بھولو اور گاما دو بھائی تھے: بے حد محنتی۔ بھولو قلعی گر تھا، صبح دھونکنی سر پر رکھ کر نکلتا اور دن بھر شہر کی گلیوں میں ’’بھانڈے قلعی کرالو‘‘ کی صدا لگاتا رہتا۔ شام کو گھر لوٹتا تو اس کے تہبند کے ڈب [؟ کی ڈب] میں تین چار روپے کا کریا نہ ضرور ہوتا۔
گاما خوانچہ فروش تھا، اس کو بھی دن بھر چھابڑی سر پر اٹھائے گھومنا پڑتا ہے۔ تین چار روپے یہ بھی کما لیتا ہے۔ مگر اس کو شراب کی لت تھی۔ شام کو دِینے کے بھٹیار خانے سے کھانا کھانے سے پہلے ایک پاؤ شراب اُسے ضرور چاہیے تھی۔ پینے کے بعد وہ خوب چہکتا، دِینے کے بھٹیار خانے میں رونق لگ جاتی۔ سب کو معلوم تھا کہ وہ پیتا ہے اور اِسی کے سہارے جیتا ہے ۔
بھولو نے گاما سے جو کہ اُس سے دو سال بڑا تھا ، بہت سمجھایا کہ دیکھو یہ شراب کی لت بہت بُری ہے ، شادی شدہ ہو ، بیکار پیسہ برباد کرتے ہو، یہی جو تم ہر روز ایک پاؤ شراب پر خرچ کرتے ہو ، بچاکر رکھو تو بھابی ٹھاٹ سے رہا کرے، ننگی بُچی اچھی لگتی ہے تمہیں اپنی گھر والی؟ گاما نے اِس کان سنا اُس کان سے نکال دیا۔ بھولو جب تھک ہار گیا تو اس نے کہنا سننا چھوڑ دیا۔
دونوں مہاجر تھے۔ ایک بڑی بلڈنگ کے ساتھ سروینٹ کوارٹر تھے اُن پر جہاں اوروں نے قبضہ جما رکھا تھا، وہاں اِن دونوں بھائیوں نے بھی ایک کوارٹر کو جو کہ دوسری منزل پر تھا، اپنی رہائش کے لیے محفوظ کرلیا تھا۔
سردیاں آرام سے گزر گئیں۔ گرمیاں آئیں تو گاما کو بہت تکلیف ہوئی، بھولو تو اوپر کوٹھے پر کھاٹ بچھا کر سوجاتا تھا، گاما کیا کرتا، بیوی تھی اور اوپر پردے کا کوئی بندوبست ہی نہیں تھا۔ ایک گاماہی کو یہ تکلیف نہیں تھی، کوارٹروں میں جو بھی شادی شدہ تھا اِسی مصیبت میں گرفتارتھا۔
کلّن کو ایک بات سوجھی: ا‘س نے کوٹھے پر کونے میں اپنی اور اپنی بیوی کی چار پائی کے اردگرد ٹاٹ تان دیا، اِس طرح پردے کا انتظام ہوگیا۔ کلّن کی دیکھا دیکھی دوسروں نے بھی اِس ترکیب سے کام لیا۔ بھولو نے بھائی کی مدد کی اور چند دنوں ہی میں بانس وغیرہ گاڑ کر ، ٹاٹ اور کمبل جوڑ کر، پردے کا انتظام کردیا ۔ یوں ہوا تو رک جاتی تھی مگر نیچے کوارٹرکے دوزخ سے ہر حالت میں یہ جگہ بہتر تھی۔
اوپر کوٹھے پر سونے سے بھولو کی طبیعت میں ایک عجیب انقلاب پیدا ہوگیا۔ وہ شادی بیاہ کا بالکل قائل نہیں تھا۔ اُس نے دل میں عہد کر رکھا تھا کہ یہ جنجال کبھی نہیں پالے گا۔ جب گاما کبھی اس کے بیاہ کی بات چھیڑتا وہ کہا کرتا: نا بھائی، میں اپنے نِروئے پنڈے پر جونکیں نہیں لگوانا چاہتا۔لیکن جب گرمیاں آئیں اور اُس نے اوپر کھاٹ بچھا کر سونا شروع کیا تو دس پندرہ دن ہی میں اُس کے خیالات بدل گئے۔ ایک شام کو دیِنے کے بھٹیار خانے میں اُ س نے اپنے بھائی سے کہا: ’’میری شادی کردو، نہیں تو میں گل ہوجاؤں گا۔‘‘
