صفحات

منگل، 18 مئی، 2021

ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے...! از عنایت علی خان

 ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے...!


زباں پر جب مریضِ ہجر فریا دِلی لایا
وفورِ غم سے یوں تڑپا عناصر کو ترس آیا
زمیں سے آہ اٹھی اور فلک نے خون برسایا
اثر تو چارہ گر پر بھی ہوا لیکن یہ فرمایا
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

مجھے ہمسائے کے گھر میں جونہی شعلے نظر آئے
تو قبل اس سے کہ یہ آتش مرے گھر تک پہنچ جائے
بہ عجلت تھانے اور فائر بریگیڈ فون کھڑکائے
مگر دونوں جگہ سے یہ جواب لا جواب آئے
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

ابھی پچھلے دنوں جب ایک تاجر ہو گیا اغوا
اور اس اغوا کا اخباروں میں شدت سے ہوا چرچا
خود اس کے گھر میں تو گویا قیامت ہو گئی برپا
رپٹ لکھوانے تھانے پہنچے تو ایس ایچ او بولا
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

مِرا اک دوست مدت بعد مجھ سے ملنے آیا کل
یہیں دل کا پڑا دورہ تو میں بھی ہو گیا بیکل
وہ بولا تیسرا دورہ ہے دل کے وارڈ میں لے چل
وہاں پہنچے تو بولا ڈاکٹر کچھ سوچ کو اک پل
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

اور اُس دولھا کا قصہ آپ نے بھی تو سنا ہو گا
اسے جب آرسی مصحف کی خاطر گھر میں بلوایا
کہ لڑکا اندر آئے اور دلھن کا دیکھ لے چہرا
تو دروازے پہ پہنچا اور یہ کہہ کر پلٹ آیا
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے از باقی صدیقی

 داغ دل ہم کو یاد آنے لگے

لوگ اپنے دیئے جلانے لگے

کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے

یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے

خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے

اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے

رخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے

ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے

ہم تک آئے نہ آئے موسم گل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے

شام کا وقت ہو گیا باقیؔ
بستیوں سے شرار آنے لگے

*باقی صدیقی*

خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی از سراج اورنگ آبادی

 خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی

نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی

شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی

چلی سمت غیب سیں کیا ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہو سو ہری رہی

نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سیں بیاں کروں
کہ شراب صد قدح آرزو خم دل میں تھی سو بھری رہی

وہ عجب گھڑی تھی میں جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی

ترے جوش حیرت حسن کا اثر اس قدر سیں یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں رہی جلا نہ پری کوں جلوہ گری رہی

کیا خاک آتش عشق نے دل بے نوائے سراجؔ کوں
نہ خطر رہا نہ حذر رہا مگر ایک بے خطری رہی

سراج اورنگ آبادی

جمعرات، 14 مئی، 2020

فرشتہ (منٹو)

