جمعرات، 28 دسمبر، 2017
بدھ، 27 دسمبر، 2017
ہوش کسی کا بھی نہ رکھ جلوہ گۂ نماز میں از اصغر
ہوش کسی کا بھی نہ رکھ جلوہ گۂ نماز میں
بلکہ خدا کو بھول جا سجدۂ بے نیاز میں
رازِ نشاطِ خلد ہے خندۂ دل نواز میں
غیب و شہود کے رموز نرگسِ نیم باز میں
آج وہ اضطرابِ شوق حد سے سوا گزر گیا
اور بھی جان پڑ گئی عشوۂ جاں گداز میں
اس سے زیادہ اور کیا شوخیِ نقشِ پا کہوں
برق سی اک چمک گئی آج سرِ نیاز میں
آتشِ گل سے ہر طرف دشت و چمن دہک اُٹھا
ایک شرارِ طور ہے خلوتیانِ راز میں
پردۂ دہر کچھ نہیں ایک ادائے شوق ہے
خاک اُٹھا کے ڈال دی دیدۂ امتیاز میں
سب ہے ادائے بے خودی ورنہ ادائے حسن کیا
ہوش کا جب گزر نہیں اس کی حریمِ ناز میں
قطرہ دریاے آشنائی ہے از فانی
قطرہ دریاے آشنائی ہے
کیا تری شانِ کبریائی ہے
وہم کو بھی ترا نشاں نہ ملا
نارسائی سی نارسائی ہے
کون دل ہے جو درد مند نہیں
کیا ترے درد کی خدائی ہے
جلوۂ یار کا بھکاری ہوں
شش جہت کاسۂ گدائی ہے
مژدۂ ّجنتِ وصال ہے موت
زندگی محشرِ جدائی ہے
موت ہی ساتھ دے تو دے فانی
عمر کو عذرِ بے وفائی ہے
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)