان کے جنون نخوت کا کچھ ٹھکانہ ہے کہ اس نے فرشتوں کو تو صید زبوں قرار دے کر چھوڑ دیا اور خود یزداں ہی پر کمندیں پھینکنی شروع کر دیں۔ نعوذ باللہ من ذالک ...‘‘
اور پھر اگلے جمعہ کو دارالسلطنت کی وسیع جامع مسجد میں جہاں ہزاروں مسلمان نماز جمعہ کے لیے جمع ہوئے تھے شہر کے ایک شیوہ بیاں خطیب للکار للکار کر اپنے خطبہ میں کہہ رہے تھے:
’’مسلمانو۔ تمھاری درس گاہوں میں جو شیطانی علوم پڑھائے جارہے ہیں جانتے بھی ہو ان کا لب لباب کیا ہے؟ ان کا لب لباب یہ ہے کہ مادہ مثل ذات باری تعالیٰ ازلی ہے۔ یا ذات باری تعالیٰ (نعوذباللہ) خود مادی ہے۔ تم نے دیکھا ان علوم نے رفتہ رفتہ کیا گل کھلایا۔ میرا اشارہ تسخیر قمر کی طرف ہے جس کی خبر تم نے ریڈیو پر سنی اور اخباروں میں پڑھی ہو گی۔ ہماری حکومت جو مغرب کی پیروی میں لادینیت کا شکار ہو گئی ہے اپنی اس کامیابی پر پھولی نہیں سماتی حالاں کہ یہ سخت کافرانہ و ملحدانہ فعل ہے جس کا مرتکب شریعت کی رو سے واجب القتل ہے...‘‘
’’مسلمانو۔ آج ہر طرف فسق و فجور کا بازار گرم ہے۔ زمین فتنہ و فساد کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے۔ بے دینی، بے غیرتی، بے حیائی، فحاشی، عیاشی اور کفر و الحاد کا دور دورہ ہے۔ اللہ کا کلمہ نیچا اور کفر کا بول بالا ہو رہا ہے۔ زنا کاری، شراب خواری اور قمار بازی دھڑلے سے ہورہی ہے۔ آلات لہو و لعب اور ناچ گانے کا عام رواج ہو گیا ہے۔ عورت کی آنکھ سے حیا اور جسم سے لباس کی قید اٹھ گئی ہے۔ یہ ساری علامتیں قرب قیامت کی ہیں...‘‘
’’مسلمانو۔ وہ وقت جلد آنے والا ہے جب کلام اللہ دلوں، زبانوں اور کاغذوں سے اٹھا لیا جائے گا۔ زمیں جا بجا شق ہوجائے گی۔ سمندر ابل پڑیں گے۔ پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر تیز ہوا سے ریت کی طرح اڑنے لگیں گے۔ گردوغبار اور آندھیوں سے جہان تیرہ و تار ہوجائے گا۔ آسمان پھٹ جائے گا اور ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے...‘‘
’’مسلمانو۔ جائو گائوں گائوں قریہ قریہ شہر شہر لوگوں کو خبردار کر دو کہ انسان من حیث القوم توبہ و استغفار کر لے کیونکہ قیامت آنے والی ہے...‘‘
اور اس طرح ملائوں نے اپنی لسانی اور زور خطابت سے عوام کو قرب قیامت کا ایسا یقین دلا دیا کہ ہر شخص ڈرا ڈرا سہما سہما نظر آنے لگا۔ حکومت کے خلاف ہر طرف ایک بد دلی سی پھیلنے لگی۔ ملائوں کی تحریک روز بروز زور پکڑنے لگی۔ ملک بھر میں جگہ جگہ پہلے چھوٹے چھوٹے پھر بڑے بڑے جلوس نکلنے لگے۔ اسی طرح ان کے جلسوں کے شرکا کی تعداد بھی جلد جلد بڑھنے لگی۔ جلد ہی دارالسلطنت میں ایک بھاری جلسہ منعقد کیا گیا جس میں حسب ذیل قرار داد منظور کی گئی:
’’پاکستان کے عوام موجودہ نظام حکومت کو سخت کافرانہ اور فاسد اصولوں پر قائم تصور کرتے ہیں جس سے ہولناک نتائج نکلنے کا شدید خطرہ درپیش ہے۔ اس لیے وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس نظام کو فوراً بدلا جائے۔ اور اس کے بجائے ملک میں قانون خداوندی رائج کیا جائے۔‘‘
اس قرار داد نے یک بیک ارباب حکومت کو جیسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جب تک ملائوں کی تحریک تسخیر قمر کی مخالفت تک محدود رہی تھی انھوں نے اسے قابل اعتنا نہیں سمجھا تھا۔ اور سچ یہ ہے کہ شروع شروع میں ان کے پاس اس طرف دھیان دینے کے لیے وقت بھی نہ تھا۔ ان کی توجہ تو تمام تر اس خراج تحسین کو وصول کرنے میں لگی ہوئی تھی جو ساری دنیا اس محیرالعقول کامیابی اور سائنس میں ان کی پیش روی پر انھیں ادا کر رہی تھی۔ اور پھر وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ اس کا عالمی سیاست اور خصوصاً ہمسایہ ممالک پر کیا اثر پڑا ہے۔ وہ ظاہر میں کیا کہتے ہیں اور در پردہ ان کا ردعمل کیا ہے۔
چنانچہ ملائوں کی اس تحریک پر عام طور پر خیال کیا گیا کہ ان لوگوں کا کیا ہے۔ یہ تو سائنس کے ہر نئے انکشاف، ہر نئی اختراع کی شروع شروع میں ایسے ہی مخالفت کیا کرتے ہیں۔ مگر پھر رفتہ رفتہ خود ہی اس کو قبول کر لیتے اور اپنے تصرف میں لانے لگتے ہیں۔ چنانچہ آج بڑے بڑے خرقہ و عمامہ والے ملائوں میں سے شاید ہی کسی کا گھر ٹیلی فون، ریڈیو یا ٹیلی ویژن سے خالی ہو گا۔ یا ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو گا جو دینی نشریات میں اپنے لیے وافر حصے کا طلب گار نہ ہو۔ یا جو کسی سرکاری یا قومی دورے کے سلسلے میں ہوائی جہاز کو نقل و حرکت کے دوسرے ذرائع پر ترجیح نہ دیتا ہو۔
اور تو اور آج مساجد تک میں لائوڈ اسپیکر جسے یہ لوگ تلفظ کی سہولت کے لیے ’’آلہ مکبر الصوت‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، اذان، خطبہ اور دینی تقریبات کی تشہیر کا ایک جزو لاینفک ہے۔ اس لیے عجب نہیں کہ چند ہی روز میں وہ تسخیر قمر کو بھی قبول کر لیں۔ اور پھر کون کہہ سکتا ہے کہ آئندہ جب کبھی چاند میں سب سے پہلی مسجد کے افتتاح کا موقع آئے تو ہر ملا اس مقدس فریضہ کے ادا کرنے کا خود کو دوسروں سے کہیں زیادہ اہل ظاہر نہ کرے گا۔
لیکن اب جو اس تحریک نے ایک نیا ہی رنگ اختیار کرلیا تو ارباب حکومت کو سخت تشویش ہوئی اور انھوں نے اخبارات اور ریڈیو کے ذریعے حکومت کا مؤقف واضح کرنے کی کوشش کی۔ اسی سلسلے میں ایک مفکر سے ’’سائنس اور اسلام‘‘ کے عنوان سے ریڈیو پر ایک زوردار تقریر بھی نشر کرائی۔ جس میں مفکر نے کہا:
’’ہمارے ملّا صاحبان سائنس کو کفر و الحاد سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور اس کے درس و تدریس کو گناہ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں جا بجا ارشاد فرمایا ہے کہ کائنات کو مسخر کرو۔ ہوائوں پر حکم چلائو۔ چاند اور سورج کی شعاعوں کو اپنی گرفت میں لائو۔ زمین کے سینے سے اس کے ان گنت خزانے نکالو۔ اور سمندر کی طوفانی موجوں کو تابع فرمان بنائو ...تسخیر قمر ان ہی ارشادات خداوندی کی تعمیل کی ایک کوشش ہے ...‘‘
ایک پمفلٹ میں جس کا عنوان ’’برچھی سے ایٹم بم تک‘‘ تھا، مضمون نگار نے موجودہ زمانے کے تقاضوں پر یوں روشنی ڈالی:
