14اگست 2021ء کو مینار پاکستان پر پیش آنے والے افسوسناک واقعے کی ویڈیو آپ نے دیکھی ہی ہو گی۔ اس واقعے کے پیچھے عائشہ اکرم کے کیا مقاصد تھے ان کے متعلق تو فی الحال یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے یہ حرکت کی۔
لیکن اس سانحے کی سب سے بڑی ذمے دار خود عائشہ اکرم ہے اور اس کے بعد وہ ہجوم جو وہاں موجود اور وہ مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ محترمہ نے خود ٹک ٹاک کے ذریعے پیغام دے کر اپنے فالوئرز کو دعوت دے کر وہاں بلوایا۔ ویڈیو کے آغاز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بہت اچھے موڈ میں محترمہ کی گریٹر اقبال پارک میں آمد ہوتی ہے۔ وہ ہجوم کو دیکھ کر فلائنگ کسسز کرنے لگتی ہیں۔
جب وہاں موجود لوگ ان کے ساتھ تصاویر بنوانے کے لیے انھیں گھیر لیتے ہیں تو بھی انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور وہ بخوشی ان کے ساتھ سیلفیاں بنواتی ہیں۔ یہاں تک کہ ایک شخص ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر تصویر بنواتا ہے۔ جس پر انھیں کوئی اعترض نہیں ہوتا۔ جب آپ نے کسی مرد کو اپنے سینے پر ہاتھ رکھنے کی اجازت دے دی تو پھر مرد مزید آگے بڑھنے سے کیوں کر باز رہے گا۔
اس موقعے پر اکبر الہٰ آبادی کا شعر یاد آتا ہے کہ:
تہذیب مغربی میں ہے بوسے تلک معاف
اس سے اگر بڑھو تو شرارت کی بات ہے
اور بالآخر یہی ہوا کہ وہاں موجود افراد نے محترمہ کے کپڑے تک پھاڑ ڈالے اور زیورات چھین لیے۔
اس ہجوم نے جو کچھ کیا وہ سراسر غلط تھا اور انھیں اس جرم کی سزا ملنی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ نوبت کیسے آئی ۔ اس معاشرے میں جہاں ایک بے زبان بکری تک محفوظ نہیں اور اس کے ساتھ بھی پانچ افراد نے زیادتی کر دی جو کہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ میتیں محفوظ نہیں۔ 2008 میں کراچی میں ایک میت کے ساتھ قبرستان میں قبر کے اندر زیادتی کا واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد کچھ ہفتے پہلے لاہور میں بھی اس قسم کا واقعہ رونما ہوا جس کا مجرم پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ تو اس ماحول میں محترمہ عائشہ نے انھیں پہلے تو اپنی طرف متوجہ کیا اور اکسایا جس کے نتیجے میں یہ واقعہ پیش آیا۔ اس لیے سب سے پہلیFIRعائشہ کے خلاف کٹنی چاہیے کہ انھوں نے فلاینگ کسسز کر کے مردوں کو ہراساں کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اس سانحے کے ذریعے ہمدردی سمیٹنے اور بین الاقوامی شہرت اور توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس میں ہمارا میڈیا بھی انکا پورا پورا ساتھ دے رہا ہے۔ کیا پورے اقبال پارک میں یہی اکلوتی خاتون تھیں؟ نہیں وہاں کئی اور خواتین بھی موجود تھیں لیکن یہ سب کچھ ان کے ساتھ ہی کیوں ہوا؟ کیونکہ وہ خود یہی کچھ چاہتی تھیں۔
اس موقعے پر برطانیہ اور امریکا سے ایوارڈز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور خاتون زہرہ بی بی کا بھی انٹرویو لیا گیا جس میں انھوں نے بتایا کہ گزشتہ 35برسوں سے وہ ٹیکسی چلا رہی ہیں لیکن ان کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک مرتبہ وہ ٹیکسی لے کر سوات جا رہی تھیں تو راستے میں انھیں طالبان نے روکا جس پر انھوں نے اپنا تعارف کروایا۔ طالبان نے کہا کہ واپسی پر آپ یہاں ضرور رکیے گا۔ اور واپسی پر انھوں نے ان کی پوری گاڑی راشن اور مختلف چیزوں سے بھر دی اور کہا کہ آئندہ جب بھی یہاں آئیں تو ہم سے یہ تحائف ضرور لے کر جائیں۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ جب تک عورت خود نہ چاہے کوئی مرد اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔
ہمارے ملک کی اکثریت اس ۴۰۰ افراد کے ہجوم پر تو ملامت کر رہی ہے اور انکو سزا دلوانے کا مطالبہ بھی کر رہی ہے لیکن عائشہ ٹک ٹاکر کو کچھ نہیں کہہ رہی۔ جو کہ سراسر غلط ہے۔ سب سے بڑی غلطی ہی عائشہ کی ہے جس کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا۔
ہنڈیا کھلی بھی رہ گئی ہو یا چھوڑ دی گئی ہو تو کیا کتے کو تو اس میں منہ ڈالنے سے شرمانا چاہئے اگر وہ واقعی پالتو گھریلو کتا ہے !!
