صفحات

پیر، 23 اگست، 2021

Ayesha Akram herself is responsible for Minar Pakistan tragedy!

You must have seen the video of the tragic incident that took place on August 14, 2021 at Minar Pakistan.

Regarding the motives of Ayesha Akram behind this incident, it can be said at present that she made this move to gain cheap fame.

But the biggest culprit of this tragedy is Ayesha Akram herself and that  mob also who is not even worthy to be called a human being.

The first thing is that the lady herself sent a message through Tik Tok and invited her followers there. At the beginning of the video, it can be seen that the lady arrives at The Greater Iqbal Park in a very good mood. She looks at the crowd and starts flying kisses.

She doesn't mind when people around her surround her to take pictures with her, and she happily takes selfies with them. One person even puts his hand on her chest and makes a picture. Which they have no objection to. When you allow a man to put his hand on your chest, then why would a man refrain from going further.

On this occasion, a famous couplet of Akbar Allahabadi comes to mind:

تہذیب مغربی میں ہے بوسے تلک معاف 


اس سے اگر بڑھو تو شرارت کی بات ہے

And in the end, the people there tore the lady's clothes and snatched her jewellery.

What this mob did was completely wrong and they should be punished for this crime. But the question is how this turn came. In a society where even a goat is not safe and raped by five people which is on record. The dead bodies are not safe. In 2008, a deceased was raped inside a grave in Karachi. A few weeks earlier, a similar incident took place in Lahore in which the culprit was killed in a police encounter. So in this environment, Ms. Ayesha first attracted the male crowd and provoked them, as a result of which this incident took place. Therefore, the first FIR should be filed against Ayesha for harassing men with flying kisses. In addition, he has sought to garner sympathy and gain international fame and attention through the tragedy. In which our media is also giving their full support. Was she the only woman in the whole Iqbal Park? No, there were many other women but why did all this happen to them? Because that's what she wanted.

Zahra Bibi, the first Pakistani taxi driver recipient of awards from the United Kingdom and the United States, was also interviewed on the occasion, in which she said that she has been driving a taxi for the last 35 years but no such incident has happened to her. She even said that once she was taking a taxi to Swat when she was stopped by the Taliban on the way and she introduced herself. The Taliban said that you will definitely stay here on your return. And on her return they filled his whole car with rations and various things and said that whenever you vist here you must take these gifts from us. He said that no man could look at a woman with a dirty eye unless she wanted to.

The majority of our country is blaming the mob of these 400 people and demanding their punishment but not saying anything to Tik Toker Ayesha which is completely wrong. Ayesha's mistake caused this incident to happen.

سانحہ مینار پاکستان کی ذمے دار خود عائشہ اکرم ہی ہے!


 14اگست 2021ء کو مینار پاکستان پر پیش آنے والے افسوسناک واقعے کی ویڈیو آپ نے دیکھی ہی ہو گی۔ اس واقعے کے پیچھے عائشہ اکرم کے کیا مقاصد تھے ان کے متعلق تو فی الحال یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے یہ حرکت کی۔
 لیکن اس سانحے کی سب سے بڑی ذمے دار خود عائشہ اکرم ہے اور اس کے بعد وہ ہجوم جو وہاں موجود اور وہ مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں ہے۔
 پہلی بات تو یہ کہ محترمہ نے خود ٹک ٹاک کے ذریعے پیغام دے کر اپنے فالوئرز کو دعوت دے کر وہاں بلوایا۔ ویڈیو کے آغاز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بہت اچھے موڈ میں محترمہ کی گریٹر اقبال پارک میں آمد ہوتی ہے۔ وہ ہجوم کو دیکھ کر فلائنگ کسسز کرنے لگتی ہیں۔ جب وہاں موجود لوگ ان کے ساتھ تصاویر بنوانے کے لیے انھیں گھیر لیتے ہیں تو بھی انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور وہ بخوشی ان کے ساتھ سیلفیاں بنواتی ہیں۔ یہاں تک کہ ایک شخص ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر تصویر بنواتا ہے۔ جس پر انھیں کوئی اعترض نہیں ہوتا۔ جب آپ نے کسی مرد کو اپنے سینے پر ہاتھ رکھنے کی اجازت دے دی تو پھر مرد مزید آگے بڑھنے سے کیوں کر باز رہے گا۔
 اس موقعے پر اکبر الہٰ آبادی کا شعر یاد آتا ہے کہ:
 تہذیب مغربی میں ہے بوسے تلک معاف
 اس سے اگر بڑھو تو شرارت کی بات ہے
 اور بالآخر یہی ہوا کہ وہاں موجود افراد نے محترمہ کے کپڑے تک پھاڑ ڈالے اور زیورات چھین لیے۔
 اس ہجوم نے جو کچھ کیا وہ سراسر غلط تھا اور انھیں اس جرم کی سزا ملنی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ نوبت کیسے آئی ۔ اس معاشرے میں جہاں ایک بے زبان بکری تک محفوظ نہیں اور اس کے ساتھ بھی پانچ افراد نے زیادتی کر دی جو کہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ میتیں محفوظ نہیں۔ 2008 میں کراچی میں ایک میت کے ساتھ قبرستان میں قبر کے اندر زیادتی کا واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد کچھ ہفتے پہلے لاہور میں بھی اس قسم کا واقعہ رونما ہوا جس کا مجرم پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ تو اس ماحول میں محترمہ عائشہ نے انھیں پہلے تو اپنی طرف متوجہ کیا اور اکسایا جس کے نتیجے میں یہ واقعہ پیش آیا۔ اس لیے سب سے پہلیFIRعائشہ کے خلاف کٹنی چاہیے کہ انھوں نے فلاینگ کسسز کر کے مردوں کو ہراساں کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اس سانحے کے ذریعے ہمدردی سمیٹنے اور بین الاقوامی شہرت اور توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس میں ہمارا میڈیا بھی انکا پورا پورا ساتھ دے رہا ہے۔ کیا پورے اقبال پارک میں یہی اکلوتی خاتون تھیں؟ نہیں وہاں کئی اور خواتین بھی موجود تھیں لیکن یہ سب کچھ ان کے ساتھ ہی کیوں ہوا؟ کیونکہ وہ خود یہی کچھ چاہتی تھیں۔
 اس موقعے پر برطانیہ اور امریکا سے ایوارڈز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور خاتون زہرہ بی بی کا بھی انٹرویو لیا گیا جس میں انھوں نے بتایا کہ گزشتہ 35برسوں سے وہ ٹیکسی چلا رہی ہیں لیکن ان کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک مرتبہ وہ ٹیکسی لے کر سوات جا رہی تھیں تو راستے میں انھیں طالبان نے روکا جس پر انھوں نے اپنا تعارف کروایا۔ طالبان نے کہا کہ واپسی پر آپ یہاں ضرور رکیے گا۔ اور واپسی پر انھوں نے ان کی پوری گاڑی راشن اور مختلف چیزوں سے بھر دی اور کہا کہ آئندہ جب بھی یہاں آئیں تو ہم سے یہ تحائف ضرور لے کر جائیں۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ جب تک عورت خود نہ چاہے کوئی مرد اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔
 ہمارے ملک کی اکثریت اس ۴۰۰ افراد کے ہجوم پر تو ملامت کر رہی ہے اور انکو سزا دلوانے کا مطالبہ بھی کر رہی ہے لیکن عائشہ ٹک ٹاکر کو کچھ نہیں کہہ رہی۔ جو کہ سراسر غلط ہے۔ سب سے بڑی غلطی ہی عائشہ کی ہے جس کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا۔