سرخ کھردرے کمبل میں عطا اللہ نے بڑی مشکل سے کروٹ بدلی۔ اور اپنی مُندی ہوئی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولیں۔ کہرے کی دبیز چادر میں کئی چیزیں لپٹی ہوئی تھیں، جن کے صحیح خدو خال نظر نہیں آتے تھے۔ ایک لمبا، بہت ہی لمبا، نہ ختم ہونے والا دالان تھا یا شاید کمرہ تھا جس میں دھندلی دھندلی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی روشنی جو جگہ جگہ میلی ہورہی تھی۔
دُور بہت دُور، جہاں شاید یہ کمرہ یا دالان ختم ہو سکتا تھا، ایک بہت بڑا بت تھا جس کا دراز قد چھت کو پھاڑتا ہوا باہر نکل گیا تھا، عطا ء اللہ کو اس کا صرف نچلا حصہ نظر آرہا تھا جو بہت پُرہیبت تھا۔ اس نے سوچا کہ شاید یہ موت کا دیوتا ہے جو اپنی ہولناک شکل دکھانے سے قصداً گریز کررہا ہے۔
عطاء اللہ نے ہونٹ گول کرکے اور زبان پیچھے کھینچ کر اس پُرہیبت بت کی طرف دیکھا اور سیٹی بجائی، بالکل اسی طرح جس طرح کتے کو بلانے کے لیے بجائی جاتی ہے۔ سیٹی کا بجنا تھا کہ اس کمرے یا دالان کی دھندلی فضا میں ان گنت دُمیں لہرانے لگیں۔ لہراتے لہراتے یہ سب ایک بہت بڑے شیشے کے مرتبان میں جمع ہو گئیں جو غالباً اسپرٹ سے بھرا ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ مرتبان دھندلی فضا میں بغیر کسی سہارے کے تیرتا ڈولتا اُس کی آنکھوں کے پاس پہنچ گیا۔ اب وہ ایک چھوٹا سا مرتبان تھا جس میں اسپرٹ کے اندر اس کا دل ڈبکیاں لگا رہا تھا اور دھڑکنے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔
عطاء اللہ کے حلق سے دبی دبی چیخ نکلی۔ اس مقام پر جہاں اس کا دل ہوا کرتا تھا، اس نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ رکھا اور بے ہوش ہو گیا۔
معلوم نہیں کتنی دیر کے بعد اسے ہوش آیا مگر جب اس نے آنکھیں کھولیں تو کہرا غائب تھا، وہ دیو ہیکل بت بھی۔ اس کا سارا جسم پسینے میں شرابور تھا اور برف کی طرح ٹھنڈا۔ مگر اس مقام پر جہاں اس کا دل تھا ایک آگ سی لگی ہوئی تھی۔ اس آگ میں کئی چیزیں جل رہی تھیں۔ بے شمار چیزیں۔ اس کی بیوی اور بچوں کی ہڈیاں تو چٹخ رہی تھیں۔ مگر اس کے گوشت پوست اور اس کی ہڈیوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ جھلسا دینے والی تپش میں بھی وہ یخ بستہ تھا۔
اس نے ایک دم اپنے برفیلے ہاتھوں سے اپنی زرد رو بیوی اور سوکھے کے مارے ہوئے بچوں کو اٹھایا اور پھینک دیا۔ اب آگ کے اس الائو میں عرضیوں کے پلندے کے پلندے جل رہے تھے۔ ہر زبان میں لکھی ہوئی عرضیاں۔ ان پر اس کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے دستخط، سب جل رہے تھے آواز پیدا کیے بغیر۔
آگ کے شعلوں کے پیچھے اُسے اپنا چہرہ نظر آیا۔ پسینے سے، سرد پسینے سے تربتر۔ اس نے آگ کا ایک شعلہ پکڑا اور اس سے اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھ کر ایک طرف پھینک دیا۔ الائو میں گرتے ہی یہ شعلہ بھیگے ہوئے اسفنج کی طرح رونے لگا۔ عطاء اللہ کو اس کی یہ حالت دیکھ کر بہت ترس آیا۔
عرضیاں جلتی رہیں اور عطاء اللہ دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کی زرد رو بیوی نمودار ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں گندھے ہوئے آٹے کا تھال تھا۔ جلدی جلدی اس نے پیڑے بنائے اور آگ میں ڈالنا شروع کردیئے جو آنکھ جھپکنے کی دیر میں کوئلے بن کر سلگنے لگے۔ انہیں دیکھ کر عطاء اللہ کے پیٹ میں زور کا درد اٹھا۔ جھپٹا مار کر اس نے تھال میں سے آخری پیڑا اٹھایا اور منھ میں ڈال لیا۔ لیکن آٹا خشک تھا۔ ریت کی طرح۔ اس کا سانس رکنے لگا اور وہ پھر بے ہوش ہو گیا۔
اب اس نے ایک بے جوڑ خواب دیکھنا شروع کیا۔ ایک بہت بڑی محراب تھی جس پر جلی حروف میں یہ شعر لکھا تھا
روز محشر کہ جاں گداز بود
اوّلیں پرسش نماز بود
وہ فوراً پتھریلے فرش پر سجدے میں گر پڑا۔ نماز بخشوانے کے لیے دعا مانگنا چاہی۔ مگر بھوک اس کے معدے کو اس بُری طرح ڈسنے لگی کہ بلبلا اٹھا۔ اتنے میں کسی نے بڑی با رعب آواز میں اسے پکارا 
’’عطاء اللہ‘‘
عطاء اللہ کھڑا ہو گیا۔ محرابوں کے پیچھے۔ بہت پیچھے اونچے منبر پر ایک شخص کھڑا تھا۔ مادر زاد برہنہ، اس کے ہونٹ ساکت تھے، مگر آواز آرہی تھی۔
’’عطاء اللہ! تم کیوں زندہ ہو؟ آدمی صرف اس وقت تک زندہ رہتا ہے، جب تک اسے کوئی سہارا ہو۔ ہمیں بتائو، کوئی ایسا سہارا ہے جس کا تمہیں سہارا ہو؟ ہمیں بتائو، کوئی ایسا سہارا ہے جس کا تمہیں سہا ہو؟۔ تم بیمار ہو۔ تمہاری بیوی آج نہیں تو کل بیمار ہوجائے گی۔ وہ جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا، بیمار ہوتے ہیں۔ زندہ درگور ہوتے ہیں۔ اُس کا سہارا تم ہو جو بڑی تیزی سے ختم ہورہا ہے۔ تمہارے بچے بھی ختم ہورہے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ تم نے خود اپنے آپ کو ختم نہیں کیا، اپنے بچوں اور اپنی بیوی کو ختم نہیں کیا۔ کیا اس خاتمے کے لیے بھی تمہیں کسی کے سہارے کی ضرورت ہے۔ تم رحم و کرم کے طالب ہو۔ بے وقوف، کون تم پر رحم کرے گا۔ موت کو کیا پڑی ہے کہ وہ تمہیں مصیبتوں سے نجات دلائے۔ اس کے لیے یہ مصیبت کیا کم ہے کہ وہ موت ہے۔ کس کس کو آئے۔ ایک صرف تم عطاء اللہ نہیں ہو، تم ایسے لاکھوں عطاء اللہ اس بھری دنیا میں موجود ہیں۔ جائو اپنی مصیبتوں کا علاج خود کرو۔ دو مریل بچوں اور ایک فاقہ زدہ بیوی کو ہلاک کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اس بوجھ سے ہلکے ہو جائو تو موت شرمسار ہو کر خود بخود تمہارے پاس چلی آئے گی۔‘‘
عطاء اللہ غصے سے تھر تھر کانپنے لگا۔ ’’تم، تم سب سے بڑے ظالم ہو۔ بتائو، تم کون ہو۔ اس سے پیشتر کہ میں اپنی بیوی اور بچوں کو ہلاک کروں، میں تمہارا خاتمہ کر دینا چاہتا ہوں۔‘‘
مادرزاد، برہنہ شخص نے قہقہہ لگایا اور کہا۔ ’’میں عطاء اللہ ہوں۔ غور سے دیکھو۔ کیا تم اپنے آپ کو بھی نہیں پہچانتے؟‘‘
عطاء اللہ نے اس ننگ دھڑنگ آدمی کی طرف دیکھا اور اس کی گردن جھک گئی۔ وہ خود ہی تھا، بغیر لباس کے۔ اس کا خون کھولنے لگا۔ فرش میں سے اس نے اپنے بڑھے ہوئے ناخنوں سے کھرچ کھرچ کر ایک پتھر نکالا اور تان کر منبر کی طرف پھینکا۔ اس کا سر چکرا گیا۔ ماتھے پر ہاتھ رکھا تو اس میں سے لہو نکل رہا تھا۔ وہ بھاگا، پتھریلے صحن کو عبور کرکے جب باہر نکلا تو ہجوم نے اسے گھیر لیا۔ ہجوم کا ہر فرد عطاء اللہ تھا، جس کا ماتھا لہو لہان تھا۔
بڑی مشکلوں سے ہجوم کو چیر کر وہ باہر نکلا۔ ایک تنگ و تار سڑک پر دیر تک چلتا رہا۔ اس کے دونوں کناروں پر حشیش اور تھوہر کے پودے اُگے ہوئے تھے۔ ان میں کہیں کہیں دوسری زہریلی بوٹیاں بھی تھیں۔ عطاء اللہ نے جیب سے بوتل نکال کر تھوہر کا عرق جمع کیا۔ پھر زہریلی بوٹیوں کے پتے توڑ کر اس میں ڈالے اور انہیں ہلاتا ہلاتا اس موڑ پر پہنچ گیا جہاں سے کچھ فاصلے پر اس کا مکان تھا۔ شکستہ اینٹوں کا ڈھیر۔
ٹاٹ کا بوسیدہ پردہ ہٹا کر اندر داخل ہوا۔ سامنے طاق میں مٹی کے تیل کی کپی سے کافی روشنی نکل رہی تھی۔ اس مٹیالی روشنی میں اس نے دیکھا کہ جھلنگی پلنگڑی پر اس کے دونوں مریل بچے مرے پڑے ہیں۔
عطاء اللہ کو بہت ناامیدی ہوئی۔ بوتل جیب میں رکھ کر جب وہ پلنگڑی کے پاس گیا تو اس نے دیکھا کہ وہ پھٹی پرانی گدڑی جو اس کے بچوں پر پڑی ہے آہستہ آہستہ ہل رہی ہے۔ عطا ء اللہ بہت خوش ہوا۔ وہ زندہ تھے۔ بوتل جیب سے نکال کر وہ فرش پر بیٹھ گیا۔
دونوں لڑکے تھے۔ ایک چار برس کا، دوسرا پانچ کا۔ دونوں بھوکے تھے، دونوں ہڈیوں کا ڈھانچہ تھے۔ گدڑی ایک طرف ہٹا کر جب عطاء اللہ نے ان کو غور سے دیکھا تو اسے تعجب ہوا کہ اتنے چھوٹے بچے اتنی سوکھی ہڈیوں پر اتنی دیر سے کیسے زندہ ہیں۔ اس نے زہر کی شیشی ایک طرف رکھ دی اور انگلیوں سے ایک بچے کی گردن ٹٹولتے ٹٹولتے ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔ ہلکی سی تڑاخ ہوئی اور اس بچے کی گردن ایک طرف لٹک گئی۔ عطاء اللہ بہت خوش ہوا کہ اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے کام تمام ہو گیا۔ اسی خوشی میں اس نے اپنی بیوی کو پکارا۔ ’’جیناں! جیناں، ادھر آئو، دیکھو میں نے کتنی صفائی سے رحیم کو مار ڈالا ہے، کوئی تکلیف نہیں ہوئی اس کو۔‘‘
اس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ زینب کہاں ہے؟ معلوم نہیں کہاں چلی گئی ہے؟۔ شاید بچوں کے لیے کسی سے کھانا مانگنے گئی ہو۔ یا ہسپتال میں اس کی خیریت دریافت کرنے۔ عطاء اللہ ہنسا، مگر اس کی ہنسی فوراً دب گئی، جب دوسرے بچے نے کروٹ بدلی اور اپنے مردہ بھائی کو بُلانا شروع کیا۔ ’’رحیم۔ رحیم‘‘۔
وہ نہ بولا تو اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ ہڈیوں کی چھوٹی چھوٹی سیاہ پیالیوں میں اس کی آنکھیں چمکیں۔ ’’ابا تم آگئے۔‘‘
عطاء اللہ نے ہولے سے کہا۔ ’’ہاں کریم، میں آگیا۔‘‘
کریم نے اپنے استخوانی ہاتھ سے رحیم کو جھنجھوڑا۔‘‘ اٹھو رحیم ابا آگئے ہسپتال سے۔‘‘
عطاء اللہ نے اس کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’خاموش رہو۔ وہ سو گیا ہے۔‘‘
کریم نے اپنے باپ کا ہاتھ ہٹایا۔ ’’کیسے سو گیا ہے۔ ہم دونوں نے ابھی تک کچھ کھایا نہیں۔‘‘
’’تم جاگ رہے تھے؟‘‘
’’ہاں ابا۔‘‘
