صفحات

منگل، 18 مئی، 2021

ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے...! از عنایت علی خان

 ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے...!


زباں پر جب مریضِ ہجر فریا دِلی لایا
وفورِ غم سے یوں تڑپا عناصر کو ترس آیا
زمیں سے آہ اٹھی اور فلک نے خون برسایا
اثر تو چارہ گر پر بھی ہوا لیکن یہ فرمایا
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

مجھے ہمسائے کے گھر میں جونہی شعلے نظر آئے
تو قبل اس سے کہ یہ آتش مرے گھر تک پہنچ جائے
بہ عجلت تھانے اور فائر بریگیڈ فون کھڑکائے
مگر دونوں جگہ سے یہ جواب لا جواب آئے
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

ابھی پچھلے دنوں جب ایک تاجر ہو گیا اغوا
اور اس اغوا کا اخباروں میں شدت سے ہوا چرچا
خود اس کے گھر میں تو گویا قیامت ہو گئی برپا
رپٹ لکھوانے تھانے پہنچے تو ایس ایچ او بولا
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

مِرا اک دوست مدت بعد مجھ سے ملنے آیا کل
یہیں دل کا پڑا دورہ تو میں بھی ہو گیا بیکل
وہ بولا تیسرا دورہ ہے دل کے وارڈ میں لے چل
وہاں پہنچے تو بولا ڈاکٹر کچھ سوچ کو اک پل
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

اور اُس دولھا کا قصہ آپ نے بھی تو سنا ہو گا
اسے جب آرسی مصحف کی خاطر گھر میں بلوایا
کہ لڑکا اندر آئے اور دلھن کا دیکھ لے چہرا
تو دروازے پہ پہنچا اور یہ کہہ کر پلٹ آیا
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے تو اس کے بعد دیکھیں گے!

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے از باقی صدیقی

 داغ دل ہم کو یاد آنے لگے

لوگ اپنے دیئے جلانے لگے

کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے

یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے

خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے

اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے

رخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے

ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے

ہم تک آئے نہ آئے موسم گل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے

شام کا وقت ہو گیا باقیؔ
بستیوں سے شرار آنے لگے

*باقی صدیقی*

خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی از سراج اورنگ آبادی

 خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی

نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی

شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی

چلی سمت غیب سیں کیا ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہو سو ہری رہی

نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سیں بیاں کروں
کہ شراب صد قدح آرزو خم دل میں تھی سو بھری رہی

وہ عجب گھڑی تھی میں جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی

ترے جوش حیرت حسن کا اثر اس قدر سیں یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں رہی جلا نہ پری کوں جلوہ گری رہی

کیا خاک آتش عشق نے دل بے نوائے سراجؔ کوں
نہ خطر رہا نہ حذر رہا مگر ایک بے خطری رہی

سراج اورنگ آبادی