شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُرفضا باغوں اور پھلواریوں میں گھری ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ ہے جو دور تک پھیلتا چلا گیا ہے۔ ان عمارتوں میں کئی چھوٹے بڑے دفتر ہیں جن میں کم و بیش چار ہزار آدمی کام کرتے ہیں۔ دن کے وقت اس علاقے کی چہل پہل اور گہما گہمی عموماً کمروں کی چار دیواریوں ہی میں محدود رہتی ہے مگر صبح کو ساڑھے دس بجے سے پہلے اور سہ پہر کو ساڑھے چار بجے کے بعد وہ سیدھی اور چوڑی چکلی سڑک، جو شہر کے بڑے دروازے سے اس علاقے تک جاتی ہے، ایک ایسے دریا کا روپ دھار لیتی ہے جو پہاڑوں پر سے آیا ہو اور اپنے ساتھ بہت سا خس و خاشاک بہا لایا ہو۔
گرمی کا زمانہ، سہ پہر کا وقت، سڑکوں پر درختوں کے سائے لمبے ہونے شروع ہو گئے تھے مگر ابھی تک زمین کی تپش کا یہ حال تھا کہ جوتوں کے اندر تلوے جُھلسے جاتے تھے۔ ابھی ابھی ایک چھڑکائو گاڑی گزری تھی۔ سڑک پر جہاں جہاں پانی پڑا تھا ابخرات اٹھ رہے تھے۔
شریف حسین کلرک درجہ دوم معمول سے کچھ سویرے دفتر سے نکلا اور اس بڑے پھاٹک کے باہر آکر کھڑا ہو گیا جہاں سے تانگے والے شہر کی سواریاں لے جایا کرتے تھے۔ گھر کو لوٹتے ہوئے آدھے راستے تک تانگے میں سوار ہو کر جانا ایک ایسا لطف تھا جو اسے مہینے کے شروع کے صرف چار پانچ روز ہی ملا کرتا تھا اور آج کا دن بھی انھی مبارک دنوں میں سے ایک تھا۔ آج خلاف معمول تنخواہ کے آٹھ روز بعد اس کی جیب میں پانچ روپے کا نوٹ اور کچھ آنے پیسے پڑے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اس کی بیوی مہینے کے شروع ہی میں بچوں کو لے کر میکے چلی گئی تھی اور گھر میں وہ اکیلا رہ گیا تھا۔ دن میں دفتر کے حلوائی سے دو چار پوریاں لے کر کھا لی تھیں اور اوپر سے پانی پی کر پیٹ بھر لیا تھا۔ رات کو شہر کے کسی سستے سے ہوٹل میں جانے کی ٹھہرائی تھی۔ بس بے فکری ہی بے فکری تھی۔ گھر میں کچھ ایسا اثاثہ تھا نہیں جس کی رکھوالی کرنی پڑتی، اس لیے وہ آزاد تھا کہ جب چاہے گھر جائے اور چاہے تو ساری رات سڑکوں ہی پر گھومتا رہے۔
تھوڑی دیر میں دفتروں سے کلرکوں کی ٹولیاں نکلنی شروع ہوئیں۔ ان میں ٹائپسٹ، ریکارڈ کیپر، ڈسپیچر، اکائونٹنٹ، ہیڈ کلرک، سپرنٹنڈنٹ، غرض ادنیٰ و اعلیٰ ہر درجہ اور حیثیت کے کلرک تھے اور اسی لحاظ سے ان کی وضع قطع بھی ایک دوسرے سے جدا تھی، مگر بعض ٹائپ خاص طور پر نمایاں تھے۔ سائیکل سوار آدھی آستینوں کی قمیص، خاکی زین کے نیکر اور چپل پہنے، سر پر سولاہیٹ رکھے، کلائی پر گھڑی باندھے، رنگدار چشمہ لگائے، بڑی بری توندوں والے بابو چھاتا کھولے، منہ میں بیڑی، بغلوں میں فائلوں کے گٹھے دبائے۔ ان فائلوں کو وہ قریب قریب ہر روز اس امید میں ساتھ لے جاتے کہ جو گتھیاں وہ دفتر کے غل غپاڑے میں نہیں سلجھا سکے، ممکن ہے گھر کی یکسوئی میں ان کا کوئی حل سوجھ جائے۔ مگر گھر پہنچتے ہی وہ گرہستی کاموں میں ایسے الجھ جاتے کہ انھیں دیکھنے تک کا موقع نہ ملتا اور اگلے روز انھیں یہ مفت کا بوجھ جوں کا توں واپس لے آنا پڑا۔