’’سو جائو گے ابھی تم۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’میں سلاتا ہوں تمہیں۔‘‘ یہ کہہ کر عطاء اللہ نے اپنی سخت انگلیاں کریم کی گردن پر رکھیں اور اس کو مروڑ دیا۔ مگر تڑاخ کی آواز پیدا نہ ہوئی۔
کریم کو بہت درد ہوا۔ ’’یہ آپ کیا کررہے ہیں؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ عطاء اللہ حیرت زدہ تھا کہ اس کا یہ دوسرا لڑکا اتنا سخت جان کیوں ہے۔ ’’کیا تم سونا نہیں چاہتے؟‘‘
کریم نے اپنی گردن سہلاتے ہوئے جواب دیا۔ ’’سونا چاہتا ہوں، کچھ کھانے کو دے دو، سوجائوں گا۔‘‘
عطاء اللہ نے زہر کی شیشی اٹھائی۔ ’’پہلے یہ دوا پی لو۔‘‘
’’اچھا۔‘‘کریم نے اپنا منھ کھول دیا۔
عطاء اللہ نے ساری شیشی اس کے حلق میں انڈیل دی اور اطمینان کا سانس لیا۔ ’’اب تم گہری نیند سو جائو گے۔‘‘
کریم نے اپنے باپ کا ہاتھ پکڑا اور کہا۔ ’’ابا۔ اب کچھ کھانے کو دو۔‘‘
عطا اللہ کو بہت کوفت ہوئی۔ ’’تم مرتے کیوں نہیں؟‘‘
کریم یہ سن کر سٹپٹا ساگیا۔ ’’کیا ابا؟‘‘
’’تم مرتے کیوں نہیں۔میرا مطلب ہے اگر تم مر جائو گے تو نیند بھی آجائے گی تمہیں۔‘‘
کریم کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس کا باپ کیا کہہ رہا ہے۔ ’’مارتا تو اللہ میاں ہے ابا۔‘‘
اب عطاء اللہ کی سمجھ میں آیا کہ وہ کیا کہے۔ ’’مارا کرتا تھا کبھی، اب اس نے یہ کام چھوڑ دیا ہے چلو اٹھو۔‘‘
پلنگڑی پر کریم تھوڑا سا اٹھا تو عطاء اللہ نے اسے اپنی گود میں لے لیا اور سوچنے لگا کہ وہ اللہ میاں کیسے بنے۔ ٹاٹ کا پردہ ہٹا کر جب باہر گلی میں نکلا، اسے یوں محسوس ہوا جیسے آسمان اس پر جھکا ہوا ہے، اس میں جا بجا مٹی کے تیل کی کپیاں جل رہی تھیں۔ اللہ میاں خدا جانے کہاں تھا اور زینب بھی۔ معلوم نہیں وہ کہاں چلی گئی تھی۔
کہیں سے کچھ مانگنے گئی ہو گی۔ عطاء اللہ ہنسنے لگا۔ لیکن فوراً اسے خیال آیا کہ اسے اللہ میاں بننا تھا۔ سامنے موری کے پاس بہت سے پتھر پڑے تھے، ان پر وہ اگر کریم کو دے مارے تو مگر اس میں اتنی طاقت نہیں تھی۔ کریم اس کی گود میں تھا۔ اس نے کوشش کی کہ اسے اپنے بازوئوں میں اٹھائے اور سر سے اوپر لے جا کر پتھروں پر پٹخ دے، مگر اس کی طاقت جواب دے گئی۔ اس نے کچھ سوچا اور اپنی بیوی کو آواز دی۔ ’’جیناں۔ جیناں۔‘‘
زینب معلوم نہیں کہاں ہے۔ کہیں وہ اس ڈاکٹر کے ساتھ تو نہیں چلی گئی جو ہر وقت اس سے اتنی ہمدردی کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ وہ ضرور اس کے فریب میں آگئی ہوگی۔ میرے لیے اس نے کہیں خود کو بیچ تو نہیں دیا۔
یہ سوچتے ہی اس کا خون کھول اٹھا۔ کریم کو پاس بہتی ہوئی بدرو میں پھینک کر وہ ہسپتال کی طرف بھاگا۔ اتنا تیز دوڑا کہ چند منٹ میں ہسپتال پہنچ گیا۔
رات نصف سے زیادہ گزر چکی تھی۔ چاروں طرف سناٹا تھا جب وہ اپنے وارڈ کے برآمدے میں پہنچا تو دو آوازیں سنائی دیں ایک اس کی بیوی کی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی، ’’تم دغا باز ہو، تم نے مجھے دھوکا دیا ہے۔ اس سے جو کچھ تمہیں ملا ہے تم نے اپنی جیب میں ڈال لیا ہے۔‘‘
کسی مرد کی آواز سنائی دی۔ ’’تم غلط کہتی ہو۔ تم اس کو پسند نہیں آئیں، اس لیے وہ چلا گیا۔‘‘
اس کی بیوی دیوانہ وار چلائی۔ ’’بکواس کرتے ہو۔ ٹھیک ہے کہ میں دو بچوں کی ماں ہوں، میرا وہ پہلا سا رنگ روپ نہیں رہا۔ لیکن وہ مجھے قبول کر لیتا، اگر تم بھانجی نہ مارتے۔ تم بہت ظالم ہو، بڑے کٹھور ہو۔‘‘ اس کی آواز گلے میں رندھنے لگی۔ ’’میں کبھی تمہارے ساتھ نہ چلتی، میں کبھی اس ذلت میں نہ گرتی، اگر میرا خاوند بیمار اور میرے بچے کئی دنوں کے بھوکے نہ ہوتے۔ تم نے کیوں یہ ظلم کیا؟‘‘
اس مرد نے جواب دیا۔ ’’وہ، وہ کوئی بھی نہیں تھا، میں خود تھا۔ جب تم میرے ساتھ چل پڑیں تو میں نے خود کو پہچانا اور تم سے کہا کہ وہ چلا گیا ہے۔ وہ جس کے لیے میں تمہیں لایا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہارا خاوند مرجائے گا۔ تمہارے بچے مر جائیں گے۔ تم بھی مر جائو گی۔ لیکن۔۔۔۔۔‘‘
’’لیکن کیا؟‘‘۔ اس کی بیوی نے تیکھی آواز میں پوچھا۔
’’میں مرتے دم تک زندہ رہوں گا۔ تم نے مجھے اس زندگی سے بچالیا ہے جو موت سے کہیں زیادہ خوفناک ہوتی۔ چلو آئو۔ عطاء اللہ ہمیں بلا رہا ہے۔‘‘
عطاء اللہ یہاں کھڑا ہے۔‘‘ عطاء اللہ نے بھنچی ہوئی آواز میں کہا۔
دو سائے پلٹے۔ اس سے کچھ فاصلے پر وہ ڈاکٹر کھڑا تھا جو زینب سے بڑی ہمدردی کا اظہار کیا کرتا تھا۔ اس کے منھ سے صرف اس قدر نکل سکا تھا۔ ’’تم!‘‘
’’ہاں میں۔۔۔۔ تمہاری سب باتیں سن چکا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر عطاء اللہ نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ ’’جیناں۔ میں نے رحیم اور کریم دونوں کو مار ڈالا ہے۔ اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں۔‘‘
زینب چیخی۔ ’’مار ڈالا تم نے دونوں بچوں کو؟‘‘
عطاء اللہ نے بڑے پُرسکون لہجے میں کہا۔ ’’ہاں، انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ میرا خیال ہے تمہیں بھی کوئی تکلیف نہیں ہو گی، ڈاکٹر صاحب جو موجود ہیں۔‘‘
ڈاکٹر کانپنے لگا۔ عطاء اللہ آگے بڑھا اور اس سے مخاطب ہوا۔ ’’ایسا انجکشن دے دو کہ فوراً مرجائے۔‘‘
ڈاکٹر نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنا بیگ کھولا اور سرنج میں زہر بھر کے زینب کے ٹیکہ لگا دیا۔ ٹیکہ لگتے ہی وہ فرش پر گری اور مر گئی۔ اس کی زبان پر آخری الفاظ ’’میرے بچے، میرے بچے‘‘ تھے مگر اچھی طرح ادا نہ ہو سکے۔ عطاء اللہ نے اطمینان کا سانس لیا ’’چلو یہ بھی ہو گیا۔ اب میں باقی رہ گیا ہوں۔‘‘
’’لیکن ...... لیکن میرے پاس زہر ختم ہو گیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر کے لہجے میں لکنت تھی۔
عطاء اللہ تھوڑی دیر کے لیے پریشان ہو گیا، لیکن فوراً سنبھل کر اس نے ڈاکٹر سے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں۔ میں اندر اپنے بستر پر لیٹتا ہوں۔ تم بھاگ کے زہر لے کر آئو۔‘‘
بستر پر لیٹ کر سرخ کھردرے کمبل میں اس نے بڑی مشکل سے کروٹ بدلی اور اپنی مُندی ہوئی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولیں۔ کہرے کی چادر میں کئی چیزیں لپٹی ہوئی تھیں، جن کے صحیح خدوخال نظر نہیں آتے تھے ...... ایک لمبا، بہت ہی لمبا، نہ ختم ہونے والا دالان تھا ...... یا شاید کمرہ، جس میں دھندلی دھندلی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی روشنی جو جگہ جگہ میلی ہو رہی تھی۔
دور بہت دور ایک فرشتہ کھڑا تھا۔ جب وہ آگے بڑھنے لگا تو چھوٹا ہوتا گیا۔ عطاء اللہ کی چارپائی کے پاس پہنچ کر وہ ڈاکٹر بن گیا۔ وہی ڈاکٹر جو اس کی بیوی سے ہر وقت ہمدردی کا اظہار کیا کرتا تھا۔ اور اسے بڑے پیار سے دلاسا دیتا تھا۔
عطاء اللہ نے اسے پہچانا تو اُٹھنے کی کوشش کی۔ ’’آئیے ڈاکٹر صاحب۔‘‘
مگر وہ ایک دم غائب ہو گیا۔ عطاء اللہ لیٹ گیا۔ اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔ کہرا دُور ہو چکا تھا۔ معلوم نہیں کہاں غائب ہو گیا تھا۔
اس کا دماغ بھی صاف تھا۔ ایک دم وارڈ میں شور بلند ہوا۔ سب سے اونچی آواز جو چیخ سے مشابہ تھی، زینب کی تھی۔ اس کی بیوی کی۔ وہ کچھ کہہ رہی تھی ...... معلوم نہیں کیا کہہ رہی تھی۔ عطاء اللہ نے اُٹھنے کی کوشش کی۔ زینب کو آواز دینے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ...... دھند پھر چھانے لگی اور وارڈ لمبا ...... بہت لمبا ہوتا چلا گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد زینب آئی۔ اس کی حالت دیوانوں کی سی ہو رہی تھی۔ دونوں ہاتھوں سے اس نے عطاء اللہ کو جھنجھوڑنا شروع کیا ’’میں نے اُسے مار ڈالا ہے۔ میں نے اس حرامزادے کو مار ڈالا ہے۔‘‘
’’کس کو؟‘‘
’’اسی کو جو مجھ سے اتنی ہمدردی جتایا کرتا تھا ...... اس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ تمہیں بچا لے گا ...... وہ جھوٹا تھا ...... دغاباز تھا، اس کا دل توے کی کالک سے بھی زیادہ کالا تھا ...... اس نے مجھے ...... اس نے مجھے ......‘‘ اس کے آگے زینب کچھ نہ کہہ سکی۔
عطاء اللہ کے دماغ میں بے شمار خیالات آئے اور آپس میں گڈمڈ ہوگئے۔ ’’تمہیں تو اس نے مار ڈالا تھا؟‘‘
زینب چیخی، ’’نہیں ...... میں نے اسے مار ڈالا ہے۔‘‘
عطاء اللہ چند لمحے خلا میں دیکھتا رہا، پھر اس نے زینب کو ہاتھ سے ایک طرف ہٹایا، ’’تم ادھر ہو جاؤ ...... وہ آرہا ہے۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’وہی ڈاکٹر ...... وہی فرشتہ۔‘‘
فرشتہ آہستہ آہستہ اس کی چارپائی کے پاس آیا۔ اس کے ہاتھ میں زہر بھری سرنج تھی۔ عطاء اللہ مسکرایا، ’’لے آئے۔‘‘
فرشتے نے اثبات میں سر ہلایا، ’’ہاں لے آیا۔‘‘
عطاء اللہ نے اپنا لرزاں بازو اس کی طرف بڑھایا، ’’تو لگا دو۔‘‘
فرشتے نے سوئی اس کے بازو میں گھونپ دی۔
عطاء اللہ مرگیا۔
زینب اسے جھنجھوڑنے لگی، ’’اٹھو ...... اٹھو، کریم رحیم کے ابا، اٹھو ...... یہ ہسپتال بہت بُری جگہ ہے ...... چلو گھر چلیں۔‘‘
تھوڑی دیر کے بعد پولیس آئی اور زینب کو اس کے خاوند کی لاش پر سے ہٹا کر اپنے ساتھ لے گئی۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ (منٹو)

بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہیے یعنی جو مسلمان پاگل، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ پاکستان کے پاگل خانوںمیں ہیں انہیں ہندوستان کے حوالے کردیاجائے۔
معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول، بہر حال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق اِدھر اُدھر اونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں اور بالآخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لیے مقرر ہو گیا۔ اچھی طرح چھان بین کی گئی۔ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے، وہیںرہنے دے گئے تھے۔ جو باقی تھے اُن کو سرحد پر روانہ کردیا گیا۔ یہاں پاکستان میں چونکہ قریب قریب تمام ہندو اور سکھ جاچکے تھے۔ اس لیے کسی کہ رکھنے رکھانے کا سوال ہی نہ پیدا ہوا۔ جتنے ہندو سکھ پاگل تھے سب کے سب پولیس کی حفاطت میں بارڈر پر پہنچا دیئے گئے۔
اُدھر کا معلوم نہیں۔ لیکن ادھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز باقاعدگی کے ساتھ ’’زمیندار‘‘ پڑھتا تھا اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا۔ ’’مولبی ساب، یہ پاکستان کیا ہوتا ہے۔‘‘ تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا۔ ’’ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں اُسترے بنتے ہیں۔‘‘ 
یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہو گیا۔
اسی طرح ایک سکھ پاگل نے ایک دوسرے سکھ پاگل سے پوچھا۔ سردار جی ہمیں ہندوستان کیوں بھیجا جارہا ہے۔ ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی۔‘‘
دوسرا مسکرایا۔ ’’مجھے تو ہندوستوڑوں کی بولی آتی ہے۔ ہندوستانی بڑے شیطانی آکڑ آکڑ پھرتے ہیں۔‘‘
ایک دن نہاتے نہاتے ایک مسلمان پاگل نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ اس زور سے بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔ 
بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے۔ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو دے دلا کر پاگل خانے بھجوا دیا تھا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں۔ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا ہے اور یہ پاکستان کیا ہے۔ لیکن صحیح واقعات سے وہ ابھی بے خبر تھے۔ اخباروں سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا اور پہرہ دار سپاہی اَن پڑھ اور جاہل تھے، ان کی گفتگو سے بھی وہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں کر سکتے تھے۔ ان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدمی محمد علی جناح ہے جس کو قائداعظم کہتے ہیں، اس نے مسلمانوں کے لیے ایک علیٰحدہ ملک بنایا ہے جس کا نام پاکستان ہے۔ یہ کہاں ہے، اس کا محل وقوع کیا ہے، اس کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاگل خانے میں وہ سب پاگل جن کا دماغ پوری طرح مائوف نہیں ہوا تھا اس مخمصے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں۔ اگر ہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے۔ اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہو سکتاہے کہ وہ کچھ عرصہ پہلے یہیں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے۔
ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان، اور ہندوستان اور پاکستان کے چکر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہو گیا۔ جھاڑو دیتے دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنے پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اترنے کو کہا تو وہ اور اوپر چڑھ گیا۔ ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا۔ ’’میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں۔ میں اس درخت ہی پر رہوں گا۔‘‘
بڑی مشکلوں کے بعد اس کا دورہ سرد پڑا تو وہ نیچے اترا اور اپنے ہندو سکھ دوستوں سے گلے مل مل کر رونے لگا۔ اس خیال سے اس کا دل بھر آیا تھا کہ وہ اسے چھوڑ کر ہندوستان چلے جائیں گے۔
ایک ایم ایس سی پاس ریڈیو انجینئر میں، جو مسلمان تھا اور دوسرے پاگلوں سے بالکل الگ تھلگ باغ کی ایک خاص روش پر سارا دن خاموش ٹہلتا رہتا تھا، یہ تبدیلی نمودار ہوئی کہ اس نے تمام کپڑے اتار کر دفعدار کے حوالے کردیئے اور ننگ دھڑنگ سارے باغ میں چلنا پھرنا شروع کردیا۔
چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سرگرم کارکن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ سولہ مرتبہ نہایا کرتا تھا یک لخت یہ عادت ترک کردی۔ اس کا نام محمد علی تھا۔ چنانچہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کردیا کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک سکھ پاگل ماسٹر تارا سنگھ بن گیا۔ قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہوجائے مگر دونوں کو خطرناک پاگل قرار دے کر علیٰحدہ علیٰحدہ بند کردیا گیا۔
لاہور کا ایک نوجوان ہندو وکیل تھا جو محبت میں ناکام ہو کر پاگل ہو گیا تھا۔ جب اس نے سنا کہ امرت سر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا۔ اسی شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبت ہوئی تھی۔ گو اس نے اس وکیل کو ٹھکرا دیا تھا مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اس کو نہیں بھولا تھا۔ چنانچہ وہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دیتا تھا جنہوں نے مل ملا کر ہندوستان کے دو ٹکڑے کردیئے۔ اس کی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اور وہ پاکستانی۔
جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تو وکیل کو کئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل بُرا نہ کرے، اس کو ہندوستان بھیج دیا جائے گا۔ اس ہندوستان میں جہاں اس کی محبوبہ رہتی ہے۔ مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے کہ اس کا خیال تھا کہ امرت سر میں اس کی پریکٹس نہیں چلے گی۔
یورپین وارڈ میں دو اینگلو انڈین پاگل تھے۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کرکے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں اب ان کی حیثیت کس قسم کی ہو گی۔ یورپین وارڈ رہے گا یا اڑا دیا جائے گا۔ بریک فاسٹ ملا کرے گا یا نہیں۔ کیا انہیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاتی تو زہر مار نہیں کرنا پڑے گا۔
ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے۔ ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب و غریب الفاظ سننے میں آتے تھے۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑدی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین۔‘‘ دن کو سوتا تھا نہ رات کو۔ پہرہ داروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سویا۔ لیٹتا بھی نہیں تھا۔ البتہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا۔ ہر وقت کھڑا رہنے سے اس کے پائوں سوج گئے تھے۔ پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں مگر اس جسمانی تکلیف کے باوجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ ہندوستان، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی تو وہ غور سے سنتا تھا۔ کوئی اس سے پوچھتا کہ اس کا کیا خیال ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان گورنمنٹ‘‘ 
لیکن بعد میں ’آف دی پاکستان گورنمنٹ‘ کی جگہ ’اوف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ ‘ نے لے لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے۔ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ جو بتانے کی کوشش کرتے تھے وہ خود اس الجھائو میں گرفتار ہوجاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سنا ہے کہ پاکستان میں ہے۔ کیا پتا ہے کہ لاہور جو اب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غائب ہی ہوجائیں۔
اس سکھ پاگل کے کیس چھدرے ہو کر بہت مختصر رہ گئے تھے۔ چونکہ بہت کم نہاتا تھا اس لیے ڈاڑھی اور سر کے بال آپس میں جم گئے تھے۔ جس کے باعث اس کی شکل بڑی بھیانک ہو گئی تھی مگر آدمی بے ضرر تھا۔ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا۔ پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے۔ وہ اس کے متعلق اتنا جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں۔ اچھا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا۔ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کراگئے۔
مہینے میں ایک بار ملاقات کے لیے یہ لوگ آتے تھے اور اس کی خیریت دریافت کرکے چلے جاتے تھے۔ ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پر جب پاکستان، ہندوستان کی گڑ بڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہو گیا۔
اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر سب اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے۔ اس کو یہ قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے، مہینہ کون سا ہے، یا کتنے سال بیت چکے ہیں۔ لیکن ہر مہینے جب اس کے عزیز و اقارب اس سے ملنے کے لیے آتے تھے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا۔ چنانچہ وہ دفعدار سے کہتا کہ اس کی ملاقات آرہی ہے۔ اس دن وہ اچھی طرح نہاتا، بدن پر خوب صابن گھستا اور سر میں تیل لگا کر کنگھا کرتا، اپنے کپڑے جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا نکلوا کے پہنتا اور یوں سج بن کر ملنے والوں کے پاس جاتا۔ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین‘‘ کہہ دیتا۔
اس کی ایک لڑکی تھی جو ہر مہینے ایک انگلی بڑھتی بڑھتی پندرہ برسوں میں جوان ہو گئی تھی۔ بشن سنگھ اس کو پہچانتا ہی نہیں تھا۔ وہ بچی تھی جب بھی اپنے باپ کو دیکھ کر روتی تھی، جوان ہوئی تب بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔
پاکستان اور ہندوستان کا قصہ شروع ہوا تو اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔ جب اطمینان بخش جواب نہ ملا تو اس کی کرید دن بدن بڑھتی گئی۔ اب ملاقات بھی نہیں آتی تھی۔ پہلے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا کہ ملنے والے آرہے ہیں، پر اب جیسے اس کے دل کی آواز بھی بند ہو گئی تھی جو اسے ان کی آمد کی خبر دے دیا کرتی تھی۔
اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگ آئیں جو اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے تھے اور اس کے لیے پھل، مٹھائیاں اور کپڑے لاتے تھے۔ وہ اگر ان سے پوچھتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے تو وہ یقینا اسے بتا دیتے کہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سے آتے ہیں جہاں اس کی زمینیں ہیں۔
پاگل خانے میں ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کو خدا کہتا تھا۔ اس سے جب ایک روز بشن سنگھ نے پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں تو اس نے حسب عادت قہقہہ لگایا اور کہا۔ ’’وہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں۔ اس لیے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا۔‘‘
بشن سنگھ نے اس خدا سے کئی مرتبہ بڑی منت سماجت سے کہا کہ وہ حکم دے دے تاکہ جھنجھٹ ختم ہو مگر وہ بہت مصروف تھا اس لیے کہ اسے اور بے شمار حکم دینے تھے۔ ایک دن تنگ آکر وہ اس پر برس پڑا۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دا ہے گورجی داخالصہ اینڈدا ہے گورو جی کی فتح۔ جو بولے سو نہال، ست سری اکال۔‘‘
اس کا شاید یہ مطلب تھا کہ تم مسلمانوں کے خدا ہو۔ سکھوں کے خدا ہوتے تو ضرور میری سنتے۔
تبادلے سے کچھ دن پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک مسلمان جو اس کا دوست تھا ملاقات کے لیے آیا۔ پہلے وہ کبھی نہیں آیا تھا۔ جب بشن سنگھ نے اسے دیکھا تو ایک طرف ہٹ گیا اور واپس جانے لگا مگر سپاہیوں نے اسے روکا۔ ’’یہ تم سے ملنے آیا ہے۔ تمہارا دوست فضل دین ہے۔‘‘
بشن سنگھ نے فضل دین کو ایک نظر دیکھا اور کچھ بڑبڑانے لگا۔ فضل دین نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ’’میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ تم سے ملوں لیکن فرصت ہی نہ ملی۔ تمہارے سب آدمی خیریت سے ہندوستان چلے گئے تھے۔ مجھ سے جتنی مدد ہو سکی، میں نے کی۔ تمہاری بیٹی روپ کور۔۔۔۔‘‘
وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ بشن سنگھ کچھ یاد کرنے لگا۔ ’’بیٹی روپ کور‘‘ 
فضل دین نے رک رک کر کہا۔ ’’ہاں ...... وہ ...... وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ ان کے ساتھ ہی چلی گئی تھی۔‘‘
بشن سنگھ خاموش رہا۔ فضل دین نے کہنا شروع کیا۔ ’’انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری خیر خیریت پوچھتا رہوں۔ اب میں نے سنا ہے کہ تم ہندوستان جارہے ہو۔ بھائی بلبیر سنگھ اور بھائی ودھاوا سنگھ سے میرا سلام کہنا، اور بہن امرت کور سے بھی۔۔۔۔ بھائی بلبیر سے کہنا، فضل دین راضی خوشی ہے۔ دو بھوری بھینسیں جو وہ چھوڑ گئے تھے۔ ان میں سے ایک نے کٹّا دیا ہے۔ دوسری کے کٹّی ہوئی تھی پر وہ چھ دن کی ہو کے مر گئی ...... اور ...... میرے لائق جو خدمت ہو، کہنا، میں ہر وقت تیار ہوں۔۔۔۔ اور یہ تمہارے لیے تھوڑے سے مرونڈے لایا ہوں۔‘‘
بشن سنگھ نے مرونڈوں کی پوٹلی لے کر پاس کھڑے سپاہی کے حوالے کردی اور فضل دین سے پوچھا۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔ ‘‘
فضل دین نے قدرے حیرت سے کہا۔ ’’ کہاں ہے۔ وہیں ہے جہاں تھا۔‘‘
بشن سنگھ نے پھر پوچھا۔ ’’پاکستان میں یا ہندوستان میں؟ ‘‘
’’ہندوستان میں۔ نہیں نہیں پاکستان میں‘‘۔ فضل دین بوکھلا سا گیا۔
بشن سنگھ بڑ بڑاتا ہوا چلا گیا۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھایانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی دُر فٹے منھ! ‘‘
تبادلے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آنے والے پاگلوں کی فہرستیں پہنچ گئی تھیں اور تبادلے کا دن بھی مقرر ہو چکا تھا۔
سخت سردیاں تھیں جب لاہور کے پاگل خانے سے ہندو سکھ پاگلوں سے بھری ہوئی لاریاں پولیس کے محافظ دستے کے ساتھ روانہ ہوئیں متعلقہ افسر بھی ہمراہ تھا۔ واہگہ کے بارڈر پر طرفین کے سپرنٹنڈنٹ ایک دوسرے سے ملے اور ابتدائی کارروائی ختم ہونے کے بعد تبادلہ شروع ہو گیا جو رات بھر جاری رہا۔
پاگلوں کو لاریوں سے نکالنا اور ان کو دوسرے افسروں کے حوالے کرنا بڑا کٹھن کام تھا۔ بعض تو باہر نکلتے ہی نہیں تھے۔ جو نکلنے پر رضامند ہوتے تھے، ان کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا تھا، کیونکہ ادھر ادھر بھاگ اٹھتے تھے۔ جو ننگے تھے ان کو کپڑے پہنائے جاتے تو وہ پھاڑ کر اپنے تن سے جدا کردیتے۔ کوئی گالیاں بک رہا ہے۔ کوئی گا رہا ہے۔ آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ رو رہے ہیں، بلک رہے ہیں۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ پاگل عورتوں کا شورو غوغا الگ تھا اور سردی اتنی کڑاکے کی تھی کہ دانت سے دانت بج رہے تھے۔
پاگلوں کی اکثریت اس تبادلے کے حق میں نہیں تھی۔ اس لیے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں اپنی جگہ سے اکھاڑ کر کہاں پھینکا جارہا ہے۔ وہ چند جو کچھ سوچ سمجھ گئے تھے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ دو تین مرتبہ فساد ہوتے ہوتے بچا، کیونکہ بعض مسلمانوں اور سکھوں کو یہ نعرے سن کر طیش آگیا تھا۔ جب بشن سنگھ کی باری آئی اور واہگہ کے اس پار متعلقہ افسر اس کا نام رجسٹر میں درج کرنے لگا تو اس نے پوچھا۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔ پاکستان میں یا ہندوستان میں؟ ‘‘
متعلقہ افسر ہنسا۔ ’’پاکستان میں۔‘‘
یہ سن کر بشن سنگھ اچھل کر ایک طرف ہٹا اور دوڑ کر اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔ پاکستانی سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور دوسری طرف لے جانے لگے، مگر اس نے چلنے سے انکار کردیا۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ یہاں ہے۔‘‘ اور زور زور سے چلانے لگا۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف ٹوبہ ٹیک سنگھ اینڈ پاکستان۔‘‘
اسے بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ہے۔ اگر نہیں گیا تو اسے فوراً وہاں بھیج دیا جائے گا مگر وہ نہ مانا۔ جب اس کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکے گی۔
آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لیے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی، اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا کام ہوتا رہا۔
سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ اِدھر اُدھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا تھا، اوندھے منھ لیٹا ہے۔ ادھر خار دارتاروں کے پیچھے ہندوستان تھا۔ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔

پُھندنے (منٹو)

کوٹھی سے ملحقہ وسیع و عریض باغ میں جھاڑیوں کے پیچھے ایک بلّی نے بچے دیئے تھے جو بلّا کھا گیا تھا۔ پھر ایک کتیا نے بچے دیئے تھے جو بڑے بڑے ہو گئے تھے اور دن رات کوٹھی کے اندر باہر بھونکتے اور گندگی بکھیرتے رہتے تھے۔ ان کو زہر دے دیا گیا تھا۔ ایک ایک کرکے سب مر گئے تھے۔ ان کی ماں بھی۔ ان کا باپ معلوم نہیں کہاں تھا۔ وہ ہوتا تو اس کی موت بھی یقینی تھی۔
جانے کتنے برس گزر چکے تھے۔ کوٹھی سے ملحقہ باغ کی جھاڑیاں سیکڑوں ہزاروں مرتبہ کتری بیونتی، کاٹی چھانٹی جا چکی تھیں۔ کئی بلیوں اور کتیوں نے ان کے پیچھے بچے دیئے تھے جن کا نام و نشان بھی نہ رہا تھا۔ اس کی اکثر بدعادت مرغیاں وہاں انڈے دے دیا کرتی تھیں۔ جن کو ہر صبح اٹھا کر وہ اندر لے جاتی تھی۔
اسی باغ میں کسی آدمی نے ان کی نوجوان ملازمہ کو بڑی بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ اس کے گلے میں اس کا پھندنوں والا سرخ ریشمی ازار بند جو اس نے دو روز پہلے پھیری والے سے آٹھ آنے میں خریدا تھا پھنسا ہوا تھا۔ اس زو ر سے قاتل نے پیچ دیئے تھے کہ اس کی آنکھیں باہر نکل آئی تھیں۔
اس کو دیکھ کر اس کو اتنا تیز بخار چڑھا تھا کہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ اور شاید ابھی تک بے ہوش تھی۔ لیکن نہیں، ایسا کیونکر ہو سکتا تھا اس لیے کہ اس قتل کے دیر بعد مرغیوں نے انڈے، نہیں بلیوں نے بچے دیئے تھے اور ایک شادی ہوئی تھی۔ کتیا تھی جس کے گلے میں لال دوپٹہ تھا۔ مکیشی، جھلمل جھلمل کرتا۔ اس کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی نہیں تھیں، اندر دھنسی ہوئی تھیں۔
باغ میں بینڈ بجا تھا۔ سرخ وردیوں والے سپاہی آئے تھے جو رنگ برنگی مشکیں بغلوں میں دبا کر منھ سے عجیب عجیب آوازیں نکالتے تھے۔ ان کی وردیوں کے ساتھ کئی پھندنے لگے تھے۔ جنہیں اٹھا اٹھا کر لوگ اپنے ازاربندوں میں لگاتے جاتے تھے۔ پر جب صبح ہوئی تھی تو ان کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ سب کو زہر دے دیا گیا تھا۔
دلہن کو جانے کیا سوجھی، کم بخت نے جھاڑیوں کے پیچھے نہیں، اپنے بستر پر صرف ایک بچہ دیا۔ جو بڑا گل گوتھنا، لال پُھندنا تھا۔ اس کی ماں مر گئی، باپ بھی۔ دونوں کو بچے نے مارا۔ اس کا باپ معلوم نہیں کہاں تھا۔ وہ ہوتا تو اس کی موت بھی ان دونوں کے ساتھ ہوتی۔
سرخ وردیوں والے سپاہی بڑے بڑے پھندنے لٹکائے جانے کہاں غائب ہوئے کہ پھر نہ آئے۔ باغ میں بلّے گھومتے تھے، جو اسے گھورتے تھے۔ اس کو چھیچھڑوں کی بھری ہوئی ٹوکری سمجھتے تھے حالانکہ ٹوکری میں نارنگیاں تھیں۔
ایک دن اس نے اپنی دو نارنگیاں نکال کے آئینے کے سامنے رکھ دیں۔ اس کے پیچھے ہو کے اس نے ان کو دیکھا مگر نظر نہ آئیں۔ اس نے سوچا اس کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹی ہیں۔ مگر وہ اس کے سوچتے سوچتے ہی بڑی ہو گئیں اور اس نے ریشمیں کپڑے میں لپیٹ کر آتش دان پر رکھ دیں۔
اب کتے بھونکنے لگے۔ نارنگیاں فرش پر لڑھکنے لگیں۔ کوٹھی کے ہر فرش پر اُچھلیں، ہر کمرے میں کودیں اور اچھلتی کودتی بڑے بڑے باغوں میں بھاگنے دوڑنے لگیں۔ کتے ان سے کھیلتے اور آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے۔
جانے کیا ہوا، ان کتوں میں دو زہر کھا کے مر گئے۔ جو باقی بچے وہ ان کی ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ کھا گئی۔ یہ اس نوجوان کی جگہ آئی تھی۔ جس کوکسی آدمی نے قتل کردیا تھا۔ گلے میں اس کے پھندنوں والے ازار بند کا پھندا ڈال کر۔
اس کی ماں تھی۔ ادھیڑ عمر کی ملازمہ سے عمر میں چھ سات برس بڑی۔ اس کی طرح ہٹی کٹی نہیں تھی۔ ہر روز صبح شام موٹر میں سیر کو جاتی تھی اور بد عادت مرغیوں کی طرح دور دراز باغوں میں جھاڑیوں کے پیچھے انڈے دیتی تھی۔ ان کو وہ خود اٹھا کے لاتی تھی نہ ڈرائیور۔
آملیٹ بناتی تھی جس کے داغ کپڑوں پر پڑجاتے تھے۔ سوکھ جاتے تو ان کو باغ میں جھاڑیوں کے پیچھے پھینک دیتی تھی۔ جہاں سے چیلیں اٹھا کر لے جاتی تھیں۔
ایک دن اس کی سہیلی آئی۔ پاکستان میل، موٹر نمبر ۹۶۱۲ پی ایل۔ بڑی گرمی تھی۔ ڈیڈی پہاڑ پر تھے۔ ممی سیر کرنے گئی ہوئی تھیں۔ پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اپنی بلائوز اتاری اور پنکھے کے نیچے کھڑی ہو گئی۔ اس کے دودھ ابلے ہوئے تھے، جو آہستہ آہستہ ٹھنڈے ہو گئے۔ اس کے دودھ ٹھنڈے تھے جو آہستہ آہستہ ابلنے لگے۔ آخر دونوں دودھ ہل ہل کر کنگنے ہو گئے اور کھٹی لسی بن گئے۔
اس سہیلی کا بینڈ بج گیا۔ مگر وہ وردی والے سپاہی پھندنے نچاتے نہ آئے۔ ان کی جگہ پیتل کے برتن تھے، چھوٹے اور بڑے جن سے آوازیں نکلتی تھیں۔ گرجدار اور دھیمی۔ دھیمی اور گرجدار۔
یہ سہیلی جب پھر ملی تو اس نے بتایا کہ وہ بدل گئی ہے۔ سچ مچ بدل گئی تھی۔ اس کے اب دو پیٹ تھے۔ ایک پرانا، دوسرا نیا، ایک کے اوپر دوسرا چڑھا ہوا تھا۔ اس کے دودھ پھٹے ہوئے تھے۔ 
پھر اس کے بھائی کا بینڈ بجا۔ ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ بہت روئی۔ اس کے بھائی نے اس کو بہت دلاسا دیا۔ بے چاری کو اپنی شادی یاد آگئی تھی۔
رات بھر اس کے بھائی اور اس کی دلہن کی لڑائی ہوتی رہی، وہ روتی رہی، وہ ہنستا رہا۔ صبح ہوئی تو ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ اس کے بھائی کو دلاسا دینے کے لیے اپنے ساتھ لے گئی۔ دلہن کو نہلایا گیا۔ اس کی شلوار میں اس کا لال پھندنوں والا ازاربند پڑا تھا۔ معلوم نہیں یہ دلہن کے گلے میں کیوں نہ باندھا گیا۔
اس کی آنکھیں بہت موٹی تھیں۔ اگر گلا زور سے گھونٹا جاتا تو وہ ذبح کیے ہوئے بکرے کی آنکھوں کی طرح باہر نکل آتیں۔ اور اس کو بہت تیز بخار چڑھتا، مگر پہلا تو ابھی تک اترا نہیں۔ ہو سکتا ہے اتر گیا ہو اور یہ نیا بخار ہو جس میں وہ ابھی تک بے ہوش ہے۔
اس کی ماں موٹر ڈرائیوری سیکھ رہی ہے۔ باپ ہوٹل میں رہتا ہے۔ کبھی کبھی آتا ہے اور اپنے لڑکے سے مل کر چلا جاتا ہے۔ لڑکا کبھی کبھی اپنی بیوی کو گھر بلا لیتا ہے۔ ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ کو دو تین روز کے بعد کوئی یاد ستاتی ہے تو رونا شروع کردیتی ہے۔ وہ اسے دلاسا دیتا ہے، وہ اسے پچکارتی ہے اور دلہن چلی جاتی ہے۔
اب وہ اور دلہن بھابی دونوں سیر کو جاتی ہیں۔ سہیلی بھی پاکستان میل۔ موٹر نمبر ۹۶۱۲ پی ایل۔ سیر کرتے کرتے اجنتا جا نکلتی ہیں جہاں تصویریں بنانے کا کام سکھایا جاتا ہے۔ تصویریں دیکھ کر تینوں تصویر بن جاتی ہیں۔ رنگ ہی رنگ، لال، پیلے، ہرے، نیلے۔ سب کے سب چیخنے والے ہیں۔ ان کو ان رنگوں کا خالق چپ کراتا ہے۔ اس کے لمبے لمبے بال ہیں۔ سردیوں اور گرمیوں میں اوورکوٹ پہنتا ہے۔ اچھی شکل و صورت کا ہے۔ اندر باہر ہمیشہ کھڑائوں استعمال کرتا ہے۔ اپنے رنگوں کو چپ کرانے کے بعد خود چیخنا شروع کردیتا ہے۔ اس کو یہ تینوں چپ کراتی ہیں اور بعد میں خود چلانے لگتی ہیں۔ 
تینوں اجنتا میں مجرد آرٹ کے سیکڑوں نمونے بناتی رہیں۔ ایک کی ہر تصویر میں عورت کے دو پیٹ ہوتے ہیں، مختلف رنگوں کے۔ دوسری کی تصویروں میں عورت ادھیڑ عمر کی ہوتی ہے، ہٹی کٹی۔ تیسری کی تصویروں میں پھندنے ہی پھندنے۔ ازار بندوں کا گچھا۔
مجرد تصویریں بنتی رہیں۔ مگر تینوں کے دودھ سوکھتے رہے۔ بڑی گرمی تھی، اتنی کہ تینوں پسینے میں شرابور تھیں۔ خس لگے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی انہوں نے اپنے بلائوز اتارے اور پنکھے کے نیچے کھڑی ہو گئیں۔ پنکھا چلتا رہا۔ دودھوں میں ٹھنڈک پیدا ہوئی نہ گرمی۔
اس کی ممی دوسرے کمرے میں تھی۔ ڈرائیور اس کے بدن سے موبل آئل پونچھ رہا تھا۔
ڈیڈی ہوٹل میں تھا۔ جہاں اس کی لیڈی اسٹینوگرافر اس کے ماتھے پر یوڈی کلون مل رہی تھی۔
ایک دن اس کا بھی بینڈ بج گیا۔ اجاڑ باغ پھر بارونق ہو گیا۔ گملوں اور دروازوں کی آرائش اجنتا اسٹوڈیو کے مالک نے کی تھی۔ بڑی بڑی گہری لپ اسٹکیں، اس کے بکھیرے ہوئے رنگ دیکھ کر اڑ گئیں ایک جو زیادہ سیاہی مائل تھی، اتنی اڑی کہ وہیں گر کر اس کی شاگرد ہو گئی۔
اس کے عروسی لباس کا ڈیزائن بھی اس نے تیار کیا تھا۔ اس نے اس کی ہزاروں سمتیں پیدا کردی تھیں۔ عین سامنے دیکھو تو وہ مختلف رنگ کے ازاربندوں کا بنڈل معلوم ہوتی تھی۔ ذرا ادھر ہٹ جائو تو پھلوں کی ٹوکری تھی۔ ایک طرف ہوجائو تو کھڑکی پر پڑا ہوا پھلکاری کا پردہ۔عقب میں چلے جائو تو کچلے ہوئے تربوزوں کا ڈھیر۔ ذرا زاویہ بدل کر دیکھو تو ٹماٹر ساس سے بھرا ہوا مرتبان۔ اوپر سے دیکھو تو یگانہ آرٹ، نیچے سے دیکھو تو میرا جی کی مبہم شاعری۔
فن شناس نگاہیں عش عش کر اٹھیں۔ دلہا اس قدر متاثر ہوا تھا کہ شادی کے دوسرے روز ہی اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ بھی مجرد آرٹسٹ بن جائے گا۔ چنانچہ اپنی بیوی کے ساتھ وہ اجنتا گیا۔ جہاں انہیں معلوم ہوا کہ اس کی شادی ہورہی ہے اور وہ چند روز سے اپنی ہونے والی دلہن ہی کے ہاں رہتا ہے۔