منگل، 18 مئی، 2021

ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے...! از عنایت علی خان

 ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے...!


زباں پر جب مریضِ ہجر فریا دِلی لایا
وفورِ غم سے یوں تڑپا عناصر کو ترس آیا
زمیں سے آہ اٹھی اور فلک نے خون برسایا
اثر تو چارہ گر پر بھی ہوا لیکن یہ فرمایا
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

مجھے ہمسائے کے گھر میں جونہی شعلے نظر آئے
تو قبل اس سے کہ یہ آتش مرے گھر تک پہنچ جائے
بہ عجلت تھانے اور فائر بریگیڈ فون کھڑکائے
مگر دونوں جگہ سے یہ جواب لا جواب آئے
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

ابھی پچھلے دنوں جب ایک تاجر ہو گیا اغوا
اور اس اغوا کا اخباروں میں شدت سے ہوا چرچا
خود اس کے گھر میں تو گویا قیامت ہو گئی برپا
رپٹ لکھوانے تھانے پہنچے تو ایس ایچ او بولا
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

مِرا اک دوست مدت بعد مجھ سے ملنے آیا کل
یہیں دل کا پڑا دورہ تو میں بھی ہو گیا بیکل
وہ بولا تیسرا دورہ ہے دل کے وارڈ میں لے چل
وہاں پہنچے تو بولا ڈاکٹر کچھ سوچ کو اک پل
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

اور اُس دولھا کا قصہ آپ نے بھی تو سنا ہو گا
اسے جب آرسی مصحف کی خاطر گھر میں بلوایا
کہ لڑکا اندر آئے اور دلھن کا دیکھ لے چہرا
تو دروازے پہ پہنچا اور یہ کہہ کر پلٹ آیا
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے از باقی صدیقی

 داغ دل ہم کو یاد آنے لگے

لوگ اپنے دیئے جلانے لگے

کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے

یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے

خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے

اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے

رخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے

ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے

ہم تک آئے نہ آئے موسم گل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے

شام کا وقت ہو گیا باقیؔ
بستیوں سے شرار آنے لگے

*باقی صدیقی*

خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی از سراج اورنگ آبادی

 خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی

نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی

شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی

چلی سمت غیب سیں کیا ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہو سو ہری رہی

نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سیں بیاں کروں
کہ شراب صد قدح آرزو خم دل میں تھی سو بھری رہی

وہ عجب گھڑی تھی میں جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی

ترے جوش حیرت حسن کا اثر اس قدر سیں یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں رہی جلا نہ پری کوں جلوہ گری رہی

کیا خاک آتش عشق نے دل بے نوائے سراجؔ کوں
نہ خطر رہا نہ حذر رہا مگر ایک بے خطری رہی

سراج اورنگ آبادی

جمعرات، 14 مئی، 2020

فرشتہ (منٹو)