بعض منچلے تانگے، سائیکل اور چھاتے سے بے نیاز، ٹوپی ہاتھ میں، کوٹ کاندھے پر، گریبان کھلا ہوا، جسے بٹن ٹوٹ جانے پر انھوں نے سیفٹی پن سے بند کرنے کی کوشش کی تھی اور جس کے نیچے سے چھاتی کے گھنے بال پسینے میں تربتر نظر آتے تھے۔ نئے رنگروٹ سستے، سلے سلائے، ڈھیلے ڈھالے، بدقطع سوٹ پہنے اس گرمی کے عالم میں واسکٹ اور نکٹائی کالر تک سے لیس، کوٹ کی بالائی جیب میں دو دو تین تین فونٹین پن اور پنسلیں لگائے خراماں خراماں چلے آرہے تھے۔
گو ان میں سے زیادہ تر کلرکوں کی مادری زبان ایک ہی تھی مگر وہ لہجہ بگاڑ بگاڑ کر غیر زبان میں باتیں کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ وہ طمانیت نہ تھی جو کسی غیر زبان پر قدرت حاصل ہونے پر اس میں باتیں کرنے پر اکساتی ہے بلکہ یہ کہ انھیں دفتر میں دن بھر اپنے افسروں سے اسی غیر زبان میں بولنا پڑتا تھا اور اس وقت وہ باہم بات چیت کرکے اس کی مشق بہم پہنچا رہے تھے۔
ان کلرکوں پر ہر عمر کے لوگ تھے۔ ایسے کم عمر، بھولے بھالے ناتجربہ کار بھی جن کی ابھی مَسیں بھی پوری نہیں بھیگی تھیں اور جنھیں ابھی اسکول سے نکلنے تین مہینے بھی نہیں ہوئے تھے، اور ایسے عمر رسیدہ، جہاں دیدہ، گھاگ بھی جن کی ناک پر سالہا سال عینک کے استعمال کے باعث گہرا نشان پڑ گیا تھا اور جنھیں اس سڑک کے اتار چڑھائو دیکھتے دیکھتے، پچیس پچیس تیس تیس برس ہو چکے تھے۔ بیشتر کارکنوں کی پیٹھ میں گدی سے ذرا نیچے خم سا آگیا تھا اور کند استروں سے متواتر ڈاڑھی مونڈھتے رہنے کے باعث ان کے گالوں اور ٹھوڑی پر بالوں میں جڑیں پھوٹ نکلی تھیں جنھوں نے بے شمار ننھی پھنسیوں کی شکل اختیار کرلی تھی۔
پیدل چلنے والوں میں بہتیرے لوگ بخوبی جانتے تھے کہ دفتر سے ان کے گھر کو جتنے راستے جاتے ہیں ان کا فاصلہ کَے کَے ہزار قدم ہے۔ ہر شخص افسروں کے چڑچڑے پن یا ماتحتوں کی نالائقی پر نالاں نظر آتا تھا۔
ایک تانگے کی سواریوں میں ایک کی کمی دیکھ کر شریف حسین لپک کر اس میں سوار ہو گیا۔ تانگہ چلا اور تھوڑی دیر میں شہر کے دروازے کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ شریف حسین نے اکنی نکال کر کوچوان کو دی اور گھر کے بجائے شہر کی جامع مسجد کی طرف چل پڑا جس کی سیڑھیوں کے گرد اگرد ہر روز شام کو کہنہ فروشوں اور سستا مال بیچنے والوں کی دکانیں سجا کرتی تھیں اور میلہ سا لگا کرتا تھا۔ دنیا بھر کی چیزیں اور ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ یہاں ملتے تھے۔ اگر مقصد خریدوفروخت نہ ہو تو بھی یہاں اور لوگوں کو چیزیں خریدتے، مول تول کرتے دیکھنا بجائے خود ایک پر لطف تماشا تھا۔
شریف حسین لیکچر باز حکیموں، سنیاسیوں، تعویذ گنڈے بیچنے والے سیانوں اور کھڑے کھڑے تصویر اتار دینے والے فوٹو گرافروں کے جمگھٹو کے پاس ایک ایک دو دو منٹ رکتا، سیر دیکھتا اس طرف جا نکلا جہاں کباڑیوں کی دکانیں تھیں۔ یہاں اسے مختلف قسم کی بے شمار چیزیں نظر آئیں۔ ان میں سے بعض ایسی تھیں جو اپنی اصلی حالت میں بلا شبہ صنعت کا اعلیٰ نمونہ ہوں گی مگر ان کباڑیوں کے ہاتھ پڑتے پڑتے یا تو ان کی صورت اس قدر مسخ ہو گئی تھی کہ پہچانی ہی نہ جاتی تھی یا ان کا کوئی حصہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہو جس سے وہ بیکار ہو گئی تھیں۔ چینی کے ظروف اور گلدان، ٹیبل لیمپ، گھڑیاں، جلی ہوئی بیٹریاں، چوکھٹے، گرامو فون کے کل پرزے، جراحی کے آلات، ستار، بھس بھرا ہرن، پیتل کے لم ڈھینگ، بدھ کا نیم قد مجسمہ ...