گاما نے جب یہ سنا تو اُس نے کہا: ’’یہ کیا مذاق سوجھا ہے تمہیں؟‘‘
بھولوبہت سنجیدہ ہوگیا۔’’تمہیں نہیں معلوم ...... پندرہ راتیں ہوگئی ہیں مجھے جاگتے ہوئے۔‘‘
گاما نے پوچھا: ’’کیوں کیا ہوا؟‘‘
’’کچھ نہیں یار ...... دائیں بائیں جدھر نظر ڈالو کچھ نہ کچھ ہورہا ہوتا ہے ...... عجیب عجیب آوازیں آتی ہیں، نیند کیا آئے گی، خاک!‘‘
گاما زور سے اپنی گھنی مونچھوں میں ہنسا۔ بھولو شرما سا گیا۔ ’’وہ جو کلّن ہے، اُس نے تو حد ہی کردی ہے۔ سالا رات بھر بکواس کرتا رہتا ہے، اُس کی بیوی سالی کی زبان بھی تالو سے نہیں لگتی ...... بچّے پڑے رو رہے ہیں مگر وہ ...... ‘‘
گاما حسبِ معمول نشے میں تھا۔ بھولو گیا تو اُس نے دِینے کے بھٹیار خانے میں اپنے سب واقف کاروں کو خوب چہک چہک کر بتایا کہ اس کے بھائی کو آج کل نیند نہیں آتی۔ اس کا باعث جب اُس نے اپنے مخصوص انداز میں بیان میں کیا تو سننے والوں کے پیٹ میں ہنس ہنس کے بل پڑ گئے۔ جب یہ لوگ بھولو سے ملے تو اُس کا خوب مذاق اڑایا۔ کوئی اُس سے پوچھتا:’’ہاں بھئی، کلّن اپنی بیوی سے کیا باتیں کرتا ہے؟‘‘ کوئی کہتا: ’’میاں مفت میں مزے لیتے ہو ...... ساری رات فلمیں دیکھتے رہتے ہو ...... سو فیصدی گاتی بولتی۔‘‘
بعضوں نے گندے گندے مذاق کیے۔ بھولو چڑ گیا۔ گاما صوفی حالت میں تھا اس نے اُس سے کہا: ’’تم نے تو یار میرا مذاق بنادیا ہے ...... دیکھو جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے، جھوٹ نہیں۔ میں انسان ہوں، خدا کی قسم مجھے نیند نہیں آتی، آ ج بیس دن ہوگئے ہیں جاگتے ہوئے ...... تم میری شادی کا بندوبست کردو، ورنہ قسم پنجتن پاک کی، میرا خانہ خراب ہوجائے گا ...... بھابی کے پاس میرا پانسو روپیہ جمع ہے ...... جلدی کردو بندوبست!‘
گاما نے مونچھ مروڑ کر پہلے کچھ سوچا، پھر کہا: ’’اچھّا ، ہوجائے گا بندوبست۔ تمہاری بھابی سے آج ہی بات کرتا ہوں کہ وہ اپنی ملنے والیوں سے پوچھ گچھ کرے۔‘‘
ڈیڑھ مہینے کے اندر اندر بات پکّی ہوگئی۔ صمد قلعی گر کی لڑکی عائشہ، گاما کی بیوی کو بہت پسند آئی۔ خوب صورت تھی، گھر کا کام کاج جانتی تھی۔ ویسے صمد بھی شریف تھا، محلّے والے اُس کی عزّت کرتے تھے۔ بھولو محنتی تھا، تندرست تھا۔ جون کے وسط میں شادی کی تاریخ مقرّر ہوگئی ۔ صمد نے بہت کہا کہ وہ لڑکی اتنی گرمیوں میں نہیں بیاہے گا مگر بھولو نے جب زور دیا تو وہ مان گیا۔