سرخ کھردرے کمبل میں عطا اللہ نے بڑی مشکل سے کروٹ بدلی۔ اور اپنی مُندی ہوئی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولیں۔ کہرے کی دبیز چادر میں کئی چیزیں لپٹی ہوئی تھیں، جن کے صحیح خدو خال نظر نہیں آتے تھے۔ ایک لمبا، بہت ہی لمبا، نہ ختم ہونے والا دالان تھا یا شاید کمرہ تھا جس میں دھندلی دھندلی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی روشنی جو جگہ جگہ میلی ہورہی تھی۔
دُور بہت دُور، جہاں شاید یہ کمرہ یا دالان ختم ہو سکتا تھا، ایک بہت بڑا بت تھا جس کا دراز قد چھت کو پھاڑتا ہوا باہر نکل گیا تھا، عطا ء اللہ کو اس کا صرف نچلا حصہ نظر آرہا تھا جو بہت پُرہیبت تھا۔ اس نے سوچا کہ شاید یہ موت کا دیوتا ہے جو اپنی ہولناک شکل دکھانے سے قصداً گریز کررہا ہے۔
عطاء اللہ نے ہونٹ گول کرکے اور زبان پیچھے کھینچ کر اس پُرہیبت بت کی طرف دیکھا اور سیٹی بجائی، بالکل اسی طرح جس طرح کتے کو بلانے کے لیے بجائی جاتی ہے۔ سیٹی کا بجنا تھا کہ اس کمرے یا دالان کی دھندلی فضا میں ان گنت دُمیں لہرانے لگیں۔ لہراتے لہراتے یہ سب ایک بہت بڑے شیشے کے مرتبان میں جمع ہو گئیں جو غالباً اسپرٹ سے بھرا ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ مرتبان دھندلی فضا میں بغیر کسی سہارے کے تیرتا ڈولتا اُس کی آنکھوں کے پاس پہنچ گیا۔ اب وہ ایک چھوٹا سا مرتبان تھا جس میں اسپرٹ کے اندر اس کا دل ڈبکیاں لگا رہا تھا اور دھڑکنے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔
عطاء اللہ کے حلق سے دبی دبی چیخ نکلی۔ اس مقام پر جہاں اس کا دل ہوا کرتا تھا، اس نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ رکھا اور بے ہوش ہو گیا۔
معلوم نہیں کتنی دیر کے بعد اسے ہوش آیا مگر جب اس نے آنکھیں کھولیں تو کہرا غائب تھا، وہ دیو ہیکل بت بھی۔ اس کا سارا جسم پسینے میں شرابور تھا اور برف کی طرح ٹھنڈا۔ مگر اس مقام پر جہاں اس کا دل تھا ایک آگ سی لگی ہوئی تھی۔ اس آگ میں کئی چیزیں جل رہی تھیں۔ بے شمار چیزیں۔ اس کی بیوی اور بچوں کی ہڈیاں تو چٹخ رہی تھیں۔ مگر اس کے گوشت پوست اور اس کی ہڈیوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ جھلسا دینے والی تپش میں بھی وہ یخ بستہ تھا۔
اس نے ایک دم اپنے برفیلے ہاتھوں سے اپنی زرد رو بیوی اور سوکھے کے مارے ہوئے بچوں کو اٹھایا اور پھینک دیا۔ اب آگ کے اس الائو میں عرضیوں کے پلندے کے پلندے جل رہے تھے۔ ہر زبان میں لکھی ہوئی عرضیاں۔ ان پر اس کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے دستخط، سب جل رہے تھے آواز پیدا کیے بغیر۔
آگ کے شعلوں کے پیچھے اُسے اپنا چہرہ نظر آیا۔ پسینے سے، سرد پسینے سے تربتر۔ اس نے آگ کا ایک شعلہ پکڑا اور اس سے اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھ کر ایک طرف پھینک دیا۔ الائو میں گرتے ہی یہ شعلہ بھیگے ہوئے اسفنج کی طرح رونے لگا۔ عطاء اللہ کو اس کی یہ حالت دیکھ کر بہت ترس آیا۔
عرضیاں جلتی رہیں اور عطاء اللہ دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کی زرد رو بیوی نمودار ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں گندھے ہوئے آٹے کا تھال تھا۔ جلدی جلدی اس نے پیڑے بنائے اور آگ میں ڈالنا شروع کردیئے جو آنکھ جھپکنے کی دیر میں کوئلے بن کر سلگنے لگے۔ انہیں دیکھ کر عطاء اللہ کے پیٹ میں زور کا درد اٹھا۔ جھپٹا مار کر اس نے تھال میں سے آخری پیڑا اٹھایا اور منھ میں ڈال لیا۔ لیکن آٹا خشک تھا۔ ریت کی طرح۔ اس کا سانس رکنے لگا اور وہ پھر بے ہوش ہو گیا۔
اب اس نے ایک بے جوڑ خواب دیکھنا شروع کیا۔ ایک بہت بڑی محراب تھی جس پر جلی حروف میں یہ شعر لکھا تھا
روز محشر کہ جاں گداز بود
اوّلیں پرسش نماز بود
وہ فوراً پتھریلے فرش پر سجدے میں گر پڑا۔ نماز بخشوانے کے لیے دعا مانگنا چاہی۔ مگر بھوک اس کے معدے کو اس بُری طرح ڈسنے لگی کہ بلبلا اٹھا۔ اتنے میں کسی نے بڑی با رعب آواز میں اسے پکارا 
’’عطاء اللہ‘‘
عطاء اللہ کھڑا ہو گیا۔ محرابوں کے پیچھے۔ بہت پیچھے اونچے منبر پر ایک شخص کھڑا تھا۔ مادر زاد برہنہ، اس کے ہونٹ ساکت تھے، مگر آواز آرہی تھی۔