ایک دکان پر اس کی نظر سنگ مرمر کے ایک ٹکڑے پر پڑی جو معلوم ہوتا تھا کہ مغل بادشاہوں کے کسی مقبرے یا بارہ دری سے اکھاڑا گیا ہے۔ اس کا طول کوئی سوا فٹ تھا اور عرض ایک فٹ۔ شریف حسین نے اس ٹکڑے کو اٹھا کر دیکھا۔ یہ ٹکڑا ایسی نفاست سے تراشا گیا تھا کہ اس نے محض یہ دیکھنے کے لیے کہ بھلا کباڑی اس کے کیا دام بتائے گا قیمت دریافت کی۔
تین روپے! کباڑی نے اس کے دام کچھ زیادہ نہیں بتائے تھے مگر آخر اسے اس کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اس نے ٹکڑا رکھ دیا اور چلنے لگا۔
’’کیوں حضرت چل دیے؟ آپ بتایئے کیا دیجیے گا!‘‘
وہ رک گیا۔ اسے یہ ظاہر کرتے ہوئے شرم سی آئی کہ اسے اس چیز کی ضرورت نہ تھی اور اس نے محض اپنے شوق تحقیق کو پورا کرنے کے لیے قیمت پوچھی تھی۔ اس نے سوچا، دام اس قدر کم بتائو کہ جو کباڑی کو منظور نہ ہوں۔ کم از کم وہ اپنے دل میں یہ تو نہ کہے کہ یہ کوئی کنگلا ہے جو دکانداروں کا وقت ضائع اور اپنی حرص پوری کرنے آیا ہے۔
’’ہم تو ایک روپیہ دیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر شریف حسین نے چاہا کہ جلد جلد قدم اٹھاتا ہوا کباڑی کی نظروں سے اوجھل ہوجائے مگر اس نے اس کی مہلت ہی نہ دی۔
’’اجی سنیے تو۔ کچھ زیادہ نہیں دیں گے؟ سوا روپیہ بھی نہیں ... اچھا لے جایئے۔‘‘
شریف حسین کو اپنے آپ پر غصہ آیا کہ میں نے بارہ آنے کیوں نہ کہے۔ اب لوٹنے کے سوا چارہ ہی کیا تھا۔ قیمت ادا کرنے سے پہلے اس نے اس مر مریں ٹکڑے کو اٹھا کر دوبارہ دیکھا بھالا کہ اگر ذرا سا بھی نقص نظر آئے تو اس سودے کو منسوخ کر دے۔ مگر وہ ٹکڑا بے عیب تھا۔ نہ جانے کباڑی نے اسے اس قدر سستا بیچنا کیوں قبول کیا تھا۔
رات کو جب وہ کھلے آسمان کے نیچے اپنے گھر کی چھت پر اکیلا بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا تو اس سنگ مر مر کے ٹکڑے کا ایک مصرف اس کے ذہن میں آیا۔ خدا کے کارخانے عجیب ہیں۔ وہ بڑا غفور الرحیم ہے۔ کیا عجب اس کے دن پھر جائیں۔ وہ کلرک درجہ دوم سے ترقی کرکے سپرنٹنڈنٹ بن جائے اور اس کی تنخواہ چالیس سے بڑھ کر چار سو ہوجائے ... یہ نہیں تو کم سے کم ہیڈ کلرکی ہی سہی۔ پھر اسے ساجھے کے مکان میں رہنے کی ضرورت نہ رہے بلکہ وہ کوئی چھوٹا سا مکان لے لے اور اس مر مریں ٹکڑے پر اپنا نام کندہ کرا کے دروازے کے باہر نصب کر دے۔