شادی سے چار دن پہلے بھولو نے اپنی دلہن کے لیے اوپر کوٹھے پر ٹاٹ کے پردے کا بندوبست کیا، بانس بڑی مضبوطی سے فرش میں گاڑے، ٹاٹ خوب کس کر لگایا۔ چارپائیوں پر نئے کھیس بچھائے۔ نئی صراحی منڈیر پر رکھی، شیشے کا گلاس بازار سے خریدا۔ سب کام اُس نے بڑے اہتمام سے کیے۔
رات کو جب وہ ٹاٹ کے پردے میں گھِر کر سویا تو اُس کو عجیب سا لگا۔ وہ کھلی ہوا میں سونے کا عادی تھا۔ مگر اب اس کو عادت ڈالنی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شادی سے تین چار دن پہلے ہی اُس نے یوں سونا شروع کردیا۔ پہلی رات جب وہ لیٹا اور اُس نے اپنی بیوی کے بارے میں سوچا تو وہ پسینے میں تربتر ہوگیا۔ اُس کے کانوں میں وہ آوازیں گونجنے لگیں جو اُسے سونے نہیں دیتی تھیں۔اور اُس کے دماغ میں طرح طرح کے پریشان خیالات دوڑاتی تھیں۔
کیا وہ بھی ایسی ہی آواز پیدا کرے گا؟ ...... کیا آس پاس کے لوگ یہ آوازیں سنیں گے؟ کیا وہ بھی اسی کے مانند راتیں جاگ جاگ کر کاٹیں گے؟ کسی نے اگر جھانک کر دیکھ لیا تو کیا ہوگا؟
بھولو پہلے سے بھی زیادہ پریشان ہوگیا۔ ہر وقت اُس کو یہی بات ستاتی رہتی کہ ٹاٹ کا پردہ بھی کوئی پردہ ہے، پھر چاروں طرف لوگ بکھرے پڑے ہیں۔ رات کی خاموشی میں ہلکی سی سرگوشی بھی دوسرے کانوں تک پہنچ جاتی ہے ...... لوگ کیسے یہ ننگی زندگی بسر کرتے ہیں ...... ایک کوٹھا ہے۔ اِس چار پائی پر بیوی لیٹی ہے، اُس چار پائی پر خاوند پڑا ہے۔ سیکڑوں آنکھیں، سیکڑوں کان۔ آس پاس کھُلے ہیں، نظر نہ آنے پر بھی آدمی سب کچھ دیکھ لیتا ہے ، ہلکی سی آہٹ، پوری تصویر بن کر سامنے آجاتی ہے ...... یہ ٹاٹ کا پردہ کیا ہے، سورج نکلتا ہے تو اُس کی روشنی ساری چیزیں بے نقاب کردیتی ہے: وہ سامنے، کلّن اپنی بیوی کی چھاتیاں دبا رہا ہے۔ وہ کونے میں، اُس کا بھائی گاما لیٹا ہے، تہبند کھل کر ایک طرف پڑا ہے۔ اِدھر ، عید وحلوائی کی کنواری بیٹی شاداں کا پیٹ، چھدرے ٹاٹ سے جھانک جھانک کر دیکھ رہا ہے۔
شادی کا دن آیا تو بھولو کا جی چاہا کہ وہ کہیںبھاگ جائے مگر کہاں جاتا، اب تو وہ جکڑا جا چکا تھا، غائب ہوجاتا تو صمد ضرور خود کشی کرلیتا۔ اُس کی لڑکی پر جانے کیا گزرتی۔ جو طوفان مچتا وہ الگ۔
اچھّا، جو ہوتا ہے ہونے دو ...... میرے ساتھی اور بھی توہیں، آہستہ آہستہ عادت ہوجائے گی، اور مجھے بھی ...... بھولو نے خود کو ڈھارس دی۔ اور اپنی نئی نویلی دُلہن کی ڈولی گھر لے آیا۔