’’عطاء اللہ! تم کیوں زندہ ہو؟ آدمی صرف اس وقت تک زندہ رہتا ہے، جب تک اسے کوئی سہارا ہو۔ ہمیں بتائو، کوئی ایسا سہارا ہے جس کا تمہیں سہارا ہو؟ ہمیں بتائو، کوئی ایسا سہارا ہے جس کا تمہیں سہا ہو؟۔ تم بیمار ہو۔ تمہاری بیوی آج نہیں تو کل بیمار ہوجائے گی۔ وہ جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا، بیمار ہوتے ہیں۔ زندہ درگور ہوتے ہیں۔ اُس کا سہارا تم ہو جو بڑی تیزی سے ختم ہورہا ہے۔ تمہارے بچے بھی ختم ہورہے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ تم نے خود اپنے آپ کو ختم نہیں کیا، اپنے بچوں اور اپنی بیوی کو ختم نہیں کیا۔ کیا اس خاتمے کے لیے بھی تمہیں کسی کے سہارے کی ضرورت ہے۔ تم رحم و کرم کے طالب ہو۔ بے وقوف، کون تم پر رحم کرے گا۔ موت کو کیا پڑی ہے کہ وہ تمہیں مصیبتوں سے نجات دلائے۔ اس کے لیے یہ مصیبت کیا کم ہے کہ وہ موت ہے۔ کس کس کو آئے۔ ایک صرف تم عطاء اللہ نہیں ہو، تم ایسے لاکھوں عطاء اللہ اس بھری دنیا میں موجود ہیں۔ جائو اپنی مصیبتوں کا علاج خود کرو۔ دو مریل بچوں اور ایک فاقہ زدہ بیوی کو ہلاک کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اس بوجھ سے ہلکے ہو جائو تو موت شرمسار ہو کر خود بخود تمہارے پاس چلی آئے گی۔‘‘
عطاء اللہ غصے سے تھر تھر کانپنے لگا۔ ’’تم، تم سب سے بڑے ظالم ہو۔ بتائو، تم کون ہو۔ اس سے پیشتر کہ میں اپنی بیوی اور بچوں کو ہلاک کروں، میں تمہارا خاتمہ کر دینا چاہتا ہوں۔‘‘
مادرزاد، برہنہ شخص نے قہقہہ لگایا اور کہا۔ ’’میں عطاء اللہ ہوں۔ غور سے دیکھو۔ کیا تم اپنے آپ کو بھی نہیں پہچانتے؟‘‘
عطاء اللہ نے اس ننگ دھڑنگ آدمی کی طرف دیکھا اور اس کی گردن جھک گئی۔ وہ خود ہی تھا، بغیر لباس کے۔ اس کا خون کھولنے لگا۔ فرش میں سے اس نے اپنے بڑھے ہوئے ناخنوں سے کھرچ کھرچ کر ایک پتھر نکالا اور تان کر منبر کی طرف پھینکا۔ اس کا سر چکرا گیا۔ ماتھے پر ہاتھ رکھا تو اس میں سے لہو نکل رہا تھا۔ وہ بھاگا، پتھریلے صحن کو عبور کرکے جب باہر نکلا تو ہجوم نے اسے گھیر لیا۔ ہجوم کا ہر فرد عطاء اللہ تھا، جس کا ماتھا لہو لہان تھا۔
بڑی مشکلوں سے ہجوم کو چیر کر وہ باہر نکلا۔ ایک تنگ و تار سڑک پر دیر تک چلتا رہا۔ اس کے دونوں کناروں پر حشیش اور تھوہر کے پودے اُگے ہوئے تھے۔ ان میں کہیں کہیں دوسری زہریلی بوٹیاں بھی تھیں۔ عطاء اللہ نے جیب سے بوتل نکال کر تھوہر کا عرق جمع کیا۔ پھر زہریلی بوٹیوں کے پتے توڑ کر اس میں ڈالے اور انہیں ہلاتا ہلاتا اس موڑ پر پہنچ گیا جہاں سے کچھ فاصلے پر اس کا مکان تھا۔ شکستہ اینٹوں کا ڈھیر۔
ٹاٹ کا بوسیدہ پردہ ہٹا کر اندر داخل ہوا۔ سامنے طاق میں مٹی کے تیل کی کپی سے کافی روشنی نکل رہی تھی۔ اس مٹیالی روشنی میں اس نے دیکھا کہ جھلنگی پلنگڑی پر اس کے دونوں مریل بچے مرے پڑے ہیں۔
عطاء اللہ کو بہت ناامیدی ہوئی۔ بوتل جیب میں رکھ کر جب وہ پلنگڑی کے پاس گیا تو اس نے دیکھا کہ وہ پھٹی پرانی گدڑی جو اس کے بچوں پر پڑی ہے آہستہ آہستہ ہل رہی ہے۔ عطا ء اللہ بہت خوش ہوا۔ وہ زندہ تھے۔ بوتل جیب سے نکال کر وہ فرش پر بیٹھ گیا۔
دونوں لڑکے تھے۔ ایک چار برس کا، دوسرا پانچ کا۔ دونوں بھوکے تھے، دونوں ہڈیوں کا ڈھانچہ تھے۔ گدڑی ایک طرف ہٹا کر جب عطاء اللہ نے ان کو غور سے دیکھا تو اسے تعجب ہوا کہ اتنے چھوٹے بچے اتنی سوکھی ہڈیوں پر اتنی دیر سے کیسے زندہ ہیں۔ اس نے زہر کی شیشی ایک طرف رکھ دی اور انگلیوں سے ایک بچے کی گردن ٹٹولتے ٹٹولتے ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔ ہلکی سی تڑاخ ہوئی اور اس بچے کی گردن ایک طرف لٹک گئی۔ عطاء اللہ بہت خوش ہوا کہ اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے کام تمام ہو گیا۔ اسی خوشی میں اس نے اپنی بیوی کو پکارا۔ ’’جیناں! جیناں، ادھر آئو، دیکھو میں نے کتنی صفائی سے رحیم کو مار ڈالا ہے، کوئی تکلیف نہیں ہوئی اس کو۔‘‘
اس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ زینب کہاں ہے؟ معلوم نہیں کہاں چلی گئی ہے؟۔ شاید بچوں کے لیے کسی سے کھانا مانگنے گئی ہو۔ یا ہسپتال میں اس کی خیریت دریافت کرنے۔ عطاء اللہ ہنسا، مگر اس کی ہنسی فوراً دب گئی، جب دوسرے بچے نے کروٹ بدلی اور اپنے مردہ بھائی کو بُلانا شروع کیا۔ ’’رحیم۔ رحیم‘‘۔
وہ نہ بولا تو اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ ہڈیوں کی چھوٹی چھوٹی سیاہ پیالیوں میں اس کی آنکھیں چمکیں۔ ’’ابا تم آگئے۔‘‘
عطاء اللہ نے ہولے سے کہا۔ ’’ہاں کریم، میں آگیا۔‘‘
کریم نے اپنے استخوانی ہاتھ سے رحیم کو جھنجھوڑا۔‘‘ اٹھو رحیم ابا آگئے ہسپتال سے۔‘‘
عطاء اللہ نے اس کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’خاموش رہو۔ وہ سو گیا ہے۔‘‘
کریم نے اپنے باپ کا ہاتھ ہٹایا۔ ’’کیسے سو گیا ہے۔ ہم دونوں نے ابھی تک کچھ کھایا نہیں۔‘‘
’’تم جاگ رہے تھے؟‘‘
’’ہاں ابا۔‘‘
