صفحات

پیر، 1 جنوری، 2018

ہے کان اس کے زلف معنبر لگی ہوئی از ذوق

ہے کان اس کے زلف معنبر لگی ہوئی
چھوڑے گی یہ، نہ، بال برابر، لگی ہوئی
میرے دل گرفتہ کی واشد، ہو کس طرح
ہیہات، یاں گرہ ہے گرہ پر لگی ہوئی
کھٹکے گی، بعد مرگ بھی اس کی مژہ کی نوک
وہ پھانس ہے کلیجے کے اندر لگی ہوئی
میت کو غسل دیجو نہ اس خاک سار کی
ہے تن پہ خاک کوچۂ دل بر لگی ہوئی
چاٹے بغیر خوں کوئی رکتی ہے تیری تیغ
بے ڈھب ہے اس کو چاٹ ستم گر لگی ہوئی
بیٹھے ہیں دل کے بیچنے والے ہزار ہا
گزری ہے اس کی راہ گزر پر لگی ہوئی
عیسیٰ اگرچہ پاس ہے ممکن نہیں شفا
خورشید کو وہ تپ ہے فلک پر لگی ہوئی
کرتی ہے زیرِ برقع فانوس تاک جھانک
پروانے سے ہے شمع مقرر لگی ہوئی
بیٹھے بھرے ہوئے ہیں خم مے کی طرح ہم
پر کیا کریں کہ مہر ہے منہ پر لگی ہوئی
منہ سے لگا ہوا ہے اگر جام مے تو کیا
دل سے ہے یادِ ساقی کوثر لگی ہوئی
اے ذوق اتنا دختر رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

شوق مستی میں، ہے گل گشتِ چمن کا، ہم کو از ذوق

شوق مستی میں، ہے گل گشتِ چمن کا، ہم کو
چاہیے، جائے عصا، گردن مینا، ہم کو
رکھ مکدر نہ بس اے چرخ اب اتنا ہم کو
ہم نے مانا کہ کیا خاک سے پیدا ہم کو
ہم وہ مجنوں ہیں کہ گردِ رم آہو کی طرح
بھاگے ہے، دور ہی سے دیکھ کے، صحرا ہم کو
کس سے، تدبیر درستی ہو، ہماری جوں زلف
کہ شکستوں سے بنایا ہے، سراپا، ہم کو
جا بہ جا، نام تو، جوں نقش نگیں، چھوڑ گیا
خاک گم ہو کے گیا ڈھونڈنے، عنقا، ہم کو
اور ہمدرد کہاں، ہو نہ ہو، اے حضرتِ دل
درد اب تم کو ہمارا ہو تمہارا، ہم کو
آن پہنچی، سرگردابِ فنا، کشتی عمر
ہر نفس بادِ مخالف کا، ہے، جھونکا، ہم کو
ہر قدم، پاؤں میں سر رکھتے ہیں، خار سردشت
اے جنوں، تو نے، ہے کانٹوں میں گھسیٹا ہم کو
کرتے، جوں کوہ، نہیں ہم تو سخن میں، سبقت
پر، وہ کچھ ہم سے سنے گا، جو کہے گا، ہم کو
ہم، گئے جس کی طرف، جوں گل بازی، اس نے
پاس آنے نہ دیا، دور ہی پھینکا، ہم کو
ایک دم، عمر طبیعی ہے یہاں، مثلِ حباب
فکرِ امروز ہے، نے ہے غم فردا، ہم کو
جتنے عاشق ہیں، بہم ایک کا ہے ایک عزیز
شمع سے، چاہیے ہے، خون کا دعویٰ، ہم کو
مل گئیں، خاک میں، جو صورتیں ان کا ہے خیال
کیوں نہ فانوس خیالی ہو بگولا، ہم کو
ہم نہ کہتے تھے کہ ذوق اس کی تو زلفوں کو، نہ چھیڑ
اب وہ برہم ہے تو ہے تجھ کو قلق یا، ہم کو