’’حضور سرور کائنات ﷺ کے زمانے میں تیر اندازی، شمشیر زنی اور شہسواری کی مہارت مسلمانوں کے لیے ایک مقدس فریضے کی حیثیت رکھتی تھی۔ کیونکہ اس سے دین حق کی حفاظت مقصود تھی۔ اگر آنحضرت ﷺ موجودہ زمانے میں ہوتے اور دیکھتے کہ کس طرح باطل کی قوتیں چاروں طرف سے اسلام کو اپنے نرغے میں لینا چاہتی ہیں تو وہ ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹینک اور ہوائی جہاز تو کیا راکٹ، میزائل بلکہ ایٹم بم تک کے استعمال کو ہر مومن کے ایمان کا جزو قرار دیتے...‘‘
مگر ملائوں کی تحریک اب اس قدر زور پکڑ چکی تھی کہ محض بیانات سے اس کا مداوا ہونا مشکل تھا۔
اُدھر جب کیپٹن آدم خان چاند کی مہم سر کرکے اپنے خلائی جہاز سمیت صحیح سلامت وطن واپس پہنچ گیا تو اس کی بڑی آئو بھگت کی گئی۔ اسے قومی ہیرو قرار دیا گیا۔ اس کا استقبال ایک فاتح کی حیثیت سے کیا گیا۔ اور اس کے فوجی مناصب میں جلد جلد ترقی دے کر اسے پہلے میجر اور پھر کرنیل بنا دیا گیا۔ علاوہ ازیں ملکی و غیر ملکی اخبارات میں اس کی ان گنت تصویریں اور انٹرویو چھاپے گئے۔ ایک تصویر جو خاص طور پر بڑی مقبول ہوئی اس موقع کی تھی جبکہ ایک غیر ملکی سفیر کی بیوی پاکستانی خلا پیما کی اس عدیم النظیر بہادری پر وفور جذبات سے مغلوب ہو کر اس کا منہ چوم رہی تھی۔ ہر چند اس میں بڑا معصوم سا جذبہ کارفرما تھا مگر ملائوں نے جو آدم خان کو مردود اور گردن زدنی سمجھتے تھے، اسے کچھ اور ہی معنی پہنا کے خوب خوب اچھالا۔ اور اسی سلسلے میں حزب اختلاف کے بعض اراکین سے سازباز کرکے قومی اسمبلی میں ایک تحریک التوا بھی پیش کروا ڈالی۔
اس سے ملک میں اور بھی انتشار پھیل گیا۔ ملائوں کے حوصلے پہلے سے بھی بڑھ گئے۔ اور انھوں نے جلد ہی اپنا ایک ملک گیر کنونشن منعقد کر ڈالا جس میں متفقہ طور پر حکومت کے ارباب حل و عقد سے مطالبہ کیا گیا کہ چونکہ وہ کافر و بے دین ہیں اور مملکت خدا داد پاکستان کی سربراہی کی اہلیت نہیں رکھتے، اس لیے ان کو فوراً مستعفی ہوجانا چاہیے۔
جس عظیم الشان جلسے میں یہ قرار داد پیش کی گئی اس میں بڑی بڑی جوشیلی تقریریں سننے میں آئیں۔ ایک ملا صاحب حاضرین سے یوں خطاب کر رہے تھے:
’’حیف صد حیف کہ ارباب حکومت نے ہماری تنبیہ کو پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دی۔ لیکن دوستو اب تنبیہات کا وقت گزر چکا ہے اور وہ ساعت آ پہنچی ہے کہ ملک کی زمام کار ملحدوں اور خدا کے باغیوں سے چھین لی جائے۔ اور حکومت کی سربراہی مومنین اور صالحین کے ہاتھوں میں ہو۔ پس اے مسلمانو اٹھو۔ اس کافرانہ تہذیب کے علم برداروں سے عنان اقتدار چھین لو۔ اور چار دانگ عالم میں دین الٰہی کا ڈنکا بجا دو...‘‘ 
’’کیا تم جاننا چاہتے ہو کہ ہم کیسی حکومت چاہتے ہیں؟ آئو میں تمھیں اس کی ایک جھلک دکھائوں۔ اس حکومت میں کوئی فقیر نہیں ہوگا، لاوارث نہیں ہو گا کیونکہ یہ حکومت خود اس کا مائی باپ ہوگی۔ زمین کا مالک اللہ اور صرف اللہ ہو گا۔ نہ مزارع ہو گا نہ زمیندار ... اگر ایسی بادشاہت چاہتے ہو تو مسلمانو اس زور سے نعرہ تکبیر لگائو کہ ایوان کفر کے در و بام متزلزل ہو جائیں۔‘‘
اور واقعی حاضرین جلسہ نے اس زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ دور دور تک راہ گیر چلتے چلتے تھم گئے۔ اور گردنیں اٹھا ٹھا کے دیکھنے لگے کہ یہ شور کیسا ہے!
اس کے بعد ایک چھوٹے سے قد کے ملا جن کی تقریر کا موضوع ’’فی سبیل اللہ جہاد‘‘ تھا بڑے جوش سے اچھل اچھل کر کہنے لگے:
’’ہم اللہ کے سپاہی ہیں۔ حکومت نے ہم کو سمجھا کیا ہے۔ وہ ہماری طاقت سے بے خبر ہے۔ اگر ہم نہ چاہیں تو نہ کہیں شادی بیاہ ہو، نہ میت کی تجہیز و تکفین عمل میں آئے۔ حکومت لاکھ اعلانات کرتی پھرے میں کہتا ہوں دوربینیں لگا لگا کے دیکھے۔ ہوائی جہازوں میں بادلوں سے اوپر اوپر پرواز کرے۔ ٹیلی فون کے ذریعے دوسرے شہروں سے شہادتیں فراہم کرائے مگر جب تک ہم اپنی ان گناہ گار آنکھوں سے ہلال کو نہ دیکھ لیں نہ عید کی خوشی ہو نہ محرم کا سوگ۔ حکومت اس باب میں بارہا ہم سے متصادم ہو کر ہماری طاقت کا اندازہ کر چکی ہے ...‘‘
جب یوں کھلم کھلا نعرہ بغاوت بلند ہونے لگے تو کون حکومت اسے ٹھنڈے پیٹوں گوارا کر لے گی! چنانچہ ان تمام مقررین کو جنھوں نے اس جلسے میں اشتعال انگیز تقریریں کی تھیں، نقص امن کے خطرے کے تحت راتوں رات ان کے ٹھکانوں سے گرفتار کرلیا گیا۔ اور ملک بھر میں دفعہ ۱۴۴ (ایک سو چوالیس) نافذ کردی گئی جس کی رو سے لاٹھیوں، تلواروں، پرچھی بھالوں اور دوسرے ہتھیاروں کو لے کر چلنا، اینٹ پتھر تیزاب اور سوڈے کی بوتلوں کو دنگے فساد کی غرض سے جمع کرنا، پانچ یا زیادہ اشخاص کا اکھٹا ہونا ممنوع قرار دیا گیا۔
ان گرفتاریوں نے اور بھی آگ بھڑکا دی۔ حکومت کے اس فعل کو مداخلت فی الدین سمجھا گیا۔ لوگ اپنے مذہب سے خواہ کتنے ہی بیگانہ کیوں نہ ہوں، مگر ایک مرتبہ جب ان کو یقین دلا دیا جائے کہ یہ ان کے دین کی حرمت کا سوال ہے تو یکبارگی ان کے مذہبی احساسات بیدار ہوجاتے ہیں۔ اور وہ ایک جنون کی سی کیفیت میں دین کی خاطر جان تک دے دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہی حال اس تحریک کا ہوا۔ عوام میں ہر طرف ناراضگی پھیل گئی لیکن چونکہ جلسوں جلوسوں پر پابندی عائد تھی اور وہ برملا غم و غصے کا اظہار نہ کر سکتے تھے اس لیے وہ ایک ایک دو دو کرکے مسجدوں میں پہنچنے لگے۔ اور خود کو ملائوں کی تحریک سے وابستہ کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ تمام مسجدیں سیاسی کارروائیوں کا مرکز بن گئیں۔ دن رات رہنمائوں میں مشورے ہونے لگے۔ نمازیوں کو کھلم کھلا سرکشی پر آمادہ کیا جانے لگا۔ جب ملائوں کو یقین ہو گیا کہ عوام پورے طور پر ہمارے ساتھ ہیں تو انھوں نے ایک خاص دن ان گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے مقرر کر دیا۔ اعلان میں کہا گیا کہ اس روز سارے ملک میں ہڑتال کی جائے گی۔ اور حکومت کی نافذ کردہ دفعہ ۱۴۴ (ایک سو چوالیس) کو توڑنے کے لیے شہر کی ہر مسجد سے نماز فجر کے بعد جتھے روانہ ہوں گے جن میں شرکا کی تعداد پانچ سے کسی صورت میں کم نہ ہو گی۔