’’سو جائو گے ابھی تم۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’میں سلاتا ہوں تمہیں۔‘‘ یہ کہہ کر عطاء اللہ نے اپنی سخت انگلیاں کریم کی گردن پر رکھیں اور اس کو مروڑ دیا۔ مگر تڑاخ کی آواز پیدا نہ ہوئی۔
کریم کو بہت درد ہوا۔ ’’یہ آپ کیا کررہے ہیں؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ عطاء اللہ حیرت زدہ تھا کہ اس کا یہ دوسرا لڑکا اتنا سخت جان کیوں ہے۔ ’’کیا تم سونا نہیں چاہتے؟‘‘
کریم نے اپنی گردن سہلاتے ہوئے جواب دیا۔ ’’سونا چاہتا ہوں، کچھ کھانے کو دے دو، سوجائوں گا۔‘‘
عطاء اللہ نے زہر کی شیشی اٹھائی۔ ’’پہلے یہ دوا پی لو۔‘‘
’’اچھا۔‘‘کریم نے اپنا منھ کھول دیا۔
عطاء اللہ نے ساری شیشی اس کے حلق میں انڈیل دی اور اطمینان کا سانس لیا۔ ’’اب تم گہری نیند سو جائو گے۔‘‘
کریم نے اپنے باپ کا ہاتھ پکڑا اور کہا۔ ’’ابا۔ اب کچھ کھانے کو دو۔‘‘
عطا اللہ کو بہت کوفت ہوئی۔ ’’تم مرتے کیوں نہیں؟‘‘
کریم یہ سن کر سٹپٹا ساگیا۔ ’’کیا ابا؟‘‘
’’تم مرتے کیوں نہیں۔میرا مطلب ہے اگر تم مر جائو گے تو نیند بھی آجائے گی تمہیں۔‘‘
کریم کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس کا باپ کیا کہہ رہا ہے۔ ’’مارتا تو اللہ میاں ہے ابا۔‘‘
اب عطاء اللہ کی سمجھ میں آیا کہ وہ کیا کہے۔ ’’مارا کرتا تھا کبھی، اب اس نے یہ کام چھوڑ دیا ہے چلو اٹھو۔‘‘
پلنگڑی پر کریم تھوڑا سا اٹھا تو عطاء اللہ نے اسے اپنی گود میں لے لیا اور سوچنے لگا کہ وہ اللہ میاں کیسے بنے۔ ٹاٹ کا پردہ ہٹا کر جب باہر گلی میں نکلا، اسے یوں محسوس ہوا جیسے آسمان اس پر جھکا ہوا ہے، اس میں جا بجا مٹی کے تیل کی کپیاں جل رہی تھیں۔ اللہ میاں خدا جانے کہاں تھا اور زینب بھی۔ معلوم نہیں وہ کہاں چلی گئی تھی۔
کہیں سے کچھ مانگنے گئی ہو گی۔ عطاء اللہ ہنسنے لگا۔ لیکن فوراً اسے خیال آیا کہ اسے اللہ میاں بننا تھا۔ سامنے موری کے پاس بہت سے پتھر پڑے تھے، ان پر وہ اگر کریم کو دے مارے تو مگر اس میں اتنی طاقت نہیں تھی۔ کریم اس کی گود میں تھا۔ اس نے کوشش کی کہ اسے اپنے بازوئوں میں اٹھائے اور سر سے اوپر لے جا کر پتھروں پر پٹخ دے، مگر اس کی طاقت جواب دے گئی۔ اس نے کچھ سوچا اور اپنی بیوی کو آواز دی۔ ’’جیناں۔ جیناں۔‘‘
زینب معلوم نہیں کہاں ہے۔ کہیں وہ اس ڈاکٹر کے ساتھ تو نہیں چلی گئی جو ہر وقت اس سے اتنی ہمدردی کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ وہ ضرور اس کے فریب میں آگئی ہوگی۔ میرے لیے اس نے کہیں خود کو بیچ تو نہیں دیا۔
یہ سوچتے ہی اس کا خون کھول اٹھا۔ کریم کو پاس بہتی ہوئی بدرو میں پھینک کر وہ ہسپتال کی طرف بھاگا۔ اتنا تیز دوڑا کہ چند منٹ میں ہسپتال پہنچ گیا۔
رات نصف سے زیادہ گزر چکی تھی۔ چاروں طرف سناٹا تھا جب وہ اپنے وارڈ کے برآمدے میں پہنچا تو دو آوازیں سنائی دیں ایک اس کی بیوی کی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی، ’’تم دغا باز ہو، تم نے مجھے دھوکا دیا ہے۔ اس سے جو کچھ تمہیں ملا ہے تم نے اپنی جیب میں ڈال لیا ہے۔‘‘
کسی مرد کی آواز سنائی دی۔ ’’تم غلط کہتی ہو۔ تم اس کو پسند نہیں آئیں، اس لیے وہ چلا گیا۔‘‘
اس کی بیوی دیوانہ وار چلائی۔ ’’بکواس کرتے ہو۔ ٹھیک ہے کہ میں دو بچوں کی ماں ہوں، میرا وہ پہلا سا رنگ روپ نہیں رہا۔ لیکن وہ مجھے قبول کر لیتا، اگر تم بھانجی نہ مارتے۔ تم بہت ظالم ہو، بڑے کٹھور ہو۔‘‘ اس کی آواز گلے میں رندھنے لگی۔ ’’میں کبھی تمہارے ساتھ نہ چلتی، میں کبھی اس ذلت میں نہ گرتی، اگر میرا خاوند بیمار اور میرے بچے کئی دنوں کے بھوکے نہ ہوتے۔ تم نے کیوں یہ ظلم کیا؟‘‘
اس مرد نے جواب دیا۔ ’’وہ، وہ کوئی بھی نہیں تھا، میں خود تھا۔ جب تم میرے ساتھ چل پڑیں تو میں نے خود کو پہچانا اور تم سے کہا کہ وہ چلا گیا ہے۔ وہ جس کے لیے میں تمہیں لایا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہارا خاوند مرجائے گا۔ تمہارے بچے مر جائیں گے۔ تم بھی مر جائو گی۔ لیکن۔۔۔۔۔‘‘
’’لیکن کیا؟‘‘۔ اس کی بیوی نے تیکھی آواز میں پوچھا۔
’’میں مرتے دم تک زندہ رہوں گا۔ تم نے مجھے اس زندگی سے بچالیا ہے جو موت سے کہیں زیادہ خوفناک ہوتی۔ چلو آئو۔ عطاء اللہ ہمیں بلا رہا ہے۔‘‘
عطاء اللہ یہاں کھڑا ہے۔‘‘ عطاء اللہ نے بھنچی ہوئی آواز میں کہا۔
دو سائے پلٹے۔ اس سے کچھ فاصلے پر وہ ڈاکٹر کھڑا تھا جو زینب سے بڑی ہمدردی کا اظہار کیا کرتا تھا۔ اس کے منھ سے صرف اس قدر نکل سکا تھا۔ ’’تم!‘‘