اس کی ہونے والی دلہن وہی گہرے رنگ کی لپ اسٹک تھی جو دوسری لپ اسٹکوں کے مقابلے میں زیادہ سیاہی مائل تھی۔ شروع شروع میں چند مہینے تک اس کے شوہر کو اس سے اور مجرد آرٹ سے دلچسپی رہی۔ لیکن جب اجنتا اسٹوڈیو بند ہو گیا اور اس مالک کی کہیں سے بھی سن گن نہ ملی تو اس نے نمک کا کاروبار شروع کردیا۔ جو بہت نفع بخش تھا۔
اس کاروبار کے دوران میں اس کی ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی۔ جس کے دودھ سوکھے ہوئے نہیں تھے۔ یہ اس کو پسند آگئے۔ بینڈ نہ بجا، لیکن شادی ہو گئی۔ پہلی اپنے برش اٹھا کر لے گئی اور الگ رہنے لگی۔
یہ ناچاقی پہلے تو دونوں کے لیے تلخی کا موجب ہوئی۔ لیکن بعد میں ایک عجیب و غریب مٹھاس میں تبدیل ہو گئی۔ اس کی سہیلی نے جو دوسرا شوہر تبدیل کرنے کے بعد سارے یورپ کا چکر لگا آئی تھی اور اب دق کی مریض تھی اس مٹھاس کو کیوبک آرٹ میں پینٹ کیا۔ صاف شفاف چینی کے بے شمار کیوب تھا جو تھوہر کے پودوں کے درمیان اس انداز سے اُوپر تلے رکھے تھے کہ ان سے دو شکلیں بن گئی تھیں۔ ان پر شہد کی مکھیاں بیٹھی رس چوس رہی تھیں۔ 
اس کی دوسری سہیلی نے زہر کھا کر خودکشی کرلی۔ جب اس کو یہ المناک خبر ملی تو وہ بے ہوش ہو گئی، معلوم نہیں بے ہوشی نئی تھی یا وہی پرانی جو بڑے تیز بخار کے بعد ظہور میں آئی تھی۔
اس کا باپ یوڈی کلون میں تھا۔ جہاں اس کا ہوٹل اس کی لیڈی اسٹینو گرافر کا سر سہلاتا تھا۔ 
اس کی ممی نے گھر کا سارا حساب کتاب ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ کے حوالے کردیا تھا۔ اب اس کو ڈرائیونگ آگئی تھی مگر بہت بیمار ہو گئی تھی مگر پھر بھی اس کو ڈرائیور کے بن ماں کے پلّے کا بہت خیال تھا۔ وہ اس کو اپنا موبل آئل پلاتی تھی۔
اس کی بھابی اور اس کے بھائی کی زندگی بہت ادھیڑ اور ہٹی کٹی ہو گئی تھی۔ دونوں آپس میں بڑے پیار سے ملتے تھے کہ اچانک ایک رات جبکہ ملازمہ اور اس کا بھائی گھر کا حساب کررہے تھے، اس کی بھابی نمودار ہوئی وہ مجرد تھی۔ اس کے ہاتھ میں قلم تھا نہ برش۔ لیکن اس نے دونوں کا حساب صاف کردیا۔
صبح کمرے میں سے جمے ہوئے لہو کے دو بڑے بڑے پھندنے نکلے جو اس کی بھابی کے گلے میں لگا دیئے گئے۔
اب وہ قدرے ہوش میں آئی۔ خاوند سے ناچاقی کے باعث اس کی زندگی تلخ ہو کر بعد میں عجیب و غریب مٹھاس میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اس نے اس کو تھوڑا سا تلخ بنانے کی کوشش کی اور شراب پینا شروع کی مگر ناکام رہی، اس لیے کہ مقدار کم تھی۔ اس نے مقدار بڑھا دی۔ حتیٰ کہ وہ اس میں ڈبکیاں لینے لگی۔ لوگ سمجھتے تھے کہ اب غرق ہوئی اور اب غرق ہوئی مگر وہ سطح پر ابھر آتی تھی۔ منھ سے شراب پونچھتی ہوئی اور قہقہے لگاتی ہوئی۔
صبح کو جب اُٹھتی تو اسے محسوس ہوتا کہ رات بھر اس کے جسم کا ذرہ ذرہ دھاڑیں مار مار کر روتا رہا ہے۔ اس کے وہ سب بچے جو پیدا ہو سکتے تھے، ان قبروں میں جو اُن کے لیے بن سکتی تھیں، اس دودھ کے لیے جو ان کا ہو سکتا تھا، بلک بلک کر رو رہے ہیں۔ مگر اس کے دودھ کہاں تھے۔ وہ تو جنگلی بلّے پی چکے تھے۔
وہ اور زیادہ پیتی کہ اتھاہ سمندر میں ڈوب جائے مگر اس کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی۔ ذہین تھی۔ پڑھی لکھی تھی۔ جنسی موضوعات پر بغیر کسی تصنع کے بے تکلف گفتگو کرتی تھی۔ مردوں کے ساتھ جسمانی رشتہ قائم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتی تھی۔ مگر پھر بھی کبھی کبھی رات کی تنہائی میں اس کا جی چاہتا تھا کہ اپنی کسی بد عادت مرغی کی طرح جھاڑیوں کے پیچھے جائے اور ایک انڈا دے آئے۔
بالکل کھوکھلی ہو گئی۔ صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا تو اس سے لوگ دور رہنے لگے۔ وہ سمجھ گئی، چنانچہ وہ ان کے پیچھے نہ بھاگی اور اکیلی گھر میں رہنے لگی۔ سگریٹ پر سگریٹ پھونکتی، شراب پیتی اور جانے کیا سوچتی رہتی۔ رات کو بہت کم سوتی تھی۔ کوٹھی کے ارد گرد گھومتی رہتی تھی۔
سامنے کوارٹر میں ڈرائیور کا بن ماں کا بچہ موبل آئل کے لیے روتا رہتا تھا مگر اس کی ماں کے پاس ختم ہو گیا تھا۔ ڈرائیور نے ایکسی ڈنٹ کردیا تھا۔ موٹر گیراج میں اور اس کی ماں ہسپتال میں پڑی تھی۔ جہاں اس کی ایک ٹانگ کاٹی جا چکی تھی۔ دوسری کاٹی جانے والی تھی۔
وہ کبھی کبھی کوارٹر کے اندر جھانک کر دیکھتی تو اس کو محسوس ہوتا کہ اس کے دودھوں کی تلچھٹ میں ہلکی سی لرزش پیدا ہوئی ہے مگر اس بدذائقہ شے سے تو اس کے بچے کے ہونٹ بھی تر نہ ہوتے۔
اس کے بھائی نے کچھ عرصے سے باہر رہنا شروع کردیا تھا۔ آخر ایک دن اس کا خط سوئٹزرلینڈ سے آیا کہ وہ وہاں اپنا علاج کرا رہا ہے نرس بہت اچھی ہے ہسپتال سے نکلتے ہی وہ اس سے شادی کرنے والا ہے۔
ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ نے تھوڑا زیور، کچھ نقدی اور بہت سے کپڑے جو اس کی ممی کے تھے چرائے اور چند روز کے بعد غائب ہو گئی۔ اس کے بعد اس کی ماں آپریشن ناکام ہونے کے باعث ہسپتال میں مر گئی۔
اس کا باپ جنازے میں شامل ہوا۔ اس کے بعد اس نے اس کی صورت نہ دیکھی۔
اب وہ بالکل تنہا تھی۔ جتنے نوکر تھے، اس نے علیحدہ کردیئے، ڈرائیور سمیت۔ اس کے بچے کے لیے اس نے ایک آیا رکھ دی۔ کوئی بوجھ سوائے اس کے خیالوں کے باقی نہ رہا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ آہستہ آہستہ اسے ان سے بھی چھٹکارا مل جائے۔ کبھی کبھار اگر کوئی اس سے ملنے آتا تو وہ اندر سے چلا اٹھتی تھی۔ ’’چلے جائو جو کوئی بھی تم ہو چلے جائو۔ میں کسی سے ملنا نہیں چاہتی۔‘‘
سیف میں اس کو اپنی ماں کے بے شمار قیمتی زیورات ملے تھے۔ اس کے اپنے بھی تھے۔ جن سے اس کو کوئی رغبت نہ تھی۔ مگر اب وہ رات کو گھنٹوں آئینے کے سامنے ننگی بیٹھ کر یہ تمام زیور اپنے بدن پر سجاتی اور شراب پی کر کَن سُری آواز میں فحش گانے گاتی تھی۔ آس پاس اور کوئی کوٹھی نہیں تھی۔ اس لیے اسے مکمل آزادی تھی۔
اپنے جسم کو تو وہ کئی طریقوں سے ننگا کر چکی تھی۔ اب وہ چاہتی تھی کہ اپنی روح کو بھی ننگا کردے۔ مگر اس میں وہ زبردست حجاب محسوس کرتی تھی۔ اس جواب کو دبانے کے لیے صرف ایک ہی طریقہ اس کی سمجھ میں آتا تھا کہ پئے اور خوب پئے اور اس حالت میں اپنے ننگے بدن سے مدد لے۔ مگر یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا کہ وہ آخری حد تک ننگا ہو کر ستر پوش ہو گیا تھا۔
تصویریں بنا بنا کر وہ تھک چکی تھی۔ ایک عرصے اس کا پینٹنگ کا سامان صندوقچے میں بند پڑا تھا۔ لیکن ایک دن اس نے سب رنگ نکالے اور بڑے بڑے پیالوں میں گھولے۔ تمام برش دھو دھا کر ایک طرف رکھے اور آئینے کے سامنے ننگی کھڑی ہو گئی اور اپنے جسم پر نئے خدو خال بنانے شروع کیے۔ اس کی یہ کوشش اپنے وجود کو مکمل طور پر عریاں کرنے کی تھی۔
وہ اپنا سامنا حصہ ہی پینٹ کر سکتی تھی۔ دن بھر وہ اس میں مصروف رہی۔ بن کھائے پئے، آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بدن پر مختلف رنگ جماتی اور ٹیڑھے بنگے خطوط بناتی رہی۔ اس کے برش میں اعتماد تھا۔ آدھی رات کے قریب اس نے دور ہٹ کر اپنا بغور جائزہ لے کر اطمینان کا سانس لیا۔ اس کے بعد اس نے تمام زیورات ایک ایک کرکے اپنے رنگوں سے لتھڑے ہوئے جسم پر سجائے اور آئینے میں ایک بار پھر غور سے دیکھا، کہ ایک دم آہٹ ہوئی۔
اس نے پلٹ کر دیکھا۔ ایک آدمی چُھرا ہاتھ میں لیے، منھ پر ڈھاٹا باندھے کھڑا تھا جیسے حملہ کرنا چاہتا ہے مگر جب وہ مڑی تو حملہ آور کے حلق سے چیخ بلند ہوئی۔ چُھرا اس کے ہاتھ سے گر پڑا۔ افراتفری کے عالم میں کبھی ادھر کا رُخ کیا کبھی ادھر کا۔ آخر جو رستہ ملا اس میں سے بھاگ نکلا۔
وہ اس کے پیچھے بھاگی چیختی، پکارتی۔ ’’ٹھہرو۔ ٹھہرو میں تم سے کچھ نہیں کہوں گی۔ ٹھہرو۔‘‘
مگر چور نے اس کی ایک نہ سنی اور دیوار پھاند کر غائب ہو گیا۔ مایوس ہو کر واپس آئی۔ دروازے کی دہلیز کے پاس چور کا خنجر پڑا تھا۔ اس نے اسے اٹھالیا اور اندر چلی گئی۔ اچانک اس کی نظریں آئینے سے دوچار ہوئیں۔ جہاں اس کا دل تھا۔ وہاں اس نے میان نما چمڑے کے رنگ کا خول سا بنایا ہوا تھا۔ اس نے اس پر خنجر رکھ کر دیکھا۔ خول بہت چھوٹا تھا۔ اس نے خنجر پھینک دیا اور بوتل میں سے شراب کے چار پانچ بڑے گھونٹ پی کر ادھر ادھر ٹہلنے لگی۔ وہ کئی بوتلیں خالی کر چکی تھی۔ کھایا کچھ بھی نہیں تھا۔
دیر تک ٹہلنے کے بعد وہ پھر آئینے کے سامنے آئی۔ اس کے گلے میں ازاربند نما گلوبند تھا، جس کے بڑے بڑے پھندنے تھے۔ یہ اس نے برش سے بنایا تھا۔
دفعتہ اس کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ گلوبند تنگ ہونے لگا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ اس کے گلے کے اندر دھنستا جارہا ہے۔ وہ خاموش کھڑی آئینے میں آنکھیں گاڑے رہی جو اسی رفتار سے باہر نکل رہی تھیں۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کے چہرے کی تمام رگیں پھولنے لگیں۔ پھر ایک دم سے اس نے چیخ ماری اور اوندھے منھ فرش پر گر پڑی۔