یوم احتجاج کی صبح کو ابھی اندھیرا ہی تھا کہ حکومت نے شہر کی تمام چھوٹی بڑی مساجد کے باہر پولیس کی بھاری جمعیتیں متعین کر دیں۔ حسب اعلان نماز فجر کے بعد نمازیوں کے جتھے مسجدوں سے نکلنے شروع ہوئے۔ ہر شخص کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے تھے۔ اور اس کے کپڑوں پر عرق گلاب چھڑکا گیا تھا۔ پولیس نے ان لوگوں کو دھڑا دھڑ گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ صرف ایک گھنٹے کے اندر ملک کے طول و عرض میں دس ہزار سے اوپر گرفتاریاں عمل میں آچکی تھیں۔ پھر بھی ان جتھوں کے کم ہونے کے آثار نظر نہ آئے تھے۔ لوگ تھے کہ خود کو گرفتار کرانے کے شوق میں جوق در جوق چلے آتے تھے شہروں سے، قصبوں سے، دیہات سے۔ بعض سروں پر کفن باندھے ہوئے تھے، بعض درود شریف پڑھتے چلے آتے تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی جوالا مکھی پہاڑ پھٹ پڑا ہے جس سے انسانی لاوا بہتا چلا آرہا ہے۔
یہ تو تھا دفعہ ۱۴۴ (ایک سو چوالیس) کے توڑنے والوں کا حال۔ اب ہڑتال کرانے والوں کا ماجرا سنیے۔ یہ لوگ جن میں بہت سا عنصر غنڈوں اور آوارہ گرد لڑکوں کا شامل ہو گیا تھا صبح ہوتے ہی بازاروں اور گلی کوچوں میں چکر لگانے لگے۔ رضا کاروں نے گزشتہ رات ہی کو شہر کے ہر حصے میں لائوڈ اسپیکروں کے ذریعے ہڑتال کا اعلان کر دیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے دکاندار فساد کے ڈر سے گھروں ہی سے نہ نکلے۔ اور اگر کچھ لوگوں نے پولیس کے اصرار اور حفاظت کی یقین دہانی پر دکانیں کھولیں بھی تو ہڑتالیوں کے مشتعل گروہ فوراً موقع پر پہنچ گئے۔ اور لوٹ مار کی دھمکی دے کر دکانوں کو بند کرا دیا۔ اگر کہیں پولیس نے مزاحمت کی تو اس پر اینٹیں اور پتھر برسائے گئے۔ پولیس نے پہلے زیادہ سختی اختیار نہ کی۔ جب اس کے سمجھانے بجھانے سے ہجوم منتشر نہ ہوتا تو وہ ہلکا سا لاٹھی چارج کر دیتی۔ لوگ ادھر ادھر بکھر جاتے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں پھر آموجود ہوتے۔ رفتہ رفتہ دونوں طرف تندی اور درشتی پیدا ہونے لگی، حالات نازک صورت اختیار کرنے لگے۔
یہ ہڑتالی دکانیں ہی بند نہیں کرا رہے تھے بلکہ بسوں ٹیکسیوں اور رکشائوں کو روک بھی رہے تھے۔ ان ہنگاموں میں دو بسوں اور آٹھ رکشائوں کو جلا دیا گیا۔ جن بسوں کے شیشے توڑے گئے ان کا تو کچھ حساب ہی نہ تھا۔
کچھ لوگوں نے سرکاری دفتروں اور غیر ملکی سفارت خانوں کا رخ کیا اور انھیں آگ لگانے لگے۔ حکومت کے لیے یہ بڑا نازک وقت تھا۔ جب پولیس کا لاٹھی چارج اور آنسو گیس اس سیلاب کو نہ روک سکا تو اسے گولی چلانے کا حکم دیا گیا۔ اور جب صورت حالات پولیس کے قابو سے باہر ہوگئی تو فوج بلوائی گئی۔ یہی واقعہ کئی شہروں میں پیش آیا۔ ہر جگہ کرفیو لگا دیا گیا۔ مگر فتنہ و فساد اور بلووں کا سلسلہ ختم نہ ہوا۔ شام ہوتے ہوتے تقریباً پچاس ہزار رضا کار گرفتار ہو چکے تھے۔ اور سینکڑوں جانیں آتشیں اسلحہ کی نذر ہو گئی تھیں ... 
۳
ملائوں نے روئے زمین پر خدا کی بادشاہت کا جو تصور پیش کیا تھا وہ اب حقیقت بن چکا ہے۔
پچھلی حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد سب سے پہلے بالغ رائے دہندگان کے ووٹوں سے ایک امیر چنا گیا۔ اور اسے دنیا پر خدا کے نائب کی حیثیت دی گئی۔ انتخاب کا مسئلہ بڑا ہنگامہ خیز ثابت ہوا تھا۔ اور سارا ملک جیسے ایک بحران کی لپیٹ میں آگیا تھا۔ مگر شکر ہے کہ بالآخر یہ مصیبت ٹل گئی۔ ہوا یہ کہ جب تک ملا صاحبان حکومت سے برسرپیکار رہے، ان میں اتحاد بھی رہا اور یک جہتی بھی۔ مگر جیسے ہی عام انتخاب منعقد کرنے کا اعلان ہوا ہر شخص حصول اقتدار کے لیے مضطرب ہو گیا۔
ملک بھر میں بہت سی جماعتیں الیکشن لڑنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ہر جماعت نے اپنا اپنا لائحہ عمل، اپنے اپنے قواعد و ضوابط اور اپنی اپنی مخصوص وردی وضع کرلی۔ اور پھر جتھے بنا بنا کر اپنے اپنے امیر کے رکن گاتی گلی گلی کوچے کوچے پھرنے لگی۔ جلسے جلوس، پوسٹر بازی غرض وہ وہ ہنگامے ہوئے کہ باید و شاید۔ الیکشن میں جن جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان میں سبز پوش، سرخ پوش، نیلی پوش، پیلی پوش، سیاہ پوش اور سفید پوش خاص طور پر قابل ذکر تھیں۔ مؤخر الذکر جماعت زیادہ تر دیہاتیوں پر مشتمل تھی۔
اس الیکشن میں جو خوش نصیب ملا برسراقتدار آیا وہ سبز پوشوں کی جماعت کا امیر تھا۔ زبان و قلم کا دھنی۔ آتش بیاں، زود رقم۔ اس نے اپنے خطبوں اور پمفلٹوں سے ملک میں ہلچل سی مچا دی۔ اور اپنی آواز کو ملک کے گوشے گوشے میں پہنچا دیا۔ غرض اس زور شور سے پروپیگنڈا کیا کہ انتخاب میں سب سے زیادہ ووٹ اسی کو ملے۔ اور سرخ پوش، نیلی پوش، پیلی پوش، سیاہ پوش اور سفید پوش امیدوار منہ دیکھتے ہی رہ گئے۔
سبز پوشوں کے امیر نے انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد سوچا کہ ان مخالف جماعتوں کے نمائندوں کو مجلس شوریٰ میں شامل کر لینا بہتر ہو گا۔ اس طرح ایک تو ان کی اشک شوئی ہوجائے گی۔ دوسرے وہ ملک میں فتنہ و فساد پھیلانے سے باز رہیں گے۔
امیر نے کہا: ’’الگ الگ رنگ بجائے خود کچھ زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔ لیکن جب یہی رنگ یکجا ہو جاتے ہیں تو دیکھو کیسی خوبصورت دھنک بن جاتی ہے۔‘‘
یہ مصالحت بڑی کارآمد ثابت ہوئی۔ چنانچہ مجلس شوریٰ، جس کا کام امور سلطنت میں امیر کو مشورت دینا تھا پوری قوم کی نمائندہ بن کر اپنا کام بڑی دل جمعی کے ساتھ انجام دینے لگی۔ امیر نے مجلس شوریٰ کے اجلاس اور دیگر انتظامی امور سر انجام دینے کے لیے شہر کی جامع مسجد کو پسند کیا۔ اور اسی کے ایک حجرے میں بود و باش اختیار کی۔ چنانچہ دن رات جامع مسجد میں مجلس شوریٰ کے جلسے ہونے لگے۔ اور حکومت کا اصلاحی اور تعمیری کام بڑی سرگرمی سے شروع ہو گیا۔