مستقبل کی یہ خیالی تصویر اس کے ذہن پر کچھ اس طرح چھا گئی کہ یا تو وہ اس مر مریں ٹکڑے کو بالکل بے مصرف سمجھتا تھا یا اب اسے ایسا محسوس ہونے لگا گویا وہ ایک عرصے سے اس قسم کے ٹکڑے کی تلاش میں تھا اور اگر اسے نہ خریدتا تو بڑی بھول ہوتی۔
شروع شروع میں جب وہ ملازم ہوا تھا تو اس کا کام کرنے کا جوش اور ترقی کا ولولہ انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ مگر دو سال کی سعیٔ لا حاصل کے بعد رفتہ رفتہ اس کا یہ جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور مزاج میں سکون آچلا تھا۔ مگر اس سنگ مر مر کے ٹکڑے نے پھر اس کے خیالوں میں ہلچل ڈال دی۔ مستقبل کے متعلق طرح طرح کے خوش آئند خیالات ہر روز اس کے دماغ میں چکر لگانے لگے۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، دفتر جاتے، دفتر سے آتے، کوٹھیوں کے باہر لوگوں کے نام کے بورڈ دیکھ کر، یہاں تک کہ جب مہینہ ختم ہوا اور اسے تنخواہ ملی تو اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس سنگ مر مر کے ٹکڑے کو شہر کے ایک مشہور سنگ تراش کے پاس لے گیا، جس نے بہت چابکدستی سے اس پر اس کا نام کندہ کرکے کونوں میں چھوٹی چھوٹی خوشنما بیلیں بنا دیں۔
اس سنگ مر مر کے ٹکڑے پر اپنا نام کھدا ہوا دیکھ کر اسے ایک عجیب سی خوشی ہوئی۔ زندگی میں شاید یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے اپنا نام اس قدر جلی حروف میں لکھا ہوا دیکھا ہو۔
سنگ تراش کی دکان سے روانہ ہوا تو بازار میں کئی مرتبہ اس کا جی چاہا کہ کتبہ پر سے اس اخبار کو اتار ڈالے جس میں سنگ تراش نے اسے لپیٹ دیا تھا اور اس پر ایک نظر اور ڈال لے، مگر ہر بار ایک نامعلوم حجاب جیسے اس کے ہاتھ پکڑ لیتا، شاید وہ راہ چلتوں کی نگاہوں سے ڈرتا کہ کہیں وہ اس کتبہ کو دیکھ کر اس کے ان خیالات کو نہ بھانپ جائیں جو پچھلے کئی دنوں سے دماغ پر مسلط تھے۔
گھر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی اس نے اخبار اتار پھینکا اور نظریں کتبہ کی دلکش تحریر پر گاڑے دھیرے دھیرے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ بالائی منزل میں اپنے مکان کے دروازے کے سامنے پہنچ کر رک گیا، جیب سے چابی نکالی، قفل کھولنے لگا۔ پچھلے دو برس میں آج پہلی مرتبہ اس پر یہ انکشاف ہوا کہ اس کے مکان کے دروازے کے باہر ایسی کوئی جگہ ہی نہیں کہ اس پر کوئی بورڈ لگایا جاسکے۔ اگر جگہ ہوتی بھی تو اس قسم کے کتبے وہاں تھوڑا ہی لگائے جاتے ہیں۔ ان کے لیے تو بڑا سا مکان چاہیے جس کے پھاٹک کے باہر لگایا جائے تو آتے جاتے کی نظر بھی پڑے ...