کوارٹروں میں چہل پہل پیدا ہوگئی۔ لوگوں نے بھولو اور گاما کو خوب مبارک بادیں دیں۔ بھولوں کے جو خاص دوست تھے، اُنہوں نے اُس کو چھیڑا اور پہلی رات کے لیے کئی کامیاب گُر بتائے، بھولو خاموشی سے سنتا رہا۔ اُس کی بھابی نے اوپر کوٹھے پر، ٹاٹ کے پردوں کے نیچے [پردوں کے پیچھے؟] بستر کا بندوبست کردیا۔ گاما نے چار موتیے کے بڑے بڑے ہار [موتیے کے چار بڑے بڑے ہار؟] تکیے کے پاس رکھ دیے۔ ایک دوست اُس کے لیے جلیبیوں والا دودھ لے آیا۔
دیر تک وہ نیچے کوارٹر میں اپنی دلہن کے پاس بیٹھا رہا۔ وہ بے چاری شرم کی ماری ، سر نیوڑھائے، گھونگھٹ کا ڑھے، سمٹی ہوئی تھی۔ سخت گرمی تھی۔ بھولو کا نیا کُرتا اس کے جسم کے ساتھ چپکا ہوا تھا۔ پنکھا چل رہا تھا مگر ہوا جیسے بالکل غائب ہی ہوگئی تھی۔ بھولو نے پہلے سوچا تھا کہ وہ اوپر کوٹھے پر نہیں جائے گا، نیچے کوارٹر ہی میںرات کاٹے گا مگر جب گرمی انتہا کو پہنچ گئی تو وہ اٹھا اور دلہن سے چلنے کو کہا۔
رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ تمام کوارٹر خاموشی میںلپٹے ہوئے تھے۔ بھولو کو اِس بات کی تسکین تھی کہ سب سورہے ہوں گے ، کوئی اس کو نہیں دیکھے گا، چُپ چاپ دبے قدموں سے وہ اپنے ٹاٹ کے پردے کے پیچھے اپنی دلہن سمیت داخل ہو جائے گا اور صبح منہ اندھیرے نیچے اتر جائے گا۔
جب وہ کوٹھے پر پہنچا تو بالکل خاموشی تھی۔ دلہن نے شرمائے ہوئے قدم اٹھائے تو پازیب کے نقرئی گھنگرو بجنے لگے۔ایک دم بھولو نے محسوس کیا کہ چاروں طرف جو نیند بکھری ہوئی تھی، چونک کر جاگ پڑی ہے، چارپائیوں پر لوگ کروٹیں بدلنے لگے، کھانسنے کھنکارنے کی آوازیں اِدھر اُدھر ابھریں، دبی دبی سرگوشیاں اُس تپی ہوئی فضا میں تیرنے لگیں۔ بھولو نے گھبرا کر اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑا اور تیزی سے ٹاٹ کی اوٹ میں چلا گیا۔ دبی دبی ہنسی کی آواز اس کے کانوں کے ساتھ ٹکرائی، اُس کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوگیا۔ بیوی سے بات کی تو پاس ہی کھُسر پُھُسر شروع ہوگئی۔ دور کونے میں جہاں کلّن کی جگہ تھی وہاں چار پائی کی چرچُوں چرچُوں ہونے لگی۔ یہ دھیمی پڑی تو گاما کی لوہے کی چار پائی بولنے لگی ...... عید وحلوائی کی کنواری لڑکی شاداں نے دو تین بار اٹھ کر پانی پیا، گھڑے کے ساتھ اُس کا گلاس ٹکراتا تو ایک چھناکا سا پیدا ہوتا۔ خیرے قصائی کے لڑکے کی چار پائی سے بار بار ماچس جلانے کی آواز آتی تھی۔
بھولو اپنی دلہن سے کوئی بات نہ کرسکا، اُسے ڈر تھا کہ آس پاس سے کھُلے ہوئے کان فوراً اس کی بات نگل جائیں گے اور ساری چارپائیاں چرچُوں چرچُوں کرنے لگیں گی۔ دم سادھے وہ خاموش لیٹا رہا۔ کبھی کبھی سہمی ہوئی نگاہ سے اپنی بیوی کی طرف دیکھ لیتا جو گٹھری سی بنی دوسری چار پائی پر لیٹی تھی، کچھ دیر تک جاگتی رہی ، پھر سو گئی۔