مجلس شوریٰ نے سب سے پہلے اپنی توجہ اس امر پر مرکوز کی کہ پچھلی حکومت کے زیر اثر معاشرے کے رگ و پے میں مغربی تہذیب و تمدن کا جو زہر سرایت کر گیا ہے اس کو زائل کیا جائے۔ چنانچہ تمام انگریزی طور طریقے، لباس، آداب معاشرت یک قلم موقوف کر دیے گئے۔ بلکہ اس اقدام کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے ’’نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘‘ کے مصداق انگریزی زبان کی تحصیل ہی کو نصاب تعلیم سے خارج کر دیا گیا۔
ملک کی زمام کار امیر نے خود اپنے ہی ہاتھ میں لی اور پچھلی حکومت کے انتظامی امور کے طریقے، سیکریٹریٹ اور اس کے ماتحت جملہ شعبے منسوخ کردیے گئے۔ اور ان کی پچھلی فائلوں اور تمام ریکارڈ کو نذر آتش کر دیا گیا۔ البتہ پولیس اور چنگی کے محکمے بحال رکھے گئے۔ 
تمام اسکول کالج اور یونی ورسٹیاں اور مروجہ طریق تعلیم منسوخ کر دیا گیا۔ اور اس کے بجائے دینی مدرسے قائم کیے گئے۔ جو عموماً مسجدوں سے ملحق ہوتے تھے ان مدرسوں میں فقہ، حدیث، تفسیر وغیرہ علوم شرعیہ اور فن قرأت کی تعلیم دی جانے لگی۔ ملک کا رسم الخط عربی قرار پایا۔ اور ایک ایسا منصوبہ بروئے کار لایا جانے لگا کہ ایک معینہ مدت کے اندر سارے ملک کی زبان عربی ہوجائے۔ 
فن خوشی نویسی کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دی گئی نسخ، خط کوفی اور طغریٰ کی تعلیم کے لیے ماہر خوش نویسوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ علاوہ ازیں ایک بڑا مدرسہ فن حرب اور سپہ گری کی تعلیم کے لیے بھی کھولا گیا۔ جس میں تلوار، نیزے، گرز اور برچھی بھالے کے استعمال کے گر سکھلائے جانے لگے۔
عورتوں کی وہ تمام آزادیاں اور بے پردگیاں جن کی پچھلی حکومت نے کھلے بندوں اجازت دے رکھی تھی کلیتہً ختم کر دی گئیں۔ علاوہ ازیں انھیں بے حجابانہ گھر سے باہر نکلنے کی بھی ممانعت کردی گئی۔ پھر چونکہ بقول ملا نہ تو عورتوں کو مملکت کے انتظامی مناسب دیے جا سکتے تھے اور نہ وہ عہدوں ہی پر فائز ہو سکتی تھیں اس لیے ان کے لیے اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہی نہ سمجھی گئی۔ ان کے لیے تو بس اتنا ہی کافی سمجھا گیا کہ وہ عام اصول دین اور امور خانہ داری جان لیں یا زیادہ سے زیادہ دھوبی کے کپڑوں کا حساب رکھ سکیں۔
مجلس شوریٰ نے دوسرا اصلاحی قدم عدالتوں کے باب میں اٹھایا۔ وکالت کے پیشے کو تو ختم ہی کر دیا گیا کیونکہ وکلا جان بوجھ کر حقائق کو چھپاتے اور اپنے پرفریب دلائل سے منصف کو گمراہ کرتے ہیں۔ اور یہ اسلامی روایات کے سراسر منافی ہے۔ کورٹ فیس ختم کر دی گئی کیونکہ اس سے سائل پر مفت کا بار پڑ جاتا ہے۔ اور وہ اکثر کورٹ فیس کی رقم نہ ہونے کے باعث داد رسی ہی سے محروم رہ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جج اور مجسٹریٹ کے عہدے بھی منسوخ کر دیے گئے۔ اور ان کے بجائے ہر شہر میں مفتی اور قاضی مقرر کیے گئے۔ اور اس طرح عدالتی نظام کے لیے کسی لمبے چوڑے عملے کی ضرورت ہی نہ رہی۔
اراضی کی ملکیت کے بارے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جن زمینوں پر لوگوں کا پہلے سے قبضہ ہو، ان پر ان کی مالکانہ حیثیت برقرار رکھی جائے۔ البتہ لگان کی شرح جریبوں کے حساب اور اجناس کے لحاظ سے مقرر کی جائے۔ اگر کسی شخص کے پاس زمین ہو اور وہ اس پر تین سال تک کھیتی باڑی نہ کر سکے یا اسے تعمیر یا کسی اور کام میں نہ لا سکے تو وہ زمین متروکہ سمجھی جائے گی۔ اور اسے دوسرا شخص کام میں لے آئے تو اس پر عرضی دعویٰ نہ ہو سکے گا۔
ملک میں جہاں جہاں افتادہ زمینیں تھیں ان کے متعلق اعلان کیا گیا کہ جو شخص ان کو آباد کرے اسی کی ملک ہوجائیں گی۔ فصل کی پیداوار میں زمیندار اور کاشت کار لگان کی رقم منہا کرنے کے بعد برابر کے حصہ دار قرار دیے گئے۔
مجلس شوریٰ نے نماز، روزہ، زکوٰۃ، قربانی اور بشرط استطاعت حج بیت اللہ کو ہر مسلمان پر فرض قرار دیا۔ اور جو ان احکام شرعی کو انجام نہ دے اس کے لیے دروں کی سزا مقرر کی گئی۔ جائیداد پر، جس میں اراضی، نقدی، زیور، گائیں بھینسیں، اونٹ گھوڑے، بھیڑ بکری شامل تھی، زکوٰۃ کی شرح مالیت کا چالیسواں حصہ یعنی اڑھائی فی صد سالانہ ٹھہری۔
مسلمان دولت جمع کر سکتے ہیں اور اسے کاروبار میں بھی لگا سکتے ہیں۔ مگر یہ دولت ان کے مرتے ہی ان کے عزیز و اقارب میں تقسیم کردی جائے گی۔ اور اگر کوئی وارث نہ ہو تو ساری رقم بیت المال میں جمع کردی جائے گی۔
غیر مسلم رعایا کو ذمی قرار دیا گیا۔ ان کو زکوٰۃ سے تو مستثنیٰ کر دیا گیا مگر ان پر جزیہ لگایا گیا جو تقریباً ساڑھے تیرہ روپے سالانہ فی کس تھا۔ البتہ جو ذمی عساکر اسلام میں بھرتی ہونا پسند کریں، ان پر سے جزیہ کی قید اٹھا لی جائے گی۔ بعض غیر مسلم اقوام نے جزیہ کے خلاف آواز اٹھائی۔ مگر ان میں جو اہل دانش تھے انھوں نے اپنے ہم مذہبوں کو سمجھایا کہ اس طرح ہمارے امراء اور اہل ثروت کو زکوٰۃ سے چھٹکارا مل جائے گا جو جزیہ سے کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے اور انھوں نے جزیہ دینا منظور کرلیا۔
جرائم میں چور کے لیے ہاتھ کاٹنے کی سزا، غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے سو سو درے اور شادی شدہ کے لیے سنگساری کی سزا مقرر کی گئی۔
شہروں اور قصبوں میں جہاں جہاں تھیٹر اور سینما تھے سب کے سب دینی درسگاہوں یا یتیم خانوں میں تبدیل کردیے گئے۔ ہوٹلوں اور کلب گھروں کی جگہ سرائیں بنادی گئیں۔ وہ تمام کھیل جن سے مغربیت جھلکتی تھی مثلاً کرکٹ، فٹبال، ہاکی، ٹینس، گولف، بیڈ منٹن وغیرہ بند کردیے گئے۔ اور ان کے بجائے شہسواری، نیزہ بازی، چوگان بازی، تیر اندازی کو از سر نو زندہ کیا گیا۔ نیز پہلوانی اور گرز زنی کے فن کو بھی فروغ دیا جانے لگا۔