قفل کھول کر مکان کے اندر پہنچا اور سوچنے لگا کہ فی الحال اس کتبہ کو کہاں رکھوں۔ اس کے ایک حصۂ مکان میں دو کوٹھڑیاں، ایک غسل خانہ اور ایک باورچی خانہ تھا۔ الماری صرف ایک ہی کوٹھڑی میں تھی مگر اس کے کواڑ نہیں تھے۔ بالآخر اس نے کتبہ کو اسی بے کواڑ کی الماری میں رکھ دیا۔
ہر روز شام کو جب وہ دفتر سے تھکا ہارا واپس آتا تو سب سے پہلے اس کی نظر اس کتبہ ہی پر پڑتی۔ امیدیں اسے سبز باغ دکھاتیں اور دفتر کی مشقت کی تکان کسی قدر کم ہوجاتی۔ دفتر میں جب کبھی اس کا کوئی ساتھی کسی معاملے میں اس کی رہنمائی کا جویا ہوتا تو اپنی برتری کے احساس سے اس کی آنکھیں چمک اٹھتیں، جب کبھی کسی ساتھی کی ترقی کی خبر سنتا، آرزوئیں اس کے سینے میں ہیجان پیدا کر دیتیں۔ افسر کی ایک ایک نگاہ لطف و کرم کا نشہ اسے آٹھ آٹھ دن رہتا۔
جب تک اس کی بیوی بچے نہیں آئے وہ اپنے خیالوں ہی میں مگن رہا۔ نہ دوستوں سے ملتا، نہ کھیل تماشوں میں حصہ لیتا، رات کو جلد ہی ہوٹل سے کھانا کھا کر گھر آجاتا اور سونے سے پہلے گھنٹوں عجیب عجیب خیالی دنیائوں میں رہتا، مگر ان کے آنے کی دیر تھی کہ نہ تو وہ فراغت ہی رہی اور نہ وہ سکون ہی ملا۔ ایک بار پھر گرہستی کے فکروں نے اسے ایسا گھیر لیا کہ مستقبل کی یہ سہانی تصویریں رفتہ رفتہ دھندلی پڑ گئیں۔
کتبہ سال بھر تک اسی بے کواڑ کی الماری میں پڑا رہا۔ اس عرصے میں اس نے نہایت محنت سے کام کیا۔ اپنے افسروں کو خوش رکھنے کی انتہائی کوشش کی مگر اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔
اب اس کے بیٹے کی عمر چار برس کی ہو گئی تھی اور اس کا ہاتھ اس بے کواڑ کی الماری تک بخوبی پہنچ جاتا تھا۔ شریف حسین نے اس خیال سے کہ کہیں اس کا بیٹا کتبہ کو گرا نہ دے، اسے وہاں سے اٹھا لیا اور اپنے صندوق میں کپڑوں کے نیچے رکھ دیا۔
ساری سردیاں یہ کتبہ اس صندوق ہی میں پڑا رہا۔ جب گرمی کا موسم آیا تو اس کی بیوی کو اس کے صندوق سے فالتو چیزوں کو نکالنا پڑا۔ چنانچہ دوسری چیزوں کے ساتھ بیوی نے کتبہ بھی نکال کر کاٹھ کے اس پرانے بکس میں ڈال دیا جس میں ٹوٹے ہوئے چوکھٹے، بے بال کے برش، بے کار صابن دانیاں، ٹوٹے ہوئے کھلونے اور ایسی ہی اور دوسری چیزیں پڑی رہتی تھیں۔
شریف حسین نے اپنے مستقبل کے متعلق زیادہ سوچنا شروع کر دیا تھا۔ دفتروں کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ ترقی لطیفہ غیبی سے نصیب ہوتی ہے، کڑی محنت جھیلنے اور جان کھپانے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اس کی تنخواہ میں ہر دوسرے برس تین روپے کا اضافہ ہوجاتا جس سے بچوں کی تعلیم وغیرہ کا خرچ نکل آتا اور اسے زیادہ تنگی نہ اٹھانی پڑتی۔
پے در پے مایوسیوں کے بعد، جب اس کو ملازمت کرتے بارہ برس ہو چکے تھے اور اس کے دل سے رفتہ رفتہ ترقی کے تمام ولولے نکل چکے تھے اور کتبہ کی یاد تک ذہن سے محو ہو چکی تھی تو اس کے افسروں نے اس کی دیانت داری اور پرانی کار گزاری کا خیال کرکے اسے تین مہینے کے لیے عارضی طور پر درجہ اول کے ایک کلرک کی جگہ دے دی جو چھٹی جانا چاہتا تھا۔
جس روز اسے یہ عہدہ ملا اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی، اس نے تانگے کا بھی انتظار نہ کیا بلکہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا پیدل ہی بیوی کو یہ مژدہ سنانے چل دیا۔ شاید تانگہ اسے کچھ زیادہ جلدی گھر نہ پہنچا سکتا!