سڑک کے کنارے (منٹو)

’’یہی دن تھے۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔ دھلا ہوا، نتھرا ہوا۔ اور دھوپ بھی ایسی ہی کنکنی تھی۔ سہانے خوابوں کی طرح۔ مٹی کی باس میں ایسی ہی تھی جیسی کہ اس وقت میرے دل و دماغ میں رچ رہی ہے ...... اور میں نے اسی طرح لیٹے لیٹے اپنی پھڑ پھڑاتی ہوئی روح اس کے حوالے کردی تھی۔‘‘
’’اس نے مجھ سے کہا تھا ...... تم نے مجھے جو یہ لمحات عطا کیے ہیں یقین جانو، میری زندگی ان سے خالی تھی۔ جو خالی جگہیں تم نے آج میری ہستی میں پُر کی ہیں، تمہاری شکر گزار ہیں۔ تم میری زندگی میں نہ آتیں تو شاید وہ ہمیشہ ادھوری رہتی۔۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں تم سے اور کیا کہوں۔۔۔۔میری تکمیل ہو گئی ہے۔ ایسے مکمل طور پر کہ محسوس ہوتا ہے مجھے اب تمہاری ضرورت نہیں رہی۔۔۔۔اور وہ چلا گیا۔ ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔‘‘
’’میری آنکھیں روئیں۔ میرا دل رویا ...... میں نے اس کی منت سماجت کی۔ اس سے لاکھ مرتبہ پوچھا کہ میری ضرورت اب تمہیں کیوں نہیں رہی ...... جبکہ تمہاری ضرورت۔ اپنی تمام شدتوں کے ساتھ اب شروع ہوئی ہے۔ ان لمحات کے بعد جنہوں نے بقول تمہارے ، تمہاری ہستی کی خالی جگہیں پُر کی ہیں۔‘‘
اس نے کہا۔ ’’تمہارے وجود کے جس جس ذرے کی میری ہستی کی تعمیر و تکمیل کو ضرورت تھی، یہ لمحات چُن چُن کر دیتے رہے ...... اب کہ تکمیل ہو گئی ہے تمہارا اور میرا رشتہ خود بخود ختم ہو گیا ہے۔‘‘
’’کس قدر ظالمانہ لفظ تھے ...... ۔ مجھ سے یہ پتھرائو برداشت نہ کیا گیا ...... میں چیخ چیخ کر رونے لگی۔۔۔۔ مگر اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔۔۔۔ میں نے اس سے کہا۔ ’’یہ ذرے جن سے تمہاری ہستی کی تکمیل ہوتی ہے ، میرے وجود کا ایک حصہ تھے۔ کیا ان کا مجھ سے کوئی رشتہ نہیں۔ کیا میرے وجود کا بقایا حصہ ان سے اپنا ناطہ توڑ سکتاہے؟ ...... تم مکمل ہو گئے ہو۔۔۔۔ لیکن مجھے ادھورا کرکے ۔۔۔۔ کیا میں نے اسی لیے تمہیں اپنا معبود بنایا تھا؟ ‘‘
اس نے کہا۔ ’’بھونرے، پھولوں اور کلیوں کا رس چوس چوس کر شہد کشید کرتے ہیں، مگر وہ اس کی تلچھٹ تک بھی ان پھولوں اور کلیوں کے ہونٹوں تک نہیں لاتے ...... خدا اپنی پرستش کراتا ہے مگر خود بندگی نہیں کرتا۔۔۔۔ عدم کے ساتھ خلوت میں چند لمحات بسر کر کے اس نے وجود کی تکمیل کی ...... لیکن اب عدم کہاں ہے ...... اس کی اب وجود کو کیا ضرورت ہے۔وہ ایک ایسی ماں تھی جو وجود کو جنم دیتے ہی زچگی کے بستر پر فنا ہو گئی تھی۔‘‘
عورت رو سکتی ہے ...... دلیلیں پیش نہیں کرسکتی ...... اس کی سب سے بڑی دلیل اس کی آنکھ سے ڈھلکا ہوا آنسو ہے ...... میں نے اس سے کہا۔ ’’دیکھو ...... میں رو رہی ہوں ...... میری آنکھیں آنسو برسا رہی ہیں تم جارہے ہو تو جائو، مگر ان میں سے کچھ آنسوئوں کو تو اپنے رومال کے کفن میں لپیٹ کر ساتھ لیتے جائو۔۔۔۔ میں تو ساری عمر روتی رہوں گی ...... مجھے اتنا تو یاد رہے گا کہ چند آنسوئوں کے کفن دفن کا سامان تم نے بھی کیا تھا ...... ۔ مجھے خوش کرنے کے لیے ۔‘‘
اس نے کہا ۔ ’’میں تمہیں خوش کر چکا ہوں ...... تمہیں اس ٹھوس مسرت سے ہمکنار کر چکا ہوں جس کے تم سراب ہی دیکھا کرتی تھیں۔ کیا اس کا لطف اس کا کیف تمہاری زندگی کے بقایا لمحات کا سہارا نہیں بن سکتا۔ تم کہتی ہو کہ میری تکمیل نے تمہیں ادھورا کردیا ہے۔ لیکن یہ ادھورا پن کیا تمہاری زندگی کو متحرک رکھنے کے لیے کافی نہیں۔۔۔۔ میں مرد ہوں۔ آج تم نے میری تکمیل کی ہے ۔۔۔۔ کل کوئی اور کرے گا ...... میرا وجود کچھ ایسے آب و گِل سے بنا ہے جس کی زندگی میں ایسے کئی لمحات آئیں گے جب وہ خود کو تشنہ تکمیل سمجھے گا ...... اور تم ایسی کئی عورتیں آئیں گی جو ان لمحات کی پیدا کی ہوئی خالی جگہیں پُر کریں گی۔‘‘
میں روتی رہی جھنجھلاتی رہی۔
میں نے سوچا۔ یہ چند لمحات جو ابھی ابھی میری مٹھی میں تھے ...... نہیں ...... ۔ میں ان لمحات کی مٹھی میں تھی ...... میں نے کیوں خود کو ان کے حوالے کردیا۔ میں نے کیوں اپنی پھڑپھڑاتی روح ان کے منھ کھولے قفس میں ڈال دی ...... ۔۔۔ اس میں مزا تھا۔ ایک لطف تھا۔ ایک کیف تھا ...... تھا، ضرور تھا ...... ۔ اور یہ اس کے اور میرے تصادم میں تھا ...... ۔ لیکن ...... ۔۔ یہ کیا کہ وہ ثابت و سالم رہا ...... ۔۔ اور مجھ میں تریڑے پڑ گئے ...... یہ کیا، کہ وہ اب میری ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میں اور بھی شدت سے اس کی ضرورت محسوس کرتی ہوں۔ وہ طاقتور بن گیا ہے ۔ میں نحیف ہو گئی ہوں۔ یہ کیا کہ آسمان پر دو بادل ہم آغوش ہوں۔ ایک رو رو کر برسنے لگا، دوسرا بجلی کا کوندا بن کر اس بارش سے کھیلتا ، کدکڑے لگاتا بھاگ جائے ...... ۔ یہ کس کا قانون ہے؟ آسمان کا؟ زمینوں کا ...... یا ان کے بنانے والوں کا؟
میں سوچتی رہی اور جھنجھلاتی رہی۔
دو روحوں کا سمٹ کر ایک ہو جانا اور ایک ہو کہ والہانہ وسعت اختیار کر جانا۔ کیا یہ سب شاعری ہے؟ ...... ۔ نہیں دو روحیں سمٹ کر ضرور اس ننھے سے نکتے پر پہنچتی ہیں جو پھیل کر کائنات بنتا ہے ...... ۔ لیکن اس کائنات میں ایک روح کیوں کبھی کبھی گھائل چھوڑ دی جاتی ہے ...... کیا اس قصور پر کہ اس نے دوسری روح کو اس ننھے سے نکتے پر پہنچنے میں مدد تھی۔
یہ کیسی کائنا ت ہے۔
یہی دن تھے۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے ...... اور دھوپ بھی ایسی ہی کنکنی تھی ...... ۔۔ اور میں نے اسی طرح لیٹے لیٹے اپنی پھڑ پھڑاتی ہوئی روح اس کے حوالے کردی تھی ...... وہ موجود نہیں ہے۔ ...... بجلی کا کوندا بن کر جانے وہ کن بدلیوں کی گریہ و زاری سے کھیل رہا ہے۔۔۔۔ اپنی تکمیل کرکے چلا گیا ...... ۔ ایک سانپ تھا جو مجھے ڈس کر چلا گیا۔۔۔۔لیکن اب اس کی چھوڑی ہوئی لکیر کیوں میرے پیٹ میں کروٹیں لے رہی ہے ...... کیا یہ میری تکمیل ہورہی ہے؟
نہیں نہیں ...... یہ کیسے تکمیل ہو سکتی ہے ...... یہ تو تخریب ہے۔۔۔۔
لیکن یہ میرے جسم کی خالی جگہیں کیوں پُر ہورہی ہیں ...... یہ جو گڑھے تھے کس ملبے سے پُر کیے جارہے ہیں۔۔۔ میری رگوں میں یہ کیسی سرسراہٹیں دوڑ رہی ہیں۔ میں سمٹ کر اپنے پیٹ میں کس ننھے سے نکتے پر پہنچنے کے لیے پیچ و تاب کھا رہی ہوں۔۔۔۔ میری نائو ڈوب کر اب کن سمندروں میں ابھرنے کے لیے اٹھ رہی ہے ...... ؟
یہ میرے اندر دہکتے ہوئے چولھوں پر کس مہمان کے لیے دودھ گرم کیا جارہا ہے ...... یہ میرا دل میرے خون کو دھنک دھنک کر کس کے لیے نرم و نازک رضائیاں تیار کررہا ہے۔ یہ میرا دماغ میرے خیالات کے رنگ برنگ دھاگوں سے کس کے لیے ننھی منی پوشاکیں بن رہا ہے؟
میرا رنگ کس کے لیے نکھر رہا ہے ...... میرے انگ انگ اور روم روم میں پھنسی ہوئی ہچکیاں لوریوں میں کیوں تبدیل ہورہی ہیں ...... 