اسلحہ سازی کے کارخانے سارے ملک میں وسیع پیمانے پر کھل گئے۔ لوہا اور فولاد ڈھال، تلوار، نیزے، گرز اور برچھی بھالے کی صورت میں ڈھلنے لگا۔ مسلم رعایا کے ہر فرد کو بصورت مرد ایک تلوار اور بصورت عورت ایک خنجر کا مستحق قرار دیا گیا۔ چنانچہ جیسے ہی کوئی بچہ پیدا ہوتا حکومت کے اہلکار تلوار یا خنجر لے کر اس کے گھر پہنچ جاتے۔ تلوار لباس کا جزو بن گئی۔ یہاں تک کہ سقے بھی کمر پر مشک رکھے پہلو سے تلوار لٹکائے گھروں میں پانی بھرنے لگے۔ یہی کیفیت دھنیوں اور کھٹ بنوں کی نظر آنے لگی۔
جب ملک میں تلوار کی مانگ بڑھی اور لوہے کی کمی محسوس کی جانے لگی۔ تو مکانوں کے آہنی پھاٹک اور جنگلے قومی ضرورت کے تحت اکھاڑے جانے لگے۔ ملک میں آتشیں اسلحہ کا ایک کارخانہ بھی کھولا گیا جس میں بندوقیں، رائفلیں، پستول اور ان کے کارتوس اور گولیاں بنائی جانے لگیں۔ لیکن مجلس شوریٰ نے آتشیں اسلحہ کا استعمال سوائے عساکر حکومت کے رعایا کے تمام افراد کے لیے ممنوع قرار دیا۔
ادب اور شعر و شاعری پر بھی کڑی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ اور عاشقانہ غزلوں نظموں اور گیتوں کو تو ادب سے خارج ہی کر دیا گیا کیونکہ ان سے ملک کی بہو بیٹیوں کے خیالات پر برا اثر پڑنے کا احتمال تھا۔ البتہ حمد و نعت، رجز، مرثیہ و سلام اور قومی لوریوں کو شاعری میں افضل ترین درجہ دیا گیا۔ ناول افسانے اور ڈرامے چونکہ من گھڑت قصے ہوتے ہیں، اور دروغ گوئی کو تقویت دیتے ہیں اس لیے معاشرے میں ان کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ اخباروں میں ہر قسم کی تصاویر یہاں تک کہ کارٹون تک چھاپنے بند کردیے گئے۔ مصوری، سنگتراشی، موسیقی وغیرہ کو فنون لہو و لعب قرار دے کر ان کی بھی کلی طور پر ممانعت کردی گئی۔
کسب معاش میں ایسے تمام وسیلے حرام قرار پائے جن سے لوگ معاشرے کو اخلاقی یا مادی نقصان پہنچا کر روزی پیدا کرتے ہیں چنانچہ شراب اور دوسری نشہ آور اشیاء کا بنانا اور بیچنا، عصمت فروشی اور رقص و سرور کا پیشہ نیز جوا، گھوڑ دوڑ، سٹہ بازی، لاٹری، معمہ بازی بند کردی گئی۔ چونکہ سود خواہ کسی بھی شکل میں ہو، حرام ہے اس لیے ملک بھر میں بینک، انشورنس، انعامی بونڈ وغیرہ کے کاروبار قطعاً ممنوع قرار پائے۔ بینکوں کی تنسیح کے بعد دوسرے ممالک سے زرمبادلہ کے لین دین کے سلسلے خود بخود منقطع ہو گئے۔ اور اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی منڈیوں میں اجناس کی خرید و فروخت معدوم ہو گئی۔
ڈاکٹر اور سرجن کے پیشے بھی ختم کردیے گئے کیونکہ ان کی دوائوں میں شراب کی آمیزش ہوتی ہے۔ اس کے بجائے طب یونانی اور جراحی کو حکومت کی سرپرستی میں لینے اور نصاب تعلیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ نرس کا پیشہ موقوف کر دیا گیا۔
ان سب پیشوں کو ختم کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں لاکھوں اشخاص بے روزگار ہو گئے۔ مجلس شوریٰ نے سفارش کی کہ انھیں زمینیں دے دی جائیں تاکہ وہ کھیتی باڑی کرکے اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ پال سکیں۔ مگر مشکل یہ آن پڑی کہ اچھی اچھی اور قابل کاشت زمینیں پہلے ہی سے اور لوگوں کے قبضے میں تھیں۔ جو باقی بچی تھیں وہ یا تو بنجر تھیں یا ان کی مٹی میں سیم اور تھور کی بہتات تھی۔ چنانچہ انھیں کھیتی باڑی کے قابل بنانے کے لیے ان لوگوں کو بڑے جتن کرنے پڑے اور دور دور دریائوں سے نہریں کھود کھود کر پانی لانا پڑا۔
ہر شخص کو حکم تھا کہ سیدھا سادہ لباس پہنے اور رہنے سہنے میں سادگی اختیار کرے۔ ڈاڑھی رکھے اور لبیں کتروائے۔ کسی قسم کی شان و شوکت کا اظہار نہ کرے۔ نہ فضول خرچی اور اسراف میں پیسہ ضائع کرے۔ آرام طلبی اور تن آسانی کو ترک کرے۔ چنانچہ پیش بندی کے طور پر شہر کی دکانوں سے تعیش کی ساری چیزیں مثلاً ریفریجریٹر، ایئر کنڈیشنر، واشنگ مشین، بجلی کے پنکھے، چولھے، استریاں، چینی کے ظروف اور کراکری کا سامان اٹھوا دیا گیا۔ یہاں تک کہ ٹوتھ پیسٹ اور دانتوں کے برش تک کو معاشرے سے خارج کر دیا گیا۔ اس کے بجائے مسواک کے استعمال پر زور دیا گیا۔ کہ اس سے بقول ملّا فصاحت بڑھتی ہے۔
علاوہ ازیں عہد حاضر کی تمام اختراعات و ایجادات مثلاً ریڈیو، ٹیلی ویژن، ٹیلی فون، ٹیپ ریکارڈر، ریکارڈ چینجر، کیمرے وغیرہ کی فروخت پر پابندی لگادی گئی۔ بجلی کی روشنی کا بے جا استعمال جرم ٹھہرا۔ کوکا کولا، پاکولا اور تمام انگریزی طرز کے مشروبات ممنوع قرار دیے گئے۔
شہر میں جتنی اونچی اونچی عمارتیں تھیں ان کی صرف اُتنی ہی منزلوں کو جائز سمجھا گیا جو جامع مسجد کے گنبد و مینار سے نیچی تھیں۔ باقی منزلوں کو منہدم کرا دیا گیا۔
چونکہ دوسرے ممالک اور خصوصاً مغربی ممالک کے سفیروں کے قیام سے ان کے آداب معاشرت کے برے اثرات اہل ملک کے ذہنوں پر پڑنے کا احتمال تھا اس لیے ان سے کہا گیا کہ آپ یہاں ٹھہرنے کی تکلیف نہ فرمائیں اور اسی وقت تشریف لائیں جب کسی اہم ملکی یا بین الاقوامی نزاع کے سلسلے میں بالمشافہ گفت و شنید کی ضرورت ہو۔
مجلس شوریٰ نے مسلمانوں کو ایک مہینے کی مہلت دی کہ وہ اس عرصے میں اپنا شعار اسلامی بنالیں اور متشرع نظر آئیں۔ اس کے بعد جو شخص غیر اسلامی شعار کا نظر آئے گا اسے دائرہ اسلام سے خارج کر دیا جائے گا۔ وہ چاہے تو کوئی غیر اسلامی مذہب اختیار کر سکتا ہے لیکن اگر وہ مسلم کہلانے پر اصرار کرے گا تو اسے مرتد تصور کرکے سنگسار کر دیا جائے گا۔
پہلے پہل لوگ اپنا ہی ملکی لباس یعنی کرتا پاجامہ شیروانی ٹوپی پہنتے یا پگڑی باندھتے رہے۔ عربی لباس صرف کبھی کبھار پٹڑی پر کھڑے ہو کر طاقت کی دوائیں بیچنے والے نیم حکیموں ہی کے تن پر نظر آتا تھا۔ مگر ایک دن ایک درزی کو جو سوجھی اس نے ایک لمبا دگلا سا کرتا زیب پر کیا اوپر ڈھیلی ڈھالی سیاہ عبا پہن، سر پر ایک بڑا سا سفید رومال رکھ، پیشانی پر سنہرے ریشم کی رسی کے دو تین پیچ دیے، بازار میں چل کھڑا ہوا۔
یہ شخص خاصا شکیل اور بلند قامت تھا۔ یہ لباس اس کے جسم پر خوب پھبا۔ چنانچہ کچھ لوگ اس کے پیچھے پیچھے ہو لیے۔ وہ کوئی تین چار گھنٹے شہر کے مختلف بازاروں اور چوکوں میں خوب گھوما پھرا۔ اس کے بعد اپنی دکان پر آ، لباس اتار، باہر ایک کھونٹی پر لٹکا، نیچے یہ عبارت لکھ دی کہ یہ عربی لباس یہاں سے صرف ۲۵ (پچیس) روپے میں دستیاب ہوسکتا ہے۔ پھر کیا تھا لوگ دھڑا دھڑ آرڈر دینے لگے۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی عربی لباس کی مقبولیت ایک دم بڑھ گئی۔ 