’’ہاں میں۔۔۔۔ تمہاری سب باتیں سن چکا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر عطاء اللہ نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ ’’جیناں۔ میں نے رحیم اور کریم دونوں کو مار ڈالا ہے۔ اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں۔‘‘
زینب چیخی۔ ’’مار ڈالا تم نے دونوں بچوں کو؟‘‘
عطاء اللہ نے بڑے پُرسکون لہجے میں کہا۔ ’’ہاں، انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ میرا خیال ہے تمہیں بھی کوئی تکلیف نہیں ہو گی، ڈاکٹر صاحب جو موجود ہیں۔‘‘
ڈاکٹر کانپنے لگا۔ عطاء اللہ آگے بڑھا اور اس سے مخاطب ہوا۔ ’’ایسا انجکشن دے دو کہ فوراً مرجائے۔‘‘
ڈاکٹر نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنا بیگ کھولا اور سرنج میں زہر بھر کے زینب کے ٹیکہ لگا دیا۔ ٹیکہ لگتے ہی وہ فرش پر گری اور مر گئی۔ اس کی زبان پر آخری الفاظ ’’میرے بچے، میرے بچے‘‘ تھے مگر اچھی طرح ادا نہ ہو سکے۔ عطاء اللہ نے اطمینان کا سانس لیا ’’چلو یہ بھی ہو گیا۔ اب میں باقی رہ گیا ہوں۔‘‘
’’لیکن ...... لیکن میرے پاس زہر ختم ہو گیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر کے لہجے میں لکنت تھی۔
عطاء اللہ تھوڑی دیر کے لیے پریشان ہو گیا، لیکن فوراً سنبھل کر اس نے ڈاکٹر سے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں۔ میں اندر اپنے بستر پر لیٹتا ہوں۔ تم بھاگ کے زہر لے کر آئو۔‘‘
بستر پر لیٹ کر سرخ کھردرے کمبل میں اس نے بڑی مشکل سے کروٹ بدلی اور اپنی مُندی ہوئی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولیں۔ کہرے کی چادر میں کئی چیزیں لپٹی ہوئی تھیں، جن کے صحیح خدوخال نظر نہیں آتے تھے ...... ایک لمبا، بہت ہی لمبا، نہ ختم ہونے والا دالان تھا ...... یا شاید کمرہ، جس میں دھندلی دھندلی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی روشنی جو جگہ جگہ میلی ہو رہی تھی۔
دور بہت دور ایک فرشتہ کھڑا تھا۔ جب وہ آگے بڑھنے لگا تو چھوٹا ہوتا گیا۔ عطاء اللہ کی چارپائی کے پاس پہنچ کر وہ ڈاکٹر بن گیا۔ وہی ڈاکٹر جو اس کی بیوی سے ہر وقت ہمدردی کا اظہار کیا کرتا تھا۔ اور اسے بڑے پیار سے دلاسا دیتا تھا۔
عطاء اللہ نے اسے پہچانا تو اُٹھنے کی کوشش کی۔ ’’آئیے ڈاکٹر صاحب۔‘‘
مگر وہ ایک دم غائب ہو گیا۔ عطاء اللہ لیٹ گیا۔ اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔ کہرا دُور ہو چکا تھا۔ معلوم نہیں کہاں غائب ہو گیا تھا۔
اس کا دماغ بھی صاف تھا۔ ایک دم وارڈ میں شور بلند ہوا۔ سب سے اونچی آواز جو چیخ سے مشابہ تھی، زینب کی تھی۔ اس کی بیوی کی۔ وہ کچھ کہہ رہی تھی ...... معلوم نہیں کیا کہہ رہی تھی۔ عطاء اللہ نے اُٹھنے کی کوشش کی۔ زینب کو آواز دینے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ...... دھند پھر چھانے لگی اور وارڈ لمبا ...... بہت لمبا ہوتا چلا گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد زینب آئی۔ اس کی حالت دیوانوں کی سی ہو رہی تھی۔ دونوں ہاتھوں سے اس نے عطاء اللہ کو جھنجھوڑنا شروع کیا ’’میں نے اُسے مار ڈالا ہے۔ میں نے اس حرامزادے کو مار ڈالا ہے۔‘‘
’’کس کو؟‘‘
’’اسی کو جو مجھ سے اتنی ہمدردی جتایا کرتا تھا ...... اس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ تمہیں بچا لے گا ...... وہ جھوٹا تھا ...... دغاباز تھا، اس کا دل توے کی کالک سے بھی زیادہ کالا تھا ...... اس نے مجھے ...... اس نے مجھے ......‘‘ اس کے آگے زینب کچھ نہ کہہ سکی۔
عطاء اللہ کے دماغ میں بے شمار خیالات آئے اور آپس میں گڈمڈ ہوگئے۔ ’’تمہیں تو اس نے مار ڈالا تھا؟‘‘
زینب چیخی، ’’نہیں ...... میں نے اسے مار ڈالا ہے۔‘‘
عطاء اللہ چند لمحے خلا میں دیکھتا رہا، پھر اس نے زینب کو ہاتھ سے ایک طرف ہٹایا، ’’تم ادھر ہو جاؤ ...... وہ آرہا ہے۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’وہی ڈاکٹر ...... وہی فرشتہ۔‘‘
فرشتہ آہستہ آہستہ اس کی چارپائی کے پاس آیا۔ اس کے ہاتھ میں زہر بھری سرنج تھی۔ عطاء اللہ مسکرایا، ’’لے آئے۔‘‘
فرشتے نے اثبات میں سر ہلایا، ’’ہاں لے آیا۔‘‘
عطاء اللہ نے اپنا لرزاں بازو اس کی طرف بڑھایا، ’’تو لگا دو۔‘‘
فرشتے نے سوئی اس کے بازو میں گھونپ دی۔
عطاء اللہ مرگیا۔
زینب اسے جھنجھوڑنے لگی، ’’اٹھو ...... اٹھو، کریم رحیم کے ابا، اٹھو ...... یہ ہسپتال بہت بُری جگہ ہے ...... چلو گھر چلیں۔‘‘
تھوڑی دیر کے بعد پولیس آئی اور زینب کو اس کے خاوند کی لاش پر سے ہٹا کر اپنے ساتھ لے گئی۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ (منٹو)

بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہیے یعنی جو مسلمان پاگل، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ پاکستان کے پاگل خانوںمیں ہیں انہیں ہندوستان کے حوالے کردیاجائے۔
معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول، بہر حال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق اِدھر اُدھر اونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں اور بالآخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لیے مقرر ہو گیا۔ اچھی طرح چھان بین کی گئی۔ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے، وہیںرہنے دے گئے تھے۔ جو باقی تھے اُن کو سرحد پر روانہ کردیا گیا۔ یہاں پاکستان میں چونکہ قریب قریب تمام ہندو اور سکھ جاچکے تھے۔ اس لیے کسی کہ رکھنے رکھانے کا سوال ہی نہ پیدا ہوا۔ جتنے ہندو سکھ پاگل تھے سب کے سب پولیس کی حفاطت میں بارڈر پر پہنچا دیئے گئے۔
اُدھر کا معلوم نہیں۔ لیکن ادھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز باقاعدگی کے ساتھ ’’زمیندار‘‘ پڑھتا تھا اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا۔ ’’مولبی ساب، یہ پاکستان کیا ہوتا ہے۔‘‘ تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا۔ ’’ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں اُسترے بنتے ہیں۔‘‘ 
یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہو گیا۔
اسی طرح ایک سکھ پاگل نے ایک دوسرے سکھ پاگل سے پوچھا۔ سردار جی ہمیں ہندوستان کیوں بھیجا جارہا ہے۔ ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی۔‘‘
دوسرا مسکرایا۔ ’’مجھے تو ہندوستوڑوں کی بولی آتی ہے۔ ہندوستانی بڑے شیطانی آکڑ آکڑ پھرتے ہیں۔‘‘
ایک دن نہاتے نہاتے ایک مسلمان پاگل نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ اس زور سے بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔ 
بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے۔ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو دے دلا کر پاگل خانے بھجوا دیا تھا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں۔ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا ہے اور یہ پاکستان کیا ہے۔ لیکن صحیح واقعات سے وہ ابھی بے خبر تھے۔ اخباروں سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا اور پہرہ دار سپاہی اَن پڑھ اور جاہل تھے، ان کی گفتگو سے بھی وہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں کر سکتے تھے۔ ان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدمی محمد علی جناح ہے جس کو قائداعظم کہتے ہیں، اس نے مسلمانوں کے لیے ایک علیٰحدہ ملک بنایا ہے جس کا نام پاکستان ہے۔ یہ کہاں ہے، اس کا محل وقوع کیا ہے، اس کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاگل خانے میں وہ سب پاگل جن کا دماغ پوری طرح مائوف نہیں ہوا تھا اس مخمصے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں۔ اگر ہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے۔ اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہو سکتاہے کہ وہ کچھ عرصہ پہلے یہیں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے۔
ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان، اور ہندوستان اور پاکستان کے چکر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہو گیا۔ جھاڑو دیتے دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنے پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اترنے کو کہا تو وہ اور اوپر چڑھ گیا۔ ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا۔ ’’میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں۔ میں اس درخت ہی پر رہوں گا۔‘‘
بڑی مشکلوں کے بعد اس کا دورہ سرد پڑا تو وہ نیچے اترا اور اپنے ہندو سکھ دوستوں سے گلے مل مل کر رونے لگا۔ اس خیال سے اس کا دل بھر آیا تھا کہ وہ اسے چھوڑ کر ہندوستان چلے جائیں گے۔
ایک ایم ایس سی پاس ریڈیو انجینئر میں، جو مسلمان تھا اور دوسرے پاگلوں سے بالکل الگ تھلگ باغ کی ایک خاص روش پر سارا دن خاموش ٹہلتا رہتا تھا، یہ تبدیلی نمودار ہوئی کہ اس نے تمام کپڑے اتار کر دفعدار کے حوالے کردیئے اور ننگ دھڑنگ سارے باغ میں چلنا پھرنا شروع کردیا۔
چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سرگرم کارکن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ سولہ مرتبہ نہایا کرتا تھا یک لخت یہ عادت ترک کردی۔ اس کا نام محمد علی تھا۔ چنانچہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کردیا کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک سکھ پاگل ماسٹر تارا سنگھ بن گیا۔ قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہوجائے مگر دونوں کو خطرناک پاگل قرار دے کر علیٰحدہ علیٰحدہ بند کردیا گیا۔
لاہور کا ایک نوجوان ہندو وکیل تھا جو محبت میں ناکام ہو کر پاگل ہو گیا تھا۔ جب اس نے سنا کہ امرت سر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا۔ اسی شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبت ہوئی تھی۔ گو اس نے اس وکیل کو ٹھکرا دیا تھا مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اس کو نہیں بھولا تھا۔ چنانچہ وہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دیتا تھا جنہوں نے مل ملا کر ہندوستان کے دو ٹکڑے کردیئے۔ اس کی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اور وہ پاکستانی۔
جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تو وکیل کو کئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل بُرا نہ کرے، اس کو ہندوستان بھیج دیا جائے گا۔ اس ہندوستان میں جہاں اس کی محبوبہ رہتی ہے۔ مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے کہ اس کا خیال تھا کہ امرت سر میں اس کی پریکٹس نہیں چلے گی۔
یورپین وارڈ میں دو اینگلو انڈین پاگل تھے۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کرکے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں اب ان کی حیثیت کس قسم کی ہو گی۔ یورپین وارڈ رہے گا یا اڑا دیا جائے گا۔ بریک فاسٹ ملا کرے گا یا نہیں۔ کیا انہیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاتی تو زہر مار نہیں کرنا پڑے گا۔
ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے۔ ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب و غریب الفاظ سننے میں آتے تھے۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑدی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین۔‘‘ دن کو سوتا تھا نہ رات کو۔ پہرہ داروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سویا۔ لیٹتا بھی نہیں تھا۔ البتہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا۔ ہر وقت کھڑا رہنے سے اس کے پائوں سوج گئے تھے۔ پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں مگر اس جسمانی تکلیف کے باوجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ ہندوستان، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی تو وہ غور سے سنتا تھا۔ کوئی اس سے پوچھتا کہ اس کا کیا خیال ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان گورنمنٹ‘‘ 
لیکن بعد میں ’آف دی پاکستان گورنمنٹ‘ کی جگہ ’اوف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ ‘ نے لے لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے۔ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ جو بتانے کی کوشش کرتے تھے وہ خود اس الجھائو میں گرفتار ہوجاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سنا ہے کہ پاکستان میں ہے۔ کیا پتا ہے کہ لاہور جو اب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غائب ہی ہوجائیں۔
اس سکھ پاگل کے کیس چھدرے ہو کر بہت مختصر رہ گئے تھے۔ چونکہ بہت کم نہاتا تھا اس لیے ڈاڑھی اور سر کے بال آپس میں جم گئے تھے۔ جس کے باعث اس کی شکل بڑی بھیانک ہو گئی تھی مگر آدمی بے ضرر تھا۔ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا۔ پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے۔ وہ اس کے متعلق اتنا جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں۔ اچھا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا۔ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کراگئے۔