یہی دن تھے۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔۔۔ لیکن یہ آسمان اپنی بلندیوں سے اتر کر کیوں میرے پیٹ میں تن گیا ہے ...... ۔ اس کی نیلی نیلی آنکھیں کیوں میری رگوں میں دوڑتی پھرتی ہیں؟
میرے سینے کی گولائیوں میں مسجدوں کے محرابوں ایسی تقدیس کیوں آرہی ہے؟
نہیں، نہیں ...... یہ تقدیس کچھ بھی نہیں۔ میں ان محرابوں کو ڈھادوں گی ...... میں اپنے اندر تمام چولھے سرد کردوں گی جن پر بن بلائے مہمان کی خاطر داریاں چڑھی ہیں۔ میں اپنے خیالات کے تمام رنگ برنگ دھاگے آپس میں الجھا دوں گی۔۔۔۔
یہی دن تھے۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے ...... لیکن میں وہ دن کیوں یاد کرتی ہوں جن کے سینے پر سے وہ اپنے نقش قدم بھی اٹھا کر لے گیا تھا۔۔۔۔
لیکن یہ ...... ۔۔ یہ نقش قدم کس کا ہے۔ یہ جو میرے پیٹ کی گہرائیوں میں تڑپ رہا ہے۔۔۔۔؟ کیا یہ میرا جانا پہچانا نہیں۔۔۔۔
میں اسے کھرچ دوں گی ...... اسے مٹا دوں گی۔ یہ رسولی ہے ۔ پھوڑا ہے۔ بہت خوفناک پھوڑا۔
لیکن مجھے کیوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ پھاہا ہے۔۔۔۔ پھاہا ہے تو کس زخم کا؟ اس زخم کا جو وہ مجھے لگا کر چلا گیا تھا؟ نہیں نہیں۔ یہ تو ایسا لگتا ہے، کسی پیدائشی زخم کے لیے ہے۔۔۔۔ ایسے زخم کے لیے جو میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔۔۔۔ جو میری کوکھ میں جانے کب سے سو رہا تھا۔
یہ کوکھ کیا؟ فضول سی مٹی کی ہنڈکلیا۔ بچوں کا کھلونا میں اسے توڑ پھوڑ دوں گی۔
لیکن یہ کون میرے کان میں کہتا ہے۔ ’’یہ دنیا ایک چوراہا ہے ...... اپنا بھانڈا کیوں اس میں پھوڑتی ہے ...... یاد رکھ تجھ پر انگلیاں اٹھیں گی۔
انگلیاں ...... اُدھر کیوں نہ اٹھیں گی، جدھر وہ اپنی ہستی مکمل کرکے چلا گیا تھا۔ کیا ان انگلیوں کو وہ راستہ معلوم نہیں ...... یہ دنیا ایک چوراہا ہے ...... لیکن اس وقت تو وہ مجھے ایک دوراہے پر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اِدھر بھی ادھوراپن تھا۔ اُدھر بھی ادھوراپن۔ اِدھر بھی آنسو اُدھر بھی آنسو۔
لیکن یہ کس کا آنسو، میرے سیپ میں موتی بن رہا ہے۔ یہ کہاں بندھے گا؟
انگلیاں اٹھیں گی۔ جب سیپ کا منھ کھلے گا اور موتی پھسل کر باہر چوراہے میں گر پڑے گا تو انگلیاں اٹھیں گی۔ سیپی کی طرف بھی اور موتی کی طرف بھی ...... اور یہ انگلیاں سنپولیاں بن بن کر ان دونوں کوڈسیں گی اور اپنے زہر سے ان کو نیلا کردیں گی۔
آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔۔۔۔ یہ گر کیوں نہیں پڑتا ...... وہ کون سے ستون ہیں جو اس کو تھامے ہوئے ہیں ...... کیا اس دن جو زلزلہ آیا تھا وہ ان ستونوں کی بنیادیں ہلا دینے کے لیے کافی نہیں تھا ...... یہ کیوں اب تک میرے سر کے اوپر اسی طرح تنا ہوا ہے؟
میری روح پسینے میں غرق ہے۔۔۔۔ اس کا ہر مسام کھلا ہوا ہے۔ چاروں طرف آگ دہک رہی ہے ...... میرے اندر کٹھالی میں سونا پگھل رہا ہے۔۔۔۔ دھونکنیاں چل رہی ہیں۔ شعلے بھڑک رہے ہیں۔ سونا ، آتش فشاں پہاڑ کے لاوے کی طرح ابل رہا ہے۔ میری رگوں میں نیلی آنکھیں دوڑ دوڑ کر ہانپ رہی ہیں۔۔۔۔ گھنٹیاں بج رہی ہیں ...... کوئی آرہا ہے ...... کوئی آرہا ہے۔ بند کردو۔ بند کردو کواڑ۔۔۔
کٹھالی الٹ گئی ہے ...... پگھلا ہوا سونا بہہ رہا ہے ...... گھنٹیاں بج رہی ہیں۔۔۔۔ وہ آرہا ہے ...... میری آنکھیں بند ہورہی ہیں ...... نیلا آسمان گدلا ہو کر نیچے آرہا ہے ...... ۔
یہ کس کے رونے کی آواز ہے۔۔۔۔اسے چپ کرائو ...... اس کی چیخیں میرے دل پر ہتھوڑے مار رہی ہیں۔ چپ کرائو۔ اسے چپ کرائو۔ اسے چپ کرائو ...... میں گودبن رہی ہوں۔۔۔۔ میں کیوں گودبن رہی ہوں۔۔۔۔
میری بانہیں کُھل رہی ہیں۔ چولھوں پر دودھ ابل رہا ہے۔ میرے سینے کی گولائیاں پیالیاں بن رہی ہیں ...... لائو اس گوشت کے لوتھڑے کو میرے دل کے دھنکے ہوئے خون کے نرم نرم گالوں میں لٹادو۔۔۔۔
مت چھینو۔ مت چھینو اسے۔۔۔۔ مجھ سے جدا نہ کرو۔ خدا کے لیے مجھ سے جدا نہ کرو۔
انگلیاں۔۔۔۔ انگلیاں ...... اٹھنے دو انگلیاں۔ مجھے کوئی پروا نہیں ...... یہ دنیا چوراہا ہے ...... پھوٹنے دو میری زندگی کے تمام بھانڈے ۔۔۔۔
میری زندگی تباہ ہوجائے گی؟۔۔۔۔ ہوجانے دو۔۔۔۔ مجھے میرا گوشت واپس دے دو ...... میری روح کا یہ ٹکڑا مجھ سے مت چھینو ...... تم نہیں جانتے یہ کتنا قیمتی ہے ...... ۔ یہ گوہر ہے جو مجھے ان چند لمحات نے عطا کیا ہے۔۔۔۔ ان چند لمحات نے جنہوں نے میرے وجود کے کئی ذرے چُن چُن کر کسی کی تکمیل کی تھی اور مجھے اپنے خیال میں ادھورا چھوڑ کے چلے گئے تھے ...... میری تکمیل آج ہوئی ہے۔
مان لو۔۔۔۔ مان لو ...... میرے پیٹ کے خلا سے پوچھو۔ میری دودھ بھری ہوئی چھاتیوں سے پوچھو۔ ان لوریوں سے پوچھو، جو میرے انگ انگ اور روم روم میں تمام ہچکیاں سُلا کر آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان جھولنوں سے پوچھو جو میرے بازوئوں میں ڈالے جارہے ہیں۔
میرے چہرے کی زردیوں سے پوچھو جو گوشت کے اس لوتھڑے کے گالوں کو اپنی تمام سرخیاں چساتی رہی ہیں۔۔۔۔ اُن سانسوں سے پوچھو۔ جو چھپے چوری اس کو اس کا حصہ پہنچاتے رہے ہیں۔
انگلیاں۔ اٹھنے دو انگلیاں میں انہیں کاٹ ڈالوں گی۔۔۔۔شور مچے گا۔۔۔۔ میں یہ انگلیاں اٹھا کر اپنے کانوں میں ٹھونس لوں گی۔ میں گونگی ہوجائوں گی، بہری ہوجائوں گی، اندھی ہوجائوں گی۔۔۔۔ میرا گوشت، میرے اشارے سمجھ لیا کرے گا ...... میں اسے ٹٹول ٹٹول کر پہچان لیا کروں گی ...... 
مت چھینو ...... مت چھینو اسے۔ یہ میری کوکھ کی مانگ کا سیندھور ہے۔ یہ میری ممتا کے ماتھے کی بندیاں ہے ...... ۔ میرے گناہ کا کڑوا پھل ہے؟۔ لوگ اس پر تھو تھو کریں گے؟ ...... میں چاٹ لوں گی یہ سب تھوکیں۔۔۔ آنول سمجھ کر صاف کردوں گی ...... 
دیکھو، میں ہاتھ جوڑتی ہوں۔ تمھارے پائوں پڑتی ہوں۔
میرے بھرے ہوئے دودھ کے برتن اوندھے نہ کرو ...... میرے دل کے دھنکے ہوئے خون کے نرم نرم گالوں میں آگ نہ لگائو۔ میری بانہوں کے جھولنوں کی رسیاں نہ توڑو۔ میرے کانوں کو ان گیتوں سے محروم نہ کرو جو اس کے رونے میں مجھے سنائی دیتے ہیں۔
مت چھینو۔ مت چھینو ...... مجھ سے جدا نہ کرو۔ خدا کے لیے مجھے اس سے جدا نہ کرو۔
لاہور۔ ۲۱ جنوری
دھوبی منڈی سے پولیس نے ایک نوزائیدہ بچی کو سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے سڑک کے کنارے پڑی ہوئی پایا اور اپنے قبضے میں لے لیا۔ کسی سنگدل نے بچی کی گردن کو مضبوطی سے کپڑے میں جکڑ رکھا تھا اور عریاں جسم کو پانی سے گیلے کپڑے میں باندھ رکھا تھا تاکہ وہ سردی سے مر جائے۔ مگر وہ زندہ تھی بچی بہت خوبصورت ہے۔ آنکھیں نیلی ہیں۔ اس کو ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