ملائوں کی حکومت کا پہلا سال ہر پاکستانی کے لیے بے حد صبر آزما ثابت ہوا۔ خود حکومت کو سخت اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر عوام نے اس کا پورا پورا ساتھ دیا۔ ملائوں نے خدا اور رسول کے نام پر اہل وطن سے جو بڑی سے بڑی قربانی بھی طلب کی، انہوں نے اس سے دریغ نہ کیا۔ مصائب اٹھائے مگر اُف نہ کی۔ اس کے ساتھ ہی وہ صوم و صلوٰۃ کے بھی ایسے پابند ہو گئے کہ ان پر کسی محتسب کے مقرر کرنے کی ضرورت ہی نہ رہی۔ جدھر دیکھو چھوٹے چھوٹے لڑکے سیاہ عبائیں پہنے، چھوٹی چھوٹی تلواریں کمر سے لٹکائے ٹولیاں بنا بنا کے ’’خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا‘‘ گاتے ہوئے نظر آنے لگے۔
نماز کے اوقات میں مسجدیں نمازیوں سے اس قدر پُر ہو جاتیں کہ تل دھرنے کو جگہ نہ رہتی۔ جمعہ کے روز ہر طرف ایسی چہل پہل دیکھنے میں آتی جیسے کسی تہوار پر نظر آتی ہے۔
لوگ اپنے عزیزوں اور دوستوں سے تو اپنی مادری زبان ہی میں بات چیت کیا کرتے۔ البتہ غیروں اور اجنبیوں سے ٹوٹی پھوٹی عربی میں ہمکلام ہوتے۔ ادھر عربی لباس تیزی سے رواج پاہی رہا تھا بس ایسا معلوم ہونے لگا جیسے ملک کو عربستان ثانی بنانے کی ریہرسل کی جارہی ہو۔

۴
جہاں تک تہذیب مغربی کی تقلید، زنا کاری، شراب خواری، قمار بازی، سود اور عورتوں کی بے پردگی کا تعلق تھا ملائوں کی حکومت کو ان کی تنسیخ یا ترمیم و اصلاح کے قوانین نافذ کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ کیونکہ ملائوں کی سبھی جماعتیں سبز پوش، سرخ پوش، نیلی پوش، پیلی پوش، سیاہ پوش، سفید پوش ان کی بیخ کنی پر متفق تھیں۔ بلکہ ایسے معاملات میں ان کے پیشوائوں میں اس قدر ہم آہنگی پائی جاتی کہ وہ لوگ جو ملائوں کے مختلف فرقوں میں پھوٹ پڑ جانے کا خدشہ محسوس کیا کرتے تھے، اطمینان کا سانس لینے لگے۔ کہ بحمد للہ ہمارے اندیشے باطل ثابت ہوئے۔
لیکن رفتہ رفتہ جب اسلام کے بنیادی اصول و عقائد، ایمان و تقویٰ کا سوال پیدا ہونا شروع ہوا تو ان فرقوں میں انتشار و کشیدگی کی فضا پیدا ہونے لگی۔ یوں تو یہ سبھی فرقے اللہ کو ایک، رسول کو برحق اور قرآن کو کلام اللہ سمجھتے تھے لیکن ان کے جماعتی معتقدات و نظریات ایک دوسرے سے یکسر جداگانہ تھے۔ جیسے مختلف رنگوں والے شیشوں کی عینکوں سے منظر کی کیفیت ہی بدل جاتی ہے۔ سبز پوش جن باتوں کو حلال سمجھتے تھے، سرخ پوش اُنہیں کو حرام، نیلی پوشوں کا جس فقہ پر ایمان تھا، پیلی پوشوں کی نظر میں وہ کفر کے مترادف تھا۔ ہر چند امیر مملکت نے ہر جماعت کو اپنے اپنے اصول و عقائد پر قائم رہنے کی آزادی دے رکھی تھی، ان کی الگ الگ مسجدیں تھیں، الگ الگ طریق عبادت، الگ الگ مدرسے، اور ایک فرقہ دوسرے پر اپنے عقائد مسلط کرنے کا مجاز نہ تھا۔ پھر بھی جب کبھی مختلف فرقوں کے لوگ کسی اجتماعی تقریب یا قومی جلسے میں یکجا ہوتے اور تاریخ یا فقہ کا کوئی مسئلہ زیر بحث آتا تو گفتگو میں تلخی پیدا ہو ہی جاتی۔
جس وقت حکومت نے ایک ادارہ تصنیف و تالیف قائم کیا جس کا مقصد ایک مفصل تاریخ اسلام لکھنا اور رسول اکرمﷺ، خلفائے راشدین اور دیگر اکابر اسلام کے سوانح حیات مرتب کرنا تھا۔ تو فرقہ وارانہ جذبات اچانک منظر عام پر آگئے۔ اس کی ابتدا اخبارات سے ہوئی۔ ایک فرقے کے اخبار نے اپنے مقالہ افتتاحیہ میں اس مسئلے پر یوں روشنی ڈالی:
’’یہ کتب اگر کسی نجی ادارے کی جانب سے شائع کی جائیں تو ہمیں اس پر چنداں اعتراض نہ ہو۔ قابل اعتراض امر تو یہ ہے کہ ان پر حکومت کی مہر ہو گی۔ اور اس طرح یہ پوری قوم کے خیالات کی نمائندہ تصور کی جائیں گی۔ اگر حکومت کو یہ کتب شائع کرنا ہی ہیں تو اس کا فرض ہے کہ وہ ہر فرقے کے نقطۂ نظر سے ان کے الگ الگ سلسلے شروع کرے۔‘‘
اس پر اخبارات میں ایک طویل بحث چھڑ گئی۔ بعض اس کے حق میں تھے، بعض اسے اسراف بے جا تصور کرتے تھے۔ اور بعض کا کچھ اور ہی نظریہ تھا۔ یہ مسئلہ کئی روز تک مجلس شوریٰ کے بھی زیر غور رہا اور جب اس کا کوئی مناسب حل نہ مل سکا تو امیر نے فی الحال تصنیف و تالیف کا کام ہی رکوا دیا۔ مگر اب ملک کی فضا مکدر ہونی شروع ہو چکی تھی۔
بدقسمتی سے ان ہی دنوں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے مختلف فرقوں کے جذبات کو مشتعل کر دیا۔ ہوا یہ کہ ایک دن جب سرخ پوش اپنے علاقے کی مسجدوں میں نماز فجر پڑھنے گئے تو بعض مسجدوں کی دیواروں پر جلی حروف میں ایسے کلمات لکھے ہوئے پائے گئے جن سے اس جماعت کے بعض اکابر کی بے حرمتی ہوتی تھی۔ اس سے سرخ پوشوں کے غصے اور رنج کی حد نہ رہی۔ ان کا ایک وفد امیر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امیر نے اس کی شکایت بری ہمدردی سے سنی۔ پھر مجلس شوریٰ سے کہا کہ اس معاملے کی پوری پوری تفتیش کی جائے اور مجرموں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔
جب دو دن تک مجرم گرفتار نہ کیے جا سکے تو تیسرے روز اسی قسم کا واقعہ سبز پوشوں کی مسجدوں میں پیش آیا۔ سبز پوشوں کو اس امر میں ذرا شک نہ تھا کہ یہ کارروائی سرخ پوشوں نے انتقامی طور پر کی ہے۔ گو سرخ پوش بڑی شد و مد سے اپنی بریت ظاہر کر رہے تھے۔
اسی روز سبز پوش نوجوانوں نے اپنے غم و غصے کے اظہار کے لیے نماز ظہر کے بعد ایک جلوس نکالنا ضروری سمجھا۔ جب تک یہ جلوس ان کے اپنے محلوں میں گھومتا رہا اس سے کسی نے تعرض نہ کیا۔ یہاں تک کہ نیلی پوشوں، پیلی پوشوں، سیاہ پوشوں اور سفید پوشوں کے محلوں میں بھی خیریت ہی گزری۔ مگر جیسے ہی یہ جلوس سرخ پوشوں کے علاقے میں پہنچا تو ایک تو وہ بے حد لمبا ہو گیا۔ دوسرے اس کے نعروں میں زیادہ تندی و تلخی پیدا ہو گئی۔ ایک آدھ جگہ اینٹ پتھر پھینکے جانے کی خبر بھی آئی مگر شکر ہے کہ بے بنیاد ثابت ہوئی۔ تاہم دونوں فرقوں کے جذبات سخت مشتعل ہو گئے تھے۔ دونوں طرف کے نوجوان بات بات پر تلواریں سونتے لیتے تھے۔ اس پر حکومت کے لشکریوں کے لیے بیچ بچائو کرنا ضروری ہو گیا۔ اس سعی میں تین چار لشکری زخمی تو ہوئے مگر حالات پر قابو پالیا گیا۔