مہینے میں ایک بار ملاقات کے لیے یہ لوگ آتے تھے اور اس کی خیریت دریافت کرکے چلے جاتے تھے۔ ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پر جب پاکستان، ہندوستان کی گڑ بڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہو گیا۔
اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر سب اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے۔ اس کو یہ قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے، مہینہ کون سا ہے، یا کتنے سال بیت چکے ہیں۔ لیکن ہر مہینے جب اس کے عزیز و اقارب اس سے ملنے کے لیے آتے تھے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا۔ چنانچہ وہ دفعدار سے کہتا کہ اس کی ملاقات آرہی ہے۔ اس دن وہ اچھی طرح نہاتا، بدن پر خوب صابن گھستا اور سر میں تیل لگا کر کنگھا کرتا، اپنے کپڑے جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا نکلوا کے پہنتا اور یوں سج بن کر ملنے والوں کے پاس جاتا۔ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین‘‘ کہہ دیتا۔
اس کی ایک لڑکی تھی جو ہر مہینے ایک انگلی بڑھتی بڑھتی پندرہ برسوں میں جوان ہو گئی تھی۔ بشن سنگھ اس کو پہچانتا ہی نہیں تھا۔ وہ بچی تھی جب بھی اپنے باپ کو دیکھ کر روتی تھی، جوان ہوئی تب بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔
پاکستان اور ہندوستان کا قصہ شروع ہوا تو اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔ جب اطمینان بخش جواب نہ ملا تو اس کی کرید دن بدن بڑھتی گئی۔ اب ملاقات بھی نہیں آتی تھی۔ پہلے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا کہ ملنے والے آرہے ہیں، پر اب جیسے اس کے دل کی آواز بھی بند ہو گئی تھی جو اسے ان کی آمد کی خبر دے دیا کرتی تھی۔
اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگ آئیں جو اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے تھے اور اس کے لیے پھل، مٹھائیاں اور کپڑے لاتے تھے۔ وہ اگر ان سے پوچھتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے تو وہ یقینا اسے بتا دیتے کہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سے آتے ہیں جہاں اس کی زمینیں ہیں۔
پاگل خانے میں ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کو خدا کہتا تھا۔ اس سے جب ایک روز بشن سنگھ نے پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں تو اس نے حسب عادت قہقہہ لگایا اور کہا۔ ’’وہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں۔ اس لیے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا۔‘‘
بشن سنگھ نے اس خدا سے کئی مرتبہ بڑی منت سماجت سے کہا کہ وہ حکم دے دے تاکہ جھنجھٹ ختم ہو مگر وہ بہت مصروف تھا اس لیے کہ اسے اور بے شمار حکم دینے تھے۔ ایک دن تنگ آکر وہ اس پر برس پڑا۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دا ہے گورجی داخالصہ اینڈدا ہے گورو جی کی فتح۔ جو بولے سو نہال، ست سری اکال۔‘‘
اس کا شاید یہ مطلب تھا کہ تم مسلمانوں کے خدا ہو۔ سکھوں کے خدا ہوتے تو ضرور میری سنتے۔
تبادلے سے کچھ دن پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک مسلمان جو اس کا دوست تھا ملاقات کے لیے آیا۔ پہلے وہ کبھی نہیں آیا تھا۔ جب بشن سنگھ نے اسے دیکھا تو ایک طرف ہٹ گیا اور واپس جانے لگا مگر سپاہیوں نے اسے روکا۔ ’’یہ تم سے ملنے آیا ہے۔ تمہارا دوست فضل دین ہے۔‘‘
بشن سنگھ نے فضل دین کو ایک نظر دیکھا اور کچھ بڑبڑانے لگا۔ فضل دین نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ’’میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ تم سے ملوں لیکن فرصت ہی نہ ملی۔ تمہارے سب آدمی خیریت سے ہندوستان چلے گئے تھے۔ مجھ سے جتنی مدد ہو سکی، میں نے کی۔ تمہاری بیٹی روپ کور۔۔۔۔‘‘
وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ بشن سنگھ کچھ یاد کرنے لگا۔ ’’بیٹی روپ کور‘‘ 
فضل دین نے رک رک کر کہا۔ ’’ہاں ...... وہ ...... وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ ان کے ساتھ ہی چلی گئی تھی۔‘‘
بشن سنگھ خاموش رہا۔ فضل دین نے کہنا شروع کیا۔ ’’انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری خیر خیریت پوچھتا رہوں۔ اب میں نے سنا ہے کہ تم ہندوستان جارہے ہو۔ بھائی بلبیر سنگھ اور بھائی ودھاوا سنگھ سے میرا سلام کہنا، اور بہن امرت کور سے بھی۔۔۔۔ بھائی بلبیر سے کہنا، فضل دین راضی خوشی ہے۔ دو بھوری بھینسیں جو وہ چھوڑ گئے تھے۔ ان میں سے ایک نے کٹّا دیا ہے۔ دوسری کے کٹّی ہوئی تھی پر وہ چھ دن کی ہو کے مر گئی ...... اور ...... میرے لائق جو خدمت ہو، کہنا، میں ہر وقت تیار ہوں۔۔۔۔ اور یہ تمہارے لیے تھوڑے سے مرونڈے لایا ہوں۔‘‘
بشن سنگھ نے مرونڈوں کی پوٹلی لے کر پاس کھڑے سپاہی کے حوالے کردی اور فضل دین سے پوچھا۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔ ‘‘
فضل دین نے قدرے حیرت سے کہا۔ ’’ کہاں ہے۔ وہیں ہے جہاں تھا۔‘‘
بشن سنگھ نے پھر پوچھا۔ ’’پاکستان میں یا ہندوستان میں؟ ‘‘
’’ہندوستان میں۔ نہیں نہیں پاکستان میں‘‘۔ فضل دین بوکھلا سا گیا۔
بشن سنگھ بڑ بڑاتا ہوا چلا گیا۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھایانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی دُر فٹے منھ! ‘‘
تبادلے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آنے والے پاگلوں کی فہرستیں پہنچ گئی تھیں اور تبادلے کا دن بھی مقرر ہو چکا تھا۔
سخت سردیاں تھیں جب لاہور کے پاگل خانے سے ہندو سکھ پاگلوں سے بھری ہوئی لاریاں پولیس کے محافظ دستے کے ساتھ روانہ ہوئیں متعلقہ افسر بھی ہمراہ تھا۔ واہگہ کے بارڈر پر طرفین کے سپرنٹنڈنٹ ایک دوسرے سے ملے اور ابتدائی کارروائی ختم ہونے کے بعد تبادلہ شروع ہو گیا جو رات بھر جاری رہا۔
پاگلوں کو لاریوں سے نکالنا اور ان کو دوسرے افسروں کے حوالے کرنا بڑا کٹھن کام تھا۔ بعض تو باہر نکلتے ہی نہیں تھے۔ جو نکلنے پر رضامند ہوتے تھے، ان کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا تھا، کیونکہ ادھر ادھر بھاگ اٹھتے تھے۔ جو ننگے تھے ان کو کپڑے پہنائے جاتے تو وہ پھاڑ کر اپنے تن سے جدا کردیتے۔ کوئی گالیاں بک رہا ہے۔ کوئی گا رہا ہے۔ آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ رو رہے ہیں، بلک رہے ہیں۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ پاگل عورتوں کا شورو غوغا الگ تھا اور سردی اتنی کڑاکے کی تھی کہ دانت سے دانت بج رہے تھے۔
پاگلوں کی اکثریت اس تبادلے کے حق میں نہیں تھی۔ اس لیے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں اپنی جگہ سے اکھاڑ کر کہاں پھینکا جارہا ہے۔ وہ چند جو کچھ سوچ سمجھ گئے تھے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ دو تین مرتبہ فساد ہوتے ہوتے بچا، کیونکہ بعض مسلمانوں اور سکھوں کو یہ نعرے سن کر طیش آگیا تھا۔ جب بشن سنگھ کی باری آئی اور واہگہ کے اس پار متعلقہ افسر اس کا نام رجسٹر میں درج کرنے لگا تو اس نے پوچھا۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔ پاکستان میں یا ہندوستان میں؟ ‘‘
متعلقہ افسر ہنسا۔ ’’پاکستان میں۔‘‘
یہ سن کر بشن سنگھ اچھل کر ایک طرف ہٹا اور دوڑ کر اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔ پاکستانی سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور دوسری طرف لے جانے لگے، مگر اس نے چلنے سے انکار کردیا۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ یہاں ہے۔‘‘ اور زور زور سے چلانے لگا۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف ٹوبہ ٹیک سنگھ اینڈ پاکستان۔‘‘
اسے بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ہے۔ اگر نہیں گیا تو اسے فوراً وہاں بھیج دیا جائے گا مگر وہ نہ مانا۔ جب اس کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکے گی۔
آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لیے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی، اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا کام ہوتا رہا۔
سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ اِدھر اُدھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا تھا، اوندھے منھ لیٹا ہے۔ ادھر خار دارتاروں کے پیچھے ہندوستان تھا۔ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