صفحات

ہفتہ، 20 جنوری، 2018

گھر بنانا چاہتا ہوں از منیر نیازی

گھر بنانا چاہتا ہوں

گھر بنانا چاہتا ہوں میرا گھر کوئی نہیں
دامنِ کہسار میں یا ساحلِ دریا کے پاس
اونچی اونچی چوٹیوں پر سرحدِ صحرا کے پاس
متفق آبادیوں میں، وُسعتِ تنہا کے پاس
روزِ روشن کے کنارے یا شبِ یلدا کے پاس
اس پریشانی میں میرا راہبر کوئی نہیں
خواہشیں ہی خواہشیں ہیں اور ہنر کوئی نہیں
گھر بنانا چاہتا ہوں میرا گھر کوئی نہیں

سر وادی سینا

سر وادی سینا

پھر برق فروزاں ہے سر وادی سینا
پھر رنگ پہ ہے شعلہ رخسار حقیقت
اے دیدہ بینا
اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے
اب قاتل جاں چارہ گر کلفت غم ہے
گلزار ارم پرتو صحرا عدم ہے
پندار جنوں
حوصلہ راہ عدم ہے کہ نہیں ہے
پھر برق فروزاں ہے سر وادی سینا
اے دیدہ بینا
پھر دل کو مصفا کرو اس لوح پہ شاید
مابین من و تو نیا پیماں کوئی اترے
اب رسم ستم حکمت خاصان زمیں ہی
تائید ستم مصلحت مفتی دیں ہے
اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے
اور سنو
کہ شاید یہ نور صیقل ہے اس صحیفے کا حرف اول
جو ہر کس و ناقص زمیں پر
دل گدایان اجمعیں پر اتر رہا ہے فلک سے اب کے
سنو کہ سر پہ لم یزل کے ہمی تمہی بندگان بے بس
علیم بھی ہیں خبیر بھی ہیں
سنو کہ ہم بے زبان و بے کس بشیر بھی ہیں نذیر بھی ہیں

وَیَبقیٰ وَجہُ رَبِّکَ

وَیَبقیٰ وَجہُ رَبِّکَ

ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہلِ حِکم کے سر اُوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بُت اُٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اُچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اور راج کرے گی خلقِ خُدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

             امریکہ۔ جنوری۱۹۷۹ء