اگلے روز دونوں فرقوں کے اخباروں نے اس واقعہ پر خوب خوب حاشیے چڑھائے۔ اور ایک دوسرے پر کھلم کھلا چوٹیں کیں۔
امن چین کے چند ہی روز گزرئے پائے تھے کہ ایک اور واقعہ پیش آیا۔ جو پہلے سے کہیں زیادہ سنگین تھا۔ ہوا یہ کہ ایک رات نماز مغرب کے بعد کوئی شخص سیاہ پوشوں کی ایک مسجد میں چپکے سے ایک بم رکھ کر چلا گیا۔ جب یہ بم پھٹا تو خوش قسمتی سے اس وقت مسجد میں کوئی نمازی موجود نہ تھا۔ بس مسجد کا ایک طاق ہی شہید ہوا۔
اس واقعے سے لوگوں کی توجہ سرخ پوشوں اور سبز پوشوں کے قضیے سے ہٹ کر سیاہ پوشوں کی طرف منعطف ہو گئی۔ سیاہ پوشوں کے اخباروں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ کئی روز تک اپنی مسجد کے طاق کی شہادت کا سوگ منایا کیے۔ یہاں تک کہ ایک اور سانحہ اہل ملک کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اب کے یہ ہوا کہ پیلی پوشوں کے ایک مجتہد نماز عشاء سے فارغ ہو کر مسجد سے گھر کی طرف جارہے تھے کہ کسی نے ایک تاریک گلی سے نکل کر ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا۔ اور خود فرار ہو گیا۔ مجتہد کی چیخ سن کر بہت سے پیلی پوش جمع ہو گئے۔ کچھ قاتل کی تلاش میں دوڑے۔ مگر اس کا کہیں پتہ نہ تھا۔ مجتہد کو اٹھا کر مسجد میں لے گئے۔ مگر ان کی حالت نازک تھی۔ زخم کاری لگا تھا۔ چنانچہ جب فجر کی اذان ہورہی تھی تو وہ دم توڑ چکے تھے۔ پیلی پوشوں کے غیظ و غضب کا کچھ ٹھکانا نہ رہا۔ ایک پیلی پوش اخبار نے سیاہ حاشیوں کے ساتھ اپنے مجتہد کی شہادت پر بڑا پرزور اور دردناک مقالہ لکھا۔ اس کا مقطع کا بند یہ تھا:
’’قاتل کا اب تک گرفتار نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ یہ واقعہ کسی منظم سازش کا نتیجہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قتل کا منصوبہ پہلے سے بہت سوچ سمجھ کر بنایا گیا تھا۔ اس واقعہ سے اس المناک حقیقت کا بھی انکشاف ہوتا ہے کہ حکومت پیلی پوشوں کے، جو اقلیت میں ہیں، جان و مال کی حفاظت سے قاصر ہے۔‘‘
امیر مملکت نے جنھیں اس واقعہ کا انتہائی صدمہ پہنچا تھا، فوری طور پر مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کیا۔ یہ اجلاس کئی دن تک جاری رہا۔ مگر کسی کو کوئی ایسی تدبیر نہ سوجھی جس سے پیلی پوشوں کی اشک شوئی ہو سکے۔ اور حکومت کو اُن کا اعتبار پھر سے حاصل ہو سکے۔
اس اجلاس میں مجلس شوریٰ کے ایک رکن نے کہا:
’’ہمارے پاس اس امر کا کیا ثبوت ہے کہ اس قتل کا یا اس سے قبل کے واقعات کا مرتکب پاکستان کا کوئی باشندہ ہی ہوا ہے۔ اگر وہ پاکستانی ہوتا تو اب تک ضرور اس کا سراغ مل گیا ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تخریبی کارروائیاں، ملک میں پھوٹ ڈلوانے کی یہ کوششیں ضرور کسی ایسے ہمسایہ ملک کے جاسوسوں کی ہیں جو ہم سے بیر رکھتا ہے اور ہماری تباہی کے در پے ہے۔ ان دنوں جبکہ آمد و رفت کے وسائل ایسے آسان ہیں نمعلوم کتنے غیر ملکی ایجنٹ پاکستانیوں کا بھیس بنائے پھر رہے ہیں۔‘‘
کچھ دیر تک اجلاس پر سکوت طاری رہا۔ اس کے بعد دوسرا رکن بولا: ’’ہاں یہ ممکن ہے۔ لیکن میں پوچھتا ہوں کیا ہمارے اخبارات بھی، جو ملک میں انتشار پھیلا رہے ہیں ہمارے دشمنوں کے ایجنٹ ہیں؟‘‘
اس پر ایک اور رکن نے کہا: ’’ہم نے مغربی تہذیب کی بہت سی بدعتوں کو منسوخ کر دیا۔ مگر افسوس اخباروں کی طرف کسی کا دھیان نہ گیا۔‘‘
امیر نے، جو اپنے ہی خیالوں میں کھوئے ہوئے تھے اور اس گفتگو سے بے تعلق معلوم ہوتے تھے، ایک آہ سرد بھری اور کہا:
’’کاش قاتل پکڑا جاتا!‘‘
ملک کی فضا روز بروز زیادہ بگڑتی جارہی تھی۔ اب اکا دکا آدمیوں پر حملے ہونا عام بات ہو گئی تھی۔ اس پر ملک کی تمام جماعتیں اپنی اپنی حفاظت کے لیے رضا کار بھرتی کرنے لگی تھیں کیونکہ عساکر حکومت پر سے ان کا اعتماد اٹھتا جارہا تھا۔ چند ہی دنوں میں سرخ پوشوں، سبز پوشوں، نیلی پوشوں، پیلی پوشوں، سیاہ پوشوں اور سفید پوشوں نے ہزاروں کی تعداد میں رضا کار بھرتی کر لیے۔ ان رضا کاروں کے دستے اپنی اپنی جماعت کے مخصوص رنگ کی وردیاں پہنے، سوائے بندوق کے باقی سب ہتھیاروں سے لیس، اپنا اپنا پھریرا لہراتے، بڑے بڑے بازاروں اور چوکوں میں کھلے بندوں فوجی مشقیں کرتے دکھائی دینے لگے۔ شہر کی تمام دکانیں سرشام ہی بند ہو جاتیں۔ لوگ گھروں میں پہنچتے تو عافیت کا سانس لیتے۔ کہیں وقت بے وقت آنا جانا ہوتا تو جتھے بنا بنا کر جاتے۔
ایک دفعہ ایک بڑے بارونق بازار میں عین روز روشن ایک شخص کی نعش پائی گئی۔ یہ شخص جو عربی لباس پہنے تھا اوندھے منہ پٹڑی پر گرا پڑا تھا۔ اُس کی ناک اور منہ سے خون جاری تھا۔ پل بھر میں سبز پوشوں، سرخ پوشوں، نیلی پوشوں، پیلی پوشوں، سیاہ پوشوں اور سفید پوشوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے۔ سرخ پوش کہتے تھے کہ ہمارے آدمی کو ظالم سبز پوشوں نے مار ڈالا۔ سبز پوش کہتے تھے کہ ایک غریب سبز پوش، سرخ پوشوں کے کینے کا شکار ہو گیا۔ چونکہ متوفی کسی خاص فرقے کا لباس پہنے ہوئے نہ تھا، اس لیے نیلی پوش، پیلی پوش، سیاہ پوش، سفید پوش بھی اس پر اپنا حق جتانے لگے تھے۔ قریب تھا کہ تنازع بڑھ جاتا۔ مگر اتنے ہی میں ایک بے پردہ عورت مجمع کو ہٹاتی ہوئی نعش کے قریب پہنچی اور اس کو پہچان کر اس سے لپٹ گئی۔ معلوم ہوا کہ متوفی اس کا شوہر تھا۔ یہ دونوں سکھ مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ شوہر عربی لباس پہننے کا بہت شوقین تھا۔ وہ ادھیڑ عمر تھا۔ اور کئی برس سے دل کے مرض میں مبتلا تھا۔ قیاس کہتا ہے کہ اس پر چلتے چلتے اچانک دل کا دورہ پڑا ہو گا۔ اور وہ گر کر مر گیا۔ اور یوں خدا خدا کرکے یہ ہنگامہ فرو ہوا۔ 