اگلے مہینے اس نے نیلام گھر سے ایک سستی سی لکھنے کی میز اور ایک گھومنے والی کرسی خریدی، میز کے آتے ہی اسے پھر کتبہ کی یاد آئی اور اس کے ساتھ ہی اس کی سوئی ہوئی اُمنگیں جاگ اٹھیں۔ اس نے ڈھونڈ ڈھانڈ کے کاٹھ کی پیٹی میں سے کتبہ نکالا، صابن سے دھویا پونچھا اور دیوار کے سہارے میز پر ٹکا دیا۔
یہ زمانہ اس کے لیے بہت کٹھن تھا کیونکہ وہ اپنے افسروں کو اپنی برتر کار گزاری دکھانے کے لیے چھٹی پر گئے ہوئے کلرک سے دگنا کام کرتا۔ اپنے ماتحتوں کو خوش رکھنے کے لیے بہت سا ان کا کام بھی کر دیتا۔ گھر پر آدھی رات تک فائلوں میں غرق رہتا، پھر بھی وہ خوش تھا۔ ہاں جب کبھی اسے اس کلرک کی واپسی کا خیال آتا تو اس کا دل بجھ سا جاتا۔ کبھی کبھی وہ سوچتا، ممکن ہے وہ اپنی چھٹی کی میعاد بڑھوالے ... ممکن ہے وہ بیمار پڑ جائے ... ممکن ہے وہ کبھی نہ آئے ...
مگر جب تین مہینے گزرے تو نہ تو اس کلرک نے چھٹی کی میعاد ہی بڑھوائی اور نہ بیمار ہی پڑا، البتہ شریف حسین کو اپنی پرانی جگہ پر آ جانا پڑا۔
اس کے بعد جو دن گزرے وہ اس کے لیے بڑی مایوسی اور افسردگی کے تھے۔ تھوڑی سی خوشحالی کی جھلک دیکھ لینے کے بعد اب اسے اپنی حالت پہلے سے بھی زیادہ ابتر معلوم ہونے لگی تھی۔ اس کا جی کام میں مطلق نہ لگتا تھا۔ مزاج میں آلکس اور حرکات میں سستی سی پیدا ہونے لگی۔ ہر وقت بیزار بیزار سا رہتا۔ نہ کبھی ہنستا، نہ کسی سے بولتا چالتا، مگر یہ کیفیت چند دن سے زیادہ نہ رہی۔ افسروں کے تیور جلد ہی اسے راہ راست پر آئے۔
اب اس کا بڑا لڑکا چھٹی میں پڑھتا تھا اور چھوٹا چوتھی میں، اور منجھلی لڑکی ماں سے قرآن مجید پڑھتی، سینا پرونا سیکھتی اور گھر کے کام کاج میں اس کا ہاتھ بٹاتی۔ باپ کی میز کرسی پر بڑے لڑکے نے قبضہ جما لیا۔ وہاں بیٹھ کر وہ اسکول کا کام کیا کرتا چونکہ میز کے ہلنے سے کتبہ گر جانے کا خدشہ رہتا تھا اور پھر اس نے میز کی بہت سی جگہ بھی گھیر رکھی تھی، اس لیے اس لڑکے نے اسے اٹھا کر پھر اسی بے کواڑ کی الماری میں رکھ دیا۔
سال پر سال گزرتے گئے۔ اس عرصہ میں کتبہ نے کئی جگہیں بدلیں، کبھی بے کواڑ کی الماری میں تو کبھی میز پر، کبھی صندوقوں کے اوپر تو کبھی چار پائی کے نیچے، کبھی بوری میں تو کبھی کاٹھ کے بکس میں۔ ایک دفعہ کسی نے اٹھا کر باورچی خانے کے اس بڑے طاق میں رکھ دیا جس میں روز مرہ کے استعمال کے برتن رکھے رہتے تھے۔ شریف حسین کی نظر پڑ گئی، دیکھا تو دھوئیں سے اس کا سفید رنگ پیلا پڑ چلا تھا، اٹھا کر دھویا پونچھا اور پھر بے کواڑ کی الماری میں رکھ دیا، مگر چند ہی روز میں اسے پھر غائب کر دیا گیا اور اس کی جگہ وہاں کاغذی پھولوں کے بڑے بڑے گملے رکھ دیے گئے جو شریف حسین کے بڑے بیٹے کے کسی دوست نے اسے تحفے میں دیے تھے۔ رنگ پیلا پڑ جانے سے کتبہ الماری میں رکھا ہوا بدنما معلوم ہوتا تھا مگر اب کاغذی پھولوں کے سرخ سرخ رنگوں سے الماری میں جیسے جان پڑ گئی تھی اور ساری کوٹھڑی دہک اٹھی تھی۔