جواب دیںحذف کریںیاسین صاحب!
حذف کریںمیں نے یہی عرض کیا ہے کہ غلطی دونوں طرف سے ہوئی ہے۔ لیکن آغاز محترمہ نے کیا۔ اگر وہ اس ہجوم میں نہ جاتی تو کیا یہ سانحہ ہوتا۔
میرا خیال ہے کہ آزاد ملک کے آزاد باشندے کو بنا کسی خوف و خطر کے کہیں بھی آنے جانے پہننے اپناننے کی مکمل آزادی ہونی چاہئے اور اسکا ضامن سماج اور ریاست کو ہونا چاہئے . سیدنا عمر ابن خطاب کے زمانے میں ایک خاتون مدینے سے کہیں باہر اکیلے جارہی تھی جبکہ وہ زیورات سے بھی لدی ہوئی تھی اور بڑھیا بھی نہیں تھی . سیدنا معمول کے گشت پر تھے تو خاتون سے آمنا سامنا ہوگیا . آپ نے پوچھا اکیلی کیوں جا رہی ہیں ؟ اس نے پلٹ کر جواب دیا یہ کیوں پوچھ رہے ہو ؟ یا تو عمر ہلاک ہوگئے ہیں یا پھر تم خود عمر ہو؟ المختصر ہمیں ادارے درکار ہیں مائیکرو منجمنٹ نہیں . کسی بھی سماج میں بس ایک ہی برائی ہوتی ہے اور اس کو جہالت کہتے ہیں جس کی موجودگی میں آدمی اپنی آزادی کا بھی درست استعمال نہیں کرسکتا !!
جواب دیںحذف کریںجناب یاسین صاحب،
حذف کریںآپ کی بات درست ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہیے کہ لوگ بلا خوف و خطر گھوم پھر سکیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ہونا تو یہ بھی چاہیے کہ سڑکیں بالکل ٹھیک ہوں اور ہم بلا خوف و خطر گاڑی دوڑا سکیں، لیکن چوںکہ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں اس لیے ہم گاڑی سنبھل کر چلاتے ہیں۔ یہی صورت یہاں ہے کہ چوں کہ حالات خراب ہیں اس لیے اپنے جان و مال و عزت کی حفاظت ہمیں خود کرنی چاہیے کیونکہ ریاست اس بات کی ذمے داری نہیں لے رہی۔
یاسین انصاری صاحب آئندہ اپنے گھر کے دروازے اور کھڑکیاں کھول کر سوئے گا اور اگر خدانخواستہ چوری ہو جائے یا ڈکیتی پڑ جائے تو ڈاکوؤں اور چوروں کو ہی الزام دیجیے گا کہ وہ خاندانی نہیں تھے۔
جواب دیںحذف کریںبالکل درست فرمایا!
حذف کریںji han jo bila rok tok kisi ki privacy mein ghasay ga woh khandani
جواب دیںحذف کریںto fazool batoon ka sahara liya jata hai!!
nahin hoga. jab kisi ki baat samajh mein na aaway