غرض صورت حال اس قدر نازک ہو گئی کہ امیر نے عساکر حکومت کے نام حکم جاری کر دیا کہ اپنے دستے شہر کے ناکوں پر متعین کر دو۔ اور دن رات بازاروں اور گلی کوچوں میں گشت کرتے رہو۔ اور جہاں مفسدوں اور فتنہ پردازوں کو دیکھو گرفتار کرلو۔ اور اگر وہ مزاحمت کریں تو انھیں گولی مار دو۔ اس میں کسی فرقے یا جماعت کا لحاظ نہ کیا جائے۔
امیر خود بھی مجلس شوریٰ کے اراکین کے ہمراہ اکثر شہر میں گشت کرتے۔ وہ ہر فرقے کے لوگوں سے ملتے اور انھیں اتحاد، بردباری اور صبر کی تلقین کرتے۔ اور جو دن بھی خیر و عافیت سے گزر جاتا اس کی شب کو وہ دیر تک جامع مسجد میں سربسجود رہتے۔ اور خضوع و خشوع کے ساتھ شکرانہ خداوندی ادا کیا کرتے۔
ایک رات وہ جامع مسجد کے صحن میں کچھ زیادہ ہی دیر سجدے میں گرے رہے۔ جب پہلے صبح کاذب اور پھر صبح صادق نمودار ہوئی تب بھی وہ سر بسجود ہی رہے۔ پھر جب نمازی حسب معمول صحن مسجد میں نماز فجر کے لیے جمع ہوئے اس وقت بھی انھوں نے سجدے سے سر نہ اٹھایا۔ اس پر لوگوں کو کچھ تشویش ہوئی۔ قریب آکر دیکھا تو امیر شہید ہوئے پڑے تھے۔ زہر میں بجھا ہوا ایک خنجر ان کے پہلو میں گھونپا ہوا تھا۔
امیر مملکت کی شہادت کی خبر آن واحد میں دارالخلافہ کے گوشے گوشے میں پھیل گئی۔ پھر کیا تھا اُن کے پیرو سبز پوش غیظ و غضب سے دیوانے ہو گئے۔ وہ ’’القصاص، القصاص‘‘ چلاتے ہوئے سرخ پوشوں کے محلوں کی طرف چڑھ دوڑے۔ اُدھر گھروں سے سینکڑوں لوگ نیزے، تلواریں اور برچھی بھالے لے لے کر نکل پڑے۔ ہر طرف تلوار چلنے لگی۔ آہ و بکا، فریاد و فغاں کی صدائیں اٹھنے لگیں۔ زمین بے گناہوں کے خون سے رنگین ہونے لگی۔ ’’مارو ان ناپاک سبزوں کو!‘‘ لینا ان پلید سرخوں کو!‘‘ کے نعرے بلند ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ رنگوں کی کوئی قید نہ رہی۔ اور نیلے پیلے سیاہ و سفید بھی مار دھاڑ میں شامل ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے مسجد پر یورش کی۔ منبروں کو توڑ پھوڑ ڈالا۔ مسجدوں کی دیواروں پر بزرگان دین کے ناموں کے جو کتبے لگے تھے انھیں نوچ کھسوٹ کر اُتار ڈالا۔ بعض شقی گھروں میں گھس گئے۔ اور عورتوں کی بے حرمتی کرنے لگے۔ عورتیں روتی پیٹتی اور بچے بلکتے تھے۔ مگر کوئی ان کی فریاد سننے والا نہ تھا۔ گھنٹے بھر کے اندر تمام بازار اور گلی کوچے لاشوں سے پٹ گئے۔
اُدھر حکومت کے لشکری الگ بندوقیں چلا چلا کر بلوائیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے تھے۔ سڑکوں پر ہزاروں لاشیں بے گورو کفن پڑی نظر آنے لگیں۔
ابھی یہ ہنگامہ کشت و خون برپا ہی تھا کہ دفعتاً فضا میں ایسی آوازیں گونجنے لگیں جیسی بمبار طیاروں کے اڑنے اور ٹینکوں کے چلنے سے پیدا ہوتی ہیں۔
یہ طیارے اور ٹینک پاکستانی عساکر کے نہ تھے ... 
۵
ایک صحرائے لق و دق ہے جس پر چودھویں کا پورا اور گول چاند اپنی پوری تابندگی کے ساتھ چاندنی بکھیر رہا ہے۔ جس طرف نگاہ اٹھتی ہے ریت ہی ریت دکھائی دیتی ہے۔ جس کے ذرّے چاندی کی طرح چمک رہے ہیں۔ ریت میں کہیں نشیب ہیں کہیں فراز۔ کہیں ریت کے اونچے اونچے ٹیلے جن پر آہو خرام بے پروا میں مصروف ہیں۔ جب کبھی کوئی قافلہ ادھر سے گزرتا ہے تو یہ آہو چوکڑیاں بھرتے ہوئے کوسوں دور نکل جاتے ہیں۔
دور دور تک آبادی کا نشان نہیں۔ البتہ کہیں کہیں ایسے کھنڈر ضرور پائے جاتے ہیں جن کو دیکھنے سے گماں ہوتا ہے کہ یہاں کبھی کوئی متمدن شہر آباد ہو گا۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ جو ایک عجیب اداسی کی کیفیت لیے ہوئے ہے۔
اچانک افق پر کچھ دھبے سے نمودار ہوئے۔ جب کوئی قافلہ آتا ہے تو پہلے یوں ہی دھبے سے دکھائی دیتے ہیں جو رفتہ رفتہ پھیلتے جاتے ہیں۔ اور ایسا نظر آنے لگتا ہے جیسے کوئی لمبا سانپ بل کھاتا ہوا آرہا ہو۔ رفتہ رفتہ اونٹوں کے گلے میں پڑی ہوئی گھنٹیوں کی آواز حدی خواں کے لحن کے ساتھ مل کر دھیمی دھیمی سنائی دینے لگتی ہے۔ جوں جوں قافلہ قریب آتا جاتا ہے، آوازیں بلند ہوتی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ قافلے کے محافظ لشکریوں کے نیزے چاندنی میں چمکتے ہوئے نظر آنے لگتے ہیں۔
لیکن یہ دھبے جو افق پر نظر آئے۔ نہ تو پھیلے، اور نہ انہوں نے سانپ کی شکل ہی اختیار کی۔ البتہ وہ بڑے بڑے ضرور ہوتے گئے۔
نہیں۔ یہ کوئی قافلہ تو نہیں بلکہ چند مسافر ہیں۔ جب یہ قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ چار اونٹ چلے آرہے ہیں۔ جن پر دو مرد اور دو عورتیں سوار ہیں۔ ان چاروں نے مغربی لباس پہن رکھا ہے۔ اگلے اونٹ کی مہار ایک شخص نے پکڑ رکھی ہے۔ جو عربوں کا سا دگلا لباس پہنے اونٹ کے قدم بہ قدم چل رہا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی انگریز یا امریکن سیاح ہیں جو بندرگاہ کے ہوٹل سے گائیڈ کے ہمراہ چاندنی میں گرد و نواح کی سیر کو نکلے ہیں۔ مرد ادھیڑ عمر ہیں اور عورتیں بھی جوانی کی منزل سے گزر چکی ہیں۔ مگر چاروں چاق و چوبند اور شاداں و فرحاں نظر آتے ہیں۔ ان کے قہقہے اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز میں گڈ مڈ ہو کر اس منظر کی اُداسی پر ایک تضحیک کی سی کیفیت پیدا کر رہے ہیں۔ 
ایک عورت نے اپنی اونچی اور خراش دار آواز میں اپنے ساتھ والے مرد سے کہا:
’’ڈک۔ دیکھو یہاں کا منظر کتنا دل فریب ہے۔ ذرا گائیڈ سے پوچھو ابھی کتنا اور آگے جانا ہے۔‘‘
مگر یہ پوچھنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ کیونکہ گائیڈ چلتے چلتے خود ہی ٹھہر گیا۔ ساتھ ہی گھنٹیوں کی آواز بھی تھم گئی۔ چاروں سیاح گردنیں گھما گھما کر گرد و پیش کا منظر دیکھنے لگے۔ گائیڈ نے کھنکار کر انھیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ پھر وہ ریت پر ایک خاص جگہ جہاں کچھ کھنڈر پتھروں کی صورت میں پڑے تھے، اشارہ کرکے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگا:
’’صاحب۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں غنیم کے حملے سے پہلے ہوٹل موہن جو ڈارو ہوا کرتا تھا۔ جس کی اکہتر منزلیں تھیں اور جہاں پہلی مرتبہ پاکستانی خلا پیما نے چاند سے ریڈیو پر پیغام بھیجا تھا...‘‘