اب شریف حسین کو ملازم ہوئے پورے بیس سال گزر چکے تھے۔ اس کے سر کے بال نصف سے زیادہ سفید ہو چکے تھے اور پیٹھ میں گدی سے ذرا نیچے خم آگیا تھا۔ اب بھی کبھی کبھی اس کے دماغ میں خوشحالی و فارغ البالی کے خیالات چکر لگاتے مگر اب ان کی کیفیت پہلے کی سی نہ تھی کہ خواہ وہ کوئی کام کر رہا ہو۔ تصورات کا ایک تسلسل ہے کہ پہروں ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اب اکثر اوقات ایک آہ دم بھر میں ان تصورات کو اڑا لے جاتی اور پھر بیٹی کی شادی، لڑکوں کی تعلیم، اس کے بڑھتے ہوئے اخراجات، پھر ساتھ ہی ساتھ ان کے لیے نوکریوں کی تلاش ... یہ ایسی فکریں نہ تھیں کہ پل بھر کو بھی اس خیال کو کسی اور طرف بھٹکنے دیتیں۔
پچپن برس کی عمر میں اسے پنشن مل گئی۔ اب اس کا بڑا بیٹا ریل کے مال گودام میں کام کرتا تھا۔ چھوٹا کسی دفتر میں ٹائپسٹ تھا اور اس سے چھوٹا انٹرنس میں پڑتا تھا۔ اپنی پنشن اور لڑکوں کی تنخواہیں سب مِل ملا کے کوئی ڈیڑھ سو روپے ماہوار کے لگ بھگ آمدنی ہوجاتی تھی جس میں بخوبی گزر ہونے لگی۔ علاوہ ازیں اس کا ارادہ کوئی چھوٹا موٹا بیوپار شروع کرنے کا بھی تھا مگر مندے کے ڈر سے ابھی پورا نہ ہو سکا تھا۔
اپنی کفایت شعاری اور بیوی کی سلیقہ مندی کی بدولت اس نے بڑے بیٹے اور بیٹی کی شادیاں خاصی دھوم دھام سے کردی تھیں۔ ان ضروری کاموں سے نمٹ کر اس کے جی میں آئی کہ حج کر آئے مگر اس کی توفیق نہ ہو سکی۔ البتہ کچھ دنوں مسجدوں کی رونق خوب بڑھائی مگر پھر جلد ہی بڑھاپے کی کمزوریوں اور بیماریوں نے دبانا شروع کر دیا اور زیادہ تر چارپائی ہی پر پڑا رہنے لگا۔
جب اسے پنشن وصول کرتے تین سال گزر گئے تو جاڑے کی ایک رات کو وہ کسی کام سے بستر سے اٹھا۔ گرم گرم لحاف سے نکلا تھا۔ پچھلے پہر کی سرد اور تند ہوا تیر کی طرح اس کے سینے میں لگی اور اسے نمونیا ہو گیا بیٹوں نے ایک کے بہتیرے علاج معالجے کرائے۔ اس کی بیوی اور بہو دن رات اس کی پٹی سے لگی بیٹھی رہیں مگر افاقہ نہ ہوا اور وہ کوئی چار دن بستر پر پڑے رہنے کے بعد مر گیا۔
اس کی موت کے بعد اس کا بڑا بیٹا مکان کی صفائی کرا رہا تھا کہ پرانے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے ایک بوری میں اسے یہ کتبہ مل گیا۔ بیٹے کو باپ سے بے حد محبت تھی، کتبہ پر باپ کا نام دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو بھر آئے اور وہ دیر تک ایک محویت کے عالم میں اس کی خطاطی اور نقش و نگار کو دیکھتا رہا۔ اچانک اسے ایک بات سوجھی جس نے اس کی آنکھوں میں چمک پیدا کردی۔
اگلے روز وہ کتبہ کو ایک سنگ تراش کے پاس لے گیا اور اس سے کتبہ کی عبارت میں تھوڑی سی ترمیم کرائی اور پھر اسی شام اسے اپنے باپ کی قبر پر نصب کر دیا۔
۱۹۴۷ء