بھولو نے چاہا کہ وہ بھی سوجائے مگر اس کو نیند نہ آئی۔ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد اُس کے کانوں میں آوازیں آتی تھیں ...... آوازیں جو فوراً تصویر بن کر اُس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر جاتی تھیں۔
اُس کے دل میں بڑے ولولے تھے، بڑا جوش تھا۔ جب اُس نے شادی کا ارادہ کیا تھا تو وہ تمام لذّتیں جن سے وہ آشنا تھا اس کے دل ودماغ میں چکّر لگاتی رہتی تھیں۔ اُس کو گرمی محسوس ہوتی تھی ، بڑی راحت بخش گرمی، مگر اب جیسے پہلی رات سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ اُس نے رات میں کئی بار یہ دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کی مگر آوازیں ...... وہ تصویر کھینچنے والی آوازیں، سب کچھ درہم برہم کردیتیں۔ وہ خود کو ننگا محسوس کرتا ، الف ننگا، جس کو چاروں طرف سے لوگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہیں اور ہنس رہے ہیں۔
صبح چاربجے کے قریب وہ اٹھا، باہر نکل کر اُس نے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس پیا۔ کچھ سوچا۔ وہ جھجک جو اُس کے دل میں بیٹھ گئی تھی اُس کو کسی قدر دور کیا۔ اب ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جو کافی تیز تھی ...... بھولو کی نگاہیں کونے کی طرف مڑیں، کلّن کا گھِسا ہوا ٹاٹ ہِل رہا تھا۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ بالکل ننگ دھڑنگ لیٹا تھا۔ بھولو کو بڑی گھن آئی ، ساتھ ہی غصّہ بھی آیا کہ ہوا، ایسے کوٹھوں پر کیوں چلتی ہے، چلتی ہے تو ٹاٹوں کو کیوں چھیڑتی ہے؟ اُس کے جی میں آئی کہ کوٹھے پر جتنے ٹاٹ ہیں، سب نوچ ڈالے اور ننگا ہو کے ناچنے لگے۔
بھولو نیچے اتر گیا۔ جب کام پر نکلا تو کئی دوست ملے۔ سب نے اُس سے پہلی رات کی سرگزشت پوچھی۔ پھوجے درزی نے اس کو دور ہی سے آواز دی: ’’کیوں استاد بھولو، کیسے رہے، کہیں ہمارے نام پر بٹّاتو نہیں لگا دیا تم نے!‘‘
چھاگے ٹین ساز نے اُس سے بڑے رازدارانہ لہجے میں کہا: ’’دیکھو اگر کوئی گڑبڑ ہے تو بتادو، ایک بڑا اچھّا نسخہ میرے پاس موجود ہے۔‘‘
بالے نے اُس کے کندھے پر بڑے زور کا دھپّا مارا۔’’کیوں پہلوان،کیسا رہا دنگل؟‘‘
بھولو خاموش رہا۔
صبح اُس کی بیوی میکے چلی گئی۔ پانچ چھ روز کے بعد واپس آئی تو بھولو کو پھر اُسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ کوٹھے پر سونے والے جیسے اُس کی بیوی کی آمد کے منتظر تھے۔ چند راتیں خاموشی رہی تھی لیکن جب وہ اوپر سوئے تو وہی کھُسر پھُسر ، وہی چرچُوں چرچُوں، وہی کھانسنا کھنکارنا ...... وہی گھڑھے کے ساتھ گلاس کے ٹکرانے کے چھنا کے ...... کروٹوں پر کروٹیں، دبی دبی ہنسی ...... بھولو ساری رات اپنی چار پائی پر لیٹا آسمان کی طرف دیکھتا رہا۔ کبھی کبھی ایک ٹھنڈی آہ بھرکر اپنی دلہن کو دیکھ لیتا اور دل میں کُڑھتا۔ مجھے کیا ہوگیا ہے ...... یہ مجھے کیا ہوگیا ہے ...... یہ مجھے کیا ہوگیا ہے۔
سات راتوں تک یہی ہوتا رہا، آخر تنگ آکر بھولو نے اپنی دلہن کو میکے بھیج دیا۔ بیس پچّیس دن گزر گئے تو گاما نے بھولو سے کہا: ’’یار تم بڑے عجیب وغریب آدمی ہو، نئی نئی شادی اور بیوی کو میکے بھیج دیا۔ اتنے دن ہوگئے ہیں اُسے گئے ہوئے، تم اکیلے سوتے کیسے ہو؟‘‘
بھولو نے صرف اتنا کہا: ’’ٹھیک ہے۔‘‘
گاما نے پوچھا: ’’ٹھیک کیا ہے ...... جو بات ہے بتاؤ۔ کیا تمہیں پسند نہیں آئی عائشہ؟‘‘
’’یہ بات نہیں ہے۔‘‘
’’یہ بات نہیں ہے تو اور کیا بات ہے؟‘‘
بھولو بات گول کر گیا مگر تھوڑے ہی دنوں کے بعد اُس کے بھائی نے پھر بات چھیڑی۔ بھولو اٹھ کر کوارٹر کے باہر چلا گیا۔ چار پائی پڑی تھی، اُس پر بیٹھ گیا۔ اندر سے اُس کو اپنی بھابی کی آواز سنائی دی۔ وہ گاما سے کہہ رہی تھی: ’’تم جو کہتے ہو نا کہ بھولو کو عائشہ پسند نہیں آئی، یہ غلط ہے۔‘‘
گاما کی آواز آئی: ’’تو اور کیا بات ہے ...... بھولو کو اس سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔‘‘
’’دلچسپی کیا ہو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
گاما کی بیوی کا جواب، بھولو نہ سن سکا مگر اِس کے باوجود اُس کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کی ساری ہستی، کسی نے ہاون میں ڈال کر کوٹ دی ہے۔ ایک دم گاما اونچی آواز میں بولا: ’’ نہیں نہیں ...... یہ تم سے کس نے کہا؟‘‘
گاما کی بیوی بولی: ’’عائشہ نے اپنی کسی سہیلی سے ذکر کیا ...... بات اُڑتی اُڑتی مجھ تک پہنچ گئی۔‘‘
بڑی صدمہ زدہ آواز میں گاما نے کہا: ’’یہ تو بہت بُرا ہوا۔‘‘
بھولو کے دل میں چھُری سی پیوست ہوگئی۔ اُس کا دماغی توازن بگڑ گیا۔ اُٹھا اور کوٹھے پر چڑھ کر جتنے ٹاٹ لگے تھے اُکھیڑ نے شروع کردیے۔ کھٹ کھٹ پھٹ پھٹ سن کر لوگ جمع ہوگئے، اُنہوں نے اُس کو روکنے کی کوشش کی تو وہ لڑنے لگا۔ بات بڑھ گئی۔ کلّن نے بانس اٹھا کر اُس کے سر پر دے مارا، بھولو چکرا کر گرا اور بیہوش ہوگیا۔ جب ہوش آیا تو اُس کا دماغ چل چکا تھا۔
اب وہ الف ننگا، بازاروں میں گھومتا پھرتا ہے، کہیں ٹاٹ لٹکا دیکھتا ہے تو اُس کو اتار کر ